پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی زبان ، روان اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے کمال ، اصلاح اور فائدہ کا سبب تھی، اور تمام زمانوں میں انسانوں کی راہنمائی اور غافل افراد کو ہوائے نفس سے رہا کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے ۔
فصیح و بلیغ کلام کا ہنر یہ ہے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں نافذ ہوجائے اور روح کو تاریکی، برائی اور ہر طرح کی پلیدی سے آزاد کردے ، یہاں پر دنیا کے فصیح ترین انسان حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فصاحت و بلاغت اور ان کے ہنربیان کے متعلق گفتگو مقصود ہے ،وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جو فصاحت میں سب سے ممتاز اور بلاغت میں بے نظیر تھے کیونکہ آپ کے قلب پر الہام نازل ہوتا تھا اور خداکی باتیں آپ کی زبان پر جاری تھیں، ایک اعرابی نے جو عرب کے احوال و اخبار سے واقف تھا ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : میں پورے عرب کے درمیان گیا ہوں اور میں نے ان کی فصیح زبان سنی ہے لیکن میں نے آپ سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا، کس نے تمہیں یہ ہنر اور آداب سکھائے ہیں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوند عالم نے مجھے سکھایا ہے اور بہترین چیز سکھائی ہے ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی زبان ، روان اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے کمال ، اصلاح اور فائدہ کا سبب تھی، اور تمام زمانوں میں انسانوں کی راہنمائی اور غافل افراد کو ہوائے نفس سے رہا کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے ۔
مقدمہ
دنیا کے ظلمت کدہ میں حقیقت ، وہم و گمان کے ساتھ مخلوط ہے اور کوئی راستہ ظاہر نہیں ہے ، خواہشات، وظائف اور قیود کے اعتبار سے ہر قدم پر ہزاروں پیچ و خم موجود ہیں ، حیرت و گمراہی سے بچنے کیلئے کوئی راہنما تلاش کرنا چاہئے اور اس کے ذریعہ اس خطرناک اور سخت راستہ کو آسان بنانا چاہئے ۔ راستہ کا راہنما بننا سب کے بس کی بات نہیں ہے اگر راستہ طے کرنا مشکل اور خطرناک ہو تو یقینا رہبری اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، اس کام کے لئے پاک طینت، اصل گوہر، پہاڑ کی طرح ثابت روح، بلند آسمان کی طرح ثابت ہمت و حوصلہ اور سب سے اہم یہ کہ انسان کا دل شوق سے لبریزہو تاکہ وہ انسانوں کی راہنمائی کیلئے ذوق وشوق سے قدم بڑھائے اور انسانوں کو تاریکی سے نجات دلائے اور راستوں سے گمشدہ افراد کو ہلاک ہونے سے بچاکر ان کی منزل مقصود تک پہنچائے یہ بلند مقام اور انسانیت کی معراج یقینا حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو حاصل ہے کیونکہ آپ کی رفتار سب کیلئے سرمشق کمال اور آپ کی گفتار فضیلت و اخلاق کا قانون ہے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زبان مبارک سے جو احادیثیں ظاہر ہوئی ہیں وہ انسانوں کے دلوں میں سما گئی ہیں اور بہت سے لوگ آپ کی ان باتوں سے حیرت زدہ ہو کر ظلمات و وہم و گمان میں پڑ گئے ہیں آپ کے کلمات، آب حیات کی مانند ہیں جو ان کو معانی اور اور جاوید زندگی عطا کرتے ہیں ۔
حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
خاک سے افلاک تک تہذیب و تمدن سے خالی سرزمین، خشک و بے حاصل پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے یتیم نے اپنے دادا اور چچا کی سرپرستی میں پرورش پائی جو اپنے والد کی نعمت اور والدہ کی محبت سے محروم ہوگیا تھا ۔
جوانی کے زمانہ میں جب کہ آپ امین اور سچے تھے ، اپنے چچا کے ساتھ فقر کی زندگی گذار رہے تھے ، آپ کی روح زندگی کی تعبیر میں برائیوں اور پلیدوں سے بہت دور تھی۔ چالیس سال کی عمر میں بت پرستی ، جاہلیت اور بیداد گری سے جو کہ اس وقت لوگوں کے درمیان رائج تھی، مقابلہ شروع کیااور خداوند عالم پر تکیہ کرتے ہوئے لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی دعوت دی اور آپ کی خواہش تھی کہ لوگ بتوں کی پرستش سے آنکھیں بند رکھیں اور خدائے وحدہ لاشریک کی بہت ہی خلوص کے ساتھ عبادت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی اور ایک دوسرے کے مساوی ہوں، کسی کو بھی پرہیزگاری کے علاوہ کسی اور چیز سے امتیاز نہ دیا جائے ۔
قریش نے جب آپ کو اپنی گفتار و کردار میں محکم و مضبوط دیکھا توقریش آپ کے قتل کا نقشہ کھینچنے لگے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجبورا اپنے وطن سے چشم پوشی کی اور مدینہ میں مقیم ہوگئے اورکام ایک دوسری طرح انجام پانے لگا، بہت زیادہ جنگوں میں آپ نے خدا کے دشمنوں سے جنگ کی ، ایمان کی طاقت، خدا کی مدد اور اپنے ہنر بیان کے ذریعہ آپ کسی سے نہیں ڈرے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ پورا جزیرہ عرب اورایک مدت کے بعد اس وقت دنیا کا ایک عظیم حصہ آپ کی تعلیمات کا تابع ہوگیا ۔
حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ کرنا تھا اور آپ کی تبلیغ کا سب سے ہم وسیلہ آپ کی زبان کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا، پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جن لوگوں کو ہدایت کے لائق سمجھتے تھے ان کو اپنی زبان کے ہنر سے راہ راست پر لگادیتے تھے ، یقینا یہ ولی اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خداوند عالم کی تائید اور اپنی پاک زبان کی طاقت سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے اور قرآن کے اعجاز اور اپنے بیان کی قدرت سے لوگوں کو مسخر کرلیتے تھے اور اس طرح مسخر کرتے تھے کہ صدیاں گذرنے کے بعد آج بھی اس حکومت میں کوئی خلل واقع نہیں ہواہے ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فصاحت و بلاغت
بیشک حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو فصاحت و بلاغت کے ہنر میں سب پر سبقت حاصل ہے اور آپ کے بقول ، آپ عرب میں سب سے زیادہ فصیح تھے : '' ادبی و انا افصح العرب''(١) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فصاحت اکتسابی بھی تھی اور اس میں عطائے الہی بھی شامل تھی، اکتسابی اس طرح تھی کہ آپ نے خاندان بنی سعد میں پرورش پائی تھی ، بنی سعد کا اصلی اور دل آویز لہجہ پورے جزیرة العرب میں زبان زد عام و خاص تھا ، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے جدامجد نے آپ کو لہجہ سیکھنے کیلئے ان کے سپرد کیا تھا اور اس کا ایسا اثر تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خود فرماتے ہیں: میں نے جو کچھ بھی فصاحت و بلاغت سیکھی ہے وہ قبیلہ بنی سعد کے پاس چار سال میں سیکھی ہے (٢) ۔
اگر کہا جائے : فصاحت نبوی میں عطائے الہی ملی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن، خداوند عالم کی ہنر بیانی کا عظیم مجموعہ اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا جاوید معجزہ ،فصیح عربی کلمات کے نظم و اسلوب سے الماس کی طرح تراشا گیا ہے اور یہ روح القدس ، فرشتہ امین کے ذریعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قلب پر القا ہوا اور یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کے سایہ میں فصاحت و بلاغت میں زبان کھولی ہے ۔
دوسروں کی نظر میں پیغمبر اکرم کی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فصاحت و بلاغت
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہنر بیان کی تعریف میں جاحظ کا یہ قول بہترین گواہ ہے ۔ جاحظ نے پیغمبر اکرم کے شیرینی کلام اور فصاحت و بلاغت کے ہنر کا حق ادا کیا ہے:
حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا کلام ایسا ہے جس کے حروف کم ہیں اور اس کے معانی بہت زیادہ ہیں، تصنع اور تکلف سے بہت دور ہے جہاں پر تفصیل ہونا چاہئے وہاں آپ کا بیان مفصل ہے اورجہاں اختصار ہونا چاہئے وہاں مختصر ہے ۔ آپ کا کلام نامانوس کلمات،مبتذل او ربازاری باتون سے بری ہے ، آپ کے کلمات حکمت کے ہمدوش، عصمت سے ہم آغوش اور تائیدالہی سے نزدیک،اورتوفیق سے ہمنشین تھے ۔ خداوند عالم نے آپ کے قول کو محبت کے ساتھ قبول کیا ہے ، آپ کے پاس مہابت و حلاوت، افہام و تفہیم اور اختصار سب موجود ہیں، آپ باتوں کو مکرر ربیان کرنے سے بے نیاز ہیں، جب آپ کچھ کہنے کیلئے اپنے لبوں کو جنبش دیتے تھے تو کسی بھی مقرر و سخنور میں بولنے کی ہمت نہیں تھی ، آپ مفصل کلام کا مختصر کلام کے ساتھ جواب دیتے تھے ، آپ کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتے تھے، آپ نہ ہی آہستہ بولتے تھے اور نہ ہی جلدی جلدی ۔ آپ کا کلام نہ لمبا ہوتا تھا اور نہ مبہم۔ آپ سے زیادہ سود مند، سلیس، موثر، روان، فصیح اور بلیغ کلام کسی کا نہیں تھا (٤) ۔ جاحظ یہ باتیں بیان کرنے کے بعداس ڈر سے کہ کہیں اس کی باتوں کو کوتاہ نظر اور بے خبر لوگ بیہودہ اور لغو شمار نہ کریں ، اس طرح کہتا ہے : شاید وہ لوگ جن کے پاس علم زیادہ نہ ہو اور وہ کلام و تقریر کے اسرار ورموز سے بے خبرہو کر یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہنر بیان میں تکلف سے کام لیا ہے اور ان کے کلام کی اہمیت میں بیہودہ باتیں کہی ہیں نہیں ایسا نہیں ہے ، اس خدا کی قسم جس نے بیہودہ باتوں کو کو علماء پر حرام کیا ہے اور تکلف کو صاحب نظر افراد کی نگاہ میں قبیح جانا ہے اور جھوٹوں کو عقلمندوں کے سامنے پست شمار کیا ہے ایسا گمان وہ لوگ کرتے ہیں جو حقیقت سے منحرف ہیں(٥) ۔
ابن ابی قحافہ نے جس کو عرب کے اخبار و احوال پر پورا تسلط تھا ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا: میں پورے عرب کے درمیان گیا ہوں اور میں نے ان کی فصیح زبان سنی ہے لیکن میں نے آپ سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا، کس نے تمہیں یہ ہنر اور آداب سکھائے ہیں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوند عالم نے مجھے سکھایا ہے اور بہترین چیز سکھائی ہے ۔
پیغمبر اکرم کے بیان کی کیفیت
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا کلام ، کلام کا پیغمبر ہے اور آپ کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ویسے ہی سبقت حاصل ہے جس طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہے ، کیونکہ ہر سخنور کے ضمیر کی آواز اس کا کلام ہوتاہے اور فضل وشرف ، سخنور کی فضیلت کی حکایت کرتا ہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عبارت ، سادگی کے باوجود اس قدر پرشور و ہیجان ہوتی ہے گویا اس میں حیات و قوت موجیں ماررہی ہے اور عقل نورانی ، کلمات کے درمیان نور افشانی کررہی ہے ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں کچھ خاص آداب ہوتے تھے ، آپ وقت پر کلام کرتے تھے، ضرورت سے زیادہ اپنی زبان پر کلام جاری نہیں کرتے تھے، آپ ہمیشہ سوچتے رہتے تھے اور جب آپ کی خاموشی لمبی ہوجاتی تھی تو فرماتے تھے: ہم انبیاء ، کم بولتے ہیں(٧)، یا آپ فرماتے تھے : خدا زیادہ بولنے کو پسند نہیں کرتاجو ضرورت بھر کلام کرتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے (٨) ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آواز بہت بلندتھی اس کے باوجود آپ بہت آہستہ بولتے تھے اور فرماتے تھے: خدا بلند آواز سے بولنے کو پسند نہیں کرتا (٩) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عام طور سے نماز کے بعد سخنرانی کرتے تھے اور خاص مناسبات اور بڑے حوادث کے وقت آپ کی باتیں زیادہ ہوجاتی تھیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بات کے دوران لوگوں کے سوالوں کے جواب دیدیا کرتے تھے ، آپ زیادہ سوال کرنے سے خوش نہیں تھے اور فرماتے تھے: جب تک میں کچھ نہ کہوں مجھ سے سوال نہ کرو۔ تمہار بزرگ اجداد زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوگئے تھے ، جب میں تمہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو جہاں تک ہوسکے اس کو انجام دو اور جس کام سے تمہیں منع کروں اس سے رک جائو کیونکہ اسی میں تمہارے لئے خیر ہے (١٠) ۔
تجلیات بیان نبوی
ینبغ ان یکون للمومن ثمانیة خصال: وقار عند الهزائر صبر عند البلاء و شکر الرخا و قنوع بما رزقه الله عزوجل، لا یظلم الاعداء ولا یتحامل عل الصداقا بدنه فی تعب و الناس منه فی راحة (١١) ۔ بہتر ہے کہ مومن میں آٹھ صفتیںپائی جائیں: سخت حوادث میں کسی چیز سے نہ گھبرائے ، مصیبت اور امتحان کے وقت صبر سے کام لے، وسعت رزق کے وقت شکر خدا کرے ، خداوند عالم نے اس کو جو رزق دیا ہے اس پر قناعت کرے، دشمنوں پر ظلم نہ کرے، دوستوں کے لئے باعث زحمت نہ بنے اپنے بدن کو رنج و محنت میں قرار دے اور لوگ اس سے محفوظ رہیں۔
نوم العالم افضل من عباد العابد;12 عالم کا سونا عابد کی عبادت سے افضل ہے ۔
نعمِ العطیة کلمة حق تسمِعها ثم تحمِلها الی اخ لک مسلم13 ۔ کتنا اچھا ہدیہ ہے کہ انسان کسی حق کو بات سنے اور اس کو اپنے مومن بھائی کو سنائے ۔
من سلک طریقا یلتمس فیه علما سهل الله له طریقة الی الجنة14 ۔ جو بھی علم حاصل کرنے کے لئے راستہ طے کرتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت کا راستہ کھول دیتا ہے ۔
من اقتصد اغناه الله و من بذر فقره الله و من تواضع رفعه الله و من تجبر قصمه الله15 ۔ جو کفایت شعاری سے کام لیتا ہے خداوند عالم اس کو بے نیاز کردیتا ہے اور جو اسراف کرتا ہے خداوند عالم اس کو فقیر اور محتاج کردتیا ہے ، جو تواضع اور انکساری سے کام لیتا ہے خدا اس کا مرتبہ بلند کردیتا ہے اور جو فخر و مباہات کرتا ہے خدا اس کو نابود کردیتا ہے ۔
ما من ساعة تمر بابن آدم لم یذکر الله فیها الاحسر علیها یوم القیامة16 ۔ اللہ کی عبادت میں جو لمحہ نہیں گذرے ہوں گے قیامت کے روز انسان اس پر حسرت کرے گا ۔
لکل شیء آفة تفسدہ و آفة هذا الدین ولاة السوئ17 ۔ ہر چیز کیلئے آیک آفت ہوتی ہے جس اس کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور اس دین کی آفت برے حاحکم ہیں۔
اقرؤا القرآن فان الله تعالی لایعذب قلبا وعی القرآن18 ۔ قرآن پڑھو اور اس سے مانوس ہوجائو۔ یقینا جو دل قرآن سے مانوس ہوگا خدا اس پر عذاب نہیں کرے گا ۔
افضل العباد انتظار الفرج19 .۔ بہترین عبادت امام زمانہ کے ظہور کا انتظار ہے ۔
اقبل الحق ممن اتاک به من صغیرا و کبیر و ان کان بغیضا بعیدا و اردد الباطل علی من جائک به من صغیرا و کبیر و ان کان حبیبا قریبا20 .۔ حق کو جو بھی تمہارے سامنے پیش کرے اس کو لے لو چاہے وہ بچہ ہو یا ضعیف، دشمن ہو یا غیر ہو ۔ باطل اور ناحق کو چھوڑ دو اور اس کو قبول نہ کرو، چاہے اس کو تمہارا نزدیکی دوست ہی کیوں نہ پیش کرے ۔
کتنا بہتر ہے کہ ہمارے سب راز و نیاز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اقتداء میں وہی دعاء ہو جس کو آپ اس طرح پڑھتے تھے:
اللہم اقسم لنا من خشیتک ما تحول بیننا و بین معاصیک و من طاعتک ما تبلغنا به رضوانک و من الیقین ما یہون علینا مصیبات الدنیا و متعنا باسماعنا و ابصارنا و قوتنا ما احییتنا و اجعله الوارث منا و اجعل ثارنا عل من ظلمنا انصرنا علی من عادانا ولا تجعل مصیبتنا فی دیننا ولا تجعل الدنیا اکبر همنا و لا مبلغ علمنا و لا تسلط علینا من لایرحمنا''(٢١) پروردگارا!اپنا ڈر و خوف ہمیں بھی نصیب کرے تاکہ ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے ، اور اپنی اطاعت کی اس قدر ہمیں توفیق عنایت فرما کہ ہم بہشت میں جاسکے اورہمیں اس قدر یقین عطا فرما کہ دنیا کی مصیبتیں ہمارے لئے آسان ہوجائیں، اور جب تک ہم زندہ ہیں اس وقت تک ہمیں سماعت، بصیرت اوردوسری طاقتوں سے سرفراز رکھنااور جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ان سے انتقام لے، اور جو لوگ ہم سے عداوت و دشمنی رکھتے ہیں ان پر کامیاب و کامران فرما،ہماری مصیبت کو ہمارا دین قرار مت دے، اور دنیا کے کاموں کو ہمارا سب سے بڑا غم قرار مت دے، اور جو ہم پر رحم نہیں کرتے ان کو ہم پر مسلط نہ کر۔
نتیجہ
اس دنیا میں خدا کے منتخب بندے وہ ہیں جن کے اعمال، کردار اور رفتار کی اچھائیاں انسانیت کی اصلاح کا سبب بنی ہیں ، لوگوں کی راہنمائی، ہوا و ہوس سے آزاد ہونے کیلئے ان لوگوں کی رفتار و گفتار بہترین وسیلہ ہے ۔
حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے پاک کلام کے ذریعہ محروم اوربادیہ نشین لوگوں کا دنیا والوں سے احترام کرایا، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہنر بیان نے بادیہ نشین اور فرہنگ جاہلی کو بہترین تہذیب و تمدن میں تبدیل کردیااور یہی خدا کو منظور بھی تھا ۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی گفتار و زبان کے اہم اصولوں میں سادگی، روانی ، آگاہی ، عرفان و حکمت اور صداقت پائی جاتی تھی ۔
حاشیہ جات
1 محمدباقر مجلس، بحارالانوار، ج 16، روایت 2، باب 18، ص 158.۔
2 جاراللہ محمود زمخشر، ربیع الابرار، چ سوم، بیروت، 1401 ق، ص 72.۔
3 سعدالدین تفتازان، مختصرالمعان، 1398 ق، ص 23.۔
4 و 5 ابوعمرو عثمان جاحظ، البیان و التبیین، چ دوم، 1409 ق، ص 112 / ص 113.۔
6 مال الدین عراق، مال النصیح و الادب، 1407 ق، ص 97 / محمدباقر مجلس، پیشین، ج 16، باب 99، ص 210.۔
7 مصطف صادق رافع، اعجازالقرآن و بلاغ النبویہ، 1411 ق، ج سوم، ص 80.۔
8 و 9 شیخ حر عامل، وسائل الشیعہ، چ سوم، بیروت، 1412 ق، ج 1، ص 17 / ص 18.۔
10 شیخ محمد خضر، نورالیقین، نجف، 1398ق، ص 75.۔
11 ابوالقاسم پایندہ، نہج الفصاحہ، چ پنجم، جاویدان، 1382، ح 3220.۔
12 گذشتہ حوالہ، ح 3138.
13 گذشتہ حوالہ، ح 3127.
14 گذشتہ حوالہ، ح 3026.
15 گذشتہ حوالہ، ح 2939.
16 گذشتہ حوالہ، 2677.
17 گذشتہ حوالہ، 2255.
18 گذشتہ حوالہ، ح 426.
19 گذشتہ حوالہ، ح 409.
20 گذشتہ حوالہ، ح 428.
21 گذشتہ حوالہ، ح 503. .۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس دعا کی عظمت اور جامعیت کے بارے میں یہی کہدینا کافی ہے کہ مرحوم شیخ عباس قمی نے اپنی قیمتی کتاب مفاتیح الجنان کے ماہ شعبان کے اعمال کی شرح میں اس دعاء کو بیان کیا ہے اور کہا ہے: یہ دعاء بہت جامع بھی ہے اور کامل بھی ہے اور مومن کیلئے بہتر ہے کہ ہمیشہ اس دعاء کو پڑھے یہ دعاء ہر وقت فائدہ بخش ہے ۔
source : alhassanain