تحریر سید ظفر عباس نقوی
دین کی تعریف
علمائے علم کلام نے دین کی مختلف تعریفیں کی ہیں لیکن ان تعریفوں میں سے کوئی تعریف بھی حقیقی نہیں ہے ۔ کیونکہ دینی اعتباری امورمیں سے ہے اور اعتباری امور کی حقیقی تعریف (تعریف بالجنس و الفصل) ممکن نہیں ہے ۔ پس دین کے بارے میں علماء کی طرف سے بیان کی گئی تمام تعریفیں شرح الاسمی ہیں اور معنی کو ذہن کے قریب کرنے کا فائدہ دیتی ہیں۔لہٰذا ہم بھی یہاں پر تقریب ذہن کے لیے دین کی لغوی اور اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہیں۔
الف) دین کی لغوی تعریف
لغت عرب میں لفظ دین اطاعت اور اجزا کے معنی میں آیا ہے ۔صاحب مقایس اللغہ کا نظریہ ہے کہ لفظ دین کی اساس عاجزی و انکساری ہے اس لیے لفظ دین کے معنی میں آتا ہے ۔(۱)اسی طرح مفردات راغب میں بھی دین کا معنی اطاعت اور جزا بیان کیا گیا ہے ۔ استاد مصباح یزدی نے بھی عین کا لغوی معنی اطاعت اور جزاء بیان کیا گیاہے۔(۲)
واضح رہے کہ اطاعت اور فرمان برداری کے لازم اور ضروری ہونے کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کو دین کا نام دیا گیا ہے ۔قرآن مجید میں لفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے بعض مقامات پر روز جزاء اور حساب کے معنی میں آیا ہے جیسا کہ سورہ مبارکہ فاتحہ کی چوتھی آیت ، سورہ مبارکہ صفات کی ۵۳ویں آیت، سورہ مبارکہ واقعہ کی ۸۷ ویں آیت ، سورہ مبارکہ حجر کی ۳۵ ویں آیت اور سورہ مبارکہ ذراریات کی چھٹی آیت میں لفظ دین روز جزاء اور حساب کے معنی میں آیا ہے ۔
بعض مقامات پر لفظ دین قانون اور شریعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورہ مبارکہ توبہ میں ارشاد خداوندی ہے :
﴿ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْھُدٰی وَدِیُنِ الْحَقِّ﴾(۳)
بعض عنایات پر لفظ دین اطاعت اور بندگی کے معنی میں آیا ہے جیساکہ سورہ مبارکہ یونس میں ارشاد ربانی ہے:
﴿دَعَوُا اللّٰہَ مْخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾(۴)
دین کی اصطلاحی تعریف یا متکلمین کے نزدیک دین کی تعریف
دین کی لغوی تعریف اور قرآن مجید میں لفظ دین کے مختلف معانی کو ذکر کرنے کے بعد اب ہم دین کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہیں۔
مرحوم علامہ طباطبائی قرآن کی رو سے دین کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جو دنیاوی زندگی کے لیے خدا کی طرف سے بیان کی گئی خاص قسم کی راہ و روش کو دین کہتے ہیں۔جو دنیاوی زندگی کی مصلحت کے ساتھ ساتھ کمال اخروی اور خدا کے حضور دائمی اور حقیقی زندگی کا ضامن ہو۔(5)
بعض متکلمین نے دین کی تعریف یوں کی ہے:
”الدین ہو وضع الٰہی لاولی الالباب یتناول الاصول و الفروع“
صاحبا ن عقل کے لیے اصول اور فروع پر مشتمل قانون الٰہی کو دین کہتے ہیں۔
اس سلسلے میں یوں بیان کیا ہے :”الدین ہو الاعتراف باللسان و الاعتقاد با الجنان و العملو بالارکان“
زبان کے ذریعے اعتراف دل کے ذریعے اعتقاد اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کو دین کہتے ہیں۔
استاد مصباح یزدی نے دین کی تعریف یوں بیان کی ہے :
جہاں اور انسان کے خالق کا اعتقاد رکھنا اور پھر اسی عقیدے کے مطابق علمی احکام و دستورات کا قبول کرنا دین کہلاتا ہے۔(6)
مصباح یزدی کی بیان کردہ تعریف میں غور وفکر کرنے سے دو مطلب ہمارے سامنے آتے ہیں:
مطلب اوّل:
استاد مصباح کی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں جو لوگ خالق کے وجود کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کائنات کی ہر چیز مادی فعل و انفعال اور تغیر و تبدل کے نتیجے میں اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہے وہ بے دین لوگ ہیں۔
اس کے مقابلے میں جو لوگ اس جہان کے لیے خالق کے قائل ہیں وہ دینددار ہیں ۔اگرچہ اپنی عملی زندگی میں بعض خرافات کا شکار ہی کیوں نہ ہوں۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں انسانوں کے درمیان پائے جانے والے دین کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔دین حق ۲۔ دین باطل۔
دین حق وہ دین ہے جو درست اور واقع کے مطابق عقائد پر مشتمل ہو اور ایسے اعمال کو بیان کرے جن کی صحت پر کوئی نہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل پائی جاتی ہو۔
مطلب دوم:
استاد مصباح کی تعریف سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دین دو اہم ترین رکنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔
۱۔عقائد،
۲۔عقائد کے مطابق عملی احکام و دستورات البتہ عقائد کسی بھی دین کی بنیاداور اساس اور احکام اس دین کے مظاہر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دین میں پہلے رکن یعنی عقائد کو اصول اور دوسرے رکن یعنی عملی احکام کو فروع کہتے ہیں۔اور علمائے اسلام نے ھبی دین مقدس اسلام کے عقائداور احکام کے لیے اپنی دو تعبیروں کو استعمال کیا۔
یہاں تک آپ کے لیے واضح ہو گیا کہ کلامی اور عقائدی ابحاث کے مقدمہ کے طور پر لفظ دین کی وضاحت کیوں کی۔
وہ اس لیے کہ علم کلام میں اصول دین کے بارے میں بحث کی جاتی ہے لہٰذا ضروری تھا کہ اصول دین کے مسائل اور مباحث کو بیان کرنے سے پہلے لفظ دین کی وضاحت کی جائے ۔
۱۔معجم مقایس اللغہ، ج ۲، س ۳۱۹۔
۲۔آموزش عقائد، ج ۱، ص ۱۱۔
۳۔توبہ(۹) آیت ۳۳۔
۴۔یونس(۱۰) آیت ۲۲۔
5۔المیزان ، ج۱۰، ص ۱۹۵۔
6۔آموزش عقائد، ج ۱، ص ۱۱۔
source : http://mahdicentre.com/index.php?option=com_content&view=article&id=91:dinuortashau&catid=48:maqalat&Itemid=90