بچہ جب جواني اور نو جواني کے راستہ ميں قدم رکھتا ہے اس ميں عاقلانہ تجزيہ و تحليل اور سمجھنے و برداشت کرنے کي سوچ اور فکر پيدا ہوتي ہے وہ بھي اس طرح کے پھر اپنے بزرگوں کي کسي بات کو بھي دليل کے بغير قبول نہيں کرتا، ماں اپنے بچوں کي سر نوشت اور مستقبل کے متعلق بہت زيادہ پريشان ہيں ، کہ کہيں انکا بچہ منحرف اور کجروي کا شکار نہ ہو جاے بعض ماں باپ جوانوں کے سوالوں کے بارے ميں ان کي شخصيت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوے منطقي اور عاقلانہ برتا و کرنے کے بجاے کبھي کبھي برا سلوک کرتے ہيں اور انکو خاموش کر ديتے ہيں، بڑوں کي طرف سے اس طرح کا سلوک جو عام طور پر شفقت اور ہمدردي کي بناء پر ہوتا ہے جوانوں کے لئے اپني معرفت اور تلاش کي راہ ميں مزيد مشکلات کا باعث ہو جاتا ہے وہ احساس کرتا ہے کہ والدين اس کو سمجھ نہيں سکتے يہ صورت حال جوانوں اور ان کے گھرانوں کے لئے مثبت رفتار اور برتاو کے لئے مضر ہے ”
حالانکہ علم "روان شناسي " ميں ثابت ہو گيا ہے کہ تشويش رکھنا ، جستجو کرنے کي حس اور رفتار و کردار عقلوں اور نظريات ميں غور و فکر کرنا بھي رشد و نمو کي تبديليوں ميں سے ہي ہے جو نو جوانوں کي معرفت اور عقائد ميں فطري طور پر وجود ميں آتي ہے اور يہ بات والد ين يا ساتھ ميں رہنے والے ديگر لوگوںکي پريشانيوں کا باعث نہيں ہوني چاہئے ،تاکہ تاکہ جوانوں کي ہويت (کہ وہ کيا ہيں ) فکر اور عقائد ، تشکيل پانے کے لئے زمينہ فراہم ہو سکے اس لئے کہ يہ دور نہايت حساس ، ہيجان انگيز ، عجيب اور خوشنما ، جسماني، فکري، باطني و روحاني تبديليوں کا دور ہے اور وہ بھي گذشتہ اور مزيد نئے تجربوں کے ساتھ ، بہ موقع دوسروں سے جدا ہونے کا مرحلہ نيز مستقل مزاجي اور اپني ہويت اور حقيقت کي تلاش کا مرحلہ ہے ”
لہٰذا ان لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو پانا (يعني اپني حقيقت تک پہچنا ) چاہتے ہيں اور اپنے عقائد کو تقليدي حالت سے اصلي عقيدوں ميں تبديل کرنے کے خواہش مند ہيں ”
زندگي کے مہم مسائل ميں شک کرنا وسوسہ ہونا ،تنقيد کرنا کوئي عجيب بات نہيں ہے بلکہ رشد و نمو کے دوران معمولي و عادي تبديلي ہے
قابل توجہ نکات (ضروري باتيں )
رشد و نمو کے اس مرحلہ ميں درج ذيل مسائل پر توجہ دينا بہت ہي مناسب اور بہتر ہے :
نوجواني کا دور ” بچپنہ، کمسني اور بڑھاپے کا درمےاني دور ہے جس ميں نہ وہ بچہ رہتا ہے کہ بڑوں کي ہر بات کو بے چون و چرا مان لے اور نہ ہي سن رسيدہ ہے جو اکثر تبديليوں کو اپني گذشتہ معلومات کے زخيرہ اور عاقلانہ تجزيہ و تحليل کرکےتحقيق اور چھان بين کر سکے وہ نوجون ہے ”
علم روان شناسي کے ماہرين (سائکلوجسٹ) کے کہنے کے مطابق نوجون شناخت و معرفت کے لحاظ سے اخذ کرنے والے مسائل جيسے مذہب ،اخلاق اور مختلف زندگيوں کے طور طريقو ں کو چھان بين کرنے کے بعد منظم طريقے سے اچھے برے کي تشخيص دے سکتا ہے اس کے ذہن ميں نظم و ترتيب کا لحاظ رکھتے ہوئے استدلال کيا جائے جس کے ذريعہ ايک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مختلف راہ حل ميں مقايسہ و موازنہ کرنے کا امکان اور مہترين جواب کو منتخب کرنے کا زمينہ فراہم ہو جائے فکر کے مضمون ميں وسعت اور گہرائي آجائے ”ليکن تمام فکر ي پيشرفت اور تجزيہ و تحليل کي تشکيل اور فيصلہ کي صلاحيت کے باوجود فکري قدرت اور مضبوطي کے لحاظ سے ابھي بھي بچپن اور بزرگي کے درمياني مرحلہ سے گذر رہا ہے اس کا فہم و ادراک اور فيصلہ کي طاقت اس قدر وسيع اور عميق نہيں ہوتي ہے جو نرم اور مائل ہونے کو قبولے کھلي ہوئي ،وسيع النظر اور دور جديد راہوں سے سازگار اور مناسب ہو جائے دوسرے لفظو ں ميں رشد يافتہ نوجوان ميں اس قدر پختگي نہيں ہوتي کہ اپنے استدلالوں کو ذاتي حيثيت دے سکے اور پيچيدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنے ذاتي تجربات اور اپني ذاتي روان شناسي (سائکلوجي ) کے نظام (عقل و خرد ، تحريک اچھائياں ، معاشرے ، ثقافت اور تاريخ ميں حاصل کردہ معلومات ) سے مدد حاصل کر کے لہٰذا زندگي کے بعض اصولوں ميں شک و ترديد کرنا ان کي مزيد اور عميق شناخت و معرفت کا مقدمہ ہے اور نگران و پريشان ہونے کي کوئي ضرورت نہيں ہے ”
source : tebyan