امامت کے معنی: لوگوں کے در میان دینی اور معنوی امور میں رسول خدا کی جانشینی کرنا ہے، پیغمبر کو چاہئے کہ خدا کے حکم سے امام معین کرے کیوں کہ وہی صرف جانتا ہے کہ اس کی رسالت کی سنگین ذمہ داری کو کون اٹھا سکتا ہے ۔ یہی دلیل ہے کہ گذشتہ پیغمبروں نے اپنے اپنے جانشین خدا کے حکم سے خود معین کئے مثال کے طور پر حضرت موسیٰ ع نے یوشع بن نون کو اپنی جانشینی کے لئے معین کیا ۔ حضرت سلیمان بن داوٴد نے آصف بن برخیہ کو معین کیا اور حضرت عیسی نے حواریوں کو اپنا جانشین نامزد کیا ۔
حضرت محمد - صلی الله علیه و اله و سلم -کی بعثت کے ابتدائی دنوں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بنی عامر میں سے ایک فرد نے کہ جس کا نام بعیرہ بن فراس تھا آنحضرت سے یہ عرض کیا: اگرہم آپ کی اطاعت کریں اور خداوند عالم آپ کو آپ کے دشمنوں پر فتح عطا کرے توکیا آپ کے بعد خلافت و امامت ہم تک پہونچے گی؟
پیغمبر نے فرمایا : اس امر کا تعلق خدا سے ہے اور وہ امامت کے لئے ایسے شخص کو معین کرے گا جو اس کے لئے شایستہ ہو.
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اپنی بعثت کے ابتدا ہی سے یہ تاکید کرتے تھے کہ امام خدا کے حکم سے معین ہوگا اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ پیغمبر نے اسی زمانہ میں اپنے خلفاء اور جانشینوں کو معین کردیا تھا کہ جو آپ کے اہل بیت میں سے تھے جن میں سے سب سے پہلے امام حضرت علی اور بارہویں اور سب سے آخری امام زمان حجة بن الحسن العسکری ہیں۔
امامت کے بارے میں پیغمبر کی احادیث :
مسلمانوں نے مختلف مذاہب سے اہلبیت کی امامت کے بارے میں پیغمبر کی گفتگو کو نقل کیا ہے جن میں سے ہم بعض کی طرف یہاںاشارہ کرتے ہیں ۔
۱۔حدیث ثقلین : پیغمبر نے فرمایا : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسک رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ان میں سے ایک دوسرے سے بلند ہے خدا کی کتاب ہے جو ایک رسی کی طرح آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی ہے اور دوسرے میرے اہل بیت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے اور حوض کوثر پر مجھ سے جا ملیں گے اب میں دیکھوں گا کہ میرے بعد تم ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو.
(۱)تاریخ الامم و الملوک ۲/۸۴.
۲. حدیث سفینہ: میرے اہلبیت تمہارے در میان نوح کی کشتی کی مانند ہیں جو بھی ان پر سوار ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو بھی ان سے روگردانی کرے گا وہ غرق اور ہلاک ہوجائیگا۔
۳. پیغمبر اکرم نے فرمایا : میرے بعد میرے بارہ خلیفہ اور امام ہوں گے کہ جو سب کے سب قریش سے ہوں گے .
(۱)الجامع الصحیح ،ترمذی،۵/۶۶۳.
(۲)بحار الانوار،۲۳/۱۰۵. کنز العمال،۱۲/۹۴.
(۳)الصراط المستقیم ۲/۱۰۰.
source : tebyan