اردو
Friday 1st of November 2024
0
نفر 0

اسلام کے عملی ارکان اور احکام شرعی

قانون الٰھی کے تحت کچھ فرائض مقرر ھیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی درستی کے لئے ضروری ھیں ، ان میں سے جو بھت اھم حیثیت رکھتے ھیں وہ ارکان اسلام کھے جاتے ھیں جنھیں عام طور پر فروع دین کھا جاتا ھے اس لئے کہ ان فروع کا اصول عقائد کے ساتھ وھی تعلق رکھتے ھیں جو شاخوں کو درخت کے ساتھ ھوتا ھے ، ان پر عمل کرنا ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے اور بغیر ان پر عمل کے اسلام کا مقصد حاصل نھیں ھو سکتا ۔

قانون الٰھی کو مذھب کی زبان میں شریعت کھتے ھیں اور جو اس قانون کے تقاضے ھوں انھیں احکام شرعی کھا جاتا ھے ۔

گذشتہ سے پیوستہ

(۴) شیعہ تقدیر یا مشیئت الٰھی کے کسی ایسے تصور کو درست نھیں جانتے جو ظالموں اور بد کاروں سے ان کے افعال کی ذمہ داری کو سلب کر دے ، اس طرح نہ خالق کے افعال میں شرکا تصور رکھتے ھیں اور نہ دنیا میں کسی شر کے وقوع میں اس کے ارادہ اور عمل کی کار فرائی کو صحیح سمجھتے ھیں۔ اسی سے ظلم اور ظالموں سے نفرت کی بنیاد مضبوط ھوتی ھے اور یھی صحیح معنی میں اصول تبّرا کا سنگ بنیاد ھے ۔

(۵) شیعہ حسن و قبح کو عقلی قبول کرتے ھیں یعنی شریعت کے احکام سے قطع نظر کرتے ھوئے بجائے خود افعال میں اچھائی اور برائی ھے یہ اور بات ھے کہ بعض چیزوں کی اچھائی اور برائی کے پھلوؤں تک ھمارا ذھن نہ پھونچ سکے مگر ذاتاً ان میں اچھائی یا برائی ضرورھے اور اسی اچھائی یا برائی کی بنا پر شریعت میں حلال و حرام کے احکام نافذ ھوتے ھیں ، نہ یہ کہ اندھا دھند جس چیز کو خالق نے چاھا حلال کر دیا اور جسے چاھا حرام کر دیا ۔

شیعی مذھب کے اس اصول کی بناء پر عقل انسانی کے لئے شرعی احکام کے فلسفہ ٴ تشریع پر غور و خوض کی راھیں کھلتی ھیں اور انسانی بصیرت کو جلا ملتی ھے ۔

(۶) شیعہ حکومت الھیہ کو اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ تسلیم کرنے کے حامی ھیں ۔ اسلام کے معنی ایک سر نھادن بطاعت اور دوسرے سپردن کے ھیں ۔ دونوں کا نتیجہ یھی ھوتا ھے کہ اللہ کی مرضی کے مقابلہ میں انسان کا حقّ خود ارادی خواہ شخصی ھو یا جمھوری کوئی چیز نھیں ھے ۔ حاکم مطلق صرف اللہ ھے اور جسے وہ اپنا نائب بنائے صرف اس کی اطاعت انسان پر فرض ھے ۔ اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا حقّ ِحکومت نھیں رکھتا اور جو حکومت اس کے مقابلہ پر قائم ھو وہ نا جائز ھے ۔

(۷) شیعہ تعلیمات اسلامی اور کتاب و سنت کے علم کے لئے اس مرکز سے وابستہ ھیں جو خود پیغمبر خدا کا بتایا ھوا تھا آپ نے فرمایاکہ :

انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رھا ھوںایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری عترت جو میرے اھل بیت (ع) ھیں جب تک ان دونوں سے وابستہ رھوگے کبھی گمراہ نہ ھو گے ۔

کبھی فرمایا :مثل اھل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق و ھویٰ میرے اھلبیت (ع) کی مثال کشتیٴ نوح کی سی ھے جو اس پر سوار ھوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے الگ ھوا وہ غرق ھوا ۔

کبھی فرمایا :انا مدینة العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیات الباب میں علم کا شھر ھوں اور علی (ع)اس کا دروازہ ھیں لھذا جو علم کا طلبگار ھو اسے دروازہ پر آنا چاھئے ۔

فرقھٴ شیعہ نے رسول اللہ کے بعد جس طرح حکومت کا حقدار صرف انھیں کو سمجھا جن کے لئے خدا و رسول کا اعلان ھو چکا تھا اسی طرح دینی تعلیمات کے باب میں بھی صرف انھی کی رھنمائی قبول کی اور صرف انھیں ارشادات کو دینی تعلیم کا سر چشمہ مانا جو قرآن ،حدیث رسول اور ان اھلبیت معصومین (ع) سے پھنچے ھوں جنھیں پیغمبر نے اپنے علوم کا ورثہ دار بنایا اور بتایا تھا ۔

قانون الٰھی کے تحت کچھ فرائض مقرر ھیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی درستی کے لئے ضروری ھیں ، ان میں سے جو بھت اھم حیثیت رکھتے ھیں وہ ارکان اسلام کھے جاتے ھیں جنھیں عام طور پر فروع دین کھا جاتا ھے اس لئے کہ ان فروع کا اصول عقائد کے ساتھ وھی تعلق رکھتے ھیں جو شاخوں کو درخت کے ساتھ ھوتا ھے ، ان پر عمل کرنا ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے اور بغیر ان پر عمل کے اسلام کا مقصد حاصل نھیں ھو سکتا ۔

قانون الٰھی کو مذھب کی زبان میں شریعت کھتے ھیں اور جو اس قانون کے تقاضے ھوں انھیں احکام شرعی کھا جاتا ھے ۔

ضروریات دین

وہ شرعی احکام جو تمام مسلمانوںکے لئے مسلّم اور ثابت شدہ ھوں انھیں ضروریات دین کھا جاتا ھے جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة کا واجب ھونا ، شراب ، زنا اور سود خواری کا حرام ھونا بلکہ نماز کے کچھ شرائط اور کچھ کیفیات مثلاً نماز کے لئے طھارت کا ضروری ھونا ، قبلہ ، شب و روز کی واجب نمازوں کی تعداد ، ان کی رکعتیں اور قیام و قعود اور رکوع و سجود کا جزء نماز ھونا وغیرہ ۔ ضروریات دین میں داخل ھیں جن کا منکر کافر ھے ۔اس طرح اگر فھرست ضروریات دین مرتب کی جائے تو کافی بسیط ھو گی ۔

احکام شرع کے ماخذ

احکام شرع حاصل کرنے کے چار ذریعے ھیں :

(۱) قرآن ۔ اس میں جن آیات کے معنی ظاھر ھیں انھیں خود سمجہ کر عمل کرنا فرض ھے اور جن کے معنی مجمل یا مبھم ھیں ان کی شرح کو احادیث معصومین (ع) سے معلوم کرنا چاھئے ان آیتوں میں رائے زنی کرنا درست نھیں ھے ۔

(۲) حدیث ۔ یعنی رسول اللہ اور آپ کے جانشین ائمہ (ع) کے اقوال و افعال ۔

(۳) اجماع ۔ اس میں عام اشخاص کا کسی بات پر متفق ھونا کو ئی حیثیت نھیں رکھتاجب تک کسی ذریعے سے یہ یقین نہ ھو جائے کہ امام (ع) بھی ان سے متفق ھیں ۔ اس کا موجودہ زمانہ میں حاصل ھونا غیر ممکن ھے ۔

(۴) عقل ۔ یقینی طور پر جو عقل کے فیصلے ھوں جیسے امانتداری کا مستحسن ھونا ، خیانت کا فعل قبیح ھونا ، یہ فیصلے عقل کے نزدیک مستند ھیں مگر قیاس یعنی ایک چیز کے شرعی حکم سے دوسری چیز کے شرعی حکم کا صرف گمان کی بناء پر اپنے دل سے نکالنا ھمارے نزدیک بے اصل ھے اور اس پر عمل کرنا جائز نھیں ھے ۔

اصول عملیّہ

جس چیز کے بارے میں مذکورہ ماخذوں سے کوئی علم حاصل نہ ھو سکے اور اس میں شک ھوکہ اسے کیا سمجھا جائے اور عملاً کیا کیا جائے ؟ اس کے قوائد و ضوابط جو مذکورہ بالا ماخذوں ھی سے حاصل ھوئے ھیں اصول عملیّہ کھلاتے ھیں ۔ یہ چار ھیں :

(۱) استصحاب ۔ یعنی جو بات پھلے ھو اسے باقی سمجھا جائے جب تک کہ اس میں تبدیلی کے وقوع کا علم نہ ھو ۔

(۲) برائت ۔ یعنی جس شے کے متعلق شرع کی جانب سے فعل یا ترک کی پابندی ثابت نہ ھو اسے جائز سمجھنا چاھئے ۔

(۳) احتیاط ۔ یعنی جب شرع کی جانب سے وجوب یا حرمت کی پابندی عائد ھونا ثابت ھو مگر پتہ نہ ھو کہ کیا واجب ھے یا کیا حرام ھے یا اس پابندی کے ادا کرنے کے طریقہ میں شک ھو تو ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ یقینی طور پر انسان بری الذمہ ھو جائے اور حکم مولا کی تعمیل یقینی طور پر ھو جائے ۔

(۴) تخیئر ۔ جب کہ فعل یا ترک کی پابندی عائد ھونے کا یقین ھو مگر تعین کے ساتھ معلوم نہ ھو اور احتیاط کی کوئی صورت ھو ھی نہ تو کسی بھی ایک پھلو پر عمل کرنے کا اختیار ھو گا ۔

یہ تمام قاعدے جیسا کہ کھا گیا طبع زاد یا خود ساختہ نھیں ھیں بلکہ انھیں شرع کے ماخذوں سے ثابت ھیں لھذا ان پر عمل در حقیقت انھیں شرعی دلائل پر عمل ھے، کوئی الگ چیز نھیں ھے ۔

اجتھاد و تقلید

مذکورہ بالا ماخذوں اور ان سے مستفاد اصول و قواعد سے احکام شرعیہ کو سمجھنے کی کوشش کا نام اجتھاد ھے نہ کہ دل بخواہ احکام تراشنے کا اور جو لوگ اس طرح احکام کوخود سمجہ سکیں ، وہ مجتھد کھلاتے ھیں اور جو اتنی قابلیت نھیں رکھتے کہ وہ خود اس طرح احکام کو سمجہ سکتے ھوں تو ان کے لئے احکام شرعیہ پر عمل کرنے کا صحیح طریقہ یھی ھو سکتا ھے کہ وہ کسی اپنے بھروسے کے مجتھد کی طرف رجوع کریں اور اس سے مسائل کو دریافت کر کے ان پر عمل کریں ۔ اس کا نام تقلید ھے ۔

تقلید و اجتھاد کوئی پیری مریدی کی طرح کی چیز نھیں ھے اس لئے نہ مجتھد سے بیعت کرنا ھوتی ھے اور نہ کسی رسم کے ادا کرنے کی ضرورت ھوتی ھے بلکہ مجتھد کو اطلاع تک دینے کی ضرورت نھیں ھے کہ میں آپ کا مقلد ھوتا ھوں ۔

تقلید مابین خود و خدا احکام الٰھی پر عمل کرنے کاایک امکانی ذریعہ ھے اور اس کے سوا کچھ نھیں ۔

تقلید فقط فروع دین میں کی جاتی جن کا تفصیلی بیان توضیح المسائل میں موجود ھے ۔


source : http://shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیعہ اور سنی علماءکے دوستانہ تعلقات
عظمت جناب ابو طالب علیہ السلام اور ان کا ایمان ...
نوجوانوں کي فکري تشويش
اسلامی سیاست کے سلسلے میں سوالات
حضرت علی(ع) کی نظر امامت کے
200 سالہ تاریخ کی حامل مسجد
مشکلات زندگي ميں قرآن کي رہنمائي
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انسان مشين تو نہيں ہے !
انتظار احادیث كی روشنی میں

 
user comment