اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث

خطبہ غدیر کو اسلام کا دائمی منشور کھا جاتا ھے اور اس میں اسلام کے تمام پھلو کلی طورپر جمع ھیں لیکن حدیث غدیر کے متن میں علمی بحثیں عام طور سے کلمہٴ ”مولیٰ “کے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے ذہنوں کو اپنی طرف مر کوز کئے هو ئے ھیں ۔ 

یہ اس لئے ھے کہ حدیث کا اصل محور جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے اور جب بھی حدیث غدیر کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جاتا ھے یھی جملہ مد نظر هو تا ھے ۔راویوں اور محدثین نے بھی اختصار کے وقت اسی جملہ پر اکتفا کی ھے اور اس کے قرائن کو حذف کر دیا ھے ۔ 

اس سلسلہ میں قابل غور بات یہ ھے کہ خطبہ کے مفصل متن اور خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے بیان کردہ تمام مطالب کے پیش نظر غدیر میں کلمہ ”مولیٰ “کے معنی اور ولایت سے مراد تمام مخاطبین کےلئے با لکل واضح و روشن تھا اور خطبہ کے متن کامطالعہ کرنے اور خطبہ کی تمام شرطوں کو مکمل طور پر نظر میں رکھنے والے ھر منصف پر یہ معنی اتنے واضح هو جا ئےں گے کہ اس کو کسی بحث اور دلیل کی ضرورت ھی نھیں رھے گی ۔[1] 

کلمہ ٴ”مو لیٰ “کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ”امامت “،” خلافت “اور ”وصایت “ اور ان کے مانند الفاظ اس معنی کے حامل نھیں ھیں جو لفظ ”ولایت “میں مو جود ھیں اور یہ مندرجہ بالا الفاظ کے معانی سے بالا ھے ۔ 

پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی علیہ السلام کی صرف امامت یا خلافت یا وصایت کو بیان کر نا نھیں چا ہتے ھیں بلکہ آپ تو ان کے لو گو ں کے جان و مال و عزت و آبرواور ان کے نفسو ں سے اولیٰ اور ان کے تام الاختیار هو نے کو بیان کرنا چا ہتے ھیں واضح الفاظ میں آپ ان کی ”ولایت مطلقہ ٴ الٰھیہ“یعنی خدا وند عالم کی طرف سے مکمل نیابت کو بیان کرنا چا ہتے تھے اس بنا پر کو ئی بھی لفظ ،لفظ ”مولیٰ “سے فصیح اور بلیغ اورواضح نھیں ھے۔ 

اگر کو ئی اور لفظ استعمال کیا جاتا تو غدیر کے دشمن اس کو بڑی آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے یا اس کی تردید میں اتنی تلاش و جستجو نہ کرتے ،اور اگر متعدد معنی رکھنے کی بنا هو تی تو دوسرے لفظوں میں بہت آسان تھی۔وہ اس کلمہ کے معنی سے متعلق شک میں ڈال کر اس کے عقیدتی اور معاشرتی پھلو سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اس کو عاطفی اور اخلاقی مو ضوع کی حد تک نیچے لاناچا ہتے تھے ۔ 

غدیر کے مخالفین ”اولیٰ بنفس “کے وسیع معانی سے خوف کھا تے ھیں وہ اس کے معنی کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ھیں لہٰذا اس طرح ان کا مقابلہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے هوئے ۔ھم کو اس معنی پر زور دینا چا ہئے، اور اس طرح کے کلمہ کے استعمال کرنے کےلئے پیغمبر اکرم(ص) کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے جس نے ھماری اعتقاد میں ایک محکم و مضبوط بنیاد ڈالی ھے جس سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ هو تے ھیں : 

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بلا فاصلہ بارہ معصوم اماموںکی امامت و ولایت ۔ 

ان کی ولایت اور اختیار کا تمام انسانوںپر تمام زمان و مکان اور ھر حال میں عام اور مطلق هونا ۔ 

ان کی ولایت کا پروردگار عالم کی مھر سے مستند هو نا اور یہ کہ امامت ایک منصب الٰھی ھے ۔ 

صاحبان ولایت کی عصمت کا خدا وندعالم اور رسول کی مھر کے ذریعہ اثبات ۔ 

لوگوں کا ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا عھد کرناان کی طرف سے بالکل رسول اسلام(ص) کی ولایت کے عھد کے مانند ھے ۔ 

سب سے اھم بات یہ کہ اس طرح کے بلند مطالب کے اثبات کا لازمہ ،خداوند عالم کی اجازت اور انتخاب کے بغیر ھر ولایت، شرعی ولایت نھیں ھے،اس طرح ھر اس دین و مذھب کی نفی هو جا تی ھے جو اھلبیت (ع) کے علاوہ کسی اور کی ولایت کو تسلیم کرتاهو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] اس سلسلہ میں مکمل بیان اسی کتاب کے آٹھویں حصہ میں آئے گا ۔


source : http://ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام کی سب سے بڑی عید مبارک ہو/ عید غدیر کے دن کے ...
ائمہ اطہار{ع} کے پاس زرارہ کا مقام کیا تھا؟
عزاداری اور انتظارکا باہمی رابطہ
قرآنی جوان
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات ا تا 5)
درود کی برکات و فضلیت و اہمیت وجوب
قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
سفیانی کا خروج علامات حتمیہ میں سے ہے؛ سفیانی کا ...
خاتم النبیینۖ ایک نظر میں
قرآن کریم میں قَسَم کی اقسام

 
user comment