دوم: دوسری بات جو اس سلسلہ میں مورد بحث ہے وہ یہ کہ پورا کا پورا قرآن ایک ہی مرتبہ میں پیغمبر اکرم ﷺپر نازل ہوا، یا نزول قرآن ۲۳سال کی مدت میں آہستہ آہستہ بتدریج عمل میں آیا۔
اس بارے علماء اسلام و مفسرین قرآن مختلف آراء رکھتے ہیں ذیل میں ہم ان آرا کا مختصر اًتذکرہ کریں گے اور ساتھ ساتھ اس سلسلہ میں اپنا نظریہ بھی بیان کریں گے ۔
پہلی رائے
بعض علما ومفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن ایک ہی وقت میں پورا کا پورا ”لیلة القدر“ میں نازل ہوا اپنے اس نظریہ کے ثبوت میں وہ درج ذیل آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہیں:<اِناَّ اَنزَلْنٰہُ فیِْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ>( قدر /۱) ”ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا “۔
<حٰمٓ o وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o اِنَّا اَنْزَلْنٰ----ہُ فِیْ لَیْلَةٍ مُبٰرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْزَرِیْن>(نازیات/۱تا۳)
”حم ،واضح و روشن کتاب (قرآن) کی قسم ہم نے اس کو مبارک رات (شب قدر) میں نال کیا ہے بے شک ہم عذاب سے ڈرانے والے تھے “
<شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرٰآن-․․․> (بقرہ/۱۸۵) ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہو ا “
یہ آیت قرآن نی تین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
۱)۔ عربی لغت میں لفظ ” انزلنا“ نزول دفعی کے لئے مستعمل ہے ،یعنی کسی چیز کا دفعةً نازل ہونا یا ایک بار میں نازل ہونا ۔مذکورہ آیات میں قرآن کے نزول کے لئے ”انزلنا “ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس طرح یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن یکبار گی نازل ہوا ۔
۲)۔یہ آیات قرآن کے ماہ مبارک رمضان میں نزول کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
۳)۔یہ آیات اس بات کی طرف صراحتاً اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن کریم رمضان المبارک کی ایک رات میں نازل ہوا جو لیلة القدر کے نام سے موسوم ہے۔
دوسری رائے
علمائے اسلام کا ایک گروہ اس بات کا معتقد ہے کہ قرآن کریم بتدریج نازل ہوا اور ۲۳سال کی مدت میںپایہٴ تکمیل کو پہنچا ۔ اپنے اس نظرئے کے مبنی بر صداقت ہونے پر یہ گروہ درج ذیل آیت قرآن سے استدلال کرتا ہے:
<وَقُرْآناً فَ-رَقْ-نٰ-ہُ لِتَقْرَاہُ عَلٰی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَ نَزَّلْنٰہُ َتنْزِیْلاً>(بنی اسرائیل /۱۰۶)
”اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سناؤ اور اسے ہم نے موقع موقع پر بتدریج اُتارا ہے“
تیسری رائے
اس رائے کے حامل علماء اسلام نے مذکورہ بالا دونوں نظریات کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور ان آیات قرآنی کی جو یہ بتاتی ہیں کہ قرآن کا نزول شب قدر میں ہوا یہ توجیہ کی کہ قرآن کے نزول کی ابتدا شب قدر میں ہوئی اور باقی سارے کا سارا قرآن تدریجاً ۲۳سال کی مدت میں پیغمبر اسلام ﷺپر نازل ہوا۔
یہ نظریہ اس لئے قابل قبول نہیں کیوں کہ اکثر علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام ۲۷/رجب المرجب کو مبعوث بہ رسالت ہوئے پہلی وحی ۲۷ / رجب ہی کو سورہ علق کی صورت میں پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کے ماہ رمضان میں نزول پر جو آیت اشارہ کرتی ہے وہ پورے قرآن کے ماہ رمضان میں نزول پر اشارہ کرتی ہے نزول کی صرف ابتدا پر نہیں۔
<شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذَیْ اُنْ-زِلَ فِیْہِ الْقُرْآنِ ھُدًی لِلْ-نَّاسِ وَ بَیِّ-نٰ-تٍ مِنَ الْھُدیٰ وَ الْ-فُ-رْقٰان> (بقرہ /۱۸۵)
”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جوانسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں“
چوتھی رائے
علماء اسلام کے اس گروہ کے مطابق قرآن مجید لیلة القدر میں یکبار گی بیت المعمور پر جو کہ آسمان چہارم پر واقع ہے نازل ہوا اور پھر وہاں سے آیات کی صورت میں وقتا فوقتا رسول اکرم پر نازل ہو کر ۲۳سال کی مدت میں تکمیل کو پہنچا ۔
یہ دلیل بھی چند جہات سے قابل قبول نہیں:
۱)۔سواے مذکورہ روایت کے کوئی محکم دلیل اس مدعا کی صداقت پر موجود نہیں۔
۲)۔اس طرح بیت المعمور پر قرآن کو نازل کرنے کا کوئی فلسفہ و حکمت نظر نہیں آتی ۔
یہاں اگر بیت المعمور سے مراد قلب مطہر حضرت محمد ﷺ لیا جائے تو بات درست معلوم ہوتی ہے جیسا کہ شیخ صدوق اۺپنی کتاب ”اعتقادیہ “میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کی شب قدر میں قرآن بیت المعمور میں نازل ہوا پھر بیت المعمور سے بیس سال کی مدت میں نازل ہوا اور خدا وند عالم نے اپنے نبی کو قرآن کا مجمل علم عطا فرمایاتھا پھر خدا نے جناب رسالتمآب سے خطاب کیا ( اے ہمارے رسول ) تم قرآن کے پڑھنے میں اس سے پہلے کہ وحی پوری ہوجائے جلدی نہ کیا کرو“
شیخ صدوق ۺکے اس بیان سے تین نکات سامنے آتے ہیں:
l)۔ایک یہ کہ قرآن بیت المعمور پر ایک دفعہ میں نازل ہوا ۔
l)۔دوسرا یہ کہ بیت المعمور سے ۲۰سال کی مدت میں آہستہ آہستہ نازل ہوا ۔
l)۔تیسرا نکتہ یہ کہ خدا وند عالم نے رسول اکرم کو علم قرآن عطا فرمایا۔
ان نکات کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں بیت المعمور سے مراد قلب رسول اکرم ہے کیوں کہ جیسا کہ شیخ صدوق ۺفرماتے ہیں کہ :
” قرآن بیت المعمور پر نازل ہوا پھر ۲۰سال کی مدت میں آہستہ آہستہ امت کے لئے نازل ہوا“
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دوران میں رسول کو علم قرآن کس وقت عطا ہوا جب کہ رسول کے جملہ علم قرآن کو اس سے قبل جاننے پر وہ آیات قرآنی بھی دلالت کرتی ہیں جن میں خدا وند عالم رسول کو قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی تاکید فرماتا ہے ۔
۳)۔بعض مواقع پر خداوند عالم نے پیغمبر اسلام کو آیات الٰہی کی تلاوت سے وقتی طور پر روکا ہے ۔
”فَتَعٰالَیٰ اللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ وَلاٰ تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یُقْضیٰ اِلَیْکَ وَحْیُہُ وَقْل رَّبِّ زِدْنیٖ عِلْماً“ (سورہ طہ آیت/۱۱۴)
”اور (اے رسول)قرآن (کے پڑھنے )میں اس سے پہلے کہ تم پر اس کی وحی پوری کردی جائے جلدی نہ کرو اور دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے میرے علم کو اور زیادہ فرما۔“
اس طرح آیات الٰہی کی تلاوت سے روکنا اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر آیات الٰہی سے پہلے سے واقف تھے۔
۴)۔ خود قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن میں خداوند عالم نے قرآن کریم کے دومرتبہ نزول کی طرف اشارہ کیاہے۔
”الر کِتٰابٌ اُحْکِمَتْ آیٰاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکیمٍ خَبیِرٍ“ (سورہ ہود آیت/۱)
”یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی آیات ایک واقفکار حکیم کی طرف سے (دلائل سے) خوب مستحکم کردی گئیں پھر تفصیل وار بیان کردی گئی ہیں“
”وَلَقَدْ جِئْنٰھُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰاہُ عَلیٰ عِلْمٍ ھُدَیً وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُوٴمِنُونَ“ (سورہ اعراف آیت/۵۲)
”حالانکہ ہم نے ان کے پاس (رسول کی معرف )کتاب بھی بھیج دی جسے ہر طرح سمجھ بوجھ کے تفصیل وار بیان کردیاہے اور (وہ)ایماندار لوگوں کے لئے ہدایت ورحمت ہے“
ان آیات قرآنی سے واضح ہے کہ قرآن اپنے نزول میں دو مراحل سے گزراہے۔ایک مرتبہ خلاصہ اور نچوڑ کی صورت میں صرف قلب پیغمبر پر اس کا نزول ہوا ہے جو عام لوگوں کی عقل وفہم سے بالاتر تھا۔اور دوسری مرتبہ قرآن کریم عام لوگوں کی عقل وفہم کے مطابق تفصیل ،توضیح اور تشریح کے ساتھ نازل ہو ہمارے اس موقف کی صداقت پر دلیل وہ آیات قرآنی بھی ہیں جن میں خداوند عالم انسانوں کے لئے قرآن کو عام فہم اور آسان بناکر پیش کرنے پر احسان جتاتے ہوئے ارشاد فرماتاہے :
”انّٰا اٴَنْزَلْنٰاہُ قُرْآناً عَرَبِیاً لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ“ (سورہ یوسف آیت/۲)
”ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تا کہ تم سمجھو“
”قُرْآناً عَرَبِیّاً غَیْرَ ذیعِوَجٍ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُونَ“ (سورہ زمر آیت/۲۸)
”ایسا قرآن جو عربی میں ہے جس کے بیان میں کوئی کجی نہیں“
ان آیات میں ”عربی “ سے مراد عربی زبان نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ احسان صرف عربی بولنے والی اقوام پر ہوتا۔بلکہ یہاں عربی سے مراد واضح وروشن کے ہیں۔
متعدد ایسی آیات قرآنی بھی ہیں جن میں خداوند عالم لوگوں کو قرآن میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ظاہر ہے یہ آیات انسانی فہم وشعور کی سطح سے باہر نہیں اسی لئے قرآن ان میں غور وفکر اور تدبر وتفکر کی دعوت دیتاہے۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ خداوند عالم نے قرآن کریم کو عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق نازل کیاہے۔یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ عالمی صہیونزم نے مسلمانوں کے روپ میں وارد ہوکر مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہاہے کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی سمجھ اور فہم ناممکن ہے ۔
اپنے اس مذموم پروپیگنڈے سے ایک طرف تو یہ عناصر آیات قرآنی کی تکذیب کرتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو علوم قرآن سے دور رکھتے ہیں۔اس موضوع پر مفصل بحث ہم آئندہ صفحات میں ”فہم قرآن“کے عنوان کے تحت کریں گے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم کانزل دومرتبہ عمل میں آیا۔ایک مرتبہ رمضان المبارک کی شب قدر میں خلاصہ اور نچوڑ کی صورت میں پیغمبر اسلام ﷺ کے قلب مطہر پر۔یہاں یہ بات واضح نہیں کہ یہ ماہ رمضان بعثت سے قبل کا ماہ رمضان تھا یابعثت کے بعد کا۔بہر حال متعدد آیات قرآنی دال ّ ہیں اس بات پر کہ قرآن کریم ایک مرتبہ حضور ﷺ کے قلب مطہر پر خلاصہ اور نچوڑ کی صورت میں نازل ہوا۔
قرآن کا دوسرا نزول تفصیل وتوضیح کے ساتھ بتدریج ۲۲سال کی مدت میں عمل میں آیا اوربعض مفسرین کی توجیہ جو قرآن کے ایک مرتبہ نزول کے متعلق کرتے ہیں درست نہیں ۔
حکمت ِ دو نزولی
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا دوسری کتب آسمانی ۱# کے برعکس دو مرتبہ میں نزول کیا حکمت وفلسفہ رکھتاہے۔
ہم یہاں دو نزولی کے فلسفہ وحکمت کی تشریح وتوضیح کے لئے شہید رابع محمد باقر الصدر کے افکار سے مدد لیتے ہیں۔
شہید صدر فرماتے ہیں:”قرآن کریم انسانیت کی تہذیب وتربیت ،غرض خلقت اور ہدف خلقت جو سیر الٰہی ہے کے لئے نازل ہوا۔قرآن بذاتِ خود صامت ہے ناطق نہیں اسی وجہ سے ایک جاہل وگمراہ شخص کے سامنے واضح شکل میں ظاہر نہیں ہوتا ۔لہٰذا اس کی وضاحت کے لئے ایک امام وقائد کی ضرورت ہے جو علم وعصمت سے مسلح ہوکر انسانوں کی سیر الٰہی کی جانب قیادت کرے۔لہٰذا قرآن کریم پیغمبر اکرم سے مخاطب ہوکر فرماتاہے:
”وہی ہے جس نے امتیوں میں سے ایک رسول خود انھیں میں سے اٹھایا جو انھیں اس کی آیات سناتاہے۔ان کی زندگی سنوارتاہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتاہے۔“(سورہ جمعہ )
شہید صدر فرماتے ہیں:”در حقیقت یہ قرآن دوقسم کے انسانوں کی تہذیب وتربیت کے لئے نازل ہواہے،ایک قائد کے لئے اور دوسرے امت کے لئے ۔
قائد جوسالہا سال سے معاشرہ میں موجودبرائیوں،فسق وفجور اور آلودگیوں سے پاک ومنزہ اور قلب پاکیزہ کے ساتھ ہر لحاظ سے آمادگی رکھتاتھا لہٰذا اس میں ایک ہی رات میں کل قرآن کے تحمل کی صلاحیت موجود تھی۔اس کی تربیت اور اس کو مستقبل میں پیش آنے والے حالات و مشکلات سے آگاہی اور ان کے تدارک کے لئے تیار کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے راہ کی مشکلات اور ان کے حل کے سلسلے میں مکمل طور پر آگاہ رکھا جائے نیز امت کی تہذیب و تربیت کے لئے بھی ضروری تھا کہ پیغمبر ﷺاپنے مقصد رسالت سے پیشگی عمیق آگاہی رکھتا ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ جب بعثت سے قبل پیغمبر ﷺ علم قرآن اور اس کے مقصد و مفہوم سے مکمل واقفیت اور آگاہی رکھتا ہو ۔ قرآن کے تدریجی نزول کے فلسفہ کی وضاحت ہم ذیل کے نکات کے ذریعہ بھی کریں گے۔
l)۔طبیعت رسالت قرآن یہ ہے کہ لوگوں پر اپنے افکار و نظریات کو زبر دستی مسلط نہ کیا جائے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں مذکورہے (لا اکراہ فی الدین) دین میں جبر نہیں۔
نیز قرآن کریم پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ : ” فَذَکِّرْ اِنَّمٰا اٴَنْتَ مُذَکِّر“ ” تم نصیحت کرنے والے ہو تم ان پر مسلط نہیں کئے گئے “ (غاشیہ /۲۱)
اسی طرح دیگر آیات قرآنی ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام نظریات کو زبردستی ٹھونسنے کا قائل نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اپنے پیغام کو لوگوں کی عقل و فہم کو مد نظر رکھ کر بیان کرنے کا قائل ہے نیز یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ جو لوگ غور و فکر اور تدبر اور تفکر کے بعد نظریات قبول کرتے ہیں وہی راسخ العقیدہ اور اپنے نظریات پر ہمیشہ قائم رہنے والے ہوتے ہیں۔
l)۔فطرت انسانی ہے کہ وہ بیک وقت نہ مزید تکلیف برداشت کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے قدیم رسم و رواج اور عادات و اطوار ترک کرنے پر تیار ہوتا ہے ، خدا وندعالم نے اسی انسانی فطرت کو مد نظر رکھ کر تدریجا اپنے احکامات کا نفاذ کیا ہے جیسے تحریم ربا (سود ) اور تحریم خمر (شراب) کی حرمت کو تین مراحل میں طے کیا ۔
l)۔اگر قرآن کریم یکبارگی نازل ہوتا تو اس میں موجود بہت سی آیات ( نعوذ باللہ ) لغو اور حقیقت سے خالی محسوس ہوتیں کیوں کہ قرآن میں مذکورہ متعدد واقعات حضرت محمد (ص)کی بعثت کے بعد وقوع پذیر ہوئے ۔
جو باتیں ابھی خارج میں وقوع پذیر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں آیات قرآنی کا نزول خلاف حقیقت معلوم ہوتا ہے مثلاً:
< وَاِذْ تَقُولُ لِلَّذی اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِ ․․․․․․ اَمْرُاللهِ مَفْعُولاً> (احزاب /۳۷)
”اے نبی یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈر ، اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ،تم لوگوں سے ڈررہے تھے ،حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو ۔پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون)کا تم نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوتی تنگی نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں “
اگر قرآن یکبار گی نازل ہوتا تو کیا اس جیسی آیات قرآنی حقیقت سے خالی نظر نہ آئیں؟
l)۔قرآن کا مخاطب تمام عالم انسانیت ہے اور ان انسانوں میں مومن اور کافر سبھی شامل ہیں ۔
قرآنی احکامات پر عمل اور ان کی تبلیغ میں مومنین ہزار ہا مصائب ومشکلات کا شکار ہوتے تھے ایسے موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ضروری تھا کہ ان پر بار بار تائید ربانی کا اظہار ہو اور انھیں بار بار یہ باور کرایا جائے کہ ایک لازوال قوت تمھاری پشت پناہ ہے قرآن کا بتدریج اور آہستہ آہستہ نزول مومنین کی قوت عمل میں اضافہ کا باعث تھا ۔اس طرح مونین اپنے آپ کو ایک لازوال قوت سے مربوط سمجھتے تھے اس کے مقابلہ میں مومنین کے لئے تائید ربانی کا یہ بار بار مظاہرہ کفار پر نہایت گراں گزر تا تھا ۔نیز منافقین بھی ہر لحظہ خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں خدا وند عالم ان کے کرتوتوں کی بردہ کشائی نہ کر دے ۔
۱)۔ خداوند عالم نے صحف حضرت ابراہیم ﷼ کو رمضان المبارک کے مہینے میں یکبارگی نازل کیا۔تورات کو ششم رمضان ،انجیل کو رمضان کی تیرہویں شب میں اور زبور کو اٹھارہ رمضان المبارک کو یکبارگی نازل کیا۔
source : http://www.islamshia.net