اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

ایران نے ’’شیطان بزرگ‘‘ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا: مصری تجزیہ نگار

مصر کے کہنہ مشق تاریخ دان، تجزیہ نگار ، روز نامہ نگار اور مصر کے مشہور تجزیہ نگار محمد حسنین ھیکل نے لبنان کے عربی روز نامہ "السفیر "کے ساتھ تفصیلی انٹرویو میں ایران اور پانچ جمع
ایران نے ’’شیطان بزرگ‘‘ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا: مصری تجزیہ نگار

مصر کے کہنہ مشق تاریخ دان، تجزیہ نگار ، روز نامہ نگار اور مصر کے مشہور تجزیہ نگار محمد حسنین ھیکل نے لبنان کے عربی روز نامہ "السفیر "کے ساتھ تفصیلی انٹرویو میں ایران اور پانچ جمع ایک کے ملکوں کے درمیان جوہری مذاکرات کے سلسلے کے اختتام پر ان کے اسباب اور نتائج کا تجزیہ کیا اور تاکید کی : یہ سمجھوتہ علاقے کی ملتوں کے لیے بہترین درس ہے ۔۔۔ ایران نے ’’شیطان بزرگ‘‘ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

اگر عرب ممالک اپنے اطراف کے طاقتور نمونوں کو اپنے لیے عمل کا نمونہ بنائیں تو اسرائیل کی نابودی کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی ۔

ھیکل نے عرب ملکوں میں جاری تغیرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ یہ صورت حال زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتی، مزید کہا : تبدیلی کے افق کا نمودار ہونا حتمی ہے اور ایک دہائی گذرنے کے بعد علاقے کو امن کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ تمام حکومتیں کہ جو اپنے زمانے کے تقاضوں اور قوموں کی خواہشوں کے ساتھ نہیں ہو سکتیں ان کی تقدیر میں سرنگوں اور نابود ہونے کے سوا کچھ نہیں ہو گا ۔

اس نے صہیونی حکومت کے مستقبل کے بارے میں بھی کہا : اسرائیل کی قسمت میں دوام نہیں ہے ۔ جب نئے عرب ملک اٹھ کھڑے ہوں گے ،اور جس وقت عرب اپنے اطراف کے زندہ ، قوی اور طاقتور نمونوں کو دیکھیں گے اور ان سے سبق لیں گے تو اسرائیل کے افسانے کی نابودی کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی ۔

سید حسن نصر اللہ کے بارے میں کیا خیا ل ہے ؟

طلال سلمان ، روز نامہ السفیر کے جنرل سیکریٹری نے ھیکل کے ساتھ اپنے انٹرویو کے بارے میں لکھا : جب میں نے استاد محمد حسین ھیکل سے ان رہبروں ،بادشاہوں اور رئیسوں کے بارے میں کہ جن کو وہ نزدیک سے جانتا ہے پوچھا تو اس نے صرف یہ کہہ کر ٹال دیا کہ سید حسن نصر اللہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

عرب ممالک کے اس مشہور تجزیہ نگار نے سید حسن نصر اللہ کو ایک طاقتور عرب رہنما قرار دیا کہ جس نے ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل کو شکست ہونی ہی ہے ،سال ۲۰۰۰ میں کہ جب اس نے لبنان کی مقبوضہ زمینوں سے پسپائی اختیار کی اور اسی طرح سال ۲۰۰۶ میں کہ جب وہ ۳۳ روزہ جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر پائی بلکہ شکست کھا گئی ۔

ایران ایسا ملک ہے کہ جس پر پابندیوں ،محاصرے اور جنگ کو تھوپا گیا ،اس نے بڑے شیطان کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا

انہوں نے جمہوری اسلامی ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان جوہری مذاکرات  کے اختتام کے بارے میں کہا : جو کچھ ہم نے گذشتہ ہفتے ویانا میں دیکھا تھا وہ پہلے سے تیار کیے گئے سمجھوتے پر دستخط تھے ۔ یہ سمجھوتہ  عربی علاقے کی ملتوں کے لیے بہترین سبق ہے ۔ ایران وہ ملک ہے کہ جس نے پابندیوں ، آٹھ سالہ جنگ اور محاصرے سے بے انتہا تکلیفیں جھیلی ہیں لیکن نہ صرف وہ اپنے پاوں پر کھڑا رہا بلکہ اس نے بڑے شیطان کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔جب تک بڑے بڑے سمجھوتے نہ ہو گئے ہوں اس وقت تک جوہری سمجھوتہ ممکن نہیں تھا ۔

جوہری سمجھوتے کی تاثیر کے بارے میں مبالغہ نہیں کرنا چاہیے

  انہوں نے ۱۹۵۱ کے اپنے ایران کے سفر کی یاد دلاتے ہوئے کہا : میں نے ایران کا پہلا سفر مصدق کے زمانے میں کیا تھا ،اس زمانے میں میری شاہ اور اس کی بہن اشرف سے جان پہچان ہوئی تھی ،اس کے بعد امام خمینی (رہ) ،[آيت اللہ العظمی امام ]سید علی خامنہ ای ،رفسنجانی اور خاتمی سے آشنا ہوا ۔۔میری نظر میں جوہری سمجھوتے  کی تاثیر کے بارے میں زیادہ مبالغہ نہیں کرنا چاہیے ۔یہ سمجھوتہ بہت اہم ہے لیکن امریکہ ایسا نہیں ہونے دے گا کہ پوری دنیا سیدھے سیدھے ایران کی طرف چلی جائے ۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ کھل کر اور مشخص طور پر ایران کے ساتھ رابطہ کرے لیکن وہ نہیں چاہتا کہ اس کے علاوہ کوئی اور اس سے رابطہ کرے ۔

مصر کے مشہور روزنامہ نگار نے امریکہ اور ایران کے درمیان اختلافی موضوعات کی اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی : امریکہ اور ایران کے درمیان تناقض اور اختلاف ختم نہیں ہوگا ،اور ایران میں ایسی حکومت کے ہوتے ہوئے اختلاف ختم نہیں ہوگا ،دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف اس سے کہیں زیادہ ہے کہ وہ حل ہو ۔

انہوں نے پہلوی شہنشاہی نظام کی سرنگونی  انقلاب اسلامیء ایران کی کامیابی ، اور امریکہ کی شاہ کو سرنگوں ہونے  سے بچانے میں ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی : امریکہ کی ایران میں نئی شکست بہت پر جوش و خروش ہو گی ۔ اب تک امریکہ کی انقلاب ایران کو اپنے ساتھ کرنے ، یا اس کی جگہ نیا نظام لانے میں شکست واشنگٹن کے  لیے بہت خطر ناک ہے کہ جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو چوٹ پہنچانے کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جائیں ۔امریکہ کے لیے بہت سخت ہے کہ وہ ایران میں ایکک مضبوط حکومت کو تسلیم کرے ۔ ۔یہ مسئلہ بہت اہم ہے ۔

وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے پر نوچ ڈالیں

محمد حسنین ھیکل نے تکفیری  دہشت گردوں کے ساتھ شام کی جنگ میں حزب اللہ کے جنگجوں کی موجودگی کی جانب بھی اشارہ کیا اور مزید کہا : شام میں حزب اللہ کی جنگ اس کا اپنا دفاع ہے اس لیے کہ اس کے وجود کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آج جو کوئی بھی ایران کو نشانہ بنا نا چاہتا ہے کہ اس کے پروں کو جہاں بھی وہ نفوذ رکھتے ہیں کاٹ دے ، حزب اللہ کی جنگ اپنی بقا اور اپنے دفاع کی خاطر ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جو مقاومت میں اس کے جواز پر تاکید کرتی ہے ،یہ ایرانی منصوبے کا ایک حصہ نہیں ہے ۔

سعودیہ کا نظام بقا کی صلاحیت نہیں رکھتا / سعودیہ یمن کی دلدل میں ڈوب جائے گا  

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں عرب ملکوں کے حالات کا جائزہ لیا اور مزید کہا : مجھے پورا شک ہے کہ سعودی عرب اپنے بحران کو پیچھے چھوڑ سکے لیکن میں نہیں جانتا کہ آخر کار کیا ہوگا ،اور یہ بحران کس طرح آگے بڑھے گا ،سعودی بادشاہ ملک سلما ن لازمی حد تک  کافی وقت نہیں دے پاتا ، اور چھوٹی نسل کے بچے متکبر ہوگئے ہیں  اور طاقت نے انہیں مغرور بنا دیا ہے ۔سعودی عرب کا نظام بقا اور استمرار کی صلاحیت نہیں رکھتا  لیکن یہ  بھی معلوم نہیں کہ اس کی جگہ کون لے گا ،اور کوئی فریق بھی اس کی جگہ لینے کی طاقت نہیں رکھتا ،اصلی مشکل سعودی عرب میں ہے ۔

عرب دنیا کے نامور تجزیہ نگار نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں کہا : سعودیہ والے یمن کی دلدل میں ڈوب جائیں گے یمن والے فقیر اور مسکین تھے اور سعودی عرب ان کے ساتھ جنگ میں کودنے کی وجہ سے ڈوب جائے گا ۔لیکن وہ بہت احتیاط سے قدم اٹھا رہا ہے ،سعودیہ والے یمن کے اندر زمینی جنگ میں نہیں کودیں گے بلکہ ہوائی حملے کرتے رہیں گے ۔

حسنین ھیکل نے خلیج فارس کے ملکوں کے ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان جوہری سمجھوتے کو ختم کرنے پر قادر نہ ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : سعودی عرب اور حوزہء خلیج فارس کے ملک اس سے زیادہ کمزور ہیں کہ وہ جوہری سمجھوتے کے خلاف ہنگامہ کھڑا کر سکیں اور اسے تحت الشعاع میں لا سکیں ۔

انہوں نے مزید کہا : باراک اوباما بہت اچھا مقرر ہے لیکن امریکہ کے قوی نظام میں کمزور صدر ہے اور ایران علاقے میں امریکہ کا مقابلہ کرنے والا واحد ملک شمار ہوتا ہے ۔

اس عرب زبان معروف مصنف نے اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ جس چیز نے حالات کو دگر گوں کیا ہے وہ ایران کی مزاحمت تھی نہ کہ باراک اوباما ، مزید کہا : امریکی کانگریس میں بہت شور ہو گا کہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کی توثیق کی جائے یا نہ لیکن آخر کار یہ شور مدھم پڑ جائے گا ۔

حسنین ھیکل  نےیہ تصریح بھی کی :مصر کی کوشش ہے کہ ایران کے نزدیک آئے ،لیکن یہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ عبد الفتاح السیسی کو تہران کے ساتھ روابط بنانے سے دور رکھا جائے ۔

ھیکل نے کہا : سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری اپنے نفوذ کا ایک مخصوص اور معین دائرہ رکھتے ہیں جس سے زیادہ کا ان کے لیے تصور نہیں کیا جا سکتا ۔

مصر کے معروف روز نامہ نگار نے شام کے بحران کے مستقبل کے بارے میں کہا : اگر ہم شام کی تقسیم کی بات کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عراق کی تقسیم کی بات کر رہے ہیں ۔

اس نے اس بات چیت کے اختتام پر تاکید کی کہ دنیائے عرب  کواپنے بحران اور ہنگامے کو ختم کرنے کے لیے۱۲ سے ۱۵ سال تک کی مدت کی ضرورت ہے ۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

لعان
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
الہی اور قرآنی نظام کا طلوع سحر
حکمت الٰہی
يہ بادِ صبا کون چلاتا ہے
پانچویں مجلس امام زمانہ
انبياء كرام (ع) سے مربوط قرآني آيات كے بعض صفات
مسلمانوں کو قرآن کي روشني ميں زندگي بسر کرني ...
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و ...

 
user comment