اردو
Wednesday 13th of November 2024
0
نفر 0

قرآن کا سیاسی نظام

انسانی زندگی کے مختلف تاریخی ادوار نے ثابت کیا ھے کہ انسانی معاشرے سے وابستہ امور کی تدبیر اور سیاست پر خاص توجہ رکھنا چاھئے ، کیونکہ معاشرے کے نظام کو عقل و رسم و رواج اور شرع نے موضوع بحث قراردیا ھے اور ان میں سے ھر ایک کے تقاضے کی بنا پر انسانی معاشرے کا نظام تیار ھوا ھے ۔ سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں
قرآن کا سیاسی نظام

انسانی زندگی کے مختلف تاریخی ادوار نے ثابت کیا ھے کہ انسانی معاشرے سے وابستہ امور کی تدبیر اور سیاست پر خاص توجہ رکھنا چاھئے ، کیونکہ معاشرے کے نظام کو عقل و رسم و رواج اور شرع نے موضوع بحث قراردیا ھے اور ان میں سے ھر ایک کے تقاضے کی بنا پر انسانی معاشرے کا نظام تیار ھوا ھے ۔
سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں دوسرے ادیان سے کھیں زیادہ اھم اور نمایاں ھے ۔ اسلامی احکام و قوانین پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یقین ھوجاتا ھے کہ سیاست کو شرع مقدس سے جدا نھیں کیا جا سکتا کیونکہ شرع کے تار و پود میں سیاست مضمر ھے ۔
حکومت ، ولایت ، امر بہ معروف ، نھی عن المنکر ، جھاد ، دفاع ، قضاوت ، شھادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ، معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق ، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰة ، خمس ، غنائم ، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ان فقھی اور اسلامی معارف کے زمرے میں شامل ھیں جنھیں معاشرے کی سیاست و تدبیر سے علیحدہ نھیں کیا جا سکتا ۔ یھاں تک کہ عبادات میں سے حج ، نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ کا تعلق سیاست سے قابل توجہ ھونے کے ساتھ ساتھ ناقابل جدائی ھے ۔
پیغمبر اسلام کی سیرت اور سیاست دونوں ایک کھلی کتاب کے مانند ھیں ، جو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ھے۔
یہ کھنا غلط ھے کہ رسول خدا محض عبادات ، اعتقادات کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت و ھدایت ھی کرتے رھے ۔ اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ! مختلف ملکی سر براھوں کے نام آنحضرت کے خطوط ، عملی طور پر ظالم و جابر افراد کے خلاف اقدامات ، شیطانی سیاست اور سیاست مداروں سے ٹکر ، باطل کے خلاف جنگ میں لوگوں کو جمع کرنا ، مسند قضاوت پر بیٹھنا ، (عدل و انصاف قائم کرنا ) اور تمام سماجی امور میں رھنمائی کرنا .........․․․ایسے رویّے اور طور طریقے ھیں جن کو پیغمبر کی سنت و سیرت سے جدا نھیں کیا جاسکتا ۔ لھذا سیاسی مسائل کی اھمیت ، ان کا شریعت سے تعلق ، اور بانی ٴاسلام کی ان معاملات میںبراہ راست رھنما ئی ، نیز اسلامی معاشرے کی ھدایت کی ذمہ داری نہ صرف عقل و شرع کے بدیھی امور میں شمار کی جاتی ھے بلکہ ان میں ابھام کی کوئی گنجائش نھیںھے ۔
چونکہ پیش نظر مباحث کا موضوع اسلام کا سیاسی نظام ھے ، لھذا ان میں حسب ذیل امور کا تجزیہ ضردری ھے :

1-سیاست کا مفھوم اور حیات انسانی میں اس کامقام

۲۔ اسلام میں سیاست اور اس کے ابعاد
۳۔اسلام کا سیاسی نظام اور قرآن میں اس کے مقدمات و اصول
۴۔ قرآنی نقطۂ نظر سے سیاست کے مقاصد


سیاست کا مفھوم

لفظ سیاست کے مروجّہ معنوں اور دنیا کے دھوکے باز سیاسی رھنماؤں کے عمل کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ لفظ سیاست کے معنوں میں اتنی تحریف کی گئی ھے کہ آج دنیا میں جو کچہ ھو رھا ھے وہ اس لفظ کے لغوی و حقیقی معنوں سے تضاد رکھتا ھے ۔یہ بات ھم کو مجبور کرتی ھے کہ ھم سب سے پھلے لفظ سیاست کے مفھوم کی توضیح پیش کریں ۔ اس کے بعد سیاسی نظام کے ابعاد اور قرآنی نقطۂ نظر سے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں ۔
لغت اور اسلامی کتابوں کے ماخذ اور متون میں مندرج لفظ سیاست کے معنوں پر غور کرنے سے یہ مستفاد ھوتاھے کہ سیاست کے حقیقی معنی ، انسانی معاشرے ، ملک اور عوام کی سر پرستی و قیادت کے ان ابعاد پر مشتمل ھیں ، جن کے ذریعہ ان کی فلاح و بھبود اور ترقی کی ضمانت ملتی ھے ۔
لفظ سیاست پر مشتمل تشریحات کو لغت کی بعض کتابوں نے درج کیا ھے :


مجمع البحرین

ساس ، یسوس ، الرعیه ، امرھا و نهاها ، سیاست کے معنی ، عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد کرنے کے ھیں ۔ حدیث میںھے : ” ثم فوض الی النبی امر الدین و الامة لیسوس عباد“ ” دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راھنمائی کریں ۔


دائرة المعارف بستانی

ساس القوم ، دبرهم و تولیٰ امرهم ۔ الامر : قام به ، فهو ساس السیاسة : استصلاح الخلق بار شاد هم الی الطریق المنجی فی العاجل او الآجل السیاسة المدینة : تدبیر المعاش مع العموم علیٰ سنن العدل و الاستقامه “
کسی معاشرے کی سیاست کرنا : ان کے امور کی تدبیر اور ان کے تقاضوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف و رھنمائی کے معاملات کو آزادی سے بجالاناھے ۔ سیاست مدن : یعنی معاشرے کی معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں پر فراھم کرنا ۔


عربی لغت ، لاروس

ساس الوالی الرعیه : ”تولی امرهاواحسن النظر الیها “ حاکم نے رعایا کی سیاست کرنے کی ذمہ داری قبول کی : یعنی عوام کے تمام کارو بار کی ذمہ داری قبول کر کے ان کی فلاح و بھبود کے لئے سوچا ۔
” منجد الطلاب “ کے ترجمے میںبھی سیاست کی اس طرح تعریف کی گئی ھے ۔ مملکت داری، عوام کے امور کی اصلاح ، ملکی کار وبار کا انتظام ، اور سیاست مدن یعنی معاشرے کو سیاست کرنا ۔


فارسی لغت ’ ’معین “ میں سیاست مذکورہ بالا معنوں کے علاوہ حسب ذیل معنی بھی درج کئے گئے ھیں ۔ ” قضاوت ، عدالت ، سزا ، جزا ، تنبیہ ، ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے داخلی اور خارجی امور کا انتظام “
اسی طرح ” اخوان الصفا “ کتاب کے حوالے سے سیاست کے کئی بُعد بتائے جاتے ھیں ۔ اقتصادی سیاست ، سیاست مدن اور جسمانی سیاست جو بدن کو قوت بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے علاوہ اسے توازن اور حد اعتدال سے خارج ھونے سے روکتی ھے ۔ ” اخلاق ناصری “ کتاب سے نقل کیا گیا ھے کہ سیاست فاضلہ کو امامت کھتے ھیں ۔ اور اس سے مراد تکمیل خلق ھے جو سعادت کے حصول کے لئے ضروری اور لازمی ھے ۔
علمی اور عقلی مباحث میں حکماء و فلاسفہ نے حکمت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ھے ۔

حکمت نظری:

اس علم کو کھتے ھیںجس کے ذریعہ عقل انسانی اپنی قدرت و توانائی کے مطابق جو موجودات کے حقیقی حالات کے بارے میںعلم رکھتی ھو۔

حکمت عملی :

جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ھے ۔
(۱)اخلاق یعنی خود سازی (۲)تدبیر منزل یعنی گھریلو امور کی تنظیم (۳)سیاست مدن یعنی شھری اور ملکی پیمانے پر تشکیل حکومت تاکہ انسانی اجتماع کے مسائل و مشکلات کو حل کیا جائے ۔
مذکورہ مفاھیم اور آج کی دنیا میں رائج سیاست اور سیاسی رھنماؤں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ھے ، اس لئے کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سر حدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی ،نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ھے۔ یہ عوام دشمن غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انھیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے کرنے کو نصب العین بنائے ھوئے ھیں ۔ ظاھر ھے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل میں کوئی گنجائش نھیں ۔
اب تک سیاست کے مختلف معنی جو ھم ذکر کرتے چلے آئے ھیں اورجن معنوں پر مصلح اور دانشور افراد غور و فکر کرتے رھے ھیں ، وہ انسان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ھیں اور بے شک اسلام اور دوسرے ادیان نے اس کی نسبت خاص اھتمام کیا ھے اور کبھی اس پر غور و فکر کرنے سے منع نھیں کیاھے ۔
اگر محض قرآنی نقطۂ نظر سے انبیاء علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ھے کہ انسانوں کے حقیقی اور سچے رھنما اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں (ع) نے عوامی معاملات کی بھلائی کے لئے کس قدر جانفشانی کی ھے ، خاص طور پر سیاست ، رھبری اور اصلاح کے لحاظ سے ان کی خدمات مثالی ، قابل تحسین و قابل عمل و پیروی ھیں ۔


دو طرح کے سر براہ بے جانہ ھو گا

اگر یھاں ایک خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرتے چلیں کہ قرآن مجید نے دو طرح کے سر براھوں کا ذکر کیا ھے ۔الھی رھبراور شیطانی سربراہ جو ایک دوسرے کی مخالف جھت میں چلتے رھے ھیں ۔ قرآن میں جھاں بھی ان دونوں طرح کے سربراھوں کا ذکر ھوا ھے وھاں ان کے حکمرانی کے طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی ھے ، بعنوان مثال :

۱۔ سلیمان (ع) اور بلقیس کے سلسلے میں یوں بیان ھواھے :
” قالت ان الملوک اذا دخلوا قریة افسد و ها وجعلوا اعزة اهلها اذلة و کذلک یفعلون “(۱)
اس نے کھا کہ بادشاہ جب کسی علاقہ میں داخل ھوتے ھیں تو بستی کو ویران کردیتے ھیں اور صاحبان عزت کو ذلیل کردیتے ھیں اور ان کا یھی طریقہ کار ھوتا ھے ۔
اگر چہ یہ آیت بلقیس کی ترجمانی کر رھی ھے ، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ قرآن مجید جب کبھی کسی بات کو درج کر کے رد نھیں کرتا تو اس کا حکم دستخط اور تصدیق کے برابر ھے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ھے کہ بادشاہ بنیادی طور پر اسی طرح کے ھوتے ھیں، یعنی مفسد ، تباہ کار ، گمراہ کن اور غاصب ۔


۲۔ حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت خضر (ع) سے متعلق کشتی کا واقعہ بیان ھوا ھے ۔ وھاں حسب ذیل آیت ھے :
” ام السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاٴردت ان اعیبھا و کان و راء ھم ملک یاٴخذ کل سفینة غصبا “
جھاں تک اس کشتی کی بات ھے تو اس کا تعلق ان غریب افراد سے تھا جو دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ اس لئے کرنا چاھا تھا ،کہ ان پر ایک ایسے بادشاہ کا تسلط تھا جو کشتیوں کوھتھیا لیتا تھا ۔
قرآن میں مسرفین ، مستکبرین ، مفسدین اور مترفین جیسی تعبیریںطاغوتوں اور صاحب مال و قدرت سربراھوں کےلئے بارھا استعمال ھوئی ھیں ۔

حقیقی سر براھوں کی خصوصیات

قرآن میں ایسے واقعات بھی ھیں جن میں ایسے سر براھوں کا ذکر ھے جنھوں نے عوام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ھوئے صحیح اقدامات کئے ھیں۔
ایک واقعہ تو وھی ھے جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایک ایسا فرما نروا اور سر براہ دیا جائے جو ان کو ساتھ لے کر دشمن سے مقابلہ کر سکے :
” وقال لهم نبیهم ان الله قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا ونحن احق بالملک منه و لم یؤت سعة من المال قال ان الله اصطفه علیکم و زاده بسطة فی العلم وا لجسم و الله یؤتی ملکه من یشاء و الله واسع علیم “ (۲)
” ان کے پیغمبر نے کھا اللہ نے تمھارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ھے ۔ ان لوگوں نے کھا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نھیں ھے ان سے زیادہ تو ھمیں حقدار حکومت ھیں ۔ نبی نے جواب دیا کہ انھیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ھے اور اللہ جسے چاھتا ھے اپنا ملک دے دیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی ھے ۔
یہ آیت ان افراد کے افکار و خیالات کی تردید کرتی ھے جو سربراھی کے لئے مال و ثروت کو ضروری سمجھتے ھیں اور ایک ایسے معیار سے آشنا کراتی ھے جو کسی فرد کی حاکمانہ لیاقت و قابلیت کا ثبوت فراھم کرتا ھو ، یھاں علم و قدرت کواستحقاق فرمانروائی کا معیار قرار دیا گیا ھے ۔
اس آیۂ مبارکہ میں ایک بھت لطیف نکتہ یہ ھے کہ جو سر براھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیادوں پر مستحکم ھوتی ھے وہ الطاف باری تعالیٰ سے سر شار ھوتی ھے اور خدا وند کریم سوائے ان لوگوں کے جو اھلیت رکھتے ھیں ھر کس و ناکس کو اس عطیہ سے نھیں نوازتا ، اس لئے کہ یہ عطیہ وھی مالکیت مالک الملک ھے جو لائق و شایستہ سربراہ کی ملکیت میں دیا جاتا ھے ورنہ انسان کوحق نھیں ھے کہ وہ علم ، قدرت اور اپنی سربراھی پر ناز کرے ، اس لئے کہ قدرت اور علم در حقیقت ابتداء خدا وند کریم کے لئے ھے پھر کھیں انسان تک اس کی رسائی ھوتی ھے ۔
”قل اللهم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر “ ( ۳)
پیغمبر آپ کھئے کہ خدا یا تو صاحب اقتدار ھے جس کو چاھتا ھے اقتدار دیدیتاھے اور جس سے چاھتا ھے سلب کرلیتا ھے ۔ جس کو چاھتا ھے عزت دیتاھے اور جس کو چاھتا ھے ذلیل کرتا ھے ۔ سارا خیر تیر ے ھاتھ میں ھے اورھی ھر شہ پر قادر ھے ۔
سورہ بنی اسرائیل میں طالوت و جالوت کے درمیان جنگ کے واقعات اس طرح بیان کئے گئے ھیں :
” فهزموهم باذن الله و قتل داود جالوت و اٰتاه الله الملک و الحمکة و علمه مما یشاء “ (۴)
نتیجہ یہ ھوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دیدی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انھیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاھا دیدیا ۔
اسی طرح یہ آیت حکومت کے اقتدار و مدارج کے ساتھ ساتھ علم اور حکمت پر زور دیتے ھوئے ذمہ داریوں میں سے ایک ایسی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کرتی ھے جو الٰھی سر براھوں کے ذمے ھوتی ھے ، مثلا دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا .........․۔ اس بحث کو حکومت کے سیاسی مسائل اور فرائض کے ضمن میں بیان ھونا چاھئے ۔
قرآن کریم میں ایسے پیغمبروں کے نام بھی درج ھیں جو مقام نبوت کے علاوہ معاشرتی ثقافت و سیاست کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ، ان میں سے پیغمبر داؤد ، سلیمان ، یوسف اور ذو القرنین علیھم السلام کے نام قابل ذکر ھیں۔

۱۔” یا دا وٴد انا جعلناک خلیفةفی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل الله “ ( ۵)
اے داؤد ھم نے تم کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ھے ، لھذا لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ فیصلہ کرو اورخواھشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ رارہ خدا سے بھٹک جاتے ھیں ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کردیا ۔

۲۔” و ورث سلیمان داوٴد و قال یا ایها الناس علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی ان هذا لهو الفضل المبین “ ” و حشر لسلیمان جنود ه  من الجن و الانس و الطیر فهم یوزعون “ (۶)
” اورپھر سلیمان داؤدکے وراث ھوئے اور انھوںنے کھا کہ لوگوںمجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیاھے اورھر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ھے اور یہ خدا کا کھلا ھوا فضل وکرم ھے اور سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جنات انسان اورپرندے سب اکٹھا کئے جاتے تھے تو بالکل مرتب منظم کھڑے کردئے جاتے تھے ۔
تفسیر صافی میں مجمع البیان سے اور مجمع البیان میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت ھے کہ حضرت سلیمان (ع) کی حکومت کا دائرہ مشرق سے لیکر مغرب تک پھیلا ھوا تھا ۔ انھوں نے زمین پر بسنے والے تمام جن و انس ، شیاطین ، چرند و پرند اور وحشی جانوروں پر سات سو سال سے زیادہ حکومت کی تھی ۔

۳۔” و قال الملک ائتونی به استخلصه لنفسی فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین “” قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم “ ” و کذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منها حیث یشاء نصیب برحمتنا من نشاء و لا نضیع اجر المحسنین “ ( ۷)
اور بادشاہ نے کھا کہ انھیں سے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کھا کہ تم آج ھمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رھو گے پھریوسف نے کھا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ھوں اور صاحب علم بھی اور اس طرح ھم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جھاں چاھیں رھیں ھم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاھتے ھیں مرتبہ دے دیتے ھیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نھیں کرتے ۔
حضرت یوسف (ع) مصر کے زندان میں بھی لوگوں کی بری حالت اور حکومت وقت کے فتنہ و فساد سے با خبر تھے ۔ انھوں نے مصر ی عوام پر حکمراں سیاسی نظام کو ختم کر کے انھیں امن و انصاف مھیا کرنے کی فکر میں کوئی فروگذاشت نھیں کی ۔جس وقت وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان کرنے کے سلسلے میں بے گناہ قیدی کی حیثیت سے پھچانے گئے ، بادشاہ نے ان کے چھرۂ مبارک پر دانشمندی و بیدار مغزی کے آثار دیکھے تو ۔ وہ چاھتا تھا کہ ملک و ملت کی شہ رگ یعنی ملک کی اقتصادی سیاست کی ذمہ داری انھیں سونپ دے۔ اس اھم نکتے سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھیے کہ اقتصادی سیاست پر ملک کے سارے نظام اور عوام کے مستقبل کا دار و مدار ھوتا ھے ۔ ملک کی سیاست سنبھالنے کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع) کے اقوال میںسے ایک اور اھم نکتہ سامنے آتا ھے جو دو بنیادی شرطوں پر مبنی ھے ۔ ایک ” حفیظ “ یعنی محافظ ، امانت دار اور قابل اعتماد ھونا ، دوسری شرط ” علیم “ یعنی ملکی منافع ، مال و دولت ، ذخیروں اور سیاست دولت سے با خبر ھونا ھر سر براہ کے لئے شرط لازم ھے ۔
آیا حضرت آدم (ع) کی خلافت و حکومت میں علم و امانت کے سوا اور کوئی دوسرا محور تھا ؟
” و علم آدم الاسماء کلها “ ” انا عرضنا الامانة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحملها الانسان “
جو شخص ان دونوں صفتوں سے محروم رھا وہ یقینی طور پر ” ظلوم و جھول “ یعنی نادان و ستمگر ٹھھرا ۔ انسانیت پر اب تک جتنے مصائب گذرے ھیں و ہ سب انھیں نادان ا ور ستمگر افراد کے ھاتھوں گذرے ھیںجنھوں نے خلافت کی امانت غصب کر کے انسانی زندگی کے نظام کو تباھی کے حوالے کر رکھا ھے ۔

۴۔ ”ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساٴتلوا علیکم منه ذکر ا انا مکنّا له فی الارض و آتیناه من کل شئی سببا “(۸)
اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو آپ کھدیجئے کہ میں عنقریب تمھارے سامنے انکا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا ۔ ھم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا اور ھر شئی کا سازو سامان عطا کردیا ۔
اس کے بعد محروم طبقوں کو نجات دلانے کے لئے ان کے مشرق و مغرب کے سفر کا ذکر ھوتا ھے ۔ یا جوج و ماجوج کے ظلم و ستم اور فساد کو روکنے اور مستضعفین اور محرومین کو شکنجے سے نجات دلانے کے لئے اسکندر نے دونوں طبقوں کے درمیان ایک دفاعی دیوار بنانے کے لئے کچہ اقدامات کئے تھے ، اس کی مزیز تفصیل قرآن مجید ا ور تفسیروں میں تلاش کرنا چاھئے ، بنیادی نکتہ یہ ھے کہ خدا وند کریم کی جانب سے مبعوث ھونے والے اس سربراہ اور انصاف پسند حکمراں نے ( اسکندر نام کا ایک باندہ ) قائم کیا تاکہ محروموں پر حملہ آور دشمن کے حملوں میں رکاوٹ ڈال سکے اور اس قابل تعریف اقدام کو اس طرح انجام دیا جس طرح سے ایک الٰھی سیاست کا ر اور زمامدار کو انجام دینا چاھئے ۔( سورہ کھف کی ۸۳ سے لیکر ۹۸ آیت تک ملاحظہ ھو )
بیان کردہ واقعات و حقائق ثابت کرتے ھیں کہ تاریخ کے طویل عرصے میں ایسے پیغمبر اور مردان حق گذرے ھیں جنھوں نے ملک اور عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کی راھنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طریقے پر انجام دیے ھیں ،اور جس راہ پر سیاسی کارکنوں کو چلنا اور جن اغراض و مقاصد کو پورا کرنا چاھئے ان کی نشاندھی بھی انھوں نے اس طرح سے کی ھے کہ دوسروں کے لئے بطور نمونہ باقی رھیں ۔


اس باب کی اصولی بحثیں

۱۔ قرآن میں حکومت اور قانونی حکمراں ( حاکم شرع) کی بنیاد
۲۔ قرآنی نقطۂ نظر سے سیاسی نظام کے مقاصد و نتائج
۳۔ قرآن میں سیاسی نظام کے ارکان
۴۔ قرآنی نقطۂ نظر سے طرز حکومت


تتمہ :
سیاسی رجحانات کے سامنے عوام اور مذھبی رھنماؤں کی ذمہ داری
بنیاد ِحکومت
فرمانروائی

نص قرآن کے مطابق مطلق اور کلی حاکمیت صرف خالق کائنات کو حاصل ھے کائناتی مطالعے ، آئیڈیا لوجی اور اعتقاد کا نتیجہ یھی ھے ۔ یھی عقیدہ پورے نظام کی اساس ھے۔ چونکہ ایک وجود مطلق ھی پوری کائنات کا فرمانروائے حکیم و عادل وقادر و سرمدی ھے لھذاظاھر ھے کہ انسانی سر نوشت بھی اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ھے ۔ اسی فلسفے سے یہ نتیجہ بھی حاصل ھوتا ھے کہ اولاً وبالذات اللہ حاکم ھے اور اس کے بعد ھر انسان خلیفہ ،نمایندہ اور رضائے خدا یا احکام خدا کا نافذکرنے والا ھے ۔ اس فلسفے کے لئے قرآن کی درج ذیل آیتیں تائید و راھنمائی کرتی ھیں :
” ان الحکم الا للّه امر الا تعبد و ا الا ایاه “ ( ۹)
جب کہ حکم کرنے کا حق صر ف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔
” فالحکم للّه العلی الکبیر “ (۱۰)فیصلہ صرف خدا نے بلند و بزرگ کے ھاتھ میں ھے ۔
” و من احسن من الله حکما لقوم یوقنون “ ( ۱۱)جب کہ صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بھتر کسی کا فیصلہ ھوسکتا ھے ۔
” ان الحکم الا للّه یقص الحق و هو خیر الفاصلین “ ( ۱۲)حکم صرف اللہ کے اختیار میں ھے وھی حق کو بیان کرتا ھے اور وھی بھترین فیصلہ کرنے والا ھے ۔
متعدد آیات کے مطالعے سے معلوم ھوتا ھے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی انسانی فرمانروائی کی طرح نھیں ھے ، جو طاقت اور سطوت کے بل بوتے پر حاصل ھوتی ھے ، بلکہ ان اشاروں کے سھارے جو آیات میں موجود ھیں اسکی فرمانروائی کا راز جبروت ، استغنا ، قدرت ، علم ، حکمت ، ربوبیت ، عدل و انصاف اور اللہ کے دیگر صفات جمالیہ وجلالیہ میں تلاش کرنا چاھئے ۔ اس طرح سے اگر خدا وند عالم حاکمیت اور فرمانروائی اپنے بندوں کو عطا کرتا ھے تو محض اس لئے کہ وہ بھی اس کی حکمت کے تابع اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ھیں۔ پیغمبر اکرم کی فرمانروائی کے سلسلے میں ارشاد ھوتا ھے :
”فلا و ربک لا یوٴمنون حتیٰ یحکموک فیما شجربینهم ثم لا یجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۱۳)
پس آپ کے پروردگا ر کی قسم یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپکو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں ۔
” و ان حکمت فا حکم بینهم بالقسط ان الله یحب المقسطین “ ’(۱۴)’ اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے ما بین انصاف سے فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ منصفوں کو دوست رکھتا ھے “ ۔
اس سلسلے میں اور بھی بھت سی آیات ھیں ۔
حق اور انصاف کے ساتھ فرمانروائی کا حکم اللہ نے محض اپنے پیغمبروں تک ھی محدود نھیں رکھا بلکہ تمام مومنوں پر بھی یہ حکم نافذ ھوتا ھے کہ جب کبھی کوئی فیصلہ کریں تو حق اور انصاف کا پورا پورا خیال رکھیں اوراسکے پابند رھیں ۔
” ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اهلها و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا با لعدل ان الله نعما یعظکم به ان الله کان سمیعا بصیرا “ (۱۵)
” بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پھنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمھیں بھترین نصیحت کرتا ھے بیشک اللہ سمیع بھی ھے اور بصیر بھی ۔
آیت کے دو حصے ھیں ۔ ” ان الله یامرکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واذاحکمتم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ان دونوں حصوں میں اگر واو کو قرینہ مانا جائے تو امانت سے مراد امامت ، حکومت اور عدالت ھے لیکن اگر امانت کو کلی بھی مان لیا جائے تو اس میں ھر قسم کی امانتیں شامل ھوں گی اور اگر اس بحث میں نہ بھی پڑیں تب بھی ماننا پڑے گا کہ امامت و حکومت تمام انواع امانت میں نمایاں ترین امانت ھے اور یقینی طور پر آیت سے یھی حکم ملتا ھے کہ یہ امانت یعنی حکومت ، اھل افراد کے حوالے کی جائے ، کیونکہ اگر ایک نا چیز مادی شئی کو امانت کا نام دیکر اھل کے حوالے کرنا فرض ھے تو حکومت وقضا ، سیاست و تدبیر معاشرہ ، امانت کا برتر و بھتر مصداق کیوں نہ اھل کے سپرد ھو ؟ چنانچہ تفاسیر میں ” امانت “ کو امامت و زعامت سے تعبیر کیا گیا ھے اور ” انا عرضنا الامانة “ میں امانت سے متعلق واضح ترین تفسیر یھی ھے ائمہ اھل بیت (ع) کی روایات اس کی طرف رھنمائی کرتی ھیں ۔
بھرحال یہ دیکھا جائے کہ اس امانت کا اھل کون ھے ؟ کیا ظلوم و جھول افراد ھیں “ جو ” لا ینال عهد ی الظالمین “ کے مصداق ھیں ؟ یا صالح ،مومن ، بے لوث اور عالم و متقی افراد ھیں ؟ ظاھر ھے کہ دوسرا جواب صحیح ھے ۔
بھر حال ، خدا وند کریم نے مومنوں کو امانت کی نمایاں قسم امامت و سیاست کو ان اھل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ھے جو خلافت الٰھی کی صلاحیت اور پیغمبروں کی نیابت رکھتے ھوئے امة مسلمہ کی قیادت اور اسلامی قدروں کی حفاظت کر سکتے ھوں ،صرف یھی نھیں ” حکم بین الناس “ کے سلسلے میں بھی لوگوں کو یہ ھدایت کی گئی ھوا ھے کہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بھترین نصیحت ھے ۔


ولایت

جس طرح سے لفظ ” حکم “ کا تعلق ابتداء ًاللہ سے پھر اس کے بندوں سے ھے اسی طرح لفظ ” ولایت “ جو سر پرستی اور سربراھی کے معنی رکھتا ھے ، پھلے اللہ پھر پیغمبر اور اولی الامر سے تعلق رکھتا ھے ۔
” انما ولیکم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکوٰة و هم راکعون “ ( ۱۶)
ایمان والوں بس تمھارا ولی اللہ ھے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں ، نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔
” النبی اولی بالمومنین من انفسھم “ (۱۷)
”بیشک نبی تمام مومنین کی جانوںپر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “۔
” یا ایها الذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم “ (۱۸)” اے ایمان لانے والو ! اللہ ، رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ھیں “ ۔
والیان امر کون ھیں ؟ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کون رکھتا ھے ؟ آیا مسند حکومت پر ھر بیٹھنے والے شخص کی اطاعت واجب ھے ؟
نعوذ باللہ ، ایسا ھرگز نھیں ھے کیا قرآن یہ نھیں کھتا ؟ ” و لا تطیعوا امر المسرفین الذین یفسدون فی الارض و لا یصلحون “ ( ۱۹)
اور ان زیادتی ( اسراف ) کرنے والوں کی جو زمین پر فساد کرتے ھیں اور اصلاح نھیں کرتے اطاعت نہ کرو ۔
قرآن کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ھے جو اللہ کے پیغمبروں سے بے رخی اختیار کرتے اور ظالم و جابر افراد کے نقش قدم پر گامزن رھتے ھیں ۔
” و عصوا رسله و اتبعوا امر کل جبار عنید “ (۲۰) ” یہ قوم عاد کے افراد ھیںجو اس کے رسولوں کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور ھر کینہ ور ظالم کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے “ ۔
اسی طرح فرعون کے بارے میں ارشاد ھے:
” وما امر فرعون برشید “ (۲۱) ” فرعون کا حکم صحیح نہ تھا “ ۔
ولایت اور امر کے متعلق جو آیتیں پیش کی گئیں ان پر غور و فکر کرنے سے یہ نتیجہ عائد ھوتا ھے کہ ظالم و جابرادر بے صلاحیت حکام جو ضدی ، مسرف ، غاصب، ظالم اور عقل و علم کے دشمن ھیں ھرگز ” اولی الامر “ کا مصداق نھیں ھو سکتے ۔
” اولی الامر “ کا اطلاق ان رھبروں پر ھوتا ھے جو صالح ، عالم اور منصف ھوں ، پھلے مرحلے میں اولی الامر سے مراد اگر پیغمبر کے ذریعے منتخب افراد ھیں تو دوسرے مرحلے میں اس سے مرادوہ افرادھیں جو علم ، زھد و تقویٰ ، عصمت اور عدل و انصاف کے لحاظ سے تمام انسانوں پر برتری رکھتے ھو ۔
یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو تھوڑی سمجہ بوجہ رکھنے والا بھی آسانی سے سمجہ سکتا ھے ،۔ اگر کوئی شخص اس تعریف کے باجود ” اولی الامر “ جیسی مقدس اصطلاح کو ظالم و جابر افراد کے لئے استعمال کر کے انھیں اللہ و رسول کی صف میں کھڑا کرے تو تعجب کا مقام ھے، لھذا اسلامی معاشرے کو سیاست کرنے کی ذمہ داری ، اسی شخص کو زیب دیتی ھے جو صراط مستقیم پر ایمان رکھتا ھو اور انبیاء و رسل کی راہ پر چلتا اور برحق اماموں کے مشن کی توسیع و تبلیغ کرتا ھو ۔


امامت

قرآن مجید میں اصطلاح ( امام ) کا ذکر متعدد آیات میں ھواھے ، بعض جگھوں پراسے انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام سے تعبیر کیاگیا ھے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے بھی بالا و برترھے ، بعنوان مثال درج ذیل آیت ملاحظہ ھو :
” و اذابتلیٰ ابراهم ربه بکلمات فاتمهن ، قال انی جاعلک للناس اماما ، قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین “ (۲۲) ” اور (اس وقت کو یاد کرو ) جبکہ ابراھیم (ع) کا اس کے رب نے چند کلمات سے امتحان لیا اور ابراھیم (ع) نے اس کو پورا کر دیا، ( خدا نے ) فرمایا کہ میں تم کو تمام انسانوں کا امام مقرر کرنے والا ھوں ،( ابراھیم نے ) عرض کی ،اور میری اولاد میں سے ،( خدا نے ) فرمایا جو ظالم ھوں گے ان تک میرا عھدہ نھیں پھونچے گا ۔
اگر چہ یہ آیت نفوس و قلوب کے اس معنوی مقام و منزل کی نشاندھی کرتی ھے جس کا تعلق عالم ملکوت اور ولایت تکوینی تک محدود ھے اور اس سے ھٹ کر عام چیزوں سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اس لفظ کے عام مفھوم اور آیت کے آخری حصے کو مد نظر رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ظالم افراد قیادت و امامت کے لائق نھیں ھیں ۔ لفظ ظلم کی ضد یعنی عدالت ، امامت و رھبری کے لئے بنیادی شرط ھے لیکن جن آیات میں لفظ امام استعمال ھوا ھے ( اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ امام کے معنی رھبر و پیشوا اور مقدم کے ھیں ) اگر ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ رھبر و پیشوا دو قسم کے ھیں جو ھمیشہ سے انسانوں کو الگ اور متضاد سمتوں میں لے جاتے رھے ھیں ۔
بعنوان مثال لائق اور بر حق اماموں کی بابت یوں بیان ھوا ھے :
” و جعلنا هم ائمة یهدون بامرنا و اوحینا الیهم فعل الخیرات و اقام الصلوٰة و ایتاء الزکوٰة و کانوا لنا عابدین “ (۲۳)
” اور ان کو ھم نے ایسا امام بنایا جو ھمارے حکم کے بمطابق ھدایت کرتے ھیں اور ان کی طرف ھم نے نیکیاں کرنے ، نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی وحی کی اور وہ سب کے سب ھماری بندگی کرنے والے تھے “ ۔
اگر چہ مذکورہ آیت پیغمبروں اور ان کے بار رسالت و ھدایت کے بارے میں نشاندھی کرتی ھے ، لیکن اس کے باوجود انسان کی راھنمائی اور قیادت کو محض پیغمبروں ھی تک محدود نہ کرنا چاھئے اور نہ ھی ان کے دائمی وجود کی کوئی شرط ھونا چاھئے۔اس لئے کہ بھرحال پیغمبروں کی زندگی کا دور بھی اختتام پذیر ھے ۔ اگر یہ طے پائے کہ تا قیامت انسانوں کی راھنمائی الٰھی شریعت کا جذبہ ھی کرتا رھے جو کر رھا ھے ، تو اس جذبے اور اس کے اثرات کو شریعت کے دوسرے ابعاد کی طرح جاری و ساری رھنا چاھئے ۔ لھذا فکری ، دینی ، سماجی اور سیاسی قیادت و رھبری انھیں لوگوں کو زیب دیتی ھے جن کی خصوصیات مذکورہ آیت میں بیان کردہ خصوصیات کے مطابق ھوں ،یعنی خالص بندگیٴ خدا ، پابندی ٴنماز و روزہ اور محرومین و مستضعفین کی مدد کا جذبہ ان میں پایا جاتا ھو ۔ اسی ضمن میں دوسری آیتوں میںبیان شدہ خصوصیات ( علم ، عدل ، پرھیزگاری اور انسان دوستی ) کا حامل بھی ھونا چاھئے ۔
یہ مختصر بیان انسانوں کے سچے اور حقیقی رھنماؤں کے سلسلے میںتھا۔گمراہ اور لیاقت سے عاری رھنماؤں کے بارے میں بھی قرآن ایک اھم نکتہ بیان کرتا ھے :
” و جعلنا هم ائمة یدعون الیٰ النار و یوم القیامة لا ینصرون “ ” ھم نے ان کو ایسا امام بنایا ھے جو جھنم کی طرف دعوت دیتے ھیں اور روز قیامت ایسے لوگوں کاکوئی مدد گار نہ ھوگا “ ۔
یہ آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ مصر میں حکومت ،فرعون اورآل فرعون کے پاس تھی جولوگوں کو جھنم کی اس آگ کی طرف لے جا رھے تھے جس سے نجات پانا مشکل ھے ۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ تاریکی و ظلمت کے دلال بننے ، دوزخ کا بیج بونے اور لوگوں کو دنیا و آخرت سے محروم کرنے کے سوا ظلم و جور کے سر براھوں کا پیشہ اور کچہ نھیں رھا ھے ۔ ان کی ھزاروں سال پر مشتمل حکومت کا نتیجہ یھی تھا کہ انھوں نے ھمیشہ جنگ کی آگ کو بھڑکایا اور ظلم و جور کا سھارا لیکر خود اپنے اور دوسروں کے لئے آخرت کی آگ فراھم کی ۔
اس قسم کی سیاست و رھبری کے مد مقابل لوگوں کے فرائض کیا ھیں ؟
اس کا جواب کسی دوسرے موقعہ پر بیان کیاجائےگا ۔ فی الحال اسی سلسلے میں قرآن کریم کی ایک آیت مندرجہ ذیل ھے :
”فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم “ (۲۴)” سرداران کفر کو یھاں تک مارو کہ وہ باز آجائیں ۔ بے شک وہ ایسے ھیں جن کی قسم کوئی حیثیت نھیںرکھتی “ ۔
فتنہ و فساد کے اختتام اور الٰھی حکومت کے مستقر ھونے تک کفر و استکبار کے خلاف جنگ ( وقاتلوهم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین للّه ) (۲۵)
اسلامی سیاست کا وہ جز ھے ، جسے فوجی سیاست یا اصول ِ دفاع کا نام دیا جا سکتا ھے یہ بحث کافی طویل ھے اور اس مختصر مقالے میں بحث کی گنجائش نھیں ۔


قرآنی نقطۂ نظر سے سیاسی نظام کے بنیادی مقاصد و نتائج

 
کسی حکومت یا سیاسی نظام کی تشکیل اور اسے قانونی درجہ حاصل ھونے کے ھدف کو نظام خلقت اور کائنات کے سارے نظام سے علیحدہ نھیں سمجھا جا سکتا ۔ انسانی زندگی سے وابستہ تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ھم حکومت کے مقاصد کا تعین بھی کر سکتے ھیں ۔
جس حکومت کی بنیاد مادیت یا اس کے نتائج پر مبنی ھو ، اس کے اغراض و مقاصد استکبار ، تسلط ، جاہ طلبی ، ھوا و ھوس اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کے سوا اور کچہ نھیں ھوتے ۔ قرآن کریم فرعونی حکومت اور اس کی سیاست کے متعلق حسب ذیل وضاحت پیش کرتا ھے :
” ان فرعون علافی الارض و جعل اهلها شیعا یستضعف طائفة منهم یذبح ابناء هم یستحی نساء هم انه کان من المفسدین “ (۲۶)
فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اھل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو بالکل کمزور بنادیا ۔


فرعونی سیاست کے اصول
۱۔ تکبر و غرور ،جو اپنی ذات کو مرکز سمجھنے کا نتیجہ اور جس کی غرض جاہ طلبی کی خواھش کو پورا کرنا ھے ۔

۲۔ جس امت میں اتحاد کی تاکید کی گئی تھی اس کے اتحاد کو ختم کرنا فرعونی سیاست کا نصب العین ھے۔

۳۔ مستکبر اور صاحب جاہ و جلال افراد کی عیش و عشرت اور آرام کی خاطر ان محروموں اور مستضعفوں کو غلام بنا نا جن کی زندگی فرعون کے ھاتھ میں تھی ۔

۴۔ لڑکوں کو اس خوف کی وجہ سے قتل کرنا کہ کسی دن یہ بغاوت نہ کردیں ۔

۵۔ لڑکیوں کی عزت و آبرو سے کھیلنا ۔

۶۔ ھر طرح کے سیاسی ، فکری ، اعتقادی ، اقتصادی ، اخلاقی ، فردی اور سماجی انحطاط اور فساد کو فروغ دینا ۔
مذکورہ چہ نکاتی اصولوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی اسٹراٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ھے ، جو ماضی سے لیکر آج تک انسانوں پر حکومت کرتے چلے آئے ھیں ۔ انسانی تھذیب و تمدن ، آبادی اور ملکوں کے وسیع ھونے کے نتیجہ میں ان کی ظالمانہ سیاست دن بدن رنگ لاتی رھی ، یھاں تک کہ آج کی سیاست فرعونیوں کے زمانے سے کھیں زیادہ تباہ کن اورافسوسناک صورتحال اختیار کر چکی ھے ۔ اس موضوع پر یہ ایک آیت ھردور کی فرعونی سیاست کے رویے اور اس کے مقاصد و نتائج کی فھرست مرتب کرنے کے لئے کافی ھے ۔


خلافت الٰھی ، وراثت زمین اور امامت مستضعفین

قرآن مجید میں حکمت الھیہ کی بنیادوں پر حکومت کے اغراض و مقاصد اور اسکے مطلوبہ نتائج اسطرح بیان کیے گئے ھیں :
” و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین “ (۲۷)
اور ھم یہ ارادہ رکھتے ھیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین میں کمزور کر دیے گئے ھیں احسان کریں اور ان کولوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان کو زمین کا وارث قرار دیں ۔ اس سے قبل آیت میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سیاست بیان ھوئی ھے اوریہ آیت حضرت موسیٰ (ع) کا مقصد بعثت بیان کررھی ھے ۔ حضرت موسیٰ (ع) اس لئے مبعوث ھوئے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی حکومت ختم کر کے مستضعفین کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور اس سر زمین کے اصلی مالکوں کو ان کا حق دلائیں ۔ مستقبل کے لئے صاحب اختیار امام و رھبر کا انتخاب کریں اور بنی اسرائیل کے مظلوم عوام کے طبقے سے نکلنے والے رھنما کے ذریعے خدا کے پیام اور الٰھی فلسفے کی حفاظت کریں ۔ حضرت موسیٰ (ع) کی رسالت کا تقاضا یھی تھا ۔
اس آیت کو حضرت موسیٰ (ع) اور بنی اسرائیل ھی تک محدود نھیں سمجھنا چاھئے ۔ اس لئے کہ فعل( نرید ان نمن ) صیغۂ مضارع میں استعمال ھواھے جواستمرارپردلالت کرتاھے ،یعنی خدا وند کریم کا ارادہ ھمیشہ سے یھی رھا ھے کہ وہ انسانوں کی امامت و رھبری اور زمین کی وراثت ، ظالم و غاصب افراد سے چھین کر ان لوگوں کے سپرد فرماتا ھے جو نیک اور صالح ھوں ، یہ سیاست الھیہ دنیا کے قائم رھنے تک جاری ھے اور اس کی مکمل کامیابی اسی وقت ھو گی جب دنیا میں مستبد اور مستکبروں کے آثار باقی نہ رھیں اور زمین پر امامت ، امت مسلمہ کے نیک افراد اور الٰھی ولائق رھبروں کے سپرد ھو جائے ، یہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم کی بیان کی ھوئی وھی خوشخبری ھے جس کے مسلمان منتظر ھیں اور جس کو عملی جامہ پھنانے کی انھیں کوشش کرنا چاھئے ۔


عدل اور اس کے نفاذ کی ضمانت

”لقد ارسلنا رسلنا بالبینات .........․․․ان الله قوی عزیز “(۲۸) ”بے شک ھم نے اپنے رسولوںکو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ھم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدالت پر قائم ھو جائیں اور ھم نے ( خاص )لوھا نازل کیا جس میں سخت خوف ( بھی ) ھے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی ) اوراس لئے تاکہ اللہ یہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے کون مدد کرتا ھے ، بے شک اللہ صاحب قوت و غلبہ اورعزیز ھے “ ۔
یہ آیت انبیا کی بعثت کا اصل مقصد واضح کرنے کے علاوہ ھمیں چند اصول اور بتاتی ھے مثلا :
(الف) تمام پیغمبر عدل و مساوات قائم کرنے کے ذمہ دار ھیں اور یہ کام معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے بغیر ممکن نھیں ۔ لھذا ملک و ملت کی تدبیرا ور سیاست کی ذمہ داری پیغمبروں کا اولین فرض ھے ۔
(ب) اس ھدف کا عملی ھونا اس قانون کی بنیاد پر ھے جو آسمان سے انسانوں کے لئے نازل ھوا ھے ۔ یعنی وہ قانون جو حق و انصاف اور حکمت کے اصولوں پر قائم ھو اور سیاست مداروں کی افراط و تفریط اور تحریف سے دور ھو ۔
(ج) اگر حکمت و نصیحت کا کوئی اثر نہ ھو اور حملہ آور افراد اسی طرح اپنے حملوں کو جاری رکھیں تو اس لوھے سے بنے ھوئے ھتھیاروں سے انھیں کچل دینا چاھئے تاکہ فتنہ و فسادکا خاتمہ ھوجائے ۔
(د) اس آیت میں جھاں سیاست کے بنیادی اصول ، حکمراں ، قانون اور نفاذ کا ذکر ھوا ھے ، وھاں ان کا مبداٴ غیب اور خالق کائنات سے تعلق کا ذکر بھی موجود ھے ۔ اس طرح عوام کا حکومت سے فکری و اعتقادی تعلق بھی ھونا چاھئے ۔ یہ مرحلہ افراد و معاشرہ ٴ انسانی کے لئے آزمائش کا مرحلہ ھے ۔ آیت کا آخری حصہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت و عزت کی نشاندھی کرتا ھے اسی کے ساتھ یہ اشارہ بھی ملتا ھے کہ چونکہ قدرت ، عزت ، مالکیت اور ملوکیت صرف خدا کو زیب دیتی ھے لھذا انسان کسی اور ذریعے سے عزت و طاقت حاصل کرنا چاھے تو وہ ایک غلط اور نا زیباطریقہ ھے اوروہ تکبر وغرور کا راستہ اختیار کر کے ظالم اور جابر افراد کی طرح مجرم قرار پاتا ھے ۔ جبکہ انبیاء و رسل کی راہ اور الٰھی سیاست کی روش یہ نھیں ھے ۔
عدل و مساوات قائم کرنے کے بارے میں تاکید اگر چہ انبیاء و رسل کے عام پروگراموں میں شامل رھی ھے لیکن پیغمبر اسلام نے اس پر خاص توجہ فرمائی ھے ۔
قرآ ن مجید میں ان فرائض کی نشاندھی کی گئی ھے :
” و امرت لا عدل بینکم “ (۲۹) ” مجھے یہ حکم دیا گیا ھے کہ تمھارے ما بین عدل قائم کروں “ ” فاحکم بینھم بالقسط “ (۳۰)” لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو!“
مومنین سے خطاب ھے:
کونوا قوامین لله شهدا ء بالقسط (۳۱)” ُخداکیلئے انصاف کے ساتھ گواہ بننے کیلئے تیار ھو “
عدل و انصاف قائم کرنا الٰھی حکومت کا مقدس فریضہ ھے اور یہ فریضہ انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور امت مسلمہ کی ھر فرد پر عائد ھوتا ھے کہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق اسے پورا کرنے کی جد و جھد کرے ۔ ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کو ان کے اصلی ٹھکانے تک پھنچانے میں ذرہ برابربھی تامل نھیں کرنا چاھئے ۔ ظالموں کا ٹھکانا جھنم ھے ۔
” و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطبا “ ( ۳۲) ” اور رھے نا فرمان ، تو وھی جھنم کے کندے بنے ۔“


مکتب فکر اور قیادت کے تحت اتحاد اسلامی

حکومت کے دوسرے مقاصد و فرائض میں امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم کرنا اور اس کی حفاظت کرناھے ۔

” کان الناس امة واحدة فبعث الله النبیین مبشرین و منذرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیه و .........“ (۳۳)
” ابتدا میں سب لوگ ایک ھی حال پر تھے ۔ پھر خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے انبیا ء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جس بارے میں اختلاف ھے اس کا فیصلہ کریں ،،۔
بشریت کے اتحاد سے اختلاف و انتشار کے خطرے کو دو چیزیں دور کر سکتی ھیں، ایک مکتب فکر اور دوسری قیادت ۔ ان دونوں کا ذکر قرآن میں موجود ھے ۔ مکتب فکرسے مراد وہ دبستان و اسلوب فکر و عمل ھے جس کا ماخذ قرآن مجید اور وحی الٰھی ھے ۔ اور قیادت سے مراد پیغمبروں اور صالح افراد کی قیادت ھے ۔ امت مسلمہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں غیر صالح رھبروں کا دخل رھا ھے اور آج بھی امت مسلمہ کو اس افسوسناک المیہ کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے ۔ حالانکہ اس وقت ایک ارب مسلمان دنیا میں موجود ھیںاور یہ افراد متحد ھوکر دنیا کے خونخوار دشمنوں کے مقابلے میں ایک عظیم الشان طاقت بن سکتے ھیں ۔ یہ امت اپنی ذاتی قوت، اپنی اسٹراٹیجک سیاسی و جغرافیائی حیثیت ، سونے، تیل کے زیر زمینی ذخائر اور اسلام پر بھروسہ کر کے دنیا کے تمام کاروبار کی باگ دوڑ اپنے ھاتھ میں لے سکتی ھے ۔ اس راہ میں ایک مشکل حکمران ھیں جو انسانی معاشرے میں فساد کی جڑ اور ممالک کےلئے کینسر بن چکے ھیں ۔ قرآن کے حکم کے مطابق اس طرح کی حکومتوں کی بیخ کنی کرنا چاھئے تاکہ امت متحد ھو کر ایک صالح قیادت کے تحت اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ یہ قرآن کی ھدایت ھے۔ ” فقاتلوا ائمة الکفر ۔۔۔۔۔(۳۴) وقاتلوهم حتی لا تکون فتنة “ ۔(۳۵)


ارتقائے انسانیت زندگی کی اصلی غایت

انسان کی ارتقا ھے اوراگر شریعت کی تشریع اور پیغمبروں کی بعثت اسی مقصود کو عملی جامہ پھنا نے کے لئے ھوئی ھے تو یقینی طور پر اس غرض کو پورا کرنے میں حکومت کا کردار نا قابل انکار ھے ۔
ملکوں کی تباھی اور انسانوں کی گمراھی زیادہ تر ظالم و جابر حکام کے زیر نگرانی ھوئی ھے اور یھی وجہ ھے کہ قرآن مجید بار بار ان کا ذکر کرتا ھے ۔
” و لقد ارسلنا موسیٰ بآیاتنا و سلطان مبین الیٰ فرعون و ملائه فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشید ، یقدم قومه یوم القیامة فاوردهم النار و بئس الورد المورود “(۳۶)
” اور بے شک ھم نے موسیٰ (ع) کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ فرعون اوراس کے سرداروں کے پاس بھیجا پھر ان سب نے فرعون ھی کے حکم کی تعمیل کی ۔ حالانکہ فرعون کا حکم سچائی سے موافق نہ تھا ۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے آئے گا اور ان سب کو جھنم میں پھنچا دے گا اور وہ کیسی بری اترنے کی جگہ ھو گی جھاںوہ اتریں گے “
طاغوتی حکام انسانی ارتقا میں رکاوٹ ڈالتے ھیں ،انھیں روکنا ٹوکنا چاھئے ۔ ” فمن یکفر بالطاغوت و یوٴمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لها “ (۳۷)” جو طاغوت کا انکارکرے اورخداپر ایمان لائے اس نے خدا کی ایسی مضبوط رسی کوپکڑلیا ھے جو ٹوٹنے والی نھیں ھے ۔
خدا پر ایمان اور طاغوت کاانکار ، مکتب توحید کی پھلی شق ھے : ” و لقد بعثنافی کل امة رسولا ان اعبدو الله و اجتنبوا الطاغوت “ (۳۸)
” اور ھم نے ھر قوم کے لئے ایک رسول بھیجا ، جوان سے کھے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( شیطان ) سے دوری اختیار کرو “
در اصل ارتقاء و وحدت ، صالح افراد کی حاکمیت یعنی قانون ، سیاست اور دینی ثبات ھی کے زیر سایہ ممکن ھے ، اور کفر ، ضلالت اور تباھی طاغوتی سر براھوں کا وہ پیشہ ھے جس سے وہ باز نھیں آسکتے ۔لھذا اصلاح طلب افراد کا ایمانی و انسانی فریضہ ھے کہ انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو فناکے حوالے کر دیں ، تاکہ انسانیت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ اس کے لئے یہ ضروری ھے کہ جس طرح سے حضرت ابراھیم (ع) ،موسیٰ ، حضرت محمد مصطفیٰ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و اولیاء نے عمل کیا اسی طرح عمل کیا جائے ۔ خاتم انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ نے اپنی اعلانیہ دعوت کے دوران تمام ممالک کے سربراھوں کو پیغام روانہ کیے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے باز آکر تسلیم حق ھو جائیں یا مکے کے قبائلی سرداروں ، ثروت مندوں اور سود خواروں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ محروم افراد کے استحصال سے باز آجائیں ۔ آپ پیش قدمی کرتے رھے یھاں تک کہ ان علاقوں ، حکومتوں اور قبائلی سرداروں کے افکار و خیالات میں موجود فساد کی جڑوںکو ریشہ کن کر کے ایسی اسلامی حکومت کی سنگ بنیاد رکھی جو خدا پر ایمان اور انسان کی قد ر وقیمت کی قائل ھے ۔ ” کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمة و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ (۳۹)
” جیسے ھم نے تم ھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ھماری آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ھے،تم کو پاکیزہ کرتا ھے، تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور تم کو وہ سب کچہ سکھاتا ھے جو کچہ تم نھیں جانتے تھے “ ۔
قرآن مجید تربیت اور تزکیہ کے لحاظ سے رھبروں کی ذمہ داری کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ھے ۔
” الذین ان مکنا هم فی الارض .........․․․․ ولله عاقبة الامور “ (۴۰)
”یھی وہ لوگ ھیں جن کو ھم نے زمین میں اقتدار دیاتوانھوں نے نمازقائم کی اور زکوٰة ادا کی ،اور نیک کاموں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ھی کے ھاتھ میںھے ۔
اس لحاظ سے سیاسی رھبروں کی ذمہ داری محض یھی نھیں ھے کہ ملک کے اقتصادیات، سیاست اور امن و امان ھی کو بحال کریں ، بلکہ اخلاق ، ایمان ، عمل ، تقویٰ ، احسان کوبحال کرنے اور فساد و منکر کو اپنی حکومت کے دائرے سے ختم کرنے کی ذمہ داری اس سے بڑھ کر ھے ، در حقیقت یہ بڑی خصوصیت ھے جو اسلام کے سیاسی نظام کو دوسرے سیاسی نظاموں پر فوقیت عطا کرتی ھے ۔


اسلامی نظام میں حقوق

حقوق بھی اسلامی سیاست کا ایک حصہ ھیں اور اس مفروضہ کی بنا پر حقوق سے وابستہ قوانین کا تعین اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسی طرح قانونی حیثیت کا حامل ھے جس طرح سے دین اسلام کی بنیاد پر مبنی اسلامی عدالتوں کے قوانین و مقررات کوقانونی حیثیت حاصل ھے ۔
قرآن مجید میں غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کا ذکر طاغوت کے عنوان سے کیا گیا ھے اور ان کی اطاعت قبول کرنا طاغوت کی اطاعت قبول کرنے کے برابر بتائی گئی ھے ، جبکہ عدالت اور انصاف کا تعلق صرف اللہ ، اس کے رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ھے ۔
(۵) ” یا ایها الذین آمنوا اطیعوا الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واحسن تاویلا “ ” الم تر الی الذین یزعمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان یضلهم ضلالا بعیدا “ (۴۱)
” اے ایمان لانے والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں پھر اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ھو تو فیصلے کےلئے اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ھو ۔ یھی سب سے بھتر اور عمدہ تاویل ھے ۔ کیا تم نے ان کو نھیں دیکھا جو یہ گمان کرتے ھیں کہ جو کچہ تم پرنازل کیا گیا اور جو کچہ تم سے پھلے نازل کیا گیا وہ سب پر ایمان لائے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا جا چکا ھے کہ اس کے منکر ھوں اور شیطان یہ ارادہ رکھتا ھے کہ ان کو بھٹکا کر بڑی گمراھی میں ڈال دے۔
ان آیتوں میں ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ھے جنھوں نے غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کے فیصلوں کو مانا اور ان پر عمل کیا ھے حالانکہ اسلام کے سیاسی، قانونی اور سماجی نظام میں حاکمیت اور قضا کے قانونی مقام کا تعین اللہ ، اس کے رسول اور والیان حق کے ذریعے ھونا لازمی ھے اور جو حکم ان کی جانب سے صادر ھو اس پر عمل کرنا بھی ضروری ھے۔
” و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد ضل ضلالا مبینا “ (۴۲)” کسی مومن مرد کے لئے یہ بات مناسب ھے نہ کسی مومن عورت کے لئے کہ جب خدا اور اس کے رسول نے ایک بات طے کر دی تو پھر انھیں اپنے اس معاملہ میں کچہ بھی اختیار ( باقی ) رھے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا یقینا وہ تو کھلی گمراھی میں پڑے گا “
افراد اور اسلامی معاشرے سے وابستہ قوانین کی ضمانت شرع مقدس اور اس کے قوانین و مقررات کی روشنی میں ان شرعی حاکموں کے ذریعے ھوتی ھے جو اسلامی نظام میں والیان صالح کے ذریعے مقرر کیے جاتے ھیں ۔
قرآنی آیات کی بنا پر اب تک اسلام کے سیاسی نظام میں حکومت کے اغراض و مقاصد اور فرائض کے بارے میں جو کچہ معروضات پیش کیے جا چکے ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے :

۱۔ مکتب حق یعنی اسلام کی حفاظت ،جو تمام فضیلتوں کی اساس ھے ۔
۲۔ طاغوت سے جنگ ،جو تمام خبائث اور تباھیوں کی جڑ ھے ۔
۳۔ مستضعفین کی حمایت اور غریبوں کی مدد ،جو دستور قرآن کی بجا آوری ھے ۔
۴۔ محروموں کے حقوق چھیننے اور غصب کرنے والوں کو کچلنا ۔
۵۔حق ،انصاف اور مساوات کی بنیادوںپر انفرادی اور سماجی حقوق کو محفوظ رکھنا ۔
۶۔ ملک کے اقتصادیات کو فروغ دینے کی غرض سے تبعیض اور استحصال پر قابو پانا ۔
۷۔ اتحاد کو محفوظ رکھتے ھوئے اختلافات کو ختم کرنا ۔
۸۔ انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ارتقا کے لئے شائستہ مکتب فکر اور رھبری کی بنیاد پر لوگوں کو تربیت دینا ۔

اسلام میں نظام حکومت

دوسرا قابل بحث موضوع اسلام میں سیاسی نظام ھے ۔ نظریات ، فلسفوں ، عرف عام اور رسم و رواج کے نقطۂ نظر سے سیاسی نظام اور حکومت کی قسمیں مختلف ھیں ۔حضرت عیسیٰ (ع) مسیح کی ولادت سے چار صدی پھلے یونانی معاشرے میں ارسطو نے ” سیاست “ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی جس میں تین طرح کی حکومتوں کی طرف اشارہ کیا گیاھے : استبدادی ( شخصی ) ، اشرافی ( بالا طبقے کی حکومت ) اور ڈیموکریسی ۔ تاریخ علم سیاسیات کی طویل مدت میں ڈیموکریسی حکومت سب سے بھتر سمجھی گئی ھے ، اس سے قطع نظر کہ مفاھیم میں کس قسم کے اختلافات موجود ھیں ، لوگ اس سے کیا مراد لیتے ھیں اور کس حد تک یہ لفظ صحت و سقم پر مبنی ھے ۔ ھمارا مقصد صرف اتنا ھے کہ اسلامی سیاست و حکومت، مذکورہ حکومتوں میں سے کس حکومت سے مماثلت رکھتی ھے ؟
اس سوال کے جواب میں قرآنی آیتوں پر غور و فکر کرنے کے بعدھم اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ اسلامی معاشرے میں سیاست کا مفھوم ڈیموکریسی کے اس مفھوم سے قریب ھے جس میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب شامل نہ ھو، لیکن ان دونوں کے درمیان وہ بنیادی اختلاف بھی موجود ھے جو اسلامی نظام میں روح سیاست کے تشخص کا باعث ھوتا ھے اور وہ ھے حاکمیت خدائے لا یزال ۔
اس موضوع کو مزید واضح کرنے کی غرض سے قرآن مجید کی روشنی میں ان اصولوں کو پیش کیاجا رھاھے جن سے حکومت کو قانونی حیثیت ملتی ھے اور اس کے بعد مذکورہ خصوصیت کا تفصیلی جائزہ لیاجائے گا ۔

حکومت کے بروئے کار آنے کی صورتیں

۱۔ نص : یعنی خدا اور رسول کی طرف سے تعین ۔یہ امتیاز در اصل پیغمبر و امام کو حاصل ھوتا ھے ، پھر نتیجةً” ولی فقیھہ کو ، بشرطیکہ اس میں نبی و اوصیائے نبی کے بیان کردہ اساسی صفات پائے جاتے ھوں ۔ جیسا کہ آیۂ ذیل سے واضح ھے ۔
”یاایهاالذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم “ (۴۳) ” اے ایمان لانے والو ، اللہ رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں “ ۔

۲۔ شوریٰ یعنی ارباب حل و عقد جو عوام کی نظر میں مقبول ھوں وھی آپس میں مشورہ کر کے نیک اور صالح ترین شخص کو انتخاب کر سکتے ھیں ۔

۳۔ رائے عامہ : نص صریح کی عدم موجودگی میں عوام ، اسلام میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامی معاشرے میں سیاست کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتے ھیں ۔

لیکن انتخاب ھو یا شوریٰ ان دونوں کے نتیجہ میں ایک بنیادی نکتہ جو لوگوں کی فکر و توجہ کا مرکز اور جس کے ذریعے اسلامی نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا ھے ، اسلامی سیاست کے معاملوں پر ولی امر کی نظارت کا مسئلہ ھے ، جسے ھر حالت میں ھونا چاھئے ۔ اس بات کی وضاحت ضروری ھے کہ ولایت امر کا تعلق صرف پیغمبر و امام (ع) اورزمانہ غیب میں جبکہ پیغمبر و امام تک رسائی ممکن نھیں ،اس فقیہ سے ھے جسکے اندر وہ تمام شرائط پائی جاتی ھوں جو ولی امر کے لئے بیان کی گئی ھیں ۔ ولی امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے کے بعد منظور ھونے والی قرار دادوں پر غور و فکر کر کے ان کو منظور یا نا منظور کر سکتا ھے اور یہ حق ولی امر کے لئے ھمیشہ سے محفوظ ھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے : ” و شاور ھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ ” آیت میں مشورہ کرنے پر زور ضرور ھے لیکن آخری فیصلہ کرنا پیغمبر کے ذمے ھے وہ بھی خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ ۔
لھذا اسلام کے سیاسی نظام میں شوریٰ اور رائے عامہ کی خصوصیت یہ ھے کہ دوسرے سیاسی نظام میںصرف شوریٰ اور رائے عامہ پر ھی زور دیتے ھیں اور خدا و پیغمبر سے ان کا کوئی واسطہ نھیں ھوتا جبکہ اسلامی سیاست کا زور زیادہ تر خدا اور بندوں کے درمیان حکومت میں پیغمبر کی نظارت پر ھوتا ھے ۔
جو حاکمیت ولی امر کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، در حقیقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھی فکر و نظر کے مالک ھیں لیکن یہ فکر و نظر بطور مطلق نھیں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خیالات احکام و قوانین الٰھی سے مطابقت اور ولایت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بین الناس بما اراک الله “ (۴۴)

اسلام کے سیاسی نظام میں قوانین کے مآخذ

گذشتہ بحثوں کے دوران اشارہ کیا جا چکا ھے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں احکام و قوانین وحی سے ماٴخوذ ھیں جو عالم غیب سے آنحضرت پر نازل ھوئے اور بعد میں ان کے قول و فعل سے اس کی تعبیر کی گئی ۔ امت مسلمہ کے اعتقاد کے مطابق ، قرآن مجید ان تمام اصولوں اور احکام و قوانین پر مشتمل ھے جو ھر دور اور ھر زمانے کے لحاظ سے انسانوں کی ضرورت کو پورا کرتے ھیں، لھذا ھر زمانے میں رونما ھونے والے مسائل اور جزئیات کو اس کلیہ پر منطبق کر کے ھر وقت نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے ۔
فقہ میں اجتھاد کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ھر زمانے میں احکام و قوانین کا نفاذ ممکن ھے ۔ کیونکہ اس کا سر چشمہ ” قرآن و حدیث “ ھے ۔ قرآن و سنت سے ھر مسئلہ ، ھرضرورت اور ھر مشکل کا حل ملتا ھے ۔لھذ اسلام ،سیاست و ریاست اورقانون و آئین میں کبھی خاموش نظر نھیں آتا ۔ اجتھاد انسان کے انفرادی ، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی مسائل و معاملات میں معقول حل دریافت کر سکتا ھے ۔ ” لتحکم بین الناس بما اراک الله “(۴۵)

قوانین کے نفاذ کی ضمانت

اسلام کے سیاسی نظام میں اگر چہ احکام الٰھی کے نفاذ کی زیادہ تر ذمہ داری ملک کے سر براہ پر عائد ھوتی ھے ، لیکن امت کا ھر فرد بھی اس بات کا پابند ھے کہ وہ نفاذ قوانین میں خود کو ذمہ دار سمجھے ، کیونکہ اسلامی نظام میں قوانین محض خشک و جبری ضوابط نھیں ھیں جس سے لوگ اکتا کر بھاگ جائیں بلکہ ان کا شمار ان فرائض میں ھوتا ھے جن کو ایک مسلمان خدا سے لگاؤ اور اس کی خوشنودی اور سعادت حاصل کرنے کے لئے انجام دیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس طرح کے نظام میں قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے لئے زحمت پیدا نھیں کرتا ، اگر چہ ھر معاشرے میں کچہ ایسے افراد ضرور ھوتے ھیں جو قانون شکنی پر کمر بستہ رھتے ھیں ۔اسلامی حکومت ایسے افراد سے نپٹنے کے لئے قانونی اور شرعی سزائیں دینے کی مجاز ھے اور اسلام کا قانون سزا ایسے ھی افراد کے لئے وضع کیا گیا ھے ۔ اس کے مقابلے میں معاشرے کے وہ افراد بھت نمایاں ھیں جو فکری و عملی طور پر خوشی خوشی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ھیں :
” انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی الله و رسوله لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک هم المفلحون “ (۴۶)” جس وقت بھی مومنین خدا اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جائیں کہ رسول ان کے ما بین فیصلہ کرے توان کا قول اس کے سوا اور کچہ ھوتا ھی نھیں کہ وہ کھتے ھیں کہ ھم نے سنا اور اطاعت کی اور وھی فلاح پانے والے ھیں ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینهم “ (۴۷)” خدا کی قسم وہ ایمان ھی نھیں لائینگے جب تک کہ اپنے ذاتی اختلافات میں تمھیں حَکَم نہ بنا لیں ۔
اسلامی معاشرے میں تو یھاں تک ھے کہ اگر کوئی مسلمان گروہ جھگڑا تا ھے تو تمام مسلمان اس گروہ کی اصلاح کرنے کے پابند ھیں اور اگر اصلاح طلب کو ششیں کرنے کے با وجود بھی فریق مخالف نہ مانے تو ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار کریں جس سے ان کے فساد کا خاتمہ ھو جائے اور تمام اسلامی خطوں میں حق پھیل جائے ۔
” و ان طائفتان من المومنین .........․․․ان الله یحب المقسطین “ (۴۸)
” اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان کے ما بین صلح کرا دو ، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ھے اس سے لڑو تا آنکہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کرے ، اس وقت انصاف سے ان دونوں کے ما بین صلح کر دو اور انصاف بر تو ۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے“ ۔
انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا یہ مطلب نھیں کہ ھتھیار ڈال دیے جائیں اور مظلوم و ظالم کی پھچان نہ ھو سکے ، بلکہ اگر کسی مسلمان کی عزت و آبرو یا مال پر حملہ ھوتا ھے تو ظالم کو سزا ملنا چاھئے اور ھر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاھئے ۔ عدل و انصاف کا مطلب غصب شدہ حقوق واپس دلانے کے ھیں اور ان دونوں کا تعلق نا قابل تفکیک ھے ، لھذا صلح و انصاف کو ایک دوسرے کے ساتھ ھم آھنگ ھونا چاھئے تاکہ ظالموں کو سزا ملنے کے بجائے حوصلہ افزائی نہ ھو ۔
بھر حال اسلام کے سیاسی نظام سے وابستہ تمام امور میں قوانین کا ھونا لازمی ھے خواہ داخلی ھوں یا خارجی ،تاکہ اسلامی نظام افرا تفری سے بچ سکے اور امن و امان باقی رھے نیز لوگوں کے فردی و سماجی حقوق پامال نہ ھوں ۔
اب تک جن نکات پر بحث ھوئی ان کی مدد سے یہ بات واضح ھو گئی کہ تین ادارے ( مقننہ ، قضائیہ اور مجریہ ) ھر نظام کے ارکان شمار کیے جاتے ھیں ، اسلام کے سیاسی نظام میں ان اداروں کو قانونی حیثیت کھاں سے حاصل ھوتی ھے ؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ھیں ؟ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ھے ؟ اور اس کے مد مقابل عوام کا فرض کیا ھے؟ اس بحث میں آج کل کی سیاست میں منصوبوں اور پروگراموں کے نفاذ پر گفتگو کی جا سکتی ھے لیکن اس کی جزئیات پر بحث سر دست ممکن نھیں ھے ۔

عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق

اسلام کے سیاسی نظام میں عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق حاکم و محکوم ظالم و مظلوم اور طاقتور و کمزور جیسا نھیں ھے بلکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، عوام کے عزم و استقلال ، محبت ،تعاون اور ایمان و صداقت پر مبنی ھے ۔ یعنی وھی طرز عمل جو پیغمبر اسلام اور اللہ کے دیگر انبیاء و رسول نے اختیار کیا تھا ۔
قرآن کریم نے پیغمبر اکرم کے مقصد بعثت کی وضاحت کرتے ھوئے اس نکتہ پر خاص توجہ دلائی ھے کہ پیغمبر اکرم کی تحریک کا سارا دار و مدار اس پر تھا کہ وہ ان زنجیروں کو توڑ دیں جو اس زمانے کے لوگوں کو غلامی کے بندھن میں جکڑے ھوئے تھیں ۔
” و یضع عنهم اصرهم و الاغلال التی کانت علیهم “ (۴۹)
” یھی ولایت ھے جس کی بنیاد پر پیغمبر اور اولی الامر لوگوں پر حکومت کرتے ھیں “
” النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم “ ” نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “ ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجد وا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۵۰)
” تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہ ھوں گے جب تک کہ ان جھگڑوں میں جو ان کے درمیان ھوتے ھیں تم کو حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچہ تم فیصلہ کر دو اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو اس طرح تسلیم کر لیں جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ھے ۔
اس طرح کے نظام میں جس کی بنیاد ولایت ، ھم آھنگی اور مشترکہ مقاصد پر استوار و محکم ھے ، نہ صرف عوام اور حکومت ایک دوسرے سے جدا نھیں بلکہ عوام حکومت سے غافل نھیں رھتے ، نتیجةً نظام کی حفاظت اصلی اعتبار سے عوام و امام اور حکومت کے اتحاد پر منحصر ھو تی ھے۔

سیاسی مسائل میں علماء و عوام کی ذمہ داری

علماء دین جو اسلامی معاشرے میں صاحب فکر و نظر اور ھدایت و رھبری کے ذمہ دار سمجھے جاتے ھیں ، سیاسی مسائل میںبھی ان کی ذمہ داری عظیم و موثر ھے۔ قرآن کریم نے اھل کتاب کے مذھبی پیشواؤں میں سے ان افراد کی سخت مذمت کی ھے جنھوں نے مظالم دیکہ کر بھی ظلم کو روکنے کی کوشش نھیں کی ۔ جبکہ قرآن مجید امت مسلمہ کے ھر فرد اور خاص طور پر علماء دین کو امربالمعروف و نھی عن المنکر اور ظلم و ستم و بدعت ختم کرنے کی دعوت دیتا ھے ۔
” لولا ینٰههم الربانیون و الاحبار عن قولهم الاثم و اکلھم السحت لبئس ما کانو ا یصنعون “(۵۱),, آخر اللہ والے اور علما ء ان کو جھوٹی بات کھنے اور حرام خوری سے کیوں نھیں منع کرتے یقینا جو کچہ وہ کرتے ھیں ‘بھت برا کرتے ھیں ،،
” لعن الذین کفر و امن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذالک بماعصوا و کانوا یعتدون ،کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون “ (۵۲)
” بنی اسرئیل میں سے جو کافر ھو گئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نا فرمانی اور زیادتی کیا کرتے تھے اس سے وہ باز نہ آتے تھے ، ضرور جو کچہ وہ کرتے تھے وہ بھت ھی برا تھا “ ۔
مذکورہ آیتیں ، ظلم سے مفاھمت کرنے والوں اور ان علمائے دین کو جو ظلم کے سامنے سکوت اختیار کرتے ھیں ، کافروں میں شمار کرتی ھیں اور خدا و پیغمبر کی لعنت کا مستحق سمجھتی ھیں ۔
مذھبی علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ان جابر و ظالم حکمرانوں کے اعمال پر نظارت اور ان پر قابو پانا ھے ۔ مسند اقتدار پر بیٹھ کر دینی مقدسات اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے والوں کے سامنے سکوت اختیار کرنا نا قابل معافی جرم اور سخت عذاب کا باعث ھے ۔

عوام کی ذمہ داری

اس اھم مسئلہ میں عوام کی ذمہ داریوں کوبھی معمولی نھیں سمجھنا چاھئے ، الٰھی عذابوں میں سے ایک عذاب لوگوں پر فاسد افراد کی حکومت ھے ، اس بارے میں قرآن مجید کا بیان ھے :
”واذا اردنا ان نھلک قریة امرنا مترفیها ففسقوا فیها فحق علیها القول فد مرنا هاتد میرا “ ( ۵۳)
” اور ھم جب کسی بستی کو(ان کے اعمال کی بناء پر ) ھلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ھیں توھم اس بستی کے عیش پرست افراد کو حکم دیتے ھیں پس وہ نا فرمانی کرنے لگتے ھیں پھر وہ بستی عذاب کی مستحق ھو جاتی ھے اور ھم تھس نھس کر دیتے ھیں “ ۔
ظاھر ھے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف اور حکمت کی بنا پر یہ ” ھلاکت “ جو صاحب اقتدار ظالم و جابر افراد کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اقدام نھیں کھا جا سکتا ، بلکہ یہ ایک طرح کا عذاب ھے جس کا سامنا لوگوں کو ظلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور سکوت اختیار کرنے کی وجہ سے کرنا پڑ رھا ھے ۔ جیسا کہ آیتیں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ھیں :
” ذالک ان لم یکن ربک مهلک القریٰ بظلم و اهلها غافلون “ (۵۴)
” (یہ رسولوں کا بھیجنا ) اس لئے ھے کہ تمھارا رب بستیوں کو نا حق بر باد نھیں کرتا درآنحالیکہ ان کے باشندے بالکل غافل و بے خبر ھوں “ ۔
اللہ کا طریقۂ کار یہ ھے کہ شروع میں خبر دار کرتا ھے اور لوگوں کی سیاسی ، عبادی ،سماجی ، اخلاقی ، ثقافتی اور فوجی و دفاعی وغیرہ ذمہ داریوں کو معین کرتا ھے ،پھر نیک حکمراں کو ان پر حکومت کے لئے معین کرتا ھے ۔ اب اگر لوگ ایسے حکمراں کی اطاعت نھیں کرتے تو پھر اللہ ظالم حکمرانوں کو ڈھیل دیتا ھے ، اس طریقے سے اللہ کا عذاب ظالم و جابر افراد کے ذریعے لوگوں پر نازل ھوتا ھے ۔
لھذا لوگوں کو چاھئے کہ وہ اپنا مقدر سنوار نے کی خاطر نیک رھبروں کی قیادت میں استکباری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ھو جائیں تاکہ اللہ کی حاکمیت جو ایسے ھی نیک افراد کی حاکمیت ھے ، عملی جامہ پھن سکے ، اس لئے کھ:
” و ان الارض یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین “ ” زمین خدا کی ھے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاھے وارث بنا سکتا ھے لیکن کامیاب وھی لوگ ھوں گے جو پرھیز گار اور متقی ھوں ۔

حوالے


۱۔ سورہ نمل آیت ۳۴
۲۔سورہ بقرہ ۲۴۷
۳۔سورہ آل عمران آیت ۲۶
۴۔سورہ بقرہ آیت ۲۵۱
۵۔سورہ ص ۲۶
۶۔سورہ نمل آیت ۱۶۔۱۷
۷۔سورہ یوسف آیت ۵۴تا۵۶
۸۔کھف ۸۳،۸۴
۹۔سورہ یوسف ۴۰
۱۰۔سورہ غافر آیت ۱۲
۱۱۔سورہ مائدہ آیت ۵۰
۱۲۔سورہ انعام آیت ۵۷
۱۳۔ سورہ نساء آیت ۵۶
۱۴۔ سورہ مائدہ آیت ۴۲
۱۵۔سورہ نساء آیت ۵۸
۱۶۔سورہ مائدہ آیت ۵۵
۱۷۔سورہ احزاب آیت ۶
۱۸۔ سورہ نساء آیت ۵۹
۱۹۔سورہ شعراء آیت ۵۱ ۱،۱۵۲
۲۰۔سورہ ھود ۵۹
۲۱۔سورہ ھود ۹۷
۲۲۔ سورہ بقرہ آیت ۱۲۴
۲۳۔سورہ انبیاء آیت ۷۳
۲۴۔سورہ توبہ آیت ۱۲
۲۵۔سورہ بقرہ آیت ۱۹۳
۲۶۔ سورہ قصص آیت ۴
۲۷۔ سورہ قصص آیت ۵
۲۸۔سورہ حدید آیت ۲۵
۲۹۔سورہ شوریٰ آیت ۱۵
۳۰۔سورہ مائدہ آیت ۴۲
۳۱۔ سورہ مائدہ آیت ۸
۳۲۔سورہ جن آیت ۱۵
۳۳۔سورہ بقرہ آیت ۲۱۳
۳۴۔سورہ توبہ ۱۲
۳۵۔سور ہ بقرہ ۱۹۳
۳۶۔سورہ ھود آیت ۹۶تا ۹۸
۳۷۔سورہ بقرہ ۲۵۶
۳۸۔سورہ نحل ۳۶
۳۹۔سورہ بقرہ آیت ۱۵۱
۴۰۔ سورہ حج آیت ۴۱
۴۱۔ سورہ نساء آیت ۵۹تا ۶۰
۴۲۔سورہ احزاب آیت ۳۶
۴۳۔سورہ نساء آیت ۵۹
۴۴۔سورہ نساء ۱۰۵
۴۵۔نساء ۱۰۵
۴۶۔سورہ نور آیت ۵۱
۴۷۔نساء ۶۵
۴۸۔سورہ حجرات آیت ۹
۴۹۔سورہ اعراف آیت ۱۵۷
۵۰۔سورہ نساء آیت ۶۵
۵۱۔سورہ مائدہ آیت ۶۳
۵۲۔سورہ مائدہ آیت ۷۸،۷۹
۵۳۔سورہ اسراء آیت ۱۶
۵۴۔سور ہ انعام آیت۱


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مصر میں شیعہ مخالف نئے ٹی وی چینل کا آغاز
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(چہارم)
حضرت قاسم کی رخصتی ،جنگ اور شہادت
حضرت فاطمہ (س)کی شہادت افسانہ نہیں ہے
چالیس حدیثیں
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
نماز کو قائم کرنا پڑھنے سے زيادہ اہميت ک حامل ہے
شیعوں کے مختلف فرقے
قرآن ازل سے ابد تک انسان کا رہنما ہے
علمی اور فکری پناھگاہ

 
user comment