بِسْمِ الله الرَحْمٰنِ الرَحِیْمِ
اللهم صلی علی محمدوآل محمد
وعجل فرجهم یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَهمْ فَاَفُوْزُ فَوْزًا عَظِیْمًا"
کاش میں بھی ان(شہدائےکربلا)کےساتھ ھوتا تو پس درجہ عظیم پر فائز ھوتا"
مقدمہ
چونکہ آغازِ جنگ کے ساتھ ساتھ انصارِ حسین علیہ السلام کی مجاھدانہ خدمات کا عملی سلسلہ شروع ھوگیا تھا اس لیے بہتر معلوم ھوتا ھے کہ ذکر حسین علیہ السلام کے ساتھ اصحاب وانصار کے مختصر حالاتِ زندگی خصوصیاتِ شخصی کا بھی جہاں تک کہ علم ھوسکا ھے تعارف ھونا چاھیئے اس لیے واقعات کی ترتیب کو مدِنظر رکھتے ھوئے جن انصار کے کارنامے سامنے آئے ھیں انکے مختصر حالات سلسلہ کے ساتہہ بعنوان "انصارحسین علیہ السلام ہی انصاراللہ ہیں" سلسلہ وار درج کیے جارھے ھیں اس سلسلہ کی پہلی قسط نظر قارئین ہے.انہی حالات کے ذیل میں جنگ کی تفصیلات اور واقعات کا بیان بھی ھوتا جائیگا ان شاءاللہ.
اگرچہ شہدائے کربلا (ع) کے مفصل حالات و واقعات کے متعلق عربی میں - "ابصارالعین فی انصار الحسین (ع)"
اور
اردو میں - "شہدائے کربلا" (تین حصے)
جیسی جامع اور مستند کتابیں موجود ہیں.مگر یہاں ہم قبلہ آیت اللہ سید علی نقی النقوی اعلی اللہ و مقامہ کی تصنیف "شہید انسانیت" سے استفادہ کرتے ہوئے ان حالات و واقعات کا لب لباب واقعاتی ترتیب سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں.
جو صاحبان مزید تحقیق و جستجو برائے تفصیل یا مختلف روایات پر بحث وتبصرہ کے طلبگار ہوں وہ مذکورہ بالا کتابوں کا مطالعہ فرماسکتے ہیں.جزاکم اللہ جمیعا
اللہ بطفیل مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام ہم سبکو سچا حسینی بننے کی توفیق عطافرمائے.الہی آمین یاربی
والسلام علی من اتبع الهدٰی
؛؛
فقیر دربتول (س)
(مون کاظمی)
**
نمبر (1).>* عبداللہ بن عمیر کلبی *<
آغازِ جنگ کے بعد اصحابِ حسین علیہ السلام میں سب سے پہلے میدانِ کارزار میں یہی آئے تھے.
* پورا نام و نسب ::-
ابووهب عبدالله بن عمیر بن عباس بن عبدقیس بن علیم بن خباب الکلبی العلیمی تھا.
* حالات و واقعات ::-
کوفہ کے رھنے والے اور قبیلہ ھمدان کے بئرجعد نام کے کنویں کے پاس اپنے ذاتی مکان میں سکونت رکھتے تھے.یہ مقام کوفہ کی گنجان آبادی سے بالکل باھر اُن باغاتِ خرما کے قریب تھا نو نخیلہ کی حدود میں واقع تھے.انکے ساتھ انکی رفیقہ حیات رھتی تھیں جو قبیلہ نمر بن قاسط سے تھیں اور ام وھب بنت عبد کے نام سے یاد کی جاتی تھیں.اھل سیر کا قول ھے کہ وہ بڑے سُورما، بہادر اور شریف انسان تھے.شیخ طوسی نے کتاب الرجال میں انکا تذکرہ اصحاب علی علیہ السلام میں کیا ھے.
کوفہ میں میں جناب مسلم بن عقیل کی شہادت ھو چکنے پر جب ابن زیاد نے قتلِ حسین علیہ السلام کی تیاری شروع کی اس زمانہ میں عبداللہ بن عمیر بیرونِ شہر اپنے مکان ھی میں مقیم اور موجودہ صورتحال سے بالکل بےخبر تھے.جب امام حسین علیہ السلام کربلا پہبچ گئے اور ابن زیاد نے اپنی لشکرگاہ نخیلہ میں قرار دی تاکہ وھاں فوجوں کا معائنہ کرنے کے بعد کربلا کی جانب روانہ کرے تو اس غیرمعمولی صورتحال کی طرف عبداللہ بن عمیر کو بھی توجہ ھوئی اور انہوں نے لوگوں سے واقعات کی نوعیت دریافت کی.انہیں بتایا گیا کہ یہ فوجیں دخترِ رسول (ص) فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا کے فرزند حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے بھیجی جارھی ھیں.یہ سننا تھا کہ بہادر عبداللہ کے ایمانی جذبہ میں تلاطم پیدا ھوا.انہوں نے خیال کیا کہ مجھے مشرکین سے جہاد کرنے کی حسرت رھی ھے ان لوگوں سے جہاد کرنا جو اپنے رسول (ص) کے نواسہ کے ساتھ جنگ کررھے ھوں یقینًا اللہ کے نزدیک مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے سے کم درجہ نہیں رکھتا ھوگا.یہ بات دل میں ٹھان کر وہ اپنی زوجہ کے پاس گئے اور انہیں اپنے ارادہ سے مطلع کیا.پاک عقیدہ اور پُر حوصلہ بی بی نے آتشِ شوق کو اور ھوا دی.اس طرح کہ انہوں نے کہا تم بھی جاؤ اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو.چنانچہ رات کے وقت دونوں روانہ ھوئے اور کربلا پہنچ کر انصارِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ملحق ھوگئے.
اس وقت جب فوج عمرسعد کی جانب سے تیروں کی بارش ھوچکی تھی جو پیغامِ جنگ کی حیثیت رکھتی تھی تو یسار اور سالم دونوں زیاد اور ابن زیاد کے غلام میدان میں آئے اور مبارزت طلب ھوئے.فوجِ حسینی میں سے حبیب ابن مظاھر اور بریر بن خضیر جوش میں بھرے ھوئے آگے بڑھے مگر امام (ع) نے انکو روک دیا.بس عبداللہ بن عمیر کو تو ولولہ جہاد تھا ھی وہ کھڑے ھوگئے اور اجازتِ جنگ چاھی.امام (ع) نے سر سے پیر تک ان پر نظر ڈالی گندمی رنگ، لانبا قد ، مضبوط کلائیاں اور بازو ، کشادہ پشت اور سینہ ملاحظہ کرتے ھوئے بطور خود فرمایا : "بہادر اور جنگ آزما جوان معلوم ھوتا ھے" پھر فرمایا : "جاؤ اگر تمہارا دل چاھتا ھے" عبداللہ میدانِ جنگ میں آئے.فریقِ مخالف نے نام و نسب پوچھا اور انہوں نے بتایا.اس نے کہا ھم تم کو نہیں پہچانتے ھمارے مقابلہ میں زھیر بن قین یا حبیب بن مظاھر یا بریر بن خضیر کو آنا چاھیئے.پس یہ سنکر عبداللہ کو سخت غصہ آیا اسکا جواب سخت الفاظ میں دیتے ھوئے انہوں نے حملہ کرکے پہلے وار میں یسار کا کام تمام کردیا.عبداللہ اسکی طرف متوجہ ھی تھے کہ سالم نے تلوار کا وار کیا جو سر پر آچکا تھا جب انکو خبر ھوئی. بہادر نے بائیں ھاتھ کو سپر بنا دیا جس سے اس ھاتھ کی انگلیاں قطع ھوگئیں مگر عبداللہ نے اتنی دیر میں پلٹ کر ایک ضربِ شمشیر میں اسکا بھی خاتمہ کردیا.زخم خوردگی کے غصہ اور اپنے دونوں حریفوں پر فتح پانے کے جوش سے متاثر عبداللہ بن عمیر رجز پڑھنے لگے جنکا مفہوم یہ تھا کہ
"اگرمجھےنہ پہچانتے ھو تو پہچان لو کہ
میں قبیلہ کلب کاسپوت ھوں. میرےحسب
و نسب کے لیے اتنا کافی ھے کہ خاندانِ
علیم میں میرا گھرانہ ھے. میں ایک سخت
مزاج اور درشت خُوانسان ھوں اورمصیبت
کے وقت پست ھمتی سے کام لینے والا
نہیں ھوں.اے ام وھب میں ذمہ داری کرتا
ھوں تجھ سے کہ میں ان میں بڑھ بڑھ کر
نیزے لگاؤنگااورتلواریں ماروں گا اور اس
طرح شمشیر زنی کروں گا جو خداپرایمان
رکھنےوالے جواں ھمت انسان کے شایانِ
شان ھو"
ممکن ھے کہ یہ بہادرانِ عرب کی اس عام رسم کی بنا پر ھو کہ وہ اپنے کارناموں کا گواہ اپنی شریکِ زندگی خواتین کو بنایا کرتے تھے مگر عبداللہ کی زوجہ عام عورتوں کے مثل نہ تھیں وہ اپنے سینہ میں شیرانہ دل رکھتی تھیں اور اس دل میں ایمان کی غیر معمولی تڑپ کے ساتھ اپنے شوھر سے بےانتہا محبت تھی.ممکن ھے کہ جب انہوں نے اپنے شوھر سے فرمائش کی تھی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو تو اسی وقت وہ یہ نیت رکھتی ھوں کہ میں بھی شوھر کے ساتھ میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دوں گی اور اس وقت تک شاید وہ اپنے قلبی جذبات کو انتہائی بےچینی کے باوجود روکتی رھی ھوں، اھلِ حرم اور انکی ھمراھی خواتین کو دیکھ کر جو احکامِ اسلام کے تحت میدانِ جنگ سے کنارہ کش رھتے ھوئے خیموں میں جاگزیں تھیں.
مگر عبداللہ بن عمیر کا میدانِ جنگ میں مذکورہ بالا اشعار پڑھنا جو ایک طرف ولولہ جنگ کے مظہر ، دوسری طرف جوشِ ایمان کا مرقع اور تیسری طرف قلبی واردات اور تعلقِ روحانی کے ترجمان تھے اور ان سے یہ پتہ تھا کہ وہ اس حرب و ضرب کے عالم میں بھی اپنی شریکہ حیات کی یاد اپنے دل میں اور اسکی تصویر اپنی آنکھوں میں لیے ھوئے ھیں اور اس کے ساتھ اپنی شجاعت اور سرفروشی کی داد اس سے لینا چاھتے ھیں.بس یہ اسباب تھے جنکی بناء پر ان اشعار نے ام وھب کے ضبط و صبر کے لیے "برقِ خرمن" کا کام کیا اور وہ بےتحاشہ ایک گُرز ھاتھ میں لیکر میدانِ جنگ میں آگئیں اور پکار کر کہنے لگیں کہ "میرے ماں باپ دونوں تم پر نثار اولاد رسول (ص) کی نصرت میں کوتاھی نہ ھونے پائے"
دلیر و غیور عبداللہ کےلیے یہ منظر انتہائی صبرشکن ثابت ھوا.وہ فورًا زوجہ کے پاس آئے اور چاھا کہ انہیں خیموں کی طرف پہنچادیں مگر وہ باتوں میں آنے والی نہ تھیں.عبداللہ بن عمیر کے ایک ھاتھ میں تلوار تھی جس سے دشمن کا خون ٹپک رھا تھا اور دوسرے ھاتھ کی انگلیاں کٹ چکی تھیں جن سے خود لہو جاری تھا.پھر بھی انہوں نے کوشش کی وہ اپنی قوت سے انہیں خیمہ کی طرف واپس کردیں مگر جوش میں پھری بہادر خاتون نے اپنا دامن عبداللہ کے ھاتھ سے چھڑالیا اور کہنے لگیں کہ "میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں جب تک تمہارے ساتھ میں بھی قتل نہ ھو جاؤں" امام حسین علیہ السلام نے یہ ملاحظہ فرماکر ان کو آواز دی کہ "اللہ تم دونوں کو جزائے خیر دے اے مومنہ اھلِ حرم کے پاس جاؤ اور ان کے ساتھ بیٹھی رھو کیونکہ عورتوں پر سے جہاد ساقط ھے" ایمان اور اطاعتِ امام کا احساس تھا جو بےپناہ جذبہ الفت اور جوشِ قربانی پر غالب آیا اور ام وھب خواتین کے پاس خیمہ میں واپس چلی گئیں.اس کے بعد عبداللہ بن عمیر بھی صفِ مجاھدین میں واپس آگئے.اس کے بعد وہ میسرہ کے حملہ میں شریک ھوئے اور مسلم بن عوسجہ کے بعد شہادت پائی.
* شہادت ::-
دوسرے اجتماعی حملہ کی کامیابی نے جو قتلِ مسلم کی صورت میں ظاھر ھوئی تھی لشکرِ مخالف کا دل بڑھا دیا تھا اس لیے اس کے بعد شمر بن ذی الجوشن نے میسرہ فوج کو لیکر حسینی میسرہ پر حملہ کیا اور اس طرف بھی اصحابِ حسین علیہ السلام نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا.اس موقع پر عبداللہ بن عمیر نے بڑی جانفشانی سے کام لیا اور دو سپاھی قتل کردیئے مگر اس کے بعد وہ ھانی بن ثبیت حضرمی اور بکیر بن حی تیمی کے ھاتھ سے درجہ شہادت پر فائز ھوئے.طبری نے تصریح کی ھے کہ وہ اصحابِ حسین علیہ السلام میں دوسرے مقتول تھے.
زوجہ عبداللہ بن عمیر جنہوں نے اپنی زندگی کی تمام کائنات کو اپنے جذبہ ایمانی پر قربان کردیا تھا یہ معلوم کرکے کہ ان کا عزیز شوھر ھمیشہ کے لیے ان سے جدا ھوگیا اور وہ کربلا کی تپتی زمین پر اپنے خون کی چادر اوڑھے موت کی نیند سورھا ھے ایک مرتبہ پھر بےچین ھو کر اس ارادہ سے نہیں کہ وہ جنگ کریں گی یا اپنے شوھر کے خون کا بدلہ لیں گی صرف اس لیے کہ وہ اپنے شوھر کی لاش کو دیکھ لیں میدان میں پہنچیں.وہ شوھر کے سرھانے بیٹھ کر ان کے چہرہ سے گردوغبار صاف کرتی اور کہتی جاتی تھیں کہ "تمہیں جنت مبارک ھو، بہشت کی سیر کرنا مبارک ھو، مگر دشمن کا ظلم و تشدد اس حد پر تھا کہ شمر نے اپنے غلام کو جس کا نام رستم تھا آواز دی کہ اس کا بھی کام تمام کردے.وہ بڑھا اور اس نے ان ستم رسیدہ اور دل خستہ خاتون کے سر پر ایک ایسا گُرز مارا کہ وہ شہید ھوگئیں اور اس طرح کربلا کے خونیں مرقع میں ایک قابلِ احترام خاتون کا مقدس لہو بھی شامل ھوگیا.
**
نمبر(02).>* حُر بن یزید ریاحی *<
* نام و نسب ::-
حُر بن یزید بن ناجیه بن قعنب بن عتاب بن هرمی بن ریاح بن یربوع بن حنظله بن مالک بن زیدمناة بن تمیم التمیمی الیربوعی الریاحی.
یہ خاندان عرب میں قدیمی عزت کا مالک تھا.عتاب جو حُر کی چوتھی پشت میں ھے نعمان بن منذر ملک حیرہ کے مخصوصین میں وہ درجہ رکھتا تھا کہ گھوڑے پر اس کے 'ردیف' کی صورت سے سوار ھوتا تھا.عتاب کے دو فرزند تھے_ قیس اور قعنب، باپ کے انتقال کے بعد یہ منصب قیس کو حاصل ھوا.بنی شیبان نے اس سے منازعت کی جس کے نتیجہ میں 'یوم الطحفہ' کی خونریز جنگ واقع ھوئی.قیس کے سلسلہ میں اخوص شاعر ایک صحابی تھے جن کا نام و نسب زید بن عمر بن قیس بن عتاب تھا.طبقہ کے لحاظ سے وہ حُر کے باپ یزید کے چچازاد بھائی اور حُر کے رشتہ کے چچا ھوتے تھے.
* حالات و واقعات ::-
حُر کوفہ کے رؤسا میں سے تھے اور ابن زیاد کی فوج میں افسر کی حیثیت رکھتے تھے اور قادسہ کی فوج جو ناکہ بندی کےلیے تعینات تھی اس میں یہ بھی داخل تھے.اسکے بعد انکا امام حسین علیہ السلام کو روکنے کےلیے بھیجا جانا امام (ع) کا انکی تمام فوج کو شدت سے پیاسا دیکھ کر اپنے ساتھ کا کُل پانی پلانا اور امام (ع) سے انکی گفتگو اور آپ (ع) کے ارادہ روانگی کے موقع پر سدِراہ ھونا اور آپ (ع) کو گھیر کر میدانِ کربلا تک لانا اور ابن زیاد کا خط پاکر آپ (ع) کو یہاں قیام کرنے پر مجبور کرنا.اسکے بعد صبحِ عاشور انکا لشکرِ یزید سے علٰیحدہ ھوکر اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ھونا یہ تمام واقعات معروف ھیں.
آغازِجنگ کے بعد جب عبداللہ بن عمیر کلبی ایک کارِ نمایاں انجام دے چکے یعنی دست بدست لڑائی میں انہوں نے یسار اور سالم کو قتل کردیا تو اس شکست کے غصہ میں برافروختہ ھوکر عمرو بن الحججاج نے جو میمنہ لشکرِ یزید پر تھا مجموعی قوت سے حسینی جماعت پر حملہ کردیا.
اس سخت موقع پر حسینی مجاھدوں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور نیزوں کی انیاں سامنے کردیں جن سے دشمن کے گھوڑے اپنی جگہ ٹھہر گئے اور آگے نہ بڑھ سکے.اسکے بعد جب وہ لوگ واپس ھونے لگے تو انہوں نے انکو تیروں کا نشانہ بنایا جس سے چند آدمی ان میں قتل اور چند زخمی ھوئے.
جنگ کی اس شدت کو دیکھ کر بظاھر حُر کو خیال ھوا کہ کہیں کوئی ناصرِ حسین علیہ السلام مجھ سے پہلے نہ قتل ھوجائے یہ سوچ کر انہوں نے خدمتِ امام (ع) میں عرض کیا 'فرزندِ رسول (ص) !چونکہ سب سے پے آپ (ع) سے لڑنے کو آیا تھا لہذا چاھتا ھوں کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ سب سے پہلے میں ھی آپ (ع) کے قدموں پر نثار ھوں اور اس طرح دنیا سے جاکر آپ (ع) کے جدِ بزرگوار (ص) کی دست بوسی کا شرف حاصل کروں'' امام (ع) نے اجازت دیدی اور حُر میدانِ جنگ میں پہنچے اور کچھ اشعار رجز میں پڑھنے لگے جسکا مفہوم یہ تھا کہ میں حُر ھوں اور مہمانوں کا پناہ دینے والا ھوں.میں تمہاری گردنوں پر تلواریں ماروں گا.اس امام کی جانب سے جو سرزمینِ مکہ کا سب سے بہتر رھنے والا ھے میں تم کو یہ تیغ کر دونگا اور ذرا بھی اسکو ظلم نہیں سمجھوں گا.اس رجز کے بعد انہوں نے حملہ کرتے ھوئے شمشیرزنی شروع کردی.اس کے پہلے جب حُر لشکرِ عمرسعد سے جدا ھوکر اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوئے تھے تو یزیدی لشکر کے ایک سپاھی یزید بن سفیان تیمی نے کہا تھا کہ 'بخدا اگر میں حُر کو دیکھ لیتا اس وقت جب وہ لشکر سے نکل کر جارھا تھا تو ایک نیزہ میں اُسکا کام تمام کردیتا' اب جو حُر تن تنہا اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں جنگ کررھے تھے آگے بڑھ بڑھ کے تلواریں لگارھے تھے اور عنترہ کا یہ شعر انکی زبان پر تھا کہ
"ماذلت ارمیهم بثغرةنحره
ولبانه حتی تسر بل بالدم"
یعنی میں برابران پرپھینکتارھااپنے
گھوڑے کی گردن اور اسکے سینہ
کو یہاں تک کہ اس گھوڑے نے سر
سےپاؤں تک خون کی چادریں اوڑھ
لیں"
اور یہ شعر حقیقتًا انکے حسبِ حال تھا کیونکہ انکا گھوڑا زخمی ھوچکا تھا.اس وقت حصین بن تمیم نے جو قادسیہ کی ناکہ بندی پر مامور فوج کا افسر تھا یزید بن سفیان سے کہا کہ دیکھو حُر یہی تو ھے جس کے قتل کرنے کی تم آرزو رکھتے تھے.اس نے کہا اچھا یہ کہہ کر وہ باھر نکلا اور پکارا حُر کیا مقابلہ منظور ھے؟حُر نے کہا ھاں ضرور! اور یہ کہتے ھی سامنے آگئے خود حصین کا قول نقل کیا جاتا ھے کہ بس یہ معلوم ھوا جیسے یزید کی جان حُر کے قبضہ میں تھی.چنانچہ وہ دم کے دم میں قتل ھوگیا.یہ ایسا پرھیبت منظر تھا کہ دشمن کا پرا بند ھوگیا اور حُر کے مقابلہ میں پھر کوئی نہ نکلا.آخر وہ اپنے گھوڑے کو جو بری طرح زخمی ھوچکا تھا موڑ کر اپنے مرکز کی طرف واپس ھوگئے.
* اسکے بعد پھر وہ جنگ مغلوبہ میں شریک ھوئے اور ظہر کی نماز کا وقت آنے کے بعد شہید ھوئے.اسکی تفصیل ترتیب شہادت کے اعتبار سے بعد میں درج کی جائیگی.
**
نمبر(03).>* مسلم بن عوسجہ اسدی *<
اصحابِ حسین علیہ السلام میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے.
* نام و نسب ::-
ابوحجل مسلم بن عوسجه بن سعد بن ثعلبه بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسدی سعدی.
ممتاز و معزز اشرافِ عرب میں سے سدارِ قوم ، عابد و تہجدگزار تھے اور انہوں نے رسول (ص) کی زیارت کی تھی.شعبی ایسے محدث نے ان سے روایتِ احادیث کی ھے.ان تمام خصوصیات کے ساتھ وہ فارس میں بھی تھے اور میدانِ کارزار میں انہوں نے کارھائے نمایاں انجام دیئے تھے.سنہ 20ھ میں جب حذیفہ بن یمان کی سرکردگی میں فوجِ اسلام نے ایران کے ترکستانی علاقہ آذربائیجان کو فتح کیا تھا تو اس میں مسلم بن عوسجہ بھی شریک تھے اور انہوں نے اس جنگ میں بہت سے مشرکین کو بھی قتل کیا تھا.میدانِ کربلا میں وہ سنِ رسیدہ اور ضعیف العمر ھوچکے تھے.
* حالات و واقعات ::-
مجاھدہ حسینی سے متعلق انکی خدمات کا سلسلہ عاشور محرم سے بہت پہلے سے شروع ھوچکا تھا چنانچہ جب ابن زیاد کے کوفہ پر مسلط ھونے کے بعد مسلم بن عقیل (ع) ھانی کے گھر میں فروکش ھوئے اور انہوں نے بیعت کرنے والوں کی ازسرِنو تنظیم شروع کی تھی تو مسلم بن عوسجہ ان کے نمائندہ خاص کی حیثیت سے انکی بیعت اور اھلبیتِ رسول (ص) کے ساتھ وفاداری کا عہدوپیمان لیتے تھے مگر شہادت جناب مسلم بن عقیل (ع) کے بعد پتہ نہیں چلتا کہ کہاں گئے اور پھر کس طرح امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے.
شبِ عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام نے جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا جسکا ماحصل یہ تھا کہ تم سب مجھے چھوڑ کر علیحدہ ھوجاؤ اور مجھے تنہا ان سے مقابلہ کرنے دو اسکے جواب میں عزیزوں کے بعد سب سے پہلے مسلم بن عوسجہ ھی کھڑے ھوئے تھے اور تاریخِ انسانی کےلیے یادگار جوش اور خلوص میں بھرے ھوئے یہ الفاظ کہے تھے کہ
"بھلاھم اورآپ (ع)کوچھوڑ کرچلے جائیں
اورخدا کےسامنےجواب دہی کاسامان نہ
کریں.یہ نہیں ھوسکتا.بخدا میں اتنا لڑوں
گا کہ ان کے سینوں میں اپنےنیزوں کو
توڑوں گااورتلواریں لگاؤں گا.جب تک کہ
اسکاقبضہ میرے ھاتھ میں سنبھل سکے
گا. مگر آپ (ع) سے کبھی جدا نہ ھونگا
یہاں تک کہ اگرمیرےپاس ھتھیار نہ ہوں گے جن سے جنگ کرسکوں تو انہیں پتھر
مارونگا.آپ(ع)کی نصرت میں یہاں تک کہ
آپ(ع)ھی کےساتھ رھتےھوئےدنیا سے
چلا جاؤں گا"
صبحِ عاشور شمر نے خیامِ حسینی کی پشت پر خندق میں آگ کے شعلے بھڑکتے ھوئے دیکھ کر جو گستاخی کا تخاطب کیا تھا اسکے جواب میں بھی مسلم بن عوسجہ نے غیظ میں آکر اسکو اپنے تیر کا نشانہ بنانا چاھا مگر امام (ع) کے مانع ھونے کی وجہ سے خاموش ھوگئے تھے.
اب جنگ چھڑنے کے بعد کہاں ممکن تھا کہ معرکہ کارزار میں وہ کسی سے پیچھے رھ جاتے.وہ بوڑھے ضرور تھے مگر نصرتِ امام حسین علیہ السلام میں انکا جوش و ولولہ جوانوں سے بدرجہا بڑھا ھوا تھا.اسی کا نتیجہ تھا کہ اصحابِ امام میں سب سے پہلے وھی درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
* شہادت ::-
اس وقت جب عبداللہ بن عمیر دست بدست جنگ کر چکے تھے اور حُر بھی میدانِ جنگ میں دادِشجاعت دے چکے تھے تو نافع بن حلال جملی نے آگے بڑھ کر لڑنا شروع کیا اور وہ کہتے جاتے تھے کہ "میں قبیلہ بنی جمل سے ھوں میں علی کے دین پر ھوں" انکے مقابلہ پر ایک شخص آیا جسکا نام مزاحم بن حریث تھا.اس نے کہا 'میں عثمان کے دین پر ھوں' نافع نے غصہ میں بھرے ھوئے جواب کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور اسکو قتل کردیا.
ان پیہم نقصانات سے جو افواجِ مخالف کو برابر ھو رھے تھے سردارانِ لشکرِ یزید پریشان ھوگئے.عمرو بن الحجاج نے جو پہلے ھی ایک حملہ کرکے ناکام واپس جاچکا تھا.زور سے اپنی فوج کو للکارا اور بلند آواز سے کہا ''بےوقوفوں ! تم جانتے بھی ھو کہ تم کس سے جنگ کررھے ھو؟یہ ملک کے خاص شہسوار اور جانوں پر کھیلے ھوئے افراد ھیں.تم میں سے کوئی شخص انفرادی طور پر ان سے جنگ کے لیے نہ نکلے.ھاں چونکہ انکی تعداد بہت کم ھے اس لیے یہ بہت تھوڑی دیر زندہ رہ سکتے ھیں.اگر تم سب مل کر فقط پتھر ھی ان پر برساؤ تو بھی انکو قتل کر سکتے ھو''
یہ مشورہ کہ دست بدست جنگ نہ کی جائے عمرسعد کو پسند آیا اور تمام لشکر میں فرمان جاری کردیا کہ کوئی شخص مبادز طلبی کےلیے میدان میں نہ نکلے.پھر عمرو بن الحجاج نے آگے بڑھ کر تمام لشکر میں جوش پیدا کرانے کے خیال سے ایک تقریر کی اور کہا 'اے اھلِ کوفہ اطاعت اور وفاداری کے پابند رھو اور اپنی جماعت سے الگ نہ ھو اور ذرا بھی شک و شبہ نہ کرو.ان لوگوں کے قتل کے بارے میں جو دین سے نکل گئے ھیں اور امامِ وقت (یزید) کے مخالف ھیں'
امام حسین علیہ السلام نے یہ گمراہ کن الفاظ سنکر جواب دینا ضروری سمجھا اور ارشاد کیا کہ "او عمرو بن الحجاج تو لوگوں کو میرے خلاف آمادہ کرتا ھے! کیا ھم دین سے نکل گئے ھیں اور تم دین پر قائم ھو؟ قسم بخدا عنقریب اس وقت جبکہ تمہاری جانیں ان جسموں سے جدا ھونگی اور تم اپنے ان اعمال پر دنیا سے جاؤگے معلوم ھوگا کہ کون دین سے نکلا تھا اور کون آتشِ جہنم میں جلنے کا مستحق تھا"
بہرطور عمرو بن الحجاج نے اپنی فوج کو آمادہ کر ھی لیا تھا.چنانچہ اس نے پورے جوش و خروش سے میمنہ کی فوج کے ساتھ فرات کی جانب سے جماعتِ حسینی پر حملہ کیا.اس جماعت کے چھوٹے سے میسرہ نے ایسی پامردی سے مقابلہ کیا کہ دشمن کو پھر واپس ھونا پڑا مگر غبار کا دامن چاک ھوا تو مسلم بن عوسجہ خاک و خون میں غلطاں نظر آئے.امام حسین علیہ السلام فورًا مسلم بن عوسجہ کے سرھانے پہنچے جبکہ ان میں رمقِ جان باقی تھی.آپ (ع) نے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ھوئے اس آیت کی تلاوت فرمائی :
"فمنهم من قضٰی نحبه من ینتظروما بدلوا تبدیلا"
کچھ لوگ جانے والے گزر گئے اورکچھ وقت کے منتظرھیں مگر کوئی اپنی بات سے ھٹا نہیں"
حبیب بن مظاھر جو امام (ع) کے ساتھ ساتھ تھے مسلم بن عوسجہ کے قریب گئے اور ان سے کہا کہ تمہارا ساتھ چھوٹنے کا بڑا صدمہ ھے مگر میں تمہیں جنت کی مبارکباد دیتا ھوں.مسلم بن عوسجہ نے کمزور آواز میں جواب دیا "تمہیں بھی ھر طرح کی خیر و برکت کی مبارکباد قبول ھو" حبیب بن مظاھر نے کہا "اگر مجھے یقین نہ ھوتا کہ میں بھی عنقریب تمہارے پیچھے پیچھے آتا ھوں تو کہتا کہ کچھ وصیت کرو اور میں اس وصیت کو پورا کروں" مسلم بن عوسجہ نے جواب میں امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا "وصیت جو کچھ بھی ھے وہ اسی ذات کے متعلق ھے." (مطلب یہ تھا کہ تم بھی ان ھی پر اپنی جان نثار کرنا) حبیب بن مظاھر نے کہا "ضرور خدا کی قسم ایسا ھی ھوگا"
عمرو بن حجاج کے ساتھ بدحواس فوج اس مختصر سی جماعت کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر بےتحاشہ بھاگی تھی.
اسے خبر نہ تھی کہ کون قتل ھوگیا مگر مسلم بن عوسجہ کے ساتھ انکے اھل و عیال موجود تھے.جب انکی شہادت کی خبر خیمہ میں پہنچی تو ایک کنیز نے چیخ مار کر کہا "ھائے ابن عوسجہ ! میرے آقا ! اس آواز کو سنکر مخالف لشکر میں خوشیاں ھونے لگیں کہ ھم نے مسلم بن عوسجہ کو قتل کیا.اس پر شبث بن ربعی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا 'غضب کی بات ھے کہ مسلم بن عوسجہ کا سا شخص قتل ھو اور تم لوگ خوشیاں مناؤ.بخدا میں نے خدمتِ اسلام میں اس شخص کے کارنامے دیکھے ھیں.آذربائیجان کی جنگ میں میرا چشم دید واقعہ ھے کہ ابھی مسلمانوں کے لشکر کی پوری صف بندی بھی نہ ھونے پائی تھی کہ اس بہادر نے چھ آدمی فوجِ مشرکین کے قتل کر دیئے تھے.ایسا شخص تمہارے ھاتھ سے مارا جائے اور تم خوش ھو"
ظاھربین نگاھوں کو یہ باتیں معمولی معلوم ھوتی ھونگی مگر حقیقتًا یہ امام حسین علیہ السلام کی حقانیت کی وہ صریحی علامات تھیں جو دورانِ جنگ برابر آنکھوں کے سامنے آرھی تھیں.
**
* اس کے بعد کربلا کے دوسرے شہید "عبداللہ بن عمیر کلبی" ھوئے جنکا ذکر شہادت گزشتہ قسط میں انکے حالات و واقعات میں گزر چکا ھے.
**
نمبر04).>* بریر بن خضیر ہمدانی *<
سنِ رسیدہ تابعی ،عبادت گزار اور حافظِ قرآن حضرت علی بن ابی طالب علیھماالسلام کے اصحاب میں سے کوفہ کے باشندہ اور قبیلہ ھمدان کے اشراف میں سے ابو اسحٰق ھمدانی سبعی مشہور محدث و حافظ کے ماموں تھے.مسجدِ کوفہ میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے.لوگ ان کو "سیدالقراء(حفاظ کا سردار)" کہتے تھے.راستے میں کہیں پر پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ھو گئے اور حُر کی ملاقات کے بعد جو خطبہ امام (ع) نے ارشاد فرمایا تھا اسکے جواب میں زھیر بن قین اور نافع بن ھلال کی تقریروں کے بعد انہوں نے بھی ایک مختصر سی تقریر کی تھی.جب بریر نے کچھ مزاح کیا اور عبدالرحمٰن بن عبدربہ نے کہا یہ مذاق کا وقت نہیں ھے تو بریر بن خضیر نے جواب دیا کہ "خدا کی قسم میرے قوم و قبیلہ والے اس سے واقف ھیں کہ مجھے جوانی سے لیکر اس عمر تک کبھی مذاق سے دلچسپی نہیں رھی مگر اس وقت تو اپنے مستقبل کے تصور سے میری خوشی کی انتہا نہیں کہ ادھر جنگ میں تلوار چلی اور بس نتیجہ میں ھمارے لیے آخرت کی زندگی اور سعادت نصیب ھوئی.
اس سے بریر بن خضیر کے شوقِ شہادت کا پورا اندازہ ھوجاتا ھے.اسی جذبہ بیقرار کا نتیجہ تھا کہ وہ جنگ میں سبقت کرنا چاھتے تھے چنانچہ سب سے پہلے جو دو غلام زیاد و ابنِ زیاد کے لشکرِ یزید سے نکلے اور انہوں نے مبارزطلبی کی تو حبیب بن مظاھر اور بریر بن خضیر کھڑے ھوگئے تھے مگر امام حسین علیہ السلام نے ان کو روک دیا تھا.جماعتِ حسینی میں انکا نمایاں حیثیت رکھنا اس سے بھی ظاھر ھے کہ جب عبداللہ بن عمیر کلبی میدان میں گئے تو ان دونوں غلاموں نے کہا کہ ھم تم کو نہیں جانتے ھمارے مقابلے کےلیے زھیر بن قین، حبیب بن مظاھر یا بریر بن خضیر کو آنا چاھیئے.گزشتہ جنگِ مغلوبہ کے بعد دست بدست مقابلہ کےلیے یزید بن معقل لشکرِ یزید میں سے میدانِ جنگ میں آیا.اسکی اور بریر کی پرانی ملاقات تھی اور مذھبی نوک جھوک بھی ھوجایا کرتی تھی.اس لیے اس نے میدانِ جنگ میں بریر کو آواز دی کہ 'دیکھا تم نے خدا نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا؟' بریر نے کہا "خدا نے میرے ساتھ تو بڑا اچھا سلوک کیا.ھاں تو اپنی کہہ کر بڑا بدنصیب ثابت ھورھا ھے" یزید بن معقل نے جواب دیا جھوٹ کہتے ھو حالانکہ اس سے پہلے تمہیں جھوٹ بولنے کی کبھی عادت نہیں تھی.خیر یہ بتاؤ کہ تمہیں یاد ھے ایک دن ھم اور تم بنی لوذان کے کوچہ سے گزر رھے تھے اور تم کہہ رھے تھے کہ عثمان گنہگار تھے اور معاویہ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنیوالا ھے اور امام بحق بس علی بن ابی طالب علیہ اسلام ھیں. بریر نے کہا کہ "میں اب بھی اپنے اسی خیال پر قائم ھوں" یزید نے کہا اچھا اس پر تیار ھو کہ میں تم سے مباھلہ کروں اور ھم تم دونوں مل کر خدا سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے پر لعنت کرے اور جو حق پر ھو اسکے ھاتھ سے باطل پرست کو قتل کرادے. پھر میں تم سے جنگ کروں.یزید بن معقل نے اسکو منظور کرلیا.دونوں فوجوں کی آنکھیں لڑی تھیں.دونوں نے آمنے سامنے کھڑے ھوکر آسمان کی طرف ھاتھ اٹھائے اور خدا سے دعا کی.پھر جنگ میں مشغول ھوگئے.بس صرف دو ضربوں کی ردوبدل ھونے پائی اس طرح کہ پہلے یزید بن معقل نے تلوار لگائی جو بریر پر اچٹتی ھوئی پڑی اور کوئی صدمہ انہیں نہیں پہنچا.پھر بریر نے تلوار ماری جو خود کو کاٹتی ھوئی اسکے دماغ تک پہنچی اور وہ گھوڑے سے زمین پر گرپڑا.اس حالت سے کہ بریر کی تلوار اسکے کاسہ سر میں در آئی ھوئی تھی اور وہ اسے باھر کھینچ رھے تھے.اسی حالت میں رضی بن منقز عبدی نے ان پر حملہ کردیا.وہ بریر سے لپٹ گیا اور کشتی لڑنے لگا.بریر اسکو گرا کر سینہ پر سوار ھوگئے.کمینہ اور بزدل دشمن چیخ اٹھا اور پکارنے لگا. 'کہاں ھیں جنگ جُو پہلوان کہاں ھیں مدافعت کرنیوالے جوان' دفعتًا کعب بن جابر بن عمروازدی بریر پر حملہ کرنے کےلیے آگے بڑھا لشکرِ یزید کے دوسرے سپاھیوں نے اسکو منع بھی کیا کہ یہ بریر حافظِ قرآن ھیں جو مسجد میں حفظِ قرآن کرایا کرتے تھے مگر اس نے نہ مانا اور پشت کی جانب سے بریر پر نیزہ کا وار کردیا جو سینہ سے پار ھوگیا اور بریر زمین پر گرگئے.اس نے تلوار لگا کر بریر بن خضیر کو شہید کردیا.
**
نمبر(05).>* منجح بن سھم *<
جماعت حسینی میں آزاد افراد کے ساتھ ساتھ غلاموں کی نمائندگی بھی کافی تھی.ان میں سب سے پہلے سلسلہ شہداء میں جنکا نام آتا ھے وہ منجح ھیں.
شیخ الطائفہ نے کتاب الرجال میں انکا نام اصحابِ حسین علیہ السلام میں شمار کیا ھے.زمخشری نے ربیع الابرار میں لکھا ھے کہ حسینہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی کنیز تھی جسے آپ (ع) نے نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے خرید فرمایا تھا اور اسکی شادی سہم سے کردی تھی.اس طرح منجح کی ولادت ھوئی اور چونکہ یہ کنیز علی بن الحسین علیھما السلام (زین العابدین) کے گھر میں خدمات انجام دیتی تھی اس لیے حضرت امام حسین علیہ السلام عراق کی طرف روانہ ھوئے تو وہ اپنے فرزند منجح سمیت آپ (ع) کے ھمراہ آئی.کربلا میں انکی شہادت اوائل جنگ میں ھی واقع ھوئی اور وہ حسان بن بکر حنظلی کے ھاتھ سے قتل ھوئے.
**
نمبر(06).>* عمر بن خالد *<
پورا نام عمر بن خالد بن حکیم بن حزام الاسدی الصیداوی تھا.کوفہ کے اشراف میں سے اور اھلبیت علیھم السلام کے سچے محب تھے.شروع میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی نصرت کےلیے نکلے تھے مگر جب اھلِ کوفہ نے انکا ساتھ چھوڑ دیا اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو یہ بھی روپوش ھوگئے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام عراق کی حدود میں پہنچے اور آپ (ع) نے قیس بن مسھر صیداوی کو اپنی آمد کے اطلاع کے ساتھ کوفہ روانہ کیا.قیس راستے میں گرفتار ھوگئے اور انکے قتل کا حکم ھوا مگر انہوں نے مرتے مرتے حسین علیہ السلام کی سفارت کے حق کو ادا کردیا.اعلان کرکے کہ امام حسین علیہ السلام مقام حاجر تک پہنچ گئے ھیں جسکو جانا ھو انکے پاس چلا جائے.یہ خبر عمر بن خالد کو پہنچی تو وہ اپنے غلام سعد اور تین دوسرے ھمراھیوں کے ساتھ غیرمعروف راستے سے ھوکر بہت تیزرفتاری کے ساتھ منزل عذیب الھجانات پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے.
جبکہ حُر بن یزید ریاحی امام (ع) کی نقل و حرکت کی نگرانی کےلیے پہنچ چکا تھا چنانچہ حُر نے مداخلت کی اور کہا کہ یہ لوگ آپ (ع) کے ساتھ نہیں آئے تھے اس لیے یا تو میں انہیں گرفتار کروں گا یا کوفہ واپس ھوں مگر امام (ع) نے فرمایا "اب جبکہ یہ میرے پاس پہنچ گئے ھیں اور میری امان میں آگئے تو میں انہیں تمہارے سپرد نہیں کرسکتا.
روزِ عاشور جنگ چھڑنے کے بعد یہ اور انکے ساتھی وہ پانچ آدمی تھے جنہوں نے بیک وقت فوجِ دشمن پر حملہ کیا اور لشکر میں گھس کر شمشیرزنی کرنے لگے.لشکرِ یزید نے ان بہادروں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور جماعتِ حسینی سے بالکل جدا کردیا.یہ دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی "ابو الفضل العباس علیہ السلام" کو انکی مدد کےلیے بھیجا.آپ (ع) نے جاکر تنِ تنہا فوج پر حملہ کیا اور تلوار چلانا شروع کی یہاں تک کہ لشکر کو منتشر کردیا اور ان زخمی بہادروں کو دشمن کے حلقہ سے نکال کر اپنی جماعت کی طرف واپس لے چلے.ابھی راستہ پورا طے نہیں ھوا تھا کہ دشمن تعاقب کے لیے آتے نظر آئے.عباس علیہ السلام نے ان بہادروں کو اپنے آگے کیا اور آپ (ع) خود بغرضِ حفاظت پیچھے ھوگئے تاکہ انکو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے.مگر دشمن کے قریب پہنچتے ھی زخمی بہادروں کے جوش کی انتہا نہ رھی اور وہ جناب عباس علیہ السلام کی حفاظت سے نکل کر دشمنوں پر جھپٹ پڑے اور باوجودیکہ زخموں سے بالکل بےحال تھے لیکن جان توڑ کر شمشیرزنی کی اور آخر ایک ھی جگہ پر گر کر شہید ھوگئے.جناب عباس علیہ السلام نے مجبورًا امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں واپس آکر اس واقعہ کی اطلاع دی.حضرت (ع) نے چند بار ان بہادروں کے لیے درگاھِ باری سے رحمت طلب فرمائی.
**
نمبر(07).>* سعد مولی عمر بن خالد *<
شریف النفس اور بلند ھمت غلام تھے جنہوں نے اپنے مالک عمر بن خالد صیداوی کا آخر وقت تک ساتھ دیا.وہ اپنے مالک کے ساتھ اس مختصر قافلہ میں آکر اصحابِ حسین علیہ السلام سے ملحق ھوئے تھے جو منزل عذیب الھجانات پر خدمتِ امام علیہ السلام میں پہنچا اور جنگ میں بھی وہ اپنے ھمراھیوں کے جتھے میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(08).>* مجمع بن عبداللہ العائذی*<
مجمع بن عبدالله بن مجمع بن مالک بن ایاس بن عبدمناة بن سعد العشیرة المذحجی العائذی.
یہ تابعین میں سے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں متولد ھوئے تھے انکے والد نے رسول اللہ (ص) کی صحبت کے شرف کو حاصل کیا تھا اور خود مجمع حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں داخل تھے.چنانچہ جنگِ صفین کے واقعات کے ذیل میں انکا تذکرہ پایا جاتا ھے.یہ بھی ان پانچ اشخاص میں سے تھے جو منزل عذیب الھجانات پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے تھے اور جب آپ (ع) نے ان سے کوفہ کی حالت سے متعلق دریافت فرمایا تو مجمع نے حسبِ ذیل الفاظ میں اھلِ کوفہ کی تصویرکشی کی تھی. "بڑے بڑے آدمیوں کو تو بڑی رشوتیں دی گئی ھیں اور گھٹڑیاں بھربھر کر مال و دولت عطا کیا گیا ھے تاکہ وہ موافق رھیں اور خیرخواھی کرتے رھیں.اس لیے سب متفق ھیں آپ (ع) کے خلاف اور عوام ان کے دل تو آپ (ع) کی طرف جھکتے ھیں مگر تلواریں انکی کل آپ (ع) کے خلاف کھنچی ھوئی ھونگی"
روزِعاشور انہوں نے بھی اپنے جتھے کے ساتھ دشمن سے جنگ کی اور درجہ شہادت حاصل کیا.
**
نمبر(09).>* عائذ بن مجمع *<
مجمع بن عبداللہ عائذی کے فرزند تھے.اپنے والد کے ساتھ منزل عزیب الھجانات پر امام حسین علیہ السلام کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا تھا اور انہی کے ساتھ اپنے جتھے میں رھتے ھوئے جنگ میں شرکت کی اور شہید ھوئے.
**
نمبر(10).>* جنادہ بن حارث سلمانی *<
سلمان قبیلہ مراد کی ایک شاخ اور مراد قبیلہ مذحج کا ایک شعبہ ھے.جنادہ بن حارث کوفہ کے باشندہ اور مشاھیر شیعہ میں سے تھے.عہدِ رسول اللہ (ص) کا ادراک کیا پھر حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ رھے اور جنگِ صفین میں جہاد کیا.شیخ طوسی نے کتاب الرجال میں انکا نام اصحابِ حسین علیہ السلام میں درج کیا ھے.
جب جناب مسلم بن عقیل علیھما السلام کوفہ میں امام حسین علیہ السلام کی بیعت لے رھے تھے تو جنادہ نے وفاداری کے ساتھ بیعت کی اور جناب مسلم کے ساتھ جہاد میں شریک بھی ھوئے مگر جب فضا جناب مسلم (ع) کے خلاف ھوگئی تو وہ بھی مثل دیگر اشخاص کے مخفی ھوگئے اور آخر اسی جتھے میں جو منزل عذیب الھجانات میں خدمت امام (ع) میں پہنچا تھا وہ بھی حاضر ھوئے اور اسی جتھے کے ساتھ رہ کر جنگ بھی کی اور درجہ شہادت حاصل کیا.
**
نمبر(11).>* جندب بن حجیر کندی خولانی *<
کوفہ کے باشندہ اور ممتاز شیعی افراد میں سے تھے.حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کی صحبت سے شرفیاب ھوئے اور جنگِ صفین میں کندہ اور ازد کے رسالوں کے افسر تھے.جب امام حسین علیہ السلام کوفہ کی سمت راہ پیما تھے تو حُر کی ملاقات سے پہلے ھی وہ خدمتِ امام میں پہنچ کر ھمراھی کے شرف سے بہرہ یاب ھوئے اور روزِعاشور جنگ کے ابتدائی ھنگام میں جنگ کرکے شہید ھوئے.
**
نمبر(12).>* یزید بن زیاد بن مہاصر ابوالشعثاء کندی بہدلی *<
شیعانِ کوفہ میں سے شریف ، بہادر اور جنگ آزما تھے.امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حُر کی ملاقات سے پہلے حاضر ھوئے اور پھر ھمراہ ھمرکاب رھے تھے.جب کربلا کی سرزمین کے قریب پہنچ کر حُر کے پاس ابنِ زیاد کا قاصد یہ خط لایا تھا کہ جہاں یہ خط پہنچے وھیں حسین علیہ السلام کو اترنے پر مجبور کیا جائے تو ابوالشعثاء نے اس قاصد کو پہچانا تھا کہ وہ مالک بن نسربدی ھے.چونکہ وہ بھی قبیلہ کندہ سے تھا اس لیے ابوالشعثاء نے اسکو نصیحت کرنا ضروری سمجھتے ھوئے اس سے کہا کہ یہ تونے کیا غضب کیا اس کام کےلیے تو آیا؟ اس نے کہا 'میں نے اپنے امام کی اطاعت کے حق کو پورا کیا' ابوالشعثاء نے جواب دیا کہ
"تونےخدا کی نافرمانی کی اوراپنےامام
کی اطاعت یقینًا تونے اس طرح اپنےنفس
کی ھلاکت کا سامان کیا اورھمیشہ کے
لیےننگ و عار اور آتش جہنم کامستحق بنا
خداوندِعالم نےیہ فرمایا ھےکہ کچھ امام
ایسےھیں جو آتش جہنم کی طرف دعوت
دیتےھیں اورروزِقیامت انکی کوئی فریاد
رسی نہیں ھوگی. بےشک تیرا امام ایسا
ھی ھے"
وہ بہت بڑے تیرانداز تھے.روز عاشور اپنے گھٹنے ٹیک کر وہ امام کے سامنے بیٹھ گئے اور آٹھ تیر لگائے جن میں سے پانچ تیر ٹھیک نشانہ پر پڑے اور پانچ آدمیوں کو دشمنوں میں سے ھلاک کیا.جب تیر ختم ھوگئے تو وہ تلوار لیکر میدان میں آئے اور یہ رجز پڑھا :
میں یزید ھوں اورمیرے باپ مہاصر
تہے میں شیربیشہ سے زیادہ بہادر
ھوں
خداوندا گواہ رھناکہ میں حسین(ع)
کاناصر اور ابن سعد سے بےتعلقی
اختیار کرنے والا ھوں"
آخر درجہ شہادت پر فائز ھوئے.تاریخ میں یہ تصریح ھے کہ وہ ابتداء جنگ کے شہداء میں سے ھیں.
**
>* حملہ اولی *<
حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ھے کہ تیس ھزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو نفوس ھوں اور وہ بھی تین دن کے بھوکے پیاسے اور اس کے باوجود وہ فوجِ کثیر اس جماعتِ قلیل سے نقصان پر نقصان اور شکست پر شکست اٹھائے اور اس کے بنائے کچھ نہ بنے.صبح سے دوپہر کے قریب تک کا وقت آجائے اور حسینی جماعت کی صف مثل ایک مضبوط و محکم آھنی دیوار کے سامنے موجود رھے.اس کے برخلاف افواجِ یزید میں اضطراب و بدنظمی کے آثار نمایاں ھوں اور وہ کسی ایک طریقہ جنگ پر قائم نہ رہ سکیں.راوی کا بیان ھے کہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے سخت جنگ کی اور ان میں کے سواروں نے جو تعداد میں صرف بتیس (32) تھے لشکرِ یزید پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اسکو منتشر کردیتے تھے.چنانچہ جب عزرہ بن قیس نے جو لشکریزید کے سواروں کی فوج کا افسر تھا یہ دیکھا تو اس نے عمر بن سعد کے پاس عبدالرحمٰن بن حصین کو یہ پیغام دیکر بھیجا کہ 'آپ دیکھتے ھیں کہ آج صبح سے اس چھوٹی سی جماعت کے ھاتھوں میری فوج کی کیا حالت ھے؟اب آپ پیادوں کی فوج اور تیراندازوں کے دستوں کو بھیجئے کہ وہ مقابلہ کریں' لشکریزید کےلیے کس درجہ شرم کا مقام تھا کہ اس کے سواروں کا افسر ھمت ھار چکا تھا اور کھلے ھوئے الفاظ میں اقرارِ شکست کرلیا.اس کے بعد پیادوں کی طرف رجوع کیا گیا اور شبث بن ربعی کو پیادہ فوج کا افسر تھا عمر سعد کا یہ تہدیدی پیغام پہنچا کہ تم آگے کیوں نہیں بڑھتے مگر اس نے حقارت آمیز جواب دیا کہ 'افسوس ھے اس مہم کو سر کرنے کےلیے سواروں کی اتنی بڑی فوج ناکافی سمجھی جائے اور میرے ایسے بڑے سردار کو زحمت دی جائے اور پھر تیراندازوں کی بھی ضرورت محسوس ھورھی ھو کیا میرے سوا کوئی اور اس مہم کو سر کرنے کےلیے نہیں ملتا؟یہ سنکر مجبورًا عمر سعد نے حصین بن تمیم کو اسی فوج کے ساتھ جو قادسیہ کی سرحد میں ناکہ بندی کی غرض سے تعینات رہ چکی تھی پانچ سو تیراندازوں کے اضافہ کے ساتھ مامور کیا کہ وہ آگے بڑھے اور خیمہ حسینی کے نزدیک جاکر پاس سے ان پر تیروں کا مینہ برسائے.
فنِ جنگ کے واقف کار اچھی طرح جانتے ھیں کہ تیروں کی زد کےلیے ایک محدود فاصلہ درمیان میں ھونا ضروری ھے.مقررہ فاصلہ سے زیادہ تیراندازی ایک طرح سے ھوئی فائروں کی حیثیت رکھتی ھے جس سے گزند نہ پہنچنے کا قوی امکان ھوتا ھے مگر تھوڑی مسافت سے تیروں کی ھنگامہ خیز بارش ایک بےپناہ حملہ ھے.جس سے محفوظ رھنے کےلیے نہ فنونِ جنگ کام دے سکتے ھیں نہ شجاعت و جراءت. اسی لیے یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ یہ بزدلانہ طریقہ جنگ ھے اور شجاعانِ روزگار کےلیے ننگ.یہ ظاھر ھے کہ اصلی لشکر گاھ دو متخاصم فریقوں کے ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر ھوتے ھیں یقینًا اسی صورت پر کربلا میں بھی تھے.
دونوں لشکروں کی صف آرائی بھی اس طریقہ پر ھوتی ھے کہ درمیان میں کافی وسیع مصاف باقی رھے اور یہ مسافت بھی کچھ کم نہیں ھوتی ھے.پہلی مرتبہ کے تیروں کی بارش کا عنوان یہ تھا کہ عمر سعد نے اپنے لشکر ھی سے جسکی صف آرائی ھوچکی تھی تیر چلایا اور اسی کے ساتھ اس کے لشکر والوں نے بھی تیر رھا کیے لہذا ان تیروں سے جماعتِ حسینی کا کوئی خاص نقصان نہیں ھوا تھا اور نہ ھونا چاھیئے تھا سوا اس کے کہ ان کے ذریعہ سے اعلانِ جنگ ھوگیا.اور عملی طور سے حرب و ضرب شروع ھوگئی.مگر اس وقت جس طریقہ سے تیراندازی مقصود تھی اسکی نوعیت بالکل مختلف تھی اس لیے کہ اس مرتبہ پورے طور سے جماعتِ حسینی کو زد پر لاکر تیر برسائے جارھے تھے.ظاھر ھے کہ تیر کی زد سے ڈھل یا نیز و شمشیر کے ذریعہ تحفظ ممکن نہیں ھے.البتہ تیر کو خالی دیکر اس سے بچا سکتا ھے مگر یہ اسی وقت کارگر ھوسکتا ھے جب اِدھر اُدھر تیروں کی زَد سے خالی جگہ موجود ھو لیکن تصور میں اس منظر کو سامنے لایا جائے کہ صرف سو ڈیڑھ سو نفوس پر مشتمل جماعتِ حسینی صف باندھے ایستادہ ھے اور ان کے مقابلہ میں ھزاروں کی تعداد میں ایک فوج آکر کھڑی ھوجاتی ھے اور تیر برسانا شروع کرتی ھے تو وہ کتنی دیر زیادہ دور تک پھیلی ھوئی ھوگی اور جب اسکی طرف سے ایک مرتبہ مجموعی طور پر یک جہت اور ھم آھنگ ھوکر ایک نشانہ پر ایک ھی مرکز کو سامنے رکھے ھوئے بہت دور سے نہیں بلکہ قریب سے تیر برسائے جارھے ھیں تو کیا اس میں کوئی شک ھوسکتا ھے کہ ان تیروں نے ایک عظیم سیلاب ایک بڑے طوفان ، ایک تیز آندھی یا لوھے کی ایک چادر کی طرح چپ و راست ھر طرف سے اس مختصر جماعت کو ڈھانپ لیا ھوگا اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا باقی نہ ھوگا جو ان تیروں کی زَد میں نہ آتا ھو.مگر انصارِ حسین علیہ السلام نے اس بے پناہ تیروں کے سیلاب کا یوں مقابلہ کیا کہ تلواریں سونت لیں اور لوھے کی ان چادروں کو اپنے سینوں سے ریلتے ھوئے دشمن کی فوج پر جا پڑے اور اس میں در آکر شمشیرزنی کرنے لگے.
یہی وہ عظیم الشان حملہ اور گھمسان کی جنگ ھے جو تاریخوں میں "حملہ اولٰی" کے نام سے مذکور ھے اور یہ ظُہر سے ایک گھنٹہ قبل کا واقعہ ھے.
اصحابِ حسین علیہ السلام نے پھر دشمن کو شکست دی اور فوج کو پسپا کیا مگر اس حملہ کا نتیجہ خود جماعتِ حسینی کےلیے بھی بہت دردانگیز ثابت ھوا چنانچہ جس وقت میدان صاف ھوا اور گرد و غبار دور ھوا تو معلوم ھوا کہ یہ مختصر تعداد اور زیادہ مختصر ھوچکی تھی اس لیے کہ پچاس آدمی انصارِ حسین علیہ السلام میں سے درجہ شہادت پر فائز ھوئے تھے جن میں سے بعض تیروں کا نشانہ بنائے گئے تھے اور بعض جنگِ مغلوبہ میں شہید کیے گئے تھے.اس کے علاوہ جتنے گھوڑے اصحابِ حسین علیہ السلام کی سواری میں تھے وہ سب ختم کردیئے گئے تھے اور چند اصحابِ حسین علیہ السلام بھی جو سوار تھے اب پیادہ ھوگئے تھے.چنانچہ حُر بن یزید ریاحی بھی جنکا گھوڑا اس سے پہلے ھی زخمی ھو چکا تھا اب پیادہ ھوگئے جسکا تذکرہ ان کے دشمن ایوب بن مشرح خیوانی نے اس طرح کیا ھے کہ میں ھی وہ شخص تھا جس نے حُر کے گھوڑے کو پے کیا.بس میں نے ایک تیر ایسا لگایا کہ فرس تھرا کر زمین پر گرگیا اور حُر شیر کی مانند جست کرکے اسکی پشت سے علیحدہ ھوئے.تلوار ھاتھ میں لیے ھوئے اور اس مضمون کا شعر پڑھ رھے تھے کہ
"اگر تم نے میرا گھوڑا پے کرڈالا
تو کوئی حرج نہیں
میں ایک شریف انسان کا فرزند ھوں
اور شیر سے زیادہ شجاعت کا مالک
ھوں"
دوسرے مشاھد کا بیان ھے کہ انکا سا میں نے دوسرا شمشیرزنی کرنے والا نہیں دیکھا.
اس حملہ کے ذیل میں جو پچاس انصارِ حسین علیہ السلام شہید ھوئے ان میں نہیں کہا جاسکتا کہ کون پہلے شہید ھوا اور کون بعد میں ، اس لیے ان کے حالات و واقعات حروفِ تہجی کی ترتیب سے درج کیے جاتے ھیں.
**
نمبر(13).>* ادھم بن امیہ عبدی بصری *<
قبیلہ عبد قیس سے بصرہ کے باشندہ تھے.بصرہ میں ایک خاتون تھیں ماریہ بنت منقذ عبدیہ جو شیعہ علی علیہ السلام اور محبِ اھلبیت نبوت علیھم السلام تھیں اور ان کے مکان پر اکثر شیعان علی علیہ السلام کا اجتماع ھوتا رھتا تھا.جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے کوفہ کی روانگی کا قصد کیا اور ابن زیاد بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر مامور ھوا اور بصرہ کے نئے گورنر کی جانب سے ناکہ بندی کا انتظام ھوا تاکہ کوئی شخص نصرتِ حسین علیہ السلام کےلیے بصرہ سے نہ جانے پائے تو ماریہ عبدیہ کے مکان پر یزید بن ثبیط قیسی نے نصرتِ حسین علیہ السلام کی غرض سے کوفہ کی طرف جانے کا عزم ظاھر کیا.چونکہ صریحی طور پر انکا یہ مقصد خطرے سے خالی نہ تھا کچھ زیادہ اشخاص ان کے اس عزم سے ھم آھنگ نہ ھوئے پھر بھی یزید بن ثبیط کے دو فرزند اور چار دوسرے افراد وہ تھے جنہوں نے ان کے ساتھ اتحادِ عمل کیا.چنانچہ ان سب نے اپنی جانوں پر کھیل کر مقام ابطح پر جو کہ مکہ معظمہ ھی کی حدود میں تھا امام (ع) کی ھمراھی اختیار کی.ان ھی چار اشخاص میں ایک ادھم بن امیہ عبدی بھی تھے جو روزِعاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(14).>* امیہ بن سعد بن زید طائی *<
قبیلہ طے کے بہادر ، جنگ آزما اور شہسوار تھے.حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں محسوب ھوتے تھے اور آپ (ع) کے ساھ جنگِ صفین میں شرکت بھی کی تھی اور کارِ نمایاں انجام دیا تھا.اس کے بعد انکا کوفہ میں قیام رھا.جب امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں پہنچنے کی خبر ھوئی تو گفتگوئے صلح کے دوران میں کسی عنوان سے کوفہ سے کربلا پہنچے اور امام (ع) کی ھمراھی اختیار کی یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
نمبر(15).>* جابر بن حجاج تیمی *<
قبیلہ تیم اللہ بن ثعلبہ میں سے عامر بن نہشل تیمی کے آزاد کردہ غلام تھے.کوفہ کے باشندہ اور شہسوار تھے.پہلے جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی حمایت کےلیے کمر بستہ ھوئے تھے مگر حالات کے ناسازگار ثابت ھونے کے بعد مثل دوسرے بہت سے افراد کے وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ھوگئے تھے.جب امام (ع) کے کربلا میں وارد ھونے کی اطلاع ھوئی تو وہ عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے اور خفیہ طریقہ پر اس سے علیحدہ ھوکر انصارِ امام حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(16).>* جبلۃ بن علی شیبانی *<
کوفہ کے باشندہ ، بہادر اور شجاع تھے.جنگِ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ھوئے تھے.حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی نصرت کےلیے کمر بستہ ھوئے تھے مگر حالات کی ناسازگاری کے بعد وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ھوگئے اور جب امام حسین علیہ السلام کربلا میں پہنچ چکے تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت سے کوفہ سے آکر انصارِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(17).>* جنادہ بن کعب بن حارث انصاری خزرجی *<
امام حسین علیہ السلام کی ھمراھی میں مکہ معظمہ سے متعلقین سمیت آئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(18).>* جوین بن مالک بن قیس بن ثعلبہ تیمی *<
قبیلہ بنی تیم میں سکونت رکھتے تھے اس لیے اسی قبیلہ کی طرف منسوب ھوتے تھے اور جب کوفہ کے تمام قبائل امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے کےلیے بھیجے جارھے تھے تو وہ بھی قبیلہ بنی تیم کے ساتھ عمر سعد کی فوج میں شامل ھوکر میدانِ کربلا تک پہنچے اور جب امام حسین علیہ السلام کے پیش کردہ شرائطِ صلح نامنظور کردیئے گئے اور جنگ کا ھونا قطعی قرار پاگیا تو وہ اسی قبیلہ کے چند دوسرے افراد کے ساتھ شب کے وقت عمر سعد کی فوج سے جدا ھوکر رفقائے امام (ع) کی جانب آگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(19).>* حارث بن امراءالقیس بن عابس کندی *<
شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد تھے اکثر لڑائیوں میں کارِ نمایاں انجام دے چکے تھے.ان کے مذھبی احساس اور ثبات و استقلال کا اس واقعہ سے اندازہ ھوجاتا ھے کہ وہ قلعہ بحبر کا محاصرہ کرنے والوں میں شامل تھے جب مرتدین کو اس قلعہ سے باھر نکال کر قتل کیا جانے لگا تو حارث نے اپنے حقیقی چچا پر حملہ کیا.اس نے کہا 'میں تو تمہارا چچا ھوں' حارث نے جواب دیا کہ "مگر اللہ میرا پروردگار ھے اور اسکا حکم مقدم ھے"
کربلا میں وہ بھی عمر سعد کی فوج میں داخل ھوکر پہنچے تھے لیکن شرائطِ صلح کے نامنظور ھونے کے بعد اس سے علیحدہ ھوکر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ھوگئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(20).>* حارث بن بنہان *<
ان کے والد بنہان حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیھما السلام کے غلام ، بہادر اور شہسوار تھے.جنگ اُحد میں جناب حمزہ علیہ السلام کی شہادت واقع ھوئی.اس کے دو برس بعد بنہان نے دنیا سے رحلت کی.اس سے بعد سے حارث نے جناب امیر علیہ السلام کی خدمت میں رھنا اختیار کیا اور پھر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں رھے.جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ھجرت فرمائی تو حارث بھی ھمراہ رھے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(21).>* حباب بن حارث *<
ابن شہر آشوب نے حملہ اولٰی کے شہداء میں انکا بھی نام درج کیا ھے حالات بالکل معلوم نہیں ھوئے.
**
نمبر(22).>* حباب بن عامر بن کعب تیمی *<
قبیلہ تیم اللات بن ثعلبہ میں سے کوفہ کے باشندہ شیعہ علی علیہ السلام تھے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی تھی.جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد وہ اپنے قبیلہ میں روپوش ھوگئے.جب امام حسین علیہ السلام کی کوفہ کی جانب روانگی کی اطلاع ان کو ھوئی تو وہ خفیہ طور پر کوفہ سے باھر نکلے اور راہ میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر ھمراہ رکاب ھوئے یہاں تک کہ روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(23).>* حبشۃ بن قیس نہمی *<
پورا نام و نسب حبشۃ بن قیس بن سلمۃ بن طریف بن ابان بن سلمۃ بن حارثہ ھمدانی نہمی تھا.حافظ ابن حجر کا بیان ھے کہ ان کے دادا سلمۃ بن طریف صحابہ پیغمبر (ص) میں سے تھے اور خود حبشۃ بن قیس راوی حدیث تھے.روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(24).>* حجاج بن زید سعدی تمیمی *<
قبیلہ بنی سعد بن تیم میں سے بصرہ کے باشندہ تھے.امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے روانگی کے موقع پر چند خطوط رؤسائے بصرہ کے نام روانہ فرمائے تھے جن میں سے ایک مسعود بن عمرو ازدی کے نام تھا.مسعود نے اپنے قبیلہ کے تمام اقوام بنی تمیم ، بنی حنظلہ ، بنی سعد اور بنی عامر کو مجتمع کرکے ایک تقریر کی جس میں ان کو نصرتِ امام حسین علیہ السلام پر آمادہ کرنا چاھا.جس کے نتیجہ میں ایک جماعت نے نصرتِ امام (ع) کا وعدہ کیا.مسعود نے ایک خط امام (ع) کے نام تحریر کیا جس میں حضرت کی تشریف آوری عراق پر اظہارِ مسرت کرتے ھوئے یہ لکھا تھا کہ میں نے بنی تمیم اور بنی سعد کو تمام تر آپ (ع) کی نصرت پر آمادہ کرلیا ھے اور وہ سب آپ (ع) پر اپنی جان نثار کریں گے.یہ خط حجاج بن زید سعدی کے ھاتھ روانہ کیا گیا تھا.چنانچہ وہ کربلا میں آکر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(25).>* حلاس بن عمرو ازدی راسبی *<
اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں پولیس کے افسر کی حیثیت رکھتے تھے وہ میدانِ کربلا میں عمر سعد کی فوج کے ساتھ آئے تھے مگر گفتگوئے مصالحت کے ناکام ھونے پر مخفی طریقہ سے شب کے وقت اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
**
نمبر(26).>* حنظلہ بن عمر شیبانی *<
ابن شہر آشوب نے انکا نام بھی حملہ اولٰی کے شہداء میں ذکر کیا ھے.حالات معلوم نہیں!!
**
نمبر(27).>* زاھر بن عمرو اسلمی کندی *<
اصحاب ِرسول (ص) میں سے راوئ حدیث تھے اور بیعتِ رضوان کے شرف سے بہرہ اندوز ھوئے تھے.صلحِ حدیبیہ کے بعد جنگِ خیبر میں شریکِ جہاد بھی ھوئے تھے.شجاعت انکی ممتاز صفت اور نمایاں جوھر تھا اور اھلبیتِ رسول علیھم السلام کی محبت ان کےلیے سرنامہ اعزاز.جب زیاد بن ابیہ معاویہ کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا اور عمرو بن الحمق الخزاعی نے اسکی مخالفت کا عَلم بلند کیا تھا تو زاھر بھی ان کے ساتھ تھے.جب معاویہ نے عمرو بن الحمق کی گرفتاری کا حکم بھیجا تو زاھر کے نام بھی وارنٹ جاری ھوا تھا مگر وہ روپوش ھوگئے اور قبضہ میں نہ آسکے.
سنہ 60ھ میں حجِ بیت اللہ الحرام سے شرفیاب ھوئے.اسی سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ھوئی اور وہ اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے.یہاں تک کہ امام (ع) کی ھمراھی میں کربلا آئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.اصحابِ آئمہ میں سے محمد بن سنان زاھری متوفی سنہ 220ھ جو امام علی الرضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے رواة میں سے تھے انہی کی نسل سے تھے.
**
نمبر(28).>* زبیر بن بشر خثعمی *<
حملہ اولٰی کے شہداء میں انکا بھی شمار ھے.حالات معلوم نہیں!!
**
نمبر(29).>* زھیر بن سلیم بن عمروازدی *<
شبِ عاشور جب لشکرِ یزید نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا تو وھاں سے نکل کر اصحابِ حسین علیہ السلام کی طرف آگئے اور آپ (ع) کی نصرت کرتے ھوئے حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
نمبر(30).>* سالم مولٰی عامر بن مسلم العبدی *<
اپنے مالک کے ساتھ اسی قافلہ میں جو یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ بصرہ سے مقام ابطح میں پہنچا تھا امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
نمبر(31).>* سلیم *<
امام حسین علیہ السلام کے باوفا غلام تھے اور کربلا میں نصرتِ امام حسین علیہ السلام کا حق ادا کرتے ھوئے حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
نمبر(32).>* سوار بن ابی عمیر نہمی *<
سوار بن منعم بن حابس بن ابی عمیر بن نہم الھمدانی النہمی راویانِ حدیث میں سے تھے.امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کے بعد گفتگوئے صلح کے دوران میں کربلا پہنچے تھے.روزِ عاشور حملہ اولٰی میں نصرتِ حسین علیہ السلام میں جنگ کا شرف حاصل کیا یہاں تک کہ زخمی ھوکر گر گئے.دشمن ان کو گرفتار کرکے عمر سعد کے پاس لے گئے.اس نے چاھا کہ ان کو قتل کرادے مگر ان کے ھم قبیلہ سپاھی مانع ھوئے اور انہیں بچا کر اپنے ساتھ لے گئے لیکن وہ زخمی اتنے ھوچکے تھے کہ جانبر نہ ھوسکے اور چھ مہینے تک انہی زخموں کی تکالیف میں مبتلا رھنے کے بعد انتقال کیا.
**
نمبر(33).>* سیف بن مالک عبدی *<
قبیلہ عبد قیس میں سے بصرہ کے باشندہ اور ان شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ عبدیہ کے مکان پر مجتمع ھوا کرتے تھے.یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ نصرتِ امام حسین علیہ السلام کےلیے روانہ ھوئے اور مقام ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(34).>* شبیب بن عبداللہ *<
حارث بن سریع ھمدانی جابری کے غلام ، صحابئ رسول (ص) اور حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جمل ، صفین اور نہروان تینوں لڑائیوں میں شرکت کا شرف حاصل کیے ھوئے تھے.کوفہ کے باشندہ تھے اور کربلا میں سیف بن حارث بن سریع اور مالک بن عبد بن سریع دونوں آقازادوں کی معیت میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تھے.روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
نمبر(35).>* شبیب بن عبداللہ نہشلی *<
طبقہ تابعین میں سے حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب محسوب ھوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تینوں لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے.پھر امام حسن علیہ السلام اور انکے بعد امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں اور آپ (ع) کے مخصوصین میں سمجھے جاتے تھے.جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑا اور سفرِ غربت اختیار کیا تو شبیب بن عبداللہ وھیں سے آپ (ع) کے ھمراہ رکاب رھے یہاں تک کہ کربلا میں حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
نمبر(36).>* ضرغامہ بن مالک تغلبی *<
انہوں نے کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی اور انکے شہید ھونے کے بعد وہ بھی روپوش ھوگئے.پھر عمر سعد کی فوج کے ساتھ میدانِ کربلا پہنچے اور پوشیدہ طریقہ پر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ملحق ھوگئے.یہاں تک کہ کہ حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**
نمبر(37).>* عامر بن مسلم عبدی بصری *<
بصرہ کے باشندہ، انہی شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ کے مکان پر جمع ھوا کرتے تھے.یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ وہ بھی نصرتِ امام (ع) کےلیے روانہ ھوئے اور مقامِ ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں پہنچے.پھر روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.