اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وضو کے دو فائدے واضح اور روشن ہیں، ایک پاکیزگی اور صفائی کا فائدہ دوسرے اخلاقی اور معنوی فائدہ، شب و روز میں پانچ بار یا کم از تین بار چہرے اور ہاتھوں کو دھونا انسان کے جسم کے لئے بہت مفید ہے، کیونکہ سر اور پیروں کی کھال پر مسح کرنے سے یہ اعضا بھی پاک و صاف رہتے ہیں، جیسا کہ آئندہ فلسفہٴ غسل میں بیان کیا جائے گا کہ کھال تک پانی کا پہنچنا سمپاتھٹیک (Syapathetic) اور پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب کو کنٹرول کرنے میں بہت متاثر ہے۔
اسی طرح اخلاقی اور معنوی لحاظ سے بھی چونکہ یہ کام قربتِ خدا کے لئے ہوتا ہے، جو تربیتی لحاظ سے مو ثرہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک تیری اطاعت و بندگی میں حاضر ہوں، لہٰذا اسی اخلاقی و معنوی فلسفہ کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں اس طرح ذکر ہوا ہے:
” وضو کا حکم اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس سے عبادت کا آغاز ہوتا ہے ،(کیونکہ) جس وقت بندہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے، اور اس سے مناجات کرتا ہے تو اسے اس وقت پاک ہونا چاہئے، اور اس کے احکام پرعمل کرنا چاہئے اورگندگی اور نجاست سے دور رہے، اس کے علاوہ وضو باعث ہوتا ہے کہ انسان کے چہرہ سے نیند اور تھکن کے آثار دور ہو جائیں اور انسان کا دل خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوکر نورِ پاکیزگی حاصل کرے“۔ (1)
فلسفہ غسل میں بیان ہونے والی وضاحت سے فلسفہ وضو بھی مزید واضح ہوجائے گا۔
فلسفہ غسل
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ انسان کے مجنب ہو نے پر اسلام نے غسل کا حکم کیوں دیا ہے جبکہ صرف مخصوص عضو گندا ہوتا ہے؟!! نیز پیشاب اور منی میں کیا فرق ہے جبکہ پیشاب میں صرف پانی سے دھونا لازم ہے اورمجنب ہونے کی صورت میں تمام بدن کو دھونا (یعنی غسل کرنا) ہوتا ہے؟
اس سوال کا ایک مختصر جواب ہے اور دوسرا تفصیلی۔
مختصر جواب یہ ہے کہ انسان کے جسم سے منی نکلنے سے صرف مخصوص عضو پر اثر نہیں ہوتا ( پیشاب اور پاخانہ کی طرح نہیں ہے) بلکہ اس کا اثر بدن کے تمام دوسرے اعضا پر بھی ہوتا ہے منی کے نکلنے سے بدن کے تمام اعضا سست پڑجاتے ہیں، جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا اثر تمام بدن پر ہوتا ہے۔
وضاحت:
دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسان کے بدن میں دو طرح کے نباتی اعصاب ہوتے ہیں جن سے بدن کا سارا نظام کنٹرول ہوتا ہے، ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)“ اور ”پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب“دو طرح کے اعصاب پورے بدن میں پھیلے ہوئے ہیں اور بدن کے تمام نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، بدن ”سمپاتھٹیک اعصاب“ کا کردار بدن کے نظام میں تیزی پیدا کرنا ہے اور ”پیرا سمپاتھٹیک اعصاب“کا کردار بدن میں سستی پیدا کرنا ہے، در اصل ان دونوں کا کام گاڑی میں ریس اور بریگ کی طرح ہے، اس سے بدن میں توازن قائم رہتا ہے۔
کبھی بدن میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جن سے یہ توازن ختم ہوجاتا ہے، انھیں میں سے ایک مسئلہ ”Climax“ (اوج لذت جنسی) ہے ، اور اکثر اوقات منی کے نکلتے وقت یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔
اس موقع پر ”اعصاب پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) ”سمپاتھٹیک (Syapathetic) اعصاب“پر غلبہ کرلیتے ہیں اور انسان کا توازن منفی صورت میں بگڑجاتا ہے۔
یہ موضوع بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)اعصاب“ کے بگڑے ہوئے توازن کو دوبارہ برقرار کرنے کے لئے بدن کا پانی سے مس کرنا بھی موثر ہے،اور چونکہ جنسی لذت کا عروج ’Climax“ بدن کے تمام اعضا پرحسی طور پر اثر انداز ہوتا ہے ، لہٰذاجنسی ملاپ یا منی نکلنے کے بعداسلام نے حکم دیا ہے کہ سارے بدن کو پانی سے دھویا جائے تاکہ پورے بدن کا بگڑا ہوا توازن دوبارہ صحیح حالت پر پلٹنے میں مدد مل سکے۔ (1)
البتہ غسل کا فائدہ اسی چیز میں منحصر نہیں ہے، بلکہ غسل ان کے علاوہ ایک طرح کی عبادت بھی ہے جس کے اخلاقی اثر کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اور اسی وجہ سے اگر نیت اور قصد قربت کے بغیرغسل انجام دیا جائے تو انسان کا غسل صحیح نہیں ہے، در اصل ہمبستری کرنے یا منی کے نکلنے سے انسان کا جسم جیسا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اٴنّ الجَنابَةَ خَارجةٌ مِن کُلِّ جَسدہ فلذلکَ وَجَبَ عَلَیہ تَطْہِیر جَسَدہ کُلّہ“ (جنابت پوری بدن سے باہر نکلتی ہے لہٰذا پورے بدن کو پانی سے دھونا (یعنی غسل کرنا) واجب ہے)
(وسائل الشیعہ، جلد اول صفحہ ۴۶۶) یہ حدیث گویا اسی چیز کی طرف اشارہ ہے بھی گندا ہوجاتا ہے اور اس کی روح بھی مادی شہوات کی طرف متحرک ہوتی ہے اور جسم سستی اور کاہلی کی طرف، غسل جنابت سے انسان کا جسم بھی پاک و صاف ہوجاتا ہے اور چونکہ قربت کی نیت سے انجام دیا جاتا ہے اس کی روح بھی پاک ہوجاتی ہے، گویا غسل جنابت کا دوہرا اثر ہوتا ہے، ایک جسم پر اور دوسرا انسان کی روح پر، تاکہ روح کو خدا اور معنویت کی طرف حرکت دے اور جسم کو پاکیزگی اور نشاط کی طرف۔
ان سب کے علاوہ ، غسل جنابت کا وجوب بدن کو پاک و صاف رکھنے کے لئے ایک اسلامی حکم ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے مل جائیں گے جو پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں کرتے، لیکن اس اسلامی حکم کی بنا پر وہ گاہ بہ گاہ اپنے بدن کی گندگی کو دور کرتے ہیں، اور اپنے بدن کو پاک و صاف رکھتے ہیں، اور یہ چیز گزشتہ زمانہ سے مخصوص نہیں ہے (کہ لوگ گزشتہ زمانہ میں مدتوں بعد نہایا کرتے تھے) بلکہ آج کل کے زمانہ میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو بعض وجوہات کی بنا پر صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے، (البتہ اسلام کا یہ حکم ایک عام قانون ہے یہاں تک کہ جن لوگوں نے ابھی اپنے بدن کو دھویا ہو ان کو بھی شامل ہے)، (یعنی اگر نہانے کے بعد مجنب ہوجائے تو بھی غسل کرنا واجب ہے۔)
مذکورہ تینوں وجوہات کی بنا پر یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ منی نکلنے کے بعد (چاہے سوتے وقت یابیداری کی حالت میں ) اور اسی طرح ہمبستری کے بعد (اگرچہ منی بھی نہ نکلی ہو) غسل کرنا کیوں ضروری ہے (2)
بشکریہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام
حوالہ جات :
(1) وسائل الشیعہ ، جلد۱ ، صفحہ ۲۵۷
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ
source : tebyan