۱۔ دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا
دین اسلام کے اصول و فروع کا ملاحظہ، عبادات و معاملات میں تفکر، نفس انسانی،گھر اور شھر کی تدبیر کے بارے میں اس دین کے طور طریقوںمیں تاٴمّل اور مستحبات و مکروھات کے سلسلے میں اس دین کے بتائے هوئے آداب میں تدبر، ان قوانین میں حکمت بالغہ کے بیان گر ھیں۔ یہ طبیعی امر ھے کہ تمام احکام کی حکمت کو درک کرنا بلکہ انسان کی سعادت پر مبنی دین میں، کسی بھی ایک حکم کی تمام حکمت کا درک سوائے اس فرد کے لئے میّسر نھیں جو اِن عوالم اور ان میں موجود انسان کی ضروریات اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے طریقوں پر محیط هو۔ کسی حکم کی حکمت کو نہ جاننا اس حکم میں عدمِ حکمت کی دلیل نھیں هوسکتا۔
اور جس طرح کتابِ خلقت میں محکمات و متشابھات موجود ھیں اسی طرح کتاب تشریع میں بھی محکمات و متشابھات پائے جاتے ھیں اور متشابھات کی بنا پر محکمات سے ھاتھ نھیں اٹھایا جاسکتا، اسی طرح متشابھات کو نظامِ خلقت و دین میں عبث و لغو قرار نھیں دیا جاسکتا<وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ آمَنَّا بِہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا>[63]
اور یہ جاننا ضروری ھے کہ انسان کی دنیوی زندگی، آخرت کی بہ نسبت رحم مادر میں جنین کی زندگی کے مانند ھے، کہ رحم مادر میں اسے جو اعضاء اور طاقتیں عطا کی جاتی ھیں، اگر جنین عقل و شعور رکھتا بھی هو تو ان اعضاء کے استعمال اور ان کے فوائد کو درک کرنا اور انھیں عملی جامہ پھنانا اس کے لئے ناممکن ھے، وہ دماغ کی پیچیدہ اور پر اسرار بناوٹ کی حکمت کو نھیں جان سکتا یا اسی طرح وہ نھیں سمجھ سکتا کہ دیکھنے اور سننے کی مشینری اور نظام تنفس اس کے کس کام کے ھیں۔ دنیا میں آنے کے بعد اس کے لئے ان سب کی حکمت واضح هوگی۔
اسی طرح طبیعت کے رحم مادری میں زندگی گزارنے والے انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ وحی الٰھی کی تعلیم و تربیت کے وسیلے سے ان اعضاء و صلاحیتوں سے لیس هو جو اس کی حیات ابدی کے سازوسامان ھیں اور اس کے لئے ان احکامات کی حکمت عالم آخرت میں قدم رکھنے کے بعد واضح و روشن هوگی، جھاں کی اس دنیا سے وھی نسبت ھے جو دنیا کی رحم مادر سے ھے۔
لہٰذا ، دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، انسانی خلقت کی ضروریات میں سے، بلکہ کمالِ انسانی کی ضروریات میں سے ھے، کیونکہ عامل کی اھمیت عمل سے اور عمل کی اھمیت اس عمل کے داعی اور محرّک عامل سے ھے۔ معصوم علیہ السلام کا بیان بھی اسی حقیقت کی جانب ھماری راھنمائی کرتا ھے((إنما الاٴعمال بالنیات و لکل امرءٍ ما نوی)) [64]
لہٰذا کسی قسم کی مصلحت و مفسدہ اور نفع و ضرر سے چشم پوشی کرتے هوئے، صرف خدا کے لئے اطاعت خدا بجالانا، مقام مقربیّن کی علامت ھے۔
۲۔ علماء دین کی تقلید کا لازم و ضروری هونا
ایسے افرادکے لئے علماء دین کی تقلید کرنا ضروری ھے، جو احکام خدا کے استنباط کی قدرت نھیں رکھتے۔ انسان، جس کی زندگی و سلامتی، قوانین و قواعد کے تابع ھے، اس کی حفاظت و سلامتی کے لئے ضروری ھے کہ یا خود طبیب هو یا کسی قابلِ اعتماد و ماھر طبیب کی طرف رجوع کرے اور اس کے احکامات کے مطابق عمل کرے یا احتیاط کا دامن تھام لے اور جس چیز کے بارے میں اسے یہ احتمال هو کہ اس سے اسے نقصان پھنچ سکتا ھے اس سے پرھیز کرے، یھاں تک کہ اس کے بارے میں جان لے یا کسی صاحب علم سے پوچھ لے۔
بلکہ چاھے عالم هو یا جاھل، تقلید انسان کی ضروریاتِ زندگی میں سے ھے۔ جاھل کے لئے تقلید کی ضرورت کسی دلیل کی محتاج نھیں ھے۔ عالم کے لئے بھی اس اعتبار سے تقلید کی ضرورت ھے کہ ھردانشمند کے علم کا دائرہ محدود ھے۔ مثال کے طور پر گھربنوانے کے سلسلے میں ڈاکٹر کے لئے انجینئر اور معمار کی تقلید کرنا ضروری ھے۔ اسی طرح هوائی جھاز میں سوار هونے کے بعد اس کے لئے هواباز اور بحری جھاز میں قدم رکھنے کے بعد بغیر کسی چوں و چرا کے ناخدا کی تقلید ضروری ھے۔
بلکہ علم طب میں مختلف شعبوں کے وجود میں آنے کی وجہ سے اگر کوئی ایک عضو میں مھارت حاصل کرچکا هو تب بھی باقی اعضاء میں اس کے لئے دوسرے ڈاکٹروں کی تقلید ضروری ھے۔ نتیجے کے طور پر کسی بھی فرد کے لئے تقلید کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن ھے۔
اسی لئے دین پر ایمان رکھنے والا جانتا ھے کہ اس کے لئے دین میں جو احکام معین کئے گئے ھیں، بحکم عقل و فطرت انسان مجبور ھے کہ وہ ان احکام کو جاننے اور ان پر عمل پیرا هونے کے لئے ان تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرے۔ یا ان کے بارے میں تحصیل علم کرے یا ان کا علم رکھنے والے ماھر و متخصص کی پیروی کرے اور یا احتیاط کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن ایسی صورت میں کہ جب نہ تو ان احکام کا علم رکھتا هو اور نہ ھی احتیاط پر عمل پیرا هو اس کے لئے فقط ایک ھی راستہ باقی رہ جاتا ھے اور وہ یہ ھے کہ کسی عالم کے نظریات کے مطابق ان احکام پر عمل کرے اور اگر ان احکام میں محققین و ماھرین کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا هو تو ان میں سے اعلم کی تقلید کرے۔ جیسا کہ کسی بیماری کی تشخیص و علاج میں اگر چند ڈاکٹروں کے درمیان اختلاف نظر هو ان میں سے اعلم کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے۔
اور چونکہ دین اسلام دین علم ھے اور ھر عمل کی بنیاد، چاھے بالواسطہ ھی سھی، ضروری ھے کہ علم کی بنیاد پر هو، تقلید کی بنیاد بھی علم، عقل اور فطرت پر ھے جو در حقیقت احکامِ دین میں عالم و مجتھد کی مستند رائے و نظر پر اعتماد کرنے کا نام ھے<وَلاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً>[65]