امام حسين (ع) کے قيام و مبارزے کي دو صورتيں ہيں اور دونوں کا اپنا اپنا الگ نتيجہ ہے اور دونوں اچھے نتائج ہيں؛ ايک نتيجہ يہ تھا کہ امام حسين (ع) يزيدي حکومت پر غالب و کامياب ہوجاتے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں سے زمام اقتدار چھين کر امت کي صحيح سمت ميں راہنمائي فرماتے، اگر ايسا ہوجاتا تو تاريخ کي شکل ہي بدل جاتي- دوسري صورت يہ تھي کہ اگر کسي بھي وجہ اور دليل سے يہ سياسي اور فوجي نوعيت کي کاميابي آپ کيلئے ممکن نہيں ہوتي تو اُس وقت امام حسين (ع) اپني زبان کے بجائے اپنے خون، مظلوميت اور اُس زبان کے ذريعہ کہ جسے تاريخ ہميشہ ہميشہ کيلئے ياد رکھتي، اپني باتيں ايک رواںاور شفاف پاني کي مانند تاريخ کے دھارے ميں شامل کرديتے اور آپ نے يہي کام انجام ديا-
البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زباني وعدے کرتے اور اپنے ايمان کي مضبوطي کا دم بھرتے تھے اگر ايسا نہ کرتے تو پہلي صورت وجود ميں آتي اور امام حسين (ع) اُسي زمانے ميں دنيا و آخرت کي اصلاح فرماديتے ليکن اِن افراد نے کوتاہي کي! اِس کوتاہي کے نتيجے ميں وہ پہلي صورت سامنے نہيں آسکي اور نوبت دوسري صورت تک جا پہنچي- يہ وہ چيز ہے کہ جسے کوئي بھي قدرت امام حسين (ع) سے نہيں چھين سکتي اور وہ ميدانِ شہادت ميں جانے کي قدرت اورراہِ دين ميں اپني اور اپنے عزيز و اقارب کي جان قربان کرنا ہے- يہ وہ ايثار و فداکاري ہے کہ جو اتني عظيم ہے کہ اِس کے مقابلے ميں دشمن کتني ہي ظاہري عظمت کا مالک کيوں نہ ہو، وہ حقير ہے اور اُس کي ظاہري عظمت ختم ہوجاتي ہے اور يہ وہ خورشيد ہے کہ جو روز بروز دنيائے اسلام پر نور افشاني کررہا ہے-
آج امام حسين (ع) گذشتہ پانچ يا دس صديوں سے زيادہ دنيا ميں پہچانے جاتے ہيں- آج حالات يہ ہيں کہ دنيا کے مفکرين، روشن فکر شخصيات اور بے غرض افراد جب تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں اور واقعہ کربلا کو ديکھتے ہيں تو اپنے دل ميں خضوع کا احساس کرتے ہيں- وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ليکن آزادي، عدالت، عزت، سربلندي اور اعليٰ انساني اقدار جيسے بلند پايہ مفاہيم کو سمجھتے ہيں اور اِس زاويے سے کربلا کو ديکھتے ہيں تو آزادي و آزادي خواہي، عدل و انصاف کے قيام، برائيوں ، جہالت اور انساني پستي سے مقابلہ کرنے ميںسيد الشہدا اُن کے امام و رہبر ہيں-
source : tebyan