ترجمہ:
محمد عیسیٰ روح اللہ
تصحیح:
حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
پیشکش:
امام حسین فاؤنڈیشن قم
مقدمہ
آیات اور روایات کے مطابق قبر وہی برزخ ہے۔ یہ قبر جو کہ ایک گھاٹی اور گھاؤ ہے اور ہمارے مادی بدن کو اس میں رکھا جاتا ہے جب بدن اس میں مستقر ہو جاتا ہے تو اس کا دنیائی نظام سے کوئی رابطہ نہیں رہتا ہے اور ایک نئے نظام کا آغاز ہو جاتا ہے اس کو عالم برزخ کہا جاتا ہے اور قیامت آنے تک پھر انسان کے مادی بدن سے کوئی سر و کار نہیں رہے گا۔ پس اگر قبر کی سختی اور فشار، نکیر و منکر کے سوالات، وحشت قبر جیسی عبارتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں تو ان سب سے مراد وہی عالم برزخ ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ برزخ کیا ہے؟ تو آپ ع نے فرمایا: برزخ وہی قبر ہے جس میں انسان مرنے کے بعد سے قیامت تک رہے گا ۔ اس زمانی فاصلے کا نام برزخ ہے۔ وہ گھڑی جس میں انسان کی روح بدن سے نکل جاتی ہے بہت ہی عجیب گھڑی ہے بلکہ مرنے کے بعد وہ شروع کے ایام بھی بہت عجیب ایام ہیں کہ روح اور جسم کا رابطہ تو ٹوٹ گیا ہے اور ابھی تک اس برزخ والی دنیا سے مانوس نہیں ہوا ہےسالوں اسی مادی جسم کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس حد تک وہ حیران اور سرگردان ہوجاتا ہے کہ ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں پاتا ہے کہ وہ کون ہے۔ اب بھی خیال کرتا ہے کہ اسی مادی جسم میں ہے یعنی اب بھی اسی مادی جسم کو سب کچھ سمجھتا ہے جسے قبر میں رکھا گیا ہے ۔ اسے اتنی مدت گزرنے کی ضرورت ہے کہ عالم برزخ سے مانوس ہوجائے اور اس مادی دنیا سے دور ۔
(مترجم) قرآن کریم نے کئی ایک جگہوں پر ان لمحوں کی سختیوں کو بیان کیا جیسے سور مبارکہ ق میں آیا ہے کہ :
﴿وَ جَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ ﴾
موت کی غشی حقیقت بن کر آ گئی یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔1
اور اسی طرح سورہ مبارکہ مومنون میں بھی خدا فرماتا ہے:
﴿حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَ مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾-2
۔ (یہ غفلت میں پڑے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ لے گی تو وہ کہے گا: اے پروردگار! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے، ۔ جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں،-3
ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہدے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔-4
دین میں بہت زیادہ تاکید کے ساتھ سفارش ہوئی ہے کہ موت کی ان گھڑیوں میں اس کے ساتھ نیک برتاؤ کیا جائے حیرانی و پریشانی کی اس گھڑی میں اس کی مدد کی جائےتاکہ وہ خود کو آہستہ آہستہ کسی اور دنیا کے لیے تیار کر سکے اور وہ اپنے آپ کو درک کر لے کہ کہاں ہے۔
میت کے دفن کے سلسلے میں دین کی سفارشیں
پہلا قدم: غسل اور اس کے آداب
سب سے پہلے دین نے حکم دیا ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت گرم پانی اس کے اوپر نہ ڈالا جائے اور ادب کی رعایت کی جائے۔ روایات میں ہے کہ اس کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آئیں۔چونکہ ابھی میت اسی جگہ حاضر ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہی بدن ہے جس میں وہ دوگھڑیاں پہلے تھا ۔ غسل کرتے وقت دائیں بائیں پہلو بدلنے سے اسے اذیت ہوتی ہے۔ وہ درخت کے تنےکی طرح نہیں ہے کہ جو بھی من میں آئے اس کے ساتھ انجام دیا جائے اور گرم گرم پانی اس کے اوپر ڈالا جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: خدا اس انسان پر غضب کرے جو ضعیف اور کمزور مومن کے ساتھ نیک برتاؤ نہ کرے ۔ یہ میت بھی ابھی ضعیف مومن ہے ہر جگہ سے اس کا ہاتھ کوتاہ ہوا ہے اب وہ کسی کام پر قادر نہیں ہے پس اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔
دوسرا قدم: تشییع جنازہ کے آداب
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: بہتر ہے کہ مرحوم کی خبر مرگ مومن بھائیوں کو دی جائے تا کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہوں ، اس پر نماز پڑھیں اس کے لیے استغفار کریں اور میت کو اور ان کو بھی ثواب ملے۔
اور پھر جب اس کے بدن کو قبر کی طرف لے جارہے ہوں گے تو آہستہ آہستہ لے جائیں۔ جلدی نہ کریں ۔ لے جا کر اسے یوں ہی قبر میں نہ رکھیں ابھی تک اس نے خود کو نہیں پایا ہے اس پر بہت ہی سخت ہے کہ اس کا بدن کسی گھاٹے میں داخل کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : قبر سے چند قدم فاصلے پر میت کو زمین پر رکھ دیں، کچھ لمحے ٹھہرنے کے بعد اسے زمین سے اٹھائیں۔ پھر چند قدم چل کر اسے دوسری مرتبہ زمین پر رکھ دیں۔ پھر چند لمحوں بعد اسے اٹھائیں اور چند قدم آگے لے جائیں ۔تیسری مرتبہ پھر اسی کو تکرار کریں، اس مرتبہ اسے قبر کے کنارے زمین پر رکھ دیں، چونکہ قبر بہت زیادہ ہولناک جگہ ہے میت کو تیار ہونے دیں۔ چوتھی مرتبہ پھر اسے اٹھائیں اور قبرمیں رکھ دیں۔ کس قدر اچھا ہے کہ لوگ ان آداب کو جان لیں اور ان کی رعایت کریں بعض لوگ تو دفن کے وقت زیارت عاشورا پڑھتے ہیں اسی طرح قرآن، درود اور دعاؤں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم ان دعاوں اور دورود و قرآن کا میت سے کیا رابطہ ہے لیکن ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ چیزیں اسے خود کو پانے کے لئے مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔-5
(مترجم) امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ جب مومن کو قبر میں لٹاتے ہیں تو اسے آواز آتی ہے کہ سب سے پہلی عطا جو ہم نے تم پر کی ہے وہ بہشت ہے اور جو لوگ تیرے جنازے کے ساتھ آئے ہیں ان پر ہم نے سب سے پہلی عطا یہ کی ہے کہ ان کے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔
ایک اور حدیث میں آپ(ع) فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر میں جو سب سے پہلا تحفہ دیا جاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں جو شخص کس مومن کے جنازے کے ہمراہ جاتا اور اس کے دفن تک وہاں رہتا ہے تو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن ستر ملائکہ کو حکم دے گا کہ وہ قبر سے اٹھائے جانے سے حساب کے موقع تک اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے استغفار کرتے رہیں۔
نیز فرماتے ہیں :جو شخص جنازے کے ایک کونے کو کندھا دے گا تو اس کے پچیس کبیرہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جو شخص (بہ ترتیب) چاروں کونوں کو کندھا دے گا تو وہ گناہوں سے بری ہوجائے گا۔
جنازے کو چار افراد اٹھائیں اور جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے میت کے داہنے ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا بایاں پہلو ہے وہاں اپنا دایاں کندھا دے پھر میت کے دائیں پاؤں کی طرف آکر کندھا دے، اس کے بعد میت کے بائیں ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا دایاں پہلو ہے، وہاں بایاں کندھا دے اور میت کے بائیں پاؤں کی طرف آئے اور آکر اس کونے کو بائیں کندھے پر اٹھائے۔اگر وہ دوسری مرتبہ چاروں اطراف کو کندھا دینا چاہے تو جنازے کے آگے سے پیچھے کی طرف آئے اور مذکورہ طریقے سے اسے کندھا دے۔ اکثر علماء اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ جنازے کے داہنی طرف سے ابتدا کرے یعنی میت کے دائیں طرف سے کندھا دے۔ لیکن معتبر احادیث کے مطابق پہلا طریقہ اچھا ہے اور اگر دونوں طریقوں سے جنازے کو کندھا دے تو بہت بہتر ہے۔ جنازے کے ساتھ چلنے میں افضل طریقہ یہ ہے کہ جنازے کے پیچھے چلے یا اسکے دائیں بائیں رہے، لیکن جنازے کے آگے ہرگز نہ چلے، اکثر حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ جنازہ مومن کا ہوتو اس کے آگے چلنا بہتر ہے ورنہ پیچھے چلنا ہی مناسب ہے؛ کیونکہ ملائکہ اس کیلئے عذاب لے کر آگے سے آتے ہیں۔ جنازے کے ساتھ سوار ہوکر چلنا مکروہ ہے۔
تیسرا قدم: دفن اور اس کے آداب
اس کے بعد جب اسے قبر میں رکھ رہے ہوں تو اس کو ہلاتے جھنجھوڑتے ہوئے تلقین کریں یعنی جو شخص قبر کے اندر گیا ہوا ہے وہ میت کو یاد دلائے کہ کہاں ہے کیا کرنا ہے اسے سمجھائے کہ اب اپنے حواس کو سمیٹ لے خوف نہ کھائے جب دو مقرب فرشتے آئیں اور تم سے سوال کریں تو تمہیں اس طرح جواب دینا ہے۔ میت چونکہ حواس باختہ اور حیران ہے یہ چیزیں اس کے لئے سود مند ثابت ہوتی ہیں۔
چوتھا قدم : بعد از دفن کے آداب
دفن کرنے کے بعد اب میت کے دورو نزدیک کے رشتے دار (جن کے ساتھ میت اپنی زندگی میں مانوس تھا ان کی آواز میت کے لئے آشنا ہے) اس کے پاس رہیں اور ایک بار پھر اسے تلقین کریں اور یاد دہانی کریں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنے وصیت نامہ میں امیر المومنین علیہ السلام سے فرماتی ہیں کہ مرنے کے بعد میرے سرہانے بیٹھیں یقینا یہ گھڑی ایسی گھڑی ہے جس میں میت کو ان لوگوں کی ضرورت ہے جن کے ساتھ یہ زندگی میں مانوس تھا ایک دم اسے اکیلا نہ چھوڑیں۔
بہت افسوس کا مقام ہے کہ آج کل بعض جگہوں پر لوگ میت کے رشتے داروں کو مجبورا قبر سے دور کر دیتے ہیں ۔ شاید بعض رشتہ داروں میں تحمل نہ ہو اور وہاں حد سے زیادہ جزع فزع کریں لیکن یہ جزع و فزع اس طرح ہو کہ ان لمحات میں میت کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔ اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے بعض وہاں رہیں اور تلقین کریں اور یہ کام قدم بہ قدم میت کے لیے مفید ہے اس لئے کہ میت کی ایسی فریادیں ہیں جن سے ہم واقف نہیں ہیں۔
مرحوم آیت اللہ انصاری ہمدانی رضوان اللہ علیہ جو کہ شہید دستغیب کے استاد تھے فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ ہمدان میں کسی شخص کی میت کو لوگ کاندھوں پر اٹھا کے لے جارہے تھے کہ میں نے اسے برزخی جسم میں تابوت کے اوپر دیکھا میرے علاوہ کوئی دوسرا اسے نہیں دیکھ رہا تھا، میں دیکھ رہا تھا کہ اسے کسی بہت ہی تاریک جگہ لے جا رہے ہیں وہ کہنا چاہتا تھا کہ خدایا مجھے نجات دے لیکن اس کی زبان سے لفظ "خدا" ادا نہیں ہو رہا تھا۔ میں اسے جانتا تھا وہ بہت ہی ستمگر حاکم تھا وہ لوگوں کو التماس کر رہا تھا کہ اسے نہ لے جائیں ۔ ایسے حالات اس کو پیش آئے کہ ہم اسے درک نہیں کر سکتے ہیں درد بھرے لمحات اور حیرانی کا ایک عجیب عالم ہے۔
قبر کی پہلی رات
پہلی رات وہی ہے جس میں میت دفن ہوتی ہے قیامت کے برخلاف برزخ میں ٹھیک اسی دنیا کی طرح دن رات ہوتے ہیں لیکن قیامت میں سورج ، چاند، دن اور رات کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ برزخ میں ابھی بھی دن رات ہے ۔ قرآن کریم میں فرعونیوں کے بارے میں آیا ہے کہ صبح و شام ان پر آگ برسائی جاتی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
یہ آیت برزخ کے بارے میں ہے کہ صبح و شام کا ذکر کیا ہے چونکہ قیامت میں دن رات کا تصور نہیں ہے ۔ برزخ میں انسان کسی دوسری دنیا سے واقف ہو جاتا ہے نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور پہلی رات اس عالم کی پہلی رات ہے اپنے تمام تر ڈر اور خوف کے باوجود تاریک بھی ہے ۔کیا کسی میں یہ جرأت ہے کہ اس تاریک قبر میں ایک رات کے لیے سو سکے ؟
اب یہ شخص ایک طرف سے ایک اجنبی اور ناواقف عالم میں عجیب و غریب لوگوں سے ملاقات کہ بعض چہرے انتہائی خوفناک اور ڈراؤنے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے بچھڑنے کا غم جن کے ساتھ اس نے ایک زندگی گزاری ہے یہ سب اسے ایک حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے : میت کے لیے سب سے المناک گھڑی قبر کی پہلی رات ہے ۔ یہ وہی رات ہے جس میں اسے دفن کیا گیا ہےلیکن ابھی تک اس نے اپنے آپ کو نہیں پایا ہے اور اس تنگ و تاریک جگہ میں رہنا نہیں چاہتا ہے، اس میں رہنے سے اسے خوف ہونے لگتاہے ۔ ہاں اس عالم میں روح کا بدن سے کوئی تعلق نہیں یعنی روح اب بدن کو کنٹرول نہیں کر سکتی ہے لیکن ہمیشہ اس سے مانوس رہتی ہے اسی لئے جو لوگ قبر پر آتے ہیں میت ان کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ان سے مانوس ہوتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مر جاتے ہیں تو بیدار ہوجاتے ہیں۔-6
مرنے کے بعد اعمال کا رابطہ ٹوٹ جانا
قبر، دنیا کی آخری منزل اور آخرت کی پہلی منزل ہے یہاں سے کسی بھی حال میں دنیا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں ہے۔ مرنے کے ساتھ تمام ذمہ داریوں نماز و روزہ اور باقی احکام الہی سے وہ آزاد ہو جاتا ہے شک و تردید کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور آخرت پر ایمان کامل ہو جاتا ہے۔لیکن یہ ایمان اس کے کسی کام نہیں آئے گا۔ ایمان اس وقت کامیابی کا ضامن بن سکتا تھا جب وہ غیب پر ایمان لے آتے لیکن اب جب کہ کوئی چیز غیب نہیں رہی سب حقایق عیاں ہو گئے ہیں، انسان نے اپنے ارادے کے بغیر قدرت الہی کے سامنے خود کو تسلیم کردیا، ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسے اعمال صالحہ میں اب اضافہ ممکن نہیں ہے؛ ہاں اگر وہ خود اپنے لئے باقیات الصالحات چھوڑ آیا ہے یا اس کے پسمندگان اس کے لیے بھیج دیں تو آج اس کے کام آئے گا، جس طرح عمل صالح میں اضافہ ممکن نہیں ہے اسی طرح اس کے گناہوں سے بھی کسی گناہ کے کم ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے؛ مگر وہ اعمال صالحہ دنیا میں چھوڑ آیا ہے جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں یا کوئی اس کے لیے استغفار کرے۔ پس قبر ہمیشہ مشکلات اور حسرت کے عذاب سے عبارت ہے، یقین نہ کرنے کی حسرت، ایمان نہ لانے کی حسرت، مواقع اور فرصتوں کو ضایع کرنے کی حسرت، اعمال کو ریاکاری اور دکھاوا کے لیے انجام دینے کی حسرت، اور ہزاروں حسرتیں۔۔۔۔
پہلی رات کی آمد
قبر کی سختیوں سے بچنے کے لئے امام صادق ہر صبح و شام یہ دعا پڑھتے تھے:
إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ ضَغْطَةِ الْقَبْرِ وَ مِنْ ضِيقِ الْقَبْرِ-7
خدایا میں قبر کی تنگیوں، فشار اور سختیوں کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہے۔
جوں ہی وہ قبر میں وارد ہوتا ہے قبر کی پہلی رات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اور ان لمحات کی سختیوں کا تحمل کرنا اس کے لئے سخت ہے ۔ دوسری دنیا سے واقف ہونے ، سختیوں کو جھیلنے کے لیے خود کو تیار کرنے، نکیر و منکر کے سوالوں کے جواب دینے وغیرہ کے لیے پہلی رات آغاز ہےاسی لیے یہ رات اس کے لیے دردناک رات ہےاور کسی کا بھی وہاں سے بھاگنا ممکن نہیں ، اور اگر اسی مادی دنیا میں اس کی سختیوں اور شدائد سے متعلق اسے علم ہوجائے تو اسی مادی دنیا میں انسان اپنے لیے نجات کا راستہ ڈھونڈ کر ان سختیوں سے بچ سکتا ہے اور دنیا میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے عشق و عقیدت کی وجہ سے قبر میں بھی ان ہستیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتا ہے اگر چہ قبر کی پہلی رات بہت ہی سخت خوفناک اور ڈراؤنی ہے لیکن مومن کے لیے اللہ کے فرشتوں، اپنے نیک اعمال اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تشریف آوری کی وجہ سے بہت ہی آسانی ہو جائے گی، بلکہ مومن اور کافر کی پہلی رات بالکل الگ تھلگ ہے مومن آسایشوں میں اور کافر سختیوں میں ہوں گے۔
نکیر و منکر
اس رات کے اہم واقعات میں سے ایک نکیر و منکر کے سوالات ہیں احادیث (جو کہ تواتر کی حد تک ہیں) کے مطابق، یہ دو فرشتے (جو بہت ہی رعب دار اور کریہہ المنظر ہیں) خدا کی طرف سے اس قبر میں نو وارد انسان کے اعتقادات کی جانچ پڑتال پر مامور ہیں ۔ بعض روایتوں کے مطابق ان دونوں کو "قبر کے چوکیدار"بھی کہا گیا ہے یہ دونوں فرشتے پہلی رات قبر میں آجاتے ہیں ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف بیٹھتے ہیں اور شفاہی امتحان شروع کرتے ہیں۔
یہ سوالات اہم اہم عقاید کے بارے میں ہیں: جیسے رب کون ہے؟ پیغبر کون ہے؟ امام کون ہے/ جوانی کو کن کاموں میں گزار دیا ؟ وغیرہ پوچھے جاتے ہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا دَخَلَ حُفْرَتَهُ يَأْتِيهِ مَلَكَانِ: أَحَدُهُمَا مُنْكَرٌ وَ الْآخَرُ نَكِيرٌ، فَأَوَّلُ مَا يَسْأَلَانِهِ عَنْ رَبِّهِ وَ عَنْ نَبِيِّهِ وَ عَنْ وَلِيِّهِ، فَإِنْ أَجَابَ نَجَا، وَ إِنْ تَحَيَّرَ عَذَّبَاه -8
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: بندہ جب قبر میں داخل ہو جاتا ہےتو دو فرشتے آئے ہیں ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے پس سب سے پہلے اس کے رب کے بارے میں، نبی کے بارے میں اور امام کے بارے میں سوال کریں گے اگر ٹھیک جواب دیا تو وہ نجات پائے گا لیکن اگر جواب نہ دے سکا تو اسے عذاب میں مبتلا کریں گے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : نماز ، دین کے واجبات میں سے ایک ہے اور ملک الموت کے پاس سفارش کرے گی، قبر میں انسان کے لیے مونس ہے اور نکیر و منکر کےسوالوں کا جواب بھی نماز ہے۔-9
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے: انسان کو جب قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو دو فرشتے (نکیر و منکر) اس کے پاس آتے ہیں اس حال میں کہ اپنے بالوں کو زمین پر کھینچتے ہوئے دونوں پاؤں سے زمین کو چیرتے ہوئے آئیں گے ان کی آواز گرج اور بجلی کی آواز کی طرح ہو گی ان کی آنکھیں سخت بجلی کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوں گی۔ انسان سے پوچھیں گے تیرا پروردگار کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ خدا میرا پروردگار ہے، اسلام میرا دین اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا نبی ہے ۔ اس وقت وہ دونوں اس سے کہیں گے خدا تم کو اسی پر جس پر تو راضی ہے ثابت قدم رکھے۔ اس کے بعد وہ دونوں فرشتےاس کی قبر کو وہاں تک گشادہ کریں گے جہاں تک اس کی بینائی کام کرے گی اور اس کی قبر سے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیں گے --10
فرشتہ
روایات میں آیا ہے جس رات انسان کو قبر میں رکھے جاتے ہیں منکر اور نکیر علیہما السلام تشریف لاتے ہیں ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں خیرہ کرنے والی، اگلے دو دانتوں سے زمین پر لکیر کھینچتے ہوئے گرج اور بجلی کی سی آوازیں نکالتے ہوئے آئیں گے اگر وہ انسان مومن ہے تو ان لمحات میں اس کا ہوش و حواس اور عقل ٹھکانے رہے گا اور اپنے صحیح جوابات کے ذریعے سختیوں کو خود سے دور کرے گا اور اس کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی لیکن اگر وہ انسان کافر اور فاسق ہے تو وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا اس کے لیے قبر ایک گھاٹی ہے جہنمی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی ۔
اگر روایات میں "نکیر اور منکر کے شر" یا "نکیرین کا خوف" جیسی عبارتیں آئی ہیں تو اس کا مطلب وہ ڈر اور اضطراب ہے جو میت کو ان دونوں فرشتوں کو دیکھنے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے؛ اسی لیے مشکلات سے بچنے اور سختیوں سے نجات کے لیے سورہ ملک کی تلاوت کرنے کی سفارش ہوئی ہے اسی طرح بعض دعائیں بھی وارد ہوئی ہیں جن کا ان کٹھن لمحات میں پڑھنا میت کے لیے آسانی کا باعث ہوتا ہے۔
اسی طرح میت کے رشتے داروں کو سفارش کی گئی ہے کہ دفن کے بعد اسے اکیلا نہ چھوڑا جائے اور تلقین کی جائے تاکہ نکیرین کے سوالوں کے جواب دینے میں اسے آسانی ہو سکے۔-11
بعض روایات کے مطابق قبر میں سوال جواب تمام لوگوں سے نہیں بلکہ بعض خاص لوگوں سے ہوگا جو کافر محض یا مومن محض ہوگا اس سے سوال جواب ہوگا لیکن جولوگ ان کے درمیان ہوں گے ان کا حساب و کتاب قیامت کے دن ہوگا۔
لَا یُسْأَلُ فِی الْقَبْرِ إِلَّا مَنْ مَحَضَ الْإِیمَانَ مَحْضاً أَوْ مَحَضَ الْكُفْرَ مَحْضاً وَ الْآخَرُونَ یُلْهَوْنَ عَنْهُم
قبر میں سوال نہیں ہو گا مگر صرف ان لوگوں سے جو خالص ایمان یا خالص کفر کے حامل ہوں گے۔
یہ روایتیں کسی اور انداز میں بھی ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ۔ ابو بکر حضرمی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا : من المسئولون فی قبورهم کن لوگوں سے ان کی قبروں میں سوال ہوگا؟تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ لوگ جن کا ایمان یا کفر خالص ہو گا۔
اس کے بر عکس بعض روایات میں ہے کہ یہ سوال و جواب کسی خاص گروہ یا شخص سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سب کے سب نکیریں کی پوچھ تاچھ کی لپیٹ میں آئیں گے۔ بعض علماء معتقد ہیں کہ دقیق سوالات یعنی اعمال کی پوری چھان بین توصرف خالص مومن اور خالص کافر سے ہو گی لیکن باقی لوگوں سے اہم اہم سوالات کئے جائیں گے جزئیات اور چھوٹے چھوٹے اعمال سے متعلق قبر میں سوال نہیں ہوگا -12
شاید یہی وجہ ہوگی کہ بعض لوگ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بغیر جنت اور جہنم میں جائیں گے لیکن باقی لوگوں کے اعمال کا پوری دقت کے ساتھ حساب کتاب ہوگا۔
قبر کی سختیوں سے نجات کی راہیں
نکیر اور منکر کے سوالوں کا آسانی سے جواب دینے اور قبر کی عذاب سے بچنے کے لیے بعض اعمال کے انجام دینے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہیں ۔
نماز
ضمرہ بن حبیب کہتا ہے کہ نماز کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال ہوا تو آپ ص نے فرمایا : نماز دین کے واجبات میں سے ایک ہے اور نماز ملک الموت کے سامنے سفارش کرنے والی، قبر میں مونس اور نکیر و منکر کے لئے جواب ہے۔-13
نماز شب
اسی طرح نماز شب کے بارے میں امام صادق علیہ السلام اپنے آباء سے اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز شب خدا کی رضایت ، فرشتوں سے دوستی ، قبر میں انیس و مونس اور نکیر و منکر کے سوالوں کے جواب کا باعث بنتی ہے۔
لیلۃ الرغائب کی نماز
ماہ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو لیلۃ الرغائب ﴿رغبتوں والی رات﴾ کہا جاتا ہے اس شب کیلئے رسولخدا سے ایک نماز نقل ہوئی ہے کہ جس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جنہیں سیدنے اقبال اور علامہ مجلسی نے اجازہ بنی زہرہ میں ذکر کیا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی برکت سے کثیر گناہ معاف ہو جائیں گے اور قبر کی پہلی رات یہ نماز بحکم خدا خوبصورت بدن، خندہ چہرہ اور صاف و شیرین زبان کے ساتھ آکر کہے گی اے میرے حبیب خوشخبری ہو تجھے کہ تو نے ہر تنگی و سختی سے نجات پالی ہے وہ شخص پوچھے گا تو کون ہے؟خدا کی قسم میں نے تجھ سے خوبصورت اور شیرین کلام اور خوشبو والا کوئی نہیں دیکھا؟ وہ جواب دے گی میں تیری وہ نماز اور اس کا ثواب ہوں جو تونے فلاں رات فلاں ماہ اور فلاں سال میں پڑھی تھی آج میں تیرے حق کی ادائیگی کیلئے حاضر اور اس وحشت و تنہائی میں تیری ہمدم و غمخوار ہوں کل روز قیامت جب صور پھونکا جائے گا ۔ تو اس وقت میں تیرے سر پر سایہ کروں گی پس خوش و خرم رہ کہ خیر و نیکی کبھی تجھ سے دور نہیں ہوگی۔
ماہ شعبان کا روزہ
جو بھی ماہ شعبان میں نو دن روزہ رکھے نکیرین سوال کرتے وقت اس سے نرمی اور مہربانی سے پیش آئیں گے۔-14
حضرت علی علیہ السلام کی دوستی اور اطاعت
جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرے تو خدا منکر اور نکیر کے خوف کو اس سے دور کر دیتا ہے ، اس کی قبرکو روشن کرتا ہے اور اس کے چہرے کو نورانی کرتا ہے-15
نکیرین کے سوالات
حقیقت میں قبر وہی برزخ ہے جس میں انسان مرنے کے بعد سے صور پھونکنے تک رہے گا روایات میں اس جگہ کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن کریم پہلے برے لوگوں کی تمناؤں کو بیان کرتا ہے جو اس دنیا سے جا چکے ہوں گے کہ ان کی تمنا یہ ہے کہ انہیں واپس اس دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ نیک عمل بجا لا سکیں لیکن ان کی یہ تمنا کبھی بھی پوری نہیں ہو گی-16
اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے:
وَ مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔
اسی طرح برزخ میں رہنے والوں کی حالت یوں بیان کرتا ہے:
﴿وَ مَا نُؤَخِّرُهُ إِلاَّ لِأَجَلٍ مَعْدُودٍ يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَ سَعِيدٌ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَ شَهِيقٌ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ وَ أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ﴾-17
اور ہم اس دن کے لانے میں فقط ایک مقررہ وقت کی وجہ سے تاخیر کرتے ہیں قیامت کے دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکے گا۔ یعنی اللہ کی بارگاہ سے کسی قسم کی شفاعت اور التجا کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہو گی مگر یہ کہ اللہ اجازت دے دے۔ جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔۔پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بیشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔-18 اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔-19
«ما دامَتِ السَّماواتُ وَ الْأَرْضُ» والی عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ جنت اور جہنم سے مراد قیامت سے پہلے والی جنت اور جہنم ہے اس لیے کہ قیامت کے دن زمین و آسمان کو اکھاڑ دیا جا ئے گا ؛ اسی لیے وہ لوگ جو برزخی ثواب اور عقاب کے منکر ہو گئے امام علی علیہ السلام نے ان کی رد میں ان آیات کو دلیل کے طور پر پیش کیااور فرمایاٖ:
اور وہ لوگ جو قیامت سے پہلے برزخ کے ثواب اور عقاب کا انکار کرتے ہیں ان کی باتوں کو رد کرنے کے لئے یہ آیات کافی ہیں ۔ امام علیہ السلام مندرجہ بالا آیات کی تلاوت فرماتے ہیں اور اس کے بعد فرماتے ہیں: کہ «إِلاَّ ما شاءَ رَبُّكَ» سے مراد قیامت سے پہلے کی زمین اور آسمان ہے اس لیے کہ قیامت کے دن زمین اور آسمان کو اکھاڑا جائے گا۔ جیسے اوپر والی آیت (وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ» اور برزخ دوجہانوں دنیا اور آخرت کے درمیان والی عالم سے عبارت ہے اور ثواب و عقاب بھی اس عالم میں یعنی برزخ میں اسے ملتا رہتا ہے جیسا کہ خدا ارشاد فرماتا ہے
﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوّاً وَ عَشِيّاً وَ يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾-20
وہ لوگ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جس دن قیامت برپا ہو گی (تو حکم ہو گا) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو-21
قیامت ہمیشہ رہنے والا گھر ہےوہاں صبح و شام نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ تو اس مادی دنیا کی صفات ہیں خدا وند عالم اہل بہشت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے
لاَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً إِلاَّ سَلاَماً وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَ عَشِيّاً
جنت میں لغویات کا وجود نہ ہو گا۔ یہاں امن و سکون، کیف و سرور اور رضائے رب کے سائے میں ہر خواہش پوری ہو گی تو فضا سلام ہی سلام کی ہو گی۔-22
یہ صبح و شام برزخ کی اوصاف میں سے ہیں جو قیامت سے پہلے واقع ہو گا ۔ خدا وند اس گروہ کے بارے میں فرماتا ہے
﴿مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ لاَ يَرَوْنَ فِيهَا شَمْساً وَ لاَ زَمْهَرِيراً ﴾-23
وہ اس (جنت) میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جس میں نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت۔
یہ ٹھیک اسی بات کی طرح ہے جو شہیدوں کے بارے میں خدا ارشاد فرماتاہے:
﴿وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لاَ هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ وَ أَنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾-24
اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔25
۔اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گےوہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پربھی کہ اللہ مومنوں کا اجرضائع نہیں کرتا۔
امام سجاد علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
«هو القبر و إن لهم فيه مَعِيشَةً ضَنْكاً و الله إن القبر لروضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النار»
برزخ سے مراد قبر ہے اور مرنے والوں کے لیے اس میں ایک نہایت ہی کٹھن زندگی ہے خدا کی قسم قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی ، خدا کی قسم میں تم لوگوں پر صرف برزخ کے بارے میں ڈرتا ہوں ۔
ہاں قبر کی باطن اور حقیقت وہی ہے یعنی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی ۔ قبر کی وحشتوں اور مشکلات کا آغاز بدن کے اس قبر میں رکھنے کے بعد سے ہوتا ہے۔ پہلی رات، فشار اور نکیر و منکر کے سوالات یہاں کی سخت گھڑیوں میں سے ہیں کہ کسی کو ان سے چھٹکارا ممکن نہیں؛ مگر یہ کہ اس سے پہلے اپنے لیے نیک عمل بھیج چکا ہو ۔ روایت میں آیا ہے لوگ کسی قبر کو کھود رہے تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی سے ان کے پاس گئے اور رونا شروع کیا ، اس حد تک آپ ص روئے کہ زمین آپ کی آنسو سے گیلی ہوگئی ، آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
«إِخْوَانِى لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا»؛
میرے بھائیو! اس کی طرح اپنے آپ کو( قبر کے لیے )تیار کر لیں -26
جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ دین مقدس اسلام میت کے بارے میں بہت سفارش کرتا ہے کہ اسے جلدی بازی اور بلا فاصلہ قبر میں نہ رکھ دیں دفن سے پہلے ٹھہریں کچھ دیر اسے قبر کے کنارے پر رکھ دیں پھر اسے قبر میں رکھ دیں، دفن کے بعد اس کے اوپر تلقین پڑھِیں اس کی دفن کی رات نماز وحشت پڑھیں۔ یہ سب اس لیے ہیں کہ ان کے برکت سے فشار قبر اور سختیاں اس سے کم ہو جائیں ۔
فشار قبر قابل توصیف نہیں ہے اور اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ہے اجمالا کہہ سکتے ہیں کہ انسان اس دنیا سے جانے کے بعد اس نئی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور وہاں وہ ناآشنا نو وارد انسان ہے ا اس لیے وہ وہاں وہ سختیوں میں مبتلا ہو گا۔
منکر اور نکیر ہماری حقیقت اور باطن کے بارے میں ہم سے سوال کریں گے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
«يَجِى ءُ الْمَلَكَانِ مُنْكَرٌ وَ نَكِيرٌ إِلَى الْمَيِّتِ حِينَ يُدْفَنُ أَصْوَاتُهُمَا كَالرَّعْدِ الْقَاصِفِ وَ أَبْصَارُهُمَا كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ يَخُطَّانِ الْأَرْضَ بِأَنْيَابِهِمَا وَ يَطَئَانِ فِى شُعُورِهِمَا. فَيَسْأَلَانِ الْمَيِّتَ مَنْ رَبُّكَ وَ مَا دِينُكَ قَالَ فَإِذَا كَانَ مُؤْمِناً قَالَ اللَّهُ رَبِّى وَ دِينِىَ الْإِسْلَامُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِى خَرَجَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ فَيَقُولُ أَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ ص تَسْأَلَانِى فَيَقُولَانِ لَهُ تَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ فَيَقُولَانِ لَهُ نَمْ نَوْمَةً لَا حُلُمَ فِيهَا وَ يُفْسَحُ لَهُ فِى قَبْرِهِ تِسْعَةَ أَذْرُعٍ وَ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَ يَرَى مَقْعَدَهُ فِيهَا وَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ كَافِراً دَخَلَا عَلَيْهِ وَ أُقِيمَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ يَدَيْهِ عَيْنَاهُ مِنْ نُحَاسٍ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَ مَا دِينُكَ وَ مَا تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِى قَدْ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ فَيَقُولُ لَا أَدْرِى فَيُخَلِّيَانِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الشَّيْطَانِ فَيُسَلِّطُ عَلَيْهِ فِى قَبْرِهِ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ تِنِّيناً لَو ْ أَنَّ تِنِّيناً وَاحِداً مِنْهَا نَفَخَ فِى الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَجَراً أَبَداً وَ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى النَّارِ وَ يَرَى مَقْعَدَهُ فِيهَا»
جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو دو فرشتے اس کے پاس آئیں گے ان دونوں کی آواز چیخ ،گرچ اور بجلی کی طرح ہو گی اور ان کی آنکھیں بجلی کی چمک کی طرح خیرہ کرنے والی، اس حالت میں زمین کو اپنے دانتوں سے تہس نہس کرتے ہوئے اور اپنے بالوں کو زمین پر کھینچتے ہوئے ، میت سے پوچھیں گے:
تیرا رب کون؟ تیرا دین کیا ہے؟
اس وقت اگر مومن ہے تو بڑی آسانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا اور کہے گا کہ اللہ تعالی میرا رب ہے اسلام میرا دین ہے۔
وہ دونوں میت سے پھر کہیں گے کہ:
کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو جو ابھی تمہاری مدد کے لیے آیا تھا؟
میت جواب دے گا کہ کیا پیغمبر خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں پوچھ رہے ہو ؟
فرشتے پھر اس سے کہیں گے کہ اب تو گواہی دو کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں۔
میت کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں۔
(اس طرح وہ امتحان میں پاس ہو گا )اب اسے کہا جائے گا: سو جا! ایسی نیند سو جا کہ جس میں کوئی خواب نہیں۔ اب اس کے قبر کو نو ذراع کے برابر وسیع کر دیں گے اور اس کے لیے بہشت کی جانب ایک دروازہ کھول دیں گے اور وہ بہشت میں اپنے مقام کو مشاہدہ کرے گا۔
لیکن اگر کافر ہے ، تو فرشتے اس حال میں اس کے پاس آئیں گے اور اس کے پاس بیٹھیں گے کہ گویا دھواں کا ایک ہیکل بیٹھا ہوا ہے اور اس سے سوال کریں گے کہ :
تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟
جو شخص تمہاری نصرت کے لیے آیا تھا اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟
ان سوالوں کے جواب میں وہ کہے گا کچھ نہیں جانتا ہوں۔
اس وقت اس کے اور شیطان کے درمیان والی جگہ کو خالی کر دیا جائے گا۔ اور اس کی قبر پر ننانوے ایسے سانپوں کو مسلط کیا جائے کہ جن میں سے ایک بھی اگر زمین پر سانس لے تو کوئی درخت نہیں اگے گا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آگ ہی آگ ہوگی اور وہ جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لے گا۔
ہاں برزخ اسی مادی دنیا کی باطنی صورت ہے اور ہم اس کے درک سے عاجز ہیں-27
جو چیز ہمارے لیے قابل درک ہے وہ یہ ہے کہ قبر زمین کے اندر ہے لیکن اس کی حقیقت سے ہم جاہل ہیں ۔ یہ قبر نیک اور صالح لوگوں کے لیے جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے لیکن فاسقوں اور کافروں کے لیے جہنم کے گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی ۔ اب یہ بہشت اور دوزخ کیا وہی قیامت والی بہشت اور دوزخ ہے یا کوئی اور بہشت و دوزخ ، ہم اس سے جاہل ہیں مرنے کے بعد ہی واضح ہو جائے گا۔جو چیز اس فانی دنیا میں ہمارے لیے اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ ہم عمل صالح انجام دیں اور اہل بیت علیہم السلام سے عشق و محبت رکھیں یہی تنہا راستہ ہے جو ہماری قبر کو روشن اور بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا سکتا ہے۔
-----
حوالہ جات:
1. سورہ ق : 19
2. سورہ مومنون : 99 - 100
3. ارتقائی سفر میں واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ جس طرح انسان عالم جنین سے عالم نطفہ کی طرف واپس نہیں آ سکتا، اسی طرح عالم برزخ سے بھی واپسی ممکن نہیں ہے۔ برزخ، قبر سے لے کر قیامت تک کے عرصے کا نام ہے۔ برزخ دو چیزوں کے درمیان حد فاصل کو کہتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار (الخرائج 1: 172) قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہو گی یا آَگ کے گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی۔ (محسن علی نجفی)
4. وَمِنْ وَّرَاهمْ بَرْزَخٌ : اس آیت میں فرمایا: موت اور قیامت کے درمیان ایک برزخ یعنی حد فاصل ہے۔ لیکن اس حد فاصل میں زندگی بھی ہے۔ اس کی صراحت نہیں ہے، البتہ شہیدوں کی حیات بزرخی کے بارے میں صراحت موجود ہے۔ حیات برزخی کی نوعیت بھی ہمارے لیے معلوم نہیں ہے، چونکہ یہ حیات، دنیوی حیات کی طرح ہرگز نہیں۔ ہمارے نزدیک حیات برزخی مؤمن خالص اور کافر خالص کے لیے موجود ہے۔ باقی انسانوں کے لیے قبر کے سوال کے بعد حیات برزخی نہیں ہے۔ بعض اہل تحقیق نے برزخی زندگی کو عالم خواب کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ کچھ کو بہت شیریں خواب آتا ہے اور بعض کو ڈراونا خواب اور بعض کو کوئی خواب نہیں آتا۔(محسن علی نجفی)
5. مترجم: بعض علاقوں میں یہ رسم پائی جاتی ہے قبر میں رکھنے سے پہلے ایک مرثیہ پڑھا جاتا ہے جو کہ بہت ہی نیک عمل ہے وہ انسان جس نے اپنی پوری زندگی امام حسین علیہ السلام سے عقیدت و الفت میں گزاری ہے کیا بہتر ہے آج جب وہ اس نئی گھر میں داخل ہورہا ہے تو ان مرثیوں کو پڑھیں جن سے وہ آشنا ہے۔
6. قَالَ ع النَّاسُ نِيَامٌ فَإِذَا مَاتُوا انْتَبَهُوا(احسايى، ابن ابى جمهور، محمد بن على، عوالي اللئالي العزيزية ج4، ص: 73)
7. كلينى، ابو جعفر، محمد بن يعقوب، الكافي ج2، ص: 526
8. ابن طاووس، على بن موسى، كشف المحجة لثمرة المهجة ص272
9. سُئِلَ النَّبِيُّ ص عَنِ الصَّلَاةِ فَقَالَ ع الصَّلَاةُ مِنْ شَرَائِعِ ... وَ شَفِيعٌ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ وَ أُنْسٌ فِي قَبْرِهِ ... وَ جَوَابٌ لِمُنْكَرٍ وَ نَكِيرٍ (ابن بابويه، محمد بن على، الخصال ؛ ج 2 ؛ ص522)
10. انْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ ….فَإِذَا أُدْخِلَ قَبْرَهُ أَتَاهُ مَلَكَانِ- وَ هُمَا فَتَّانَا الْقَبْرِ يَجُرَّانِ أَشْعَارَهُمَا- وَ يَنْحِتَانِ الْأَرْضَ بِأَنْيَابِهِمَا- وَ أَصْوَاتِهِمَا كَالرَّعْدِ الْعَاصِفِ- وَ أَبْصَارُهُمَا كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ- فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَ مَنْ نَبِيُّكَ وَ مَا دِينُكَ «1» فَيَقُولُ: اللَّهُ رَبِّي وَ مُحَمَّدٌ نَبِيِّي وَ الْإِسْلَامُ دِينِي «2» فَيَقُولَانِ ثَبَّتَكَ اللَّهُ بِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضَى وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ «يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ » فَيَفْسَحَانِ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ- وَ يَفْتَحَانِ لَهُ بَاباً إِلَى الْجَنَّةِ (قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي ج 1 ؛ ص369)
11. اصول کافی، باب المسألة فی القبر
12. محمدی اشتهاردی، عالم برزخ چند قدمی ما، ص 109
13. نصائح ص 369
14. ثواب الاعمال شیخ صدوق ص 82
15. بحار الانوار ج1 ص 254
16. حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَ مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ یہ غفلت میں پڑے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ لے گی تو وہ کہے گا: اے پروردگار! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے، جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں، ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہدے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔
ارتقائی سفر میں واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ جس طرح انسان عالم جنین سے عالم نطفہ کی طرف واپس نہیں آ سکتا، اسی طرح عالم برزخ سے بھی واپسی ممکن نہیں ہے۔ برزخ، قبر سے لے کر قیامت تک کے عرصے کا نام ہے۔ برزخ دو چیزوں کے درمیان حد فاصل کو کہتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار (الخرائج 1: 172) قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہو گی یا آتش کے گھاٹوں میں سے ایک گھاٹا۔
17. سورہ ہود : 104 سے 108 تک۔
18. شیخ محسن نجفی صاحب اس آیت کی ذیل میں فرماتے ہیں : جہنمی زندگی کی ابدیت کو بتاتے ہوئے فرمایا: جب تک آسمان و زمین موجود ہوں گے یہ لوگ جہنم میں رہیں گے۔ اس سے جہنم کے آسمان و زمین مراد ہیں، ورنہ دنیاوی آسمان و زمین تو نابود ہو چکے ہوں گے۔
19. جو شیخ محسن نجفی صاحب اس آیت کی ذیل میں فرماتے ہیں : نیک بخت لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ اللہ کے وعدے کے مطابق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف ورزی کرے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی نیک بخت جنت میں نہ جائے اور ساتھ یہ بھی وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے، لہٰذا یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کسی کو جنت سے نکال دے۔ اس لیے فرمایا کہ جنت کی بخشش غیر مقطوع اور دائمی ہے۔ اِلَّا مَا شَاء رَبُّكَ صرف اپنی قدرت کاملہ و تصرف کوبتانے کے لیے ہے کہ یہ امر کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہے، اللہ ہر وقت ہر عمل پر قادر ہے ۔
20. سورہ مومن : 46
21. - شیخ محسن نجفی صاحب اس آیت کی ذیل میں فرماتے ہیں : برزخ میں شہیدوں اور بلند درجات والے مؤمنوں اور سنگین جرائم کے مرتکب کافروں کے لیے برزخی زندگی ہو گی۔ اس آیت سے یہی ثبوت ملتا ہے کہ آل فرعون کو برزخی زندگی میں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور قیامت آنے پر انہیں شدید عذاب دیاجائے گا۔
22. - بعض مفسرین فرماتے ہیں صبح و شام رزق میسر آنے کا مطلب یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ رزق انہیں بغیر کسی تعطل کے ہمیشہ ملتا رہے گا یا اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنت کی زندگی میں سورج چاند نہ بھی ہوں، تاہم صبح و شام کے اوقات ہوں گے
23. - سوره انسان :13
24. - سوره آل عمران : 169 - 171
25. منافقین کے اس طنز کہ مسلمان بے ڈھنگی لڑائی کی وجہ سے مارے گئے، کا جواب ہے۔ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں، کیونکہ موت شعور سلب ہو نے سے عبارت ہے۔ شہید چونکہ رزق پاتے ہیں، لہٰذا وہ شعور کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ سے رزق پانے کا لازمہ خوشی و مسرت ہے۔ انہیں نہ خوف لاحق رہتاہے اور نہ حزن و ملال، کیونکہ کسی موجودہ آسائش کے سلب ہونے کاخطرہ ہو تو خوف لاحق ہوتا ہے اور سلب ہو جائے تو حزن لاحق ہو جاتا ہے۔ اللہ کے ہاں رزق پانے کے بعد اس کے سلب ہونے کا کوئی خوف قابل تصور نہیں ہے اوریہ رزق چونکہ ابدی ہے اور اس کے چھن جانے کی نوبت نہیں آتی اس لیے حزن بھی قابلِ تصورنہیں ہے
26. مستدرک الوسائل ج 2 ص 465
27. بعبارت دیگر : دنیا میں اعمال صرف علم حصولی کی حد تک ہے لیکن برزخ میں اعمال اپنی جسامت کے ساتھ انسان کے لیے ظاہر ہوں گے۔
کتاب نامہ
كلينى، ابو جعفر، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية)، 8 جلد، دار الكتب الإسلامية، تهران - ايران، چهارم، 1407 ه ق
ابن طاووس، على بن موسى، كشف المحجة لثمرة المهجة، 1جلد، بوستان كتاب - قم، چاپ: دوم، 1375ش.
ابن بابويه، محمد بن على، الخصال، 2جلد، جامعه مدرسين - قم، چاپ: اول، 1362ش.
قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي، 2جلد، دار الكتاب - قم، چاپ: سوم، 1404ق.
احسايى، ابن ابى جمهور، محمد بن على، عوالي اللئالي العزيزية، 4 جلد، دار سيد الشهداء للنشر، قم - ايران، اول، 1405 ه ق