الف: پہلے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ وہابی عقائد کے مطابق اکثر صحابہ یا کافر ہیں یامشرک! اور اس میں وہ تمام صحابہ شامل ہیں جو پیغمبر(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) سے شفاعت طلب کرتے تھے اور آپ کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے جاتے تھے یا اسے جائز سمجھتے تھے، یا دوسروں کو یہ اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھتے،مگر بیزاری کا اظہار نہیں کرتے تھے، حتی کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل تھے اور وہ انہیں کافر یا مشرک اور ان کی جان و مال وغیرہ کو حلال نہیں قرار دیتے تھے وہ بھی اسی حکم میں ہیں!!
یہ بات وہابی عقائد کا لازمہ ہے اور ان کا موجودہ نظریہ بھی یہی ہے۔
لیکن یہ لوگ اپنی باتوں کے دوران صحابہ کا جو احترام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،در حقیقت ان باتوں کے ذریعہ یہ لوگ سادہ لوح عوام کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ اپنا اصل عقیدہ بیان کرنے سے ڈرتے ہیں لہذا ان کے خوف کی وجہ سے صحابہ کی تکفیر کے مسئلے کو صحیح انداز سے بیان نہیں کرتے ۔
ب: وہابیوں نے پیغمبر(ص) کے بعد زندہ رہ جانے والے صحابہ کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ آنحضرت (ص) کی حیات طیبہ میں آپ کے ساتھ رہنے والے صحابۂ کرام بھی ان کی گستاخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے. بانی وہابیت محمد بن عبد الوہاب کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
""اگرچہ بعض صحابہ آنحضرت (ص) کی رکاب میں جہاد کرتے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور حج کرتے تھے پھر بھی وہ کافر اور اسلام سے دور تھے""!! [الرسائل العملیۃ التسع، مؤلفہ محمد بن عبد الوہاب، رسالۂ کشف الشبہات، ص۱۲۰، مطبوعہ ۱۹۵۷ء
ج: صحابہ کے بارے میں وہابیوں کے اس عقیدہ کی تائید ان چیزوں سے بھی ہوتی ہے جو ان کے علماء اور قلم کاروں نے یزید کی تعریف اور حمایت میں تحریر کیا ہے۔ جب کہ تاریخ میں یزید جیسا ،صحابہ کا اور کوئی دشمن نہیں دکھائی دیتا جس نے صحابہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بالکل حلال کر دیا تھا نیز یزید جیسا اور کوئی ایسا شقی نہیں ہے جس نے تین دن تک اپنے لشکر کے لئے (واقعہ حرّہ میں) مدینہ کے مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو ،سب کچھ حلال کردی ہو۔
چنانچہ تین دنوں کے اندر مدینہ میں جو لوگ بھی مارے گئے وہ صحابہ یا ان کے گھر والے ہی تھے اور جن عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تاراج کی گئی ان سب کا تعلق بھی صحابہ کے گھرانوں سے ہی تھا. یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال مدینہ کی ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے یہاں ایسے بچوں کی ولادت ہوئی جن کے باپ کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔
واقعہ حرّہ سے پہلے یزید کی سب سے بڑی بربریت کربلا میں سامنے آئی جب اس نے خاندان رسالت و نبوت کی اٹھارہ (۱۸) ہستیوں کو تہ تیغ کر ڈالا جن کے درمیان آنحضرت (ص) کے پیارے نواسے اور آپ کے دل کے چین حضرت امام حسین(ع) نیز ان کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے اعزاء و اقرباء حتی کہ۶ مہینے کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔
یزید کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مکۂ مکرمہ پر حملہ کر کے خانۂ کعبہ میں آگ لگوائی۔
محمد بن عبدالوهاب
جی ہاں! وہابی حضرات اسی یزید کے قصیدہ خواں ہیں! اب اس کا راز کیا ہے ؟یہ کون بتائے!۔
ہو سکتا ہے (شاید) صحابہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے اوپر ظلم و تشدد اور ان کے ساتھ اس ناروا سلوک کی بنا پر ہی یہ لوگ یزید کی تعریف کرتے ہوں!! ...
مزید تعجب یہ کہ! یزید نماز نہیں پڑھتا تھا. اور شراب پیتا تھا۔۔۔۔۔۔اور فقہ امام ابوحنیفہ کے مطابق (وہابی حضرات جس پر عمل پیرا ہونے کے مدعی ہیں) انہیں اُس کی صرف اِسی حرکت کی بنا پر اسے کافرقرار دے دینا چاہیے مگر وہ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے معذور قرار دیتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے؟ کہ یزید کی ان تمام حرکتوں کو جاننے کے باوجود یہ لوگ اسے کچھ نہیں کہتے؟ بلکہ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے قبر پیغمبر(ص) سے شفاعت طلب کرلی یا وہ آپ کی زیارت کی نیت سے آپ(ص) کی قبر مبارک پر چلے گئے ان کو کافر قرار دیدیا، چاہے وہ بڑے بڑے صحابہ، تابعین یا مجتہدین کرام ہی کیوں نہ ہوں؟۔
کیا یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ یزید نے اصحاب پیغمبر (ص)کا خون بہایا، ان کی عزت و آبرو کو تاراج کیا اور ان کی ناموس کو ظالموں کے لئے مباح کر دیا تھا؟!
source : tebyan