اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

محافظ کربلا امام سجاد عليہ السلام

تاريخ کے صفحات پر ايسے سرفروشوں کي کمي نہيں جن کے جسم کو تو وقت کے ظالموں اور جلادوں نے قيدي تو کرديا ليکن ان کي عظيم روح، ان کے ضميرکو وہ قيدي بنانے سے عاجز رہے، ايسے فولادي انسان جو زنجيروں ميں جکڑے ہوئے بھي اپني آزاد روح کي وجہ سے وقت کے فرعون و شداد کو للکارتے رہے، تلواروں نے ان کے سر، جسم سے جدا تو کردئيے ليکن ليکن ايک لمحہ کے لئے بھي ان کي روح کو تسخير نہ کرسکے، ايسے انسان جن کي آزادروح، آزادضمير، اور آزادفکر کے سامنے تيزوتند اسلحے بھي ناکارہ ثابت ہوئے … جب ان کي زبانيں کاٹي گئيں توان لوگو
محافظ کربلا امام سجاد عليہ السلام

تاريخ کے صفحات پر ايسے سرفروشوں کي کمي نہيں جن کے جسم کو تو وقت کے ظالموں اور جلادوں نے قيدي تو کرديا ليکن ان کي عظيم روح، ان کے ضميرکو وہ قيدي بنانے سے عاجز رہے، ايسے فولادي انسان جو زنجيروں ميں جکڑے ہوئے بھي اپني آزاد روح کي وجہ سے وقت کے فرعون و شداد کو للکارتے رہے، تلواروں نے ان کے سر، جسم سے جدا تو کردئيے ليکن ليکن ايک لمحہ کے لئے بھي ان کي روح کو تسخير نہ کرسکے، ايسے انسان جن کي آزادروح، آزادضمير، اور آزادفکر کے سامنے تيزوتند اسلحے بھي ناکارہ ثابت ہوئے … جب ان کي زبانيں کاٹي گئيں توان لوگوں نے نوک قلم سے مقابلہ کيا اور جب ہاتھ کاٹ دئيے گئے اپنے خون کے قطروں سے باطل کو للکارا جب وقت کے فرعون جن کي ہر زمانيں ميں شکليں بدلتي ہوتي ہيں اور مقصد ايک ہوتا ہے ان کو يوں ڈراتے ہيں کہ ”‌اآمنتم لہ قبل ان آذن لکم… فلاقطعن ايديکم وارجلکم من خلاف ولاصلبنکم“ (سورہ طہ71) ہماري سرپرستي قبول نہ کرنے کي سزا کے طور پر تمہارے ہاتھ پيرکاٹے جائيں گے اور پھانسي کا پھندا تمہارے ليے آمادہ ہے تو  تاريخ کے تسلسل ميں ان سر فروشوں کا جواب ايک ہي رہا کہ ”‌فاقض ماانت قاض“ (طہ72) تم وقت کے فرعون جو کچھ کرنا چاہو کرو، ليکن ہماري روح کو قيدکرنا تمہارے بس کي بات نہيں، تم موت کي دھمکي ديتے ہو اور ہم اسي موت کو اپني کاميابي تمہاري شکست سمجھتے ہيں-

کاٹي زبان توزخم گلوبولنے لگا

چپ ہوگيا قلم تو لہو بولنے لگا

شہادت حسين (ع) کے بعد بھي خاندان نبي کو اسير کرکے کوفہ لے جاياگيا تو يزيد نے امام سجاد (ع) اور ديگر افراد کو زنجيروں اور ہتھکڑيوں ميں ضرور جکڑا، ان پر مصائب کے پہاڑ توڑے ليکن يزيد اور يزيديت کے سامنے سر تسليم نہ کر سکے، ان کي روح و ضمير کو قيد نہ کر سکے، يزيد اسيروں سے يہ توقع رکھتا تھا کہ اب ان ميں احساس ندامت ہوگا وہ شہيدوں کي طرح بيعت ٹھکرائيں گے نہيں بلکہ معافي طلب کے کے بيعت پرآمادہ ہوں گے، ليکن جوں جوں زنجيروں ميں جکڑے ہوئے آزاد انسانوں کا يہ قافلہ آگے بڑھتا گيا يزيد کي شکست اور حسين کي کاميابي کے آثا رروشن ہوتے گئے، حالات يزيد کي منشاء کے مطابق نہيں امام حسين کي طرف سے ترتيب دئے گئے پروگرام کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے، قافلہ کي باگ ڈور ابن زياد کے ہاتھ ميں نہيں، امام سجاد (ع) کے ہاتھوں ميں تھي، حسين (ع) کي اسير بہن اور بيٹے کا حالات پر پورا کنٹرول تھا، وہ اپني روحاني طاقت و شجاعت کي بنياد پر اپني روحاني آزادي و حريت کي بنياد پر يزيديت کا دائرہ حيات تنگ کرتے جا رہے تھے-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر
فلسفہٴ روزہ
نہج البلاغہ اور اخلاقیات

 
user comment