یہ ایک مسلم حقیقت ھے کہ ھمارا آج کا معاشرہ مختلف قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلاء ھو کر مفاسد کے بے پایاں سمندرمیں غوطہ زن ھے ۔ مادی زندگی کے اسباب و وسائل میں جتنی ترقی ھے، اسی اعتبار سے معاشرہ اخلاقی فضائل میں پیچھے ھٹ چکا ھے بلکہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ زندگی مزید مسموم اور درد ناک ھوتی جا رھی ھے ۔ جن لوگوں نے تکالیف سے بچنے کے لئے مسلسل کو ششیں کی ھیں وہ کثافت و پلیدگی کی آغوش میں جا پڑے ۔ اور اندرونی اضطرابات و باطنی رنج و غم کو بھلانے کے لئے برائیوں کے دلدل میں جا گرے ۔ اس قسم کے معاشرہ کی زندگی میں آفتاب سعادت کی ضو فشانی محال ھے ۔
معلوم یہ ھوتا ھے کہ جیسے معاشرے کے افراد نے اپنے کو ھر قید وبند اور ھر شرط سے آزاد کر کے انحطاط کے میدان میں آگے بڑھنے کی بازی لگا رکھی ھو ۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ھو گا کہ ترقی کے روز افزوں وسائل سے بر عکس استفادہ کیا جا رھا ھے ۔ مختصر یہ کہ مادی لبھانے والی چیزیں امید و آرزو کا محور بن گئی ھیں ۔ پلیدی و نا پاکی کا اھرمن معاشرہ کے اوپر اپنا منحوس سایہ ڈال کر وحشتناک طریقہ سے نمایاں ھو گیا ھے ۔ کا ش یہ بے پناہ دولت و سر سام آورثروت گمراھی و تباھی میں صرف ھونے کے بجائے اس کا ایک ھی حصہ مکارم اخلاق کی توسیع و بلندی میں خرچ ھوتا ۔ عجیب بات تو یہ ھے کہ اخلاقی قوانین ھمیشہ سے ثابت اور نا قابل تغیر رھے ھیں لیکن نہ جانے کیوں ھمارے معاشرہ میں ھمیشہ تغیر و تحول پذیر رھے ھیں ، اور مختلف صورتوں اور گونا گوں رنگوں میں نمایاں ھوتے رھتے ھیں ۔ یہ بات محتاج دلیل نھیں ھے کہ جن لوگوں کی نظروں میں فضیلت اورافراد کی شخصیت کا معیار نھیں ھے وہ لوگ قھری طور سے اس کی طرف توجہ بھی نھیں کرتے اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ھو کر جو بھی صورت زندگی میں در پیش ھو اسی پر راضی برضا رھتے ھیں ۔ ان کو اس کی کبھی فکر نھیں ھوتی کہ اس کا انجام کتنا وحشتناک ھے ؟ یھیں سے یہ بات طے ھو جاتی ھے کہ تمدن نہ کبھی اچھے اخلاق کا موجد ھوا ھے اور نہ ھی کبھی معاشرے کی سعادت و اصلاح کی ضمانت لے سکتا ھے ۔
مشھور فرانسیسی ڈاکٹر کارل کھتا ھے: ھم کو ایک ایسی دنیا کی شدید ضرورت ھے جس میں ھر شخص اپنے لئے اپنی زندگی میں ایک مناسب مکان تلاش کر سکے جس میں مادیت و معنویت کا چولی دامن کا ساتھ ھوتا کہ ھم یہ معلوم کر سکیں کہ زندگی کس طرح بسر کریں ۔ کیونکہ یہ بات تو ھم سب ھی جان چکے ھیں کہ زندگی کی گلیوں میں قطب نما اور راھبر کے بغیر چلنا بھت ھی خطرناک ھے اور اسی بات پر سب سے زیادہ تعجب ھے کہ اس کے باجود یہ خطرات ھم کو معقول زندگی کے وسائل و اسباب تلاش کرنے پر کیوں نھیں آمادہ کرتے ؟ اور صحیح بات تو یھی ھے کہ جو لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ ھیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ھے ۔ زیادہ تر لوگ اپنی من مانی زندگی بسر کرتے ھیں اور یہ لوگ آج کی مادی ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ سھولتوں کے سمندر میں غرق رھتے ھیں اور وہ کسی بھی قیمت پر تمدن جدید سے ترک استفادہ پر تیار نھیں ھیں اور نہ اس کی طرف سے چشم پوشی کے لئے آمادہ ھیں ۔ آج کی زندگی اس بڑی نھر کی طرح ھو گئی ھے جس کا پانی زمین کے نشیبی علاقہ کی طرف رواں دواں ھو ۔ اسی طرح ھماری زندگی بھی تمناؤں کے دلفریب نشیب کی طرف تیزی سے بھاگ رھی ھے اور ھر قسم کی پستی و فساد میں الجھتی جارھی ھے اور یہ صرف اس لئے کہ تمناؤں کو حاصل کر سکے اور اپنی شخصی نفع اندوزی کر سکے لوگوں نے اپنے نفوس کے لئے نئی ضرورتوں کا میدان تلاش کر لیا ھے اور بڑی شدت کے ساتھ اس میدان میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دوڑ لگا رھے ھیں ۔
لیکن اسی کے ساتھ کچھ ایسی بھی خواھشات ھیں جن کی تکمیل بھت آسان ھے، جیسے غیبت ، بکواس، سفسطہ وغیرہ حالانکہ یہ چیزیں شراب سے زیادہ نقصان دہ ھیں!
معاشرہ کی سب سے بڑی برائی جس کے بارے میں ھم بحث کرنا چاھتے ھیں ” عیب جوئی و غیبت ھے جس کے معنی کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نھیں ھے کیونکہ ھر عام و خاص اس کے مفھوم کو سمجھتا ھے ۔
source : tebyan