اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

جنت البقیع کے انہدام کے تاریخی عوامل

جنت البقیع مورخین کی نظر میں بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مزون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند
جنت البقیع کے انہدام کے تاریخی عوامل

جنت البقیع مورخین کی نظر میں
بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مزون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرت(ص) کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسد (ع)( والدہ امیر المومنین) (ع) بھی یہاں دفن ہیں تیسرے خلیفہ عثمان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔
ساتویں صدی ہجری میں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (ع) ( فرزند آنحضرت(ص)) عقیل ابن ابی طالب (ع)،عبداﷲ بن جعفر طیار(ع)، امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلب(ع) کی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن (ع) کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے ایک حجرہ ، موسوم بہ بیت الحزن ہے جہاں جناب سیدہ جاکر اپنے والد کو روتی تھیں۔ تقریباً ایک سو سال بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں بقیع کا جو خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش میں اضافہ کیا اور ١٨٧٨ء کے دوران دو انگریزی سیاحوں نے بیس بدل کر ان مقامات کا دورہ کیا اور مدینہ کو استنبول کے مشابہ ایک خوبصورت شہر قرار دیا۔  اس طرح گزشتہ ١٢ سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ بنا رہا جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتا رہا۔
وہابیت کی ابتدا اور فروغ:
١٣ ویں صدی ہجری کے اوائل میں حجاز کے سیاسی حالات، نے پلٹا کھایا اور جنت البقیع بھی ان کی زد سے محفوظ نہ رہ سکی، اس کی بنیادی وجہ وہابیت ہے۔ وہابیت کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی ابتدا نجد میں ہوئی، اس وقت جزیرہ نمائے عرب میں دو طاقتیں تھیں ایک نجد میں اور دوسری حجاز میں، شمال میں ترکی کی سطلنت عثمانیہ قائم تھی جس میں شام، عراق، اردن اور فلسطین بھی شامل تھے۔
١١١٥ھ کو نخد میں محمد بن عبدالوہاب نامی شخص پیدا ہوا، وہ مدینہ منورہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بصرہ، بغداد، ہمدان اور قم گیا اور حصول علم کے ساتھ ساتھ درس و تدریس میں مصروف رہا، پہلے اس نے حنبلی نظریات کو قبول کیا پھرحنبلی بیعت سے آزاد ہو کر احادیث میں اس خود استنباط ( یعنی تفسیر بالرائے) کا دعویٰ کیا۔ نتیجتاً اس کو مخالفانہ نظریات کے پرچار کی پاداش میں بستی سے نکال دیا گیا ۔ اس وقت نجد میں محمد بن سعود نامی شخص کے زیر اثر قبیلوں کا دارو مدار ہمسایہ بستیوں میں لوٹ مار کرنا اور اپنے علاقہ کی حدود بڑھانا تھا۔ محمد بن سعود نے محمد بن عبدالوہاب کو اپنے قبیلے میں پناہ دی اور دونوں کے درمیان وہابیت کے فروغ اور پرچار کرنے کا معاہدہ ہوا۔ محمد بن عبدالوہاب نے جاہل عربوں کو اپنی طرف مائل کرنے وہابیت کے نام جو عقیدہ یا Doctrine دیا اس کے رو سے اسلام میں قبر پرستی شرک ہے ۔قبور پر سائبان چھت ، قبہ، گنبد بنانا ناجائز ہی نہیں بلکہ کفر ہے اورزیارت قبور کے لئے جانا ناجائز ہے ۔معاہدہ کی رو سے محمد بن عبدالوہاب لوگوں کو وہابیت کی طرف مائل کرتا اور ان کو ابن سعود کی حمایت پرتیار کرتا اور یہ لوگ ابن سعود کی سر کردگی میں ہمسایہ علاقوں پر حملہ کرتے۔ اس طرح ابن سعود نے حجاز کے وسیع علاقہ پر قبضہ جمالیا اور محمد بن عبدالوہاب کو اپنا قاضی مقرر کیا۔خود محمد بن سعود نے بھی وہابی نظریات کو قبول کرلیا اور اس طرح وہابیت کو حجاز میں سر کاری مذہب کا درجہ مل گیا۔ محمد بن سعود کے انتقال پر ان کے بھائی عبدالعزیز بن سعود نے بھی وہ معاہدہ بر قرار رکھااور اس طرح لشکر کشی جاری رہی۔
قرآن کے سورہ حج کی ٣٢ ویں آیت میں شعائر ﷲ کی تعظیم سے متعلق صریح احکام موجود ہیں ۔ ان تمام دلائل کے باوجود بفرض محال عقیدہ وہابیت کو قابل قبول سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گزشتہ ١٤ صدیوں میں سارے عالم اسلام میں جہاں جہاں قبور کی زیارت، احترام، تعمیر مرمت اور دیکھ بھال کی گئی وہ تمام اعمال شرک، کفر اور بدعت کے زمرہ میں شمار ہوںگی۔ یعنی یہ کریڈٹ محمد بن عبدالوہاب کو جائیگا کہ ١٤ سوسال میں پہلی دفعہ اس نے اس بدعت کی نشاندہی کی۔ ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے ان نظریات کو اپنے والد کے نام کی نسبت سے وہابیت کا نام دیا جبکہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ البتہ خود ان کے اپنے نام یعنی محمد کی نسبت سے یہ عقیدہ محمدیہ کہلاتا ظاہر ہے ایسا کرنے سے ان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔ ایک اور اہم نکتہ قابل ِغور ہے کہ ١٩ ویں اور ٢٠ ویں صدی میں اسلامی دنیا میں ایک ہلچل مچی رہی یہ ایک اتفاق ہے کہ عین اس زمانہ میں جب حجاز میں وہابیت جڑ پکڑ رہی تھی دنیاکے دوسرے حصوں میں بھی احیائے اسلام کے نام پر اور تحریکیں بھی کار فرما تھیں بطور مثال سوڈان میں مہدویت، لبیا میں سنوسی، نائیجریا میں فلافی، انڈونیشیا میں پادری اور ہندوستان میں احمدیہ یا قادیانیت قابل ذکر ہیں۔ بظاہر احیائے اسلام کے نام پر یہ تحریکیں اسلام سے مرکز گریزی میں زیادہ مصروف تھیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس مسئلہ کو اسلام کے خلاف یہودیوں کی سازش کہہ کر ختم کردیں ضروری ہے کہ اس معاملہ میں تحقیق کریں اور ان تحاریک کے منبع اور مقاصد تک پہونچیں۔ (اکسفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ۔ص: ١٣)
مسلم ممالک میں فکری انتشار اور بد نظمیوں کے حوالے سے حکومت برطانیہ کے ایک جاسوس ہمفری کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ وہابیت کے پھیلاؤ اور تبلیغ کے سلسلہ میں اس کی کار روائیاں سر فہرست ہیں جو ''ہمفری کے اعترافات'' کی صورت میں قلمبند ہیں۔ ان اعترافات میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے ہمفری سے روابط کا تفصیلی ذکر ہے کہ کس طرح اس نے شیخ محمد کو اسلامی عقائد سے منحرف کیا۔ ساتھ ساتھ وہ برطانوی وزارتِ نو آبادیات کو عراق کے واقعات سے بھی آگاہ کرتا رہا اور وہاں کے لئے ایک ٦ نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا۔ ان دستاویزات کی استناد سے قطع نظر یہ بات قابل غور ہے کہ اغیار کس طرح ہماری اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران یہ دستاویزات جرمنوں کے ہاتھ لگیں تو انہوں نے برطانیہ کے خلاف پروپگنڈے کے لئے جرمنی رسالہ اسپیگل میں شائع کیا بعد میں ایک فرانسیسی رسالے ان کو شایع کردیا۔ایک لبنانی دانشور نے ان یاددواشتوں کے عربی ترجمہ کو رفاہ عام کی غرض سے چھاپ دیا۔
عرب عجم کشمکش اور تحریکِ خلافت:
حجاز میں وہابیت کی تحریک کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی افرا تفری میں مغربی طاقتوں نے ایک نیا فتنہ کھڑا کردیا۔ عربوں اور عجمیوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ اور فرانس نے ١٩١٦ء اور ١٩١٨ء کے درمیان کرنل لارنس ( جو عام طور پر لارنس آف عریبیا کہلاتا ہے) کی قیادت میں شام اور عراق کے عربوں کو ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف صف آراء کردیا مگر جنگ کے اختتام پر ( جو عرب انقلاب سے موسوم ہوئی) برطانیہ اور فرانس نے عربوں کو دھوکہ دیکر شام، عراق، فلسطین اور اردن کو باہم تقسیم کرلیا، عراق، فلسطین اور اردن برطانیہ کے تسلط یا نگرانی میں دیدیئے گئے اور شام پر فرانس کو غلبہ مل گیا۔ یمن اور نجد نیم آزاد حکومتیں بن گئیں۔ حجاز میں جس کا نجد کے ساتھ دیرینہ جھگڑا چل رہا تھا شریف حسین ایک چھوٹی سی مملکت کا حکمران تھا۔ جب عبدالعزیز ابن سعود کو اطمینان ہو گیا کہ برطانیہ کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوگی تو نجدیوں نے حجاز پرحملہ کر دیا اور سارے جزیرۃ العرب کو اپنے خاندانی حوالہ سے سعودی عرب کا نام دیدیا جواب تک رائج ہے۔ وہابیت کے فروغ میں نجدیوں کی یہ کامیابی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی کیونکہ ان کی عالم اسلام کے مرکز مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ تک رسائی آسان ہو گئی۔
اب ترکی میں ایک نئی سیاسی صورت حال پیدا ہوئی ۔ ١٩٣٤ء میں ترکی رہنما مصطفی کمال اتاتر ک نے عربوں کے معاندانہ رویوں سے تنگ آکر اور اپنی سلطنتی مصالح کے تحت سلطان محمد کی معزولی کے ساتھ عہدہ خلافت کو بھی ختم کردیا۔ گو کہ ترک حکمرانوں کے لئے ایک رسمی عہدہ تھا لیکن یہ عالم اسلام کے اتحاد اور آفاقیت کی علامت تھا اور قرن اول کی خلافتوں سے اپنی تسلسل باقی رکھا تھا۔ مسلمانان ہند کے لئے جن کو ترکی میں خلافت سے ایک ذہنی ہم آہنگی تھی ترک حکومت کا یہ فیصلہ ناگوار گزرا اور ترکی میں خلافت کے احیا کے لئے تحریک خلافت کا آغاز کیا۔ لیکن جب اس مہم میں نا کام رہے تو خلافت کمیٹی نے اپنی توجہ حجاز پر مرکوز کر دی جہاں اب عبدالعزیز ابن سعود کی حکومت تھی۔
اکتوبر ١٩٢٤ء کو مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں تحریک خلافت کمیٹی کی جانب سے سلطان عبدالعزیز ابن سعود کو ایک تار بھیجا گیا جس میں اس بات پر زور دیاگیا تھا کہ چونکہ حجاز دنیائے اسلام کا مرجع ہے وہاں کوئی انفرادی شاہی قائم نہیں ہوسکتی بلکہ ایسی جمہوریت قائم ہو جو غیر مسلم اغیار کے اثر سے پاک ہو۔ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود نے لکھا کہ حجاز کی حکومت حجازیوں کا حق ہے لیکن عالم اسلام کے جو حقوق حجاز سے متعلق ہیں ان کے لحاظ سے حجاز عالم اسلامی کا ہے اور اس ضمن میں یقین دلایا کہ آخر ی فیصلہ دنیائے اسلام کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ تو تاریخ ہی ثابت کریگی کہ اس وعدہ میں کتنی صداقت تھی۔
انہدام جنت البقیع:
عالمِ اسلام میں افراتفری کے متذکرہ تاریخی عوامل نے عبدالعزیز ابن سعود کو حجاز پر پیش قدمی کا موقع فراہم کردیا اور تمام یقین دہانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری ١٩٣٦ء میں سلطان ابن سعود نے حجاز پر اپنی حاکمیت کا اعلان کردیا۔ وہابیت جو اب ریاستی مذہب بن گئی تھی بزور شمشیر اہل حجاز پر تھوپی جارہی تھی سعودی حملہ آور جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے جنت البقیع اور ہروہ مسجد جوان کے راستہ میں آئی منہدم کردی اور سوائے روضہ نبوی کے کسی قبر پر قبہ باقی نہ رہا۔آثار ڈھائے گئے اکثر قبروں کی تعویز اور سب کی لوحیں توڑ دی گئیں ۔انہدام جنت البقیع کی خبر سے عالم اسلام میں رنج و غم کی ایک لہر پھیل گئی ساری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاجی جلسے کئے اور قرار دادیں پاس کیں جس میں سعودی جرائم کی تفصیل دی گئی۔ آنے والے سالوں میں عراق، شام اور مصر سے حج اور دیگر امور کے لئے آنے والوں پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ وہابیت قبول کریں گے ورنہ ان کو نکال دیا جائیگا۔ ہزاروں مسلماں وہابیوں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ اور مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج پر سعودی حکمرانوں نے مزارات کی مرمت کی یقین دہانی کی، یہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں تحریک خلافت کمیٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ مسلکی اختلافات کی وجہ سے خلافت کمیٹی کوئی مضبوط موقف نہیں اختیار کرسکی اور یوں یہ کمیٹی پاش پاش ہو گئی اور یہ معاملہ ختم ہوگیا ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنت البقیع کے مزارات کی تعمیر کی تحریک کو جس میں ابتداً شیعہ سنی سب برابر کے شریک تھے وقت گزرنے کے ساتھ گزشتہ ٧ دہائیوں یعنی ٧٠ سال میں میں ہمارے سنی بھائیوں نے بھلا دیا اور بالآخر یہ صرف اہل تشیع کی ذمہ داری بن کر رہ گیا ہے۔ اور یوں گزشتہ ٧٠ سال سے ہر سال ٨ شوال کو ہم یوم انہدام جنت البقیع منا کر اہلیبت (ع) سے مؤدت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں۔
ہماری ذمہ داریاں :
جنت البقیع اور عالم اسلام کے حوالے سے ہمیں ایک منظم مہم چلانی ہوگی۔ دنیائے عرب میں مراکش سے عراق تک اور عجم میں ترکی سے انڈونیشیا تک کونسی مملکت ہے جہاں بزرگان دین، سیاستدان اور عامۃ المسلمین کے مزارات مرجع خلائق نہیں ہیں۔ بقیع کوئی عام قبرستان نہیں ہے بلکہ یہاں بلا اختلاف فرقہ ہر مسلمان کے لئے قابل احترام شخصیتیں دفن ہیں۔
انہدام جنت البقیع کے واقعہ کے باوجود، حضرت سرور کائنات ؑ کے روضہ کا وجود خود ایک معجزہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت البقیع کا انہدام کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی تھی جس کی بنیاد خانوادہ اہلیبت (ع) سے دیرینہ عداوت تھی۔
دنیا میں تمام متمدن اقوام اپنے آبا و اجداد کے آثار کی حفاظت کے انتظامات کرتے ہیں۔ مصر میں اسوان ڈیم بنایا گیا تو اس سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ کے کھنڈرات کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے یونیسکو نے کثیر رقم خر چ کی۔ افغانستان کے شہر بامیان میں گو تم بدھ کے مجسموں کی توڑ پھوڑ پر ساری دنیا بشمول توحید پرستوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہا رکیا ۔لیکن ہمارے آزاد میڈیا کے لئے انہدام جنت البقیع کوئی قابل توجہ مسئلہ نہیں ہے۔آثار قدیمہ کی حفاظت حقوق انسانی کے زمرہ میں آتی ہے ہمیں سر نامہ کلام کی آیت: ''اُدع الیٰ سبیل ربک ''کے رہنما اصول پر عمل کرتے ہوئے جذبات سے بالاتر ہو کر جنت البقیع کی بحالی کے لئے قابلِ عمل پالیسی اختیار کرنا ہوگی جس کے چند بنیادی خطوط یہ ہیں۔
١۔ بین الاقوامی تنظیم مثلاً یونیسکو ، عرب لیگ، موتمر عالم اسلامی ، تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC ) اور عالمی انسانی حقوق کمیشن کو متوجہ کیا جائے۔
٢۔ اخبارات میں آئے دن اسلام کے حوالے سے جدیدیت کشادہ دلی اور صبر و تحمل کی پالسی اپنانے کی تلقین کی جاتی ہے اس پر عمل بھی کیا جائے۔
٣۔ ماضی کے سیاسی سماجی اور جنگی جرائم پر مواخذہ اعتراف اور معافی اب ایک بین الاقوامی'' طریقہ تلافی'' کے طور پر قابل قبول اصول بن گیا ہے اس اصول کا اطلاق انہدام جنت البقیع کے مرتکبین پر بھی کیا جائے۔
۴۔ ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام عقیدہ کے سنجیدہ اور انصاف پسند مسلمان بھائیوں کے تعاون سے سعودی حکمرانوں سے درخواست کیجائے کہ وہ ان مزارات کو خود بنا دیں یا پھر عالم اسلام کو اس کی اجازت دیدیں۔ خدا تمام مسلمانوں کی اس کار خیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد ۔۔ امام جعفر ...
زبان قرآن کی شناخت
استشراق اور مستشرقین کا تعارف
دس رمضان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکا یوم وفات
اخلاق کے اصول- پہلی فصل ہدایت کرنے والی نفسانی صفت
اولیاء سے مددطلبی
فضائلِ صلوات
حسین شناسی
مشکلات و مصیبت کے وقت کی دعائیں
جدید تہذیب میں عورت کی حیثیت ۔۔ ایک جائزہ

 
user comment