قرآن اللہ تعالي کا کلام ہے جس ميں خدا نے بہت جگہوں پر انسان کو خود سے روشناس کرانے کے ليۓ اپني خوبياں بيان کي ہيں - قرآن مجيد کي تقريباً ساٹھ آيات ہيں جن ميں ايک ہي وصف کو اللہ تعاليٰ کے بارے ميں اور اللہ تعاليٰ کے بندوں کے بارے ميں بھي بيان کيا گيا- اللہ تعاليٰ کے بارے ميں اور لحاظ سے اور بندوں کے بارے ميں اور لحاظ سے - مثلاً اللہ تعاليٰ نے سورۃ بقرۃ آيت نمبر257 ميں فرمايا- ظلمت سے نور کيطرف اللہ تعاليٰ نکالتا ہے- اور سورۃ ابراہيم آيت نمبر 1ميں اللہ تعاليٰ رسول اللہ (ص) سے فرماتا ہے ہم نے آپ کيطرف کتاب اس ليے نازل کي ہے تاکہ آپ لوگوں کو ظلمت سے نکال کر نور عطا فرمائيں- ظلمت سے نور کي طرف نکالنا مشکل کشائي ہے ليکن مشکل کشائي معيارِ الوہيت نہيں ہے- اس کا مجازاً بندے کو مظہر بنايا جاسکتا ہے- مگر الوہيت مجازي نہيں ہوتي نہ کوئي مجازي واجب الوجود ہوتا ہے اور نہ مجازي معبود ہوتا ہے-
اس ميں مقبول بارگاہ ايزدي کے وصال سے پہلے اور بعد ميں کوئي فرق نہيں ہے جيسے قبل از وصال کسي کو مجازي طور پر اللہ تعاليٰ نہيں کہہ سکتے مگر مدد گار تو کہہ سکتے ہيں اگر مدد گار ہونا معيارِ الوہيت ہوتا ہے تو کسي زندہ پر بھي مدد گار کا لفظ بولنا شرک ہوتا- کيونکہ اللہ تعاليٰ کا صرف فوت شد گان ميں سے کسي کو شريک ماننا ہي شرک نہيں بلکہ زندوں ميں سے بھي کسي کو اسکا شريک ماننا شرک ہے- اللہ تعاليٰ کي قدرت سے کيا بعيد ہے جو عصائے کليم اللہ عليہ السلام کو جامد ہونے کے باوجود جاندار بنادے تو مقبولانِ بارگاہِ ايزدي کو بعد از وصال بھي وہي تجليوں کا مظہر بنا دے-
قرآن مجيد ميں کوئي آيت ايسي نہيں ہے جس ميں مقبولانِ بارگاہ ايزدي کو اپنے اور اللہ تعاليٰ کے درميان وسيلہ بنانے سے منع کيا گيا ہو يا ان کے وسيلے سے دعا مانگنے سے روکا گيا ہو-
ہاں قرآن مجيد ميں بتوں کو وسيلہ بنانے والے بتوں کے پجاريوں کے عقيدہ کي مذمت کي گئي ہے- اور يہ واضح ہے کيونکہ بت اللہ تعاليٰ کے دشمن ہيں اور پھر ان کي عبادت کر کے انہيں رب کے قرب کا ذريعہ سمجھنا شرک ہي شرک ہے اور مقبولانِ بارگاہء ايزدي اللہ تعاليٰ کے محبوب و مقرب ہيں يہ اللہ تعاليٰ کے دشمن بتوں کي طرح نہيں ہيں- ھاں اگر ان محبوبانِ الہٰي کي عبادت کر کے کوئي اللہ تعاليٰ کا قرب چاہتا ہے ان ذوات کي عزت کے باوجود ان کو معبود بنا کر قربِ ايزدي کا وسيلہ بنانے والے پر فتويٰ لگے گا-
ليکن جمہور امت ِ مسلمہ اللہ تعاليٰ کے کسي نبي يا ولي کو معبود بنائے بغير انہيں قربِ الہٰي کا وسيلہ بناتے ہيں جس کے بارے ميں قرآن مجيد کي کسي آيت ميں يا کسي بھي حديث ميں کوئي ممانعت نہيں بلکہ وسيلہ بنانے کا حکم اور اجازت ہے-
قرآن مجيد ميں بتوں کے بارے ميں جو لفظ دعا استعمال کيا گيا ہے اس کا معنٰي پکارنا يہ اسلوبِ قرآن سے بے خبري کا نتيجہ ہے- لفظ دعاء کا معنٰي پکارنا بھي ہے مگر وہ دعائِ لغوي ہے اور بتوں کے بارے ميں جہاں لفظ دعا استعمال ہوا ہے وہاں دعا سے مراد پوجنا ہے پکارنا نہيں ہے اور بعض قليل مقامات پر جہاں بتوں کے بارے ميں دعا کا معنٰي پکارنا ہے وہاں يہ بات حتمي طور پر ثابت ہے کہ وہ پہلے ان کو معبود مان چکے ہيں پھر انہيں بحيثيت معبود پکار رہے ہيں جو کہ شرک ہے
source : tebyan