اردو
Friday 20th of December 2024
0
نفر 0

اسلام میں خواتین کا کردار

اسلام میں خواتین کا کردار

اسلام میں خواتین کا کردار
تحریر : محمد عابدین  جوہری

خلاصہ

خواتین کے  کردار کے حوالہ سے مختلف قسم کے کتابیں موجود ہین، اسی طرح  مجلات  و مقالات   گوناگون دست بہ دست  پائے جاتے ہیں ۔ میں نے اس مقالہ میں   ان مباحث کے بارے میں  بحث کیا۔
مقدمہ

تاریخ اسلام میں دقت  سے غور و فکر کرنے سے    خواتین کے حیرت  انگیز  واقعات ملتے ہیں   اور ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے  کہ  عورت  ہمیشہ  مظلوم تر  رہی  ہے اور اسی  مظلومیت  میں آرہی ہے ۔ اول سے  لیکے صدر اسلام تک کسی بھی مذہب نے  ان  پر رحم نہیں کیا، ان کے حقوق نہیں دئے     لیکن پیغبر اسلام ﷺ   دنیا میں تشریف لائے  اور اللہ تعالی کا پسندیدہ دین  "دین اسلام " پیش کیا  تو اس مذہب حق نے سب سے پہلے  قید و بند میں تڑپتی ہوئی عورت کی رہائی اور اس کی آزادی کی خوش خبری سنائی  اس کے ساتھ ساتھ دین الہی میں عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا   یہاں تک کی  بیٹے کے لیے ماں کے قدموں کو حصول جنت کا زریعہ و سبب بنایا۔
اس میں کو ئی شک نہیں ہےکی عورت  اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت اور  رحمت ہے   اس کے بغیر  کائنات اور مرد  دونوں ا دھورے   ، ناقص اور نامکمل  رہتے ہیں اس لیے  علامہ محمد اقبال نے کہا "وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ "  (1) اسی طرح  عورت کے بارے میں امام خمینی فرماتے ہیں "  مرد در دامن زن بہ معراج می رود " (2) اگر  خواتین اور خواتین کا کردار معاشرہ میں نہ ہو تو زندگی کا سارا سفر بے کیف ہوجاتا  ۔ انہوں نے پیار محبت  فکر و حکمت کے لبریز باتوں سے  گلشن کائنات کو روشن کردیا ہیں   بادشاہوں کی محفلوں میں رقص کرنے والی عورتیں ، بازاروںمیں دوسروں کے لیے زینت  بن کے آنے والے  عورتوں کو عورت  نہیں  کہتے   کیو کہ  ایسے خواتین   انسانیت کے  دائرہ سے خارج ہو کے بے حیائی کے حدود میں داخل ہوتی ہے  ۔ اصل وحقیقی عورت    جو ہے وہ قرآن حکیم   اورارشادات ایمہ معصومین  ؑ  کے روشنی میں دیکھی دیتی ہے ۔
اگر تاریخ کے مختلف زاویوں کے جائزہ لے تو  مختلف اقوام میں مختلف قسم کے خواتین  نظر آجاتی ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں  جنھون اسلام کے احکام پر عمل کرتے ہوئے   ایک اچھی زندگی بنائی اور ایمان وعمل کے  دستورات سے    انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مضبوط قلعہ  تعمیر کئے، اسی طرح  دوسرے خواتین کے لیے نمونہ عمل بنے۔ تاریخ اسلام کے صحفات   پہ ایسے خواتین کے بھی ذکر  ہیں جن کو   پیامبر اسلام   ﷺ  نے جنت کی  خوشخبری دی ہے  اور انکے  نفوس کے صاف  وباطن کی گواہی بھی دی  ، یعنی  حضور اکرم  ﷺ  نے ان کو   سند عطا فرمائی    کی جس سے وہ اللہ کے حکم سے جنت میں داخل ہونے کے  حقدار بن  گئی۔ بنابر این  مثبت کردار اور پاک وپاکیزہ افکار  و اقوال کی ملکہ عورت  مرد سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے  بلکہ  تاریخ اسلام ایسے  پاک دامن  خواتین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ قرآن پاک اورروایات  معصومین ؑ   میں اچھی عورتوں کا تزکرہ موجود ہے   ان میں سے کچھ کے حالات اختصار کے ساتھ   اس مقالہ میں ذکر ہوگا۔
اسلام کے نگاہ میں خواتین کا کردار

حضرت انسان میں  سلسہا تفاضل  ابتداء خلقت انسان سے موجود رہا ہے  تاریخ بشریت میں سب سے پہلے ایک دوسرے پر فضیلت اور برتری کے  دعوی  حضرت آدم ؑ اور  ملائکہ کے درمیان میں مقابلہ رہا  جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے ۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَة إِنِیّ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِيْفَة قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِيْها مَنْ يُّفْسِدُ فِيْها وَيَسْفِکُ الدِّمَاءَ ج وَنَحْنُ نُسِ بِّحُ بِحَمْدِکَ ونُقَدِّسُ لَکَ
ترجمہ : اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمیں پر خلیفہ بنانے والا ہوں ،تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیو پیدا کرتے ہوجو زمین پر فساد کرئے اور خون بہائے اور ہم تیرے تسبیح ،حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔( 3)
پھر یہ سلسلہ آگے بڑا    ہابیل اور قابیل کے درمیان    برتری کا دعوی ہو جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے ۔  فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ للهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ۔  ۔ ترجمہ :   ان میں سے ایک کی نزر قبول ہوگیاور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی،تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے  کہا اللہ تعالی تقوی والوں کا ہی قبول کرتا ہے ۔(4)    
اسی طرح ہرایک دور ، زمان و مکان میں  تفاضل و تفاخر کا سلسلہ جاری رہا  وحشی امتوں اور پسماندہ قبیلوں میں منجملہ افریقہ ،آسٹریلیا ،  جزائر اقیانوس اور قدیم امریکہ وغیرہ میں رہنے  والوں کے درمیان  مردوں کے مقابلہ میں  عورتوں کی زندگی  پالتو جانوروں کے زندگی  مانند تھی  اس وقت جو سلوک پالتو جانوروں کے ساتھ کرتے تھے وہی  عورتوں کے ساتھ بھی کرتے تھے  لوگ  حیوانات کے مالک بنتے تھے ان سے  ہر قسم کے کام لیتے تھے  ان کو ہر وقت اپنے تصرف میں رکھا کرتے تھے   ان کے گوشت ، ہڈی، جلد ہر ایک جز کو اپنے  اپنے  مفادکے لیے   استعمال کرتے تھے  اسی طرح  نر اور مادہ میں جفتی کراکے  ان کے بچوں سے بھی   کام لینا ان کا  کام تھا   ۔ یہی طور و طریقے    قوموں اور قبیلوں کے درمیان  عورتوں کی زندگی بھی مردوں میں ایسی ہی  رہی ہے  لوگ  عورتوں کے مالک بن کے ان سے ہر قسم کے تصرفات حاصل کرلیا کرتے تھے ۔    حالانکہ   مر د اور عورت  دونوں  کوئی تفاضل نہیں ہے دونوں اسلام کی نگاہ میں انسان ہیں انسانیت کے دائرہ میں دونوں شامل ہیں دونوں کی خلقت  ایک ہی چیز سے ہوئی ہے اور وہ مٹی ہے  جیسے ارشاد ہورہا ہے ۔(  هوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) ترجمہ : وہ ہی ہے جس نے تمہے مٹی سے پیدا کیا۔  (5) دونوں کی خلقت   نطفہ سے ہوئی ہو جیسے ارشاد ہورہا ہے ۔  ( ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِیْ قَرَارٍ مَّکِيْنٍ )ترجمہ :  پھر اسے نطفہ بناکر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔(6)مرد اور عورت   دونوں مساوی اور  برابر ہے   خلقت مٹی سے ہوئی  پیدائش کے بعد نطفہ سے  آخر تک تمام مراحل میں مشترک ہیں   اساس خلقت ، مراحل خلقت، مادہ خلقت  کوئی فرق نہیں ہے۔

طلوع اسلام کے بعد  لوگ خواتین کے بارے میں جو افکار اور عقائد و نظریہ  رکھتے  تھے  اور عملی طور پر بھی خواتین کے ساتھ پیش آتے تھے اسلام نے  ان تمام چیزوں کو بے بنیاد   بیکار  و باطل قراردیا  اور عورت کے حق میں ایک انقلاب   برپا کیا    اس بنا پر دین اسلام   مرد سے  مرد کا تقابل  عورت سے عورت کا تقابل اور مرد سے عورت کا تقابل و تفاضل  کو ختم کیا   سب کو لاکے ایک ہی صف میں کھڑا   کیا  اور ایک روشن باب کو بازکر کے اعلان کیا  اگر کسی کو کسی پر برتری و فضیلت ہے تو  ایک ہی معیار کے بنا پر ہے اور وہ معیار وملاک تقوی الہی ہے   جس  کے متعلق پروردگار عالم  نے ارشاد فرمایا۔
( إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ لله أَتْقَاکُمْ۔) ترجمہ : اللہ  کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقوی ہے۔(7)      
اسلام میں چند خواتین کا کردار
1-حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا  اسلام کے دامن میں وہ پاک دامن خاتون ہے  جس کے حق اور احسانات کو پورا کوئی  بھی   نہیں کرسکتا ہے      ام القریٰ (مکہ) میں سن  68  قبل از ہجرت میں پیدا ہوئی ان کے وا لد خویلد بن اسد قریش کے معززین میں سے تھے  اور والدہ فاطمہ بنت زائد جن کا تعلق بنی عامرسے تھا۔   حضرت خدیجہ کی شخصیت اور کردار  ایسا  ہے کی یہ  پاک خاتون  فضائل کے ساتھ آراستہ ہوتے ہوئے پرورش پائی  ، اسی طرح آداب کے  ساتھ مزین ہوتے ہوئے عفت و شرف  اور کمال سے  متصف ہویئں حتی کی اپنے زمانے میں مکہ کی خواتین میں "طاہرہ" کے لقب سے معروف ہویئں۔جب حضرت خدیجہ   نبی کریم ﷺ کے ساتھ  رشتہ ازدواج میں متصف ہو گئی تو ان کی فضیلت ظاہر ہوئی   مکہ کے خواتین کی سردار  بنے کا شرف حاصل ہوا ۔  یہ وہ خاتون ہے جس کے بارے میں خود حضور  اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :   ما ابدلنی اللہ خیرا منھا صدیقتی اذ کذبنی الناس وواستنی بمالھا اذ حرمنی الناس ،ورزقنی اللہ الولد منھا ولم یرزقنی من غیرھا   ترجمہ:خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی عورت مجھے نہیں دی. جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تھے، تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی. اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی.۔ (8)      
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا    ایک شریف اور پاک طینت خاتون تھیں  جس کے اندر فضیلت ،شعور ،فکر اور کمالات کے خصوصیات کے حامل تھیں ۔ نوجوانی کی عمر میں عرب کی نامور اور صاحب فضیلت  خاتون سمجھی جاتی تھیں ۔  آپ کے ظاہری قوت و دولت کے علاوہ  معنوی اور روحانی  ثروت بھی موجود تھی آپ کے رشتہ کے لیے عرب کے با اشرف لوگ آئے تھے  لیکن آپ نے سب کو مسترد کرکے  رسول اللہ کو شریک حیات منتخب کیا  اسی اعتبار سے  آخرت کی سعادت اور جنت کے نعمتوں  کے حصول کا  راہ ہموار کی۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا  اپنی زندگی میں مال و ثروت ،شرافت اور    بلند مرتبہ کی حیرت انگیز مثال تھیں  ان کی بڑی  اور کافی وسیع پیمانہ  میں تجارت تھی  یہ خاتون  اپنے تجارت میں با اعتماد  لوگوں کو مستاجر بناکر  ان کے لیے حصہ  دیتی تھیں  اس دور میں پیامبر اکرم ﷺ  کے اخلاق اور  صفات جمالیہ   سے

 مکہ کا فضا پر تھا اس بنا پر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا  حضور  اکرم سلام اللہ علیھا   ﷺ کی طرف راغب ہوئی  اور اپنے تجارت میں شامل کئی۔  اس پاک دامن خاتون سلام اللہ علیھا  نے حضرت محمد مصطفی ﷺ  کے اچھے اخلاق  ، سجائی ، امانت داری  اور دوسرے صفا ت کو محسوس  کر لیا اور اپنے سارے مال  پیامبر اکرم کے راہ تبلیغ میں صرف  کئی   جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے راہ خدا میں اپنے سارے مال و ثروت  کو خرچ  کر لی  تو  اللہ تبارک و تعالی نے  اس کے عوض میں اس  خاتون کو  خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیھا  کی والدہ   ہونے کے شرف کو  بخشا۔
دستورات اسلامی کے کاموں  اور اشاعت  کے سلسلہ میں خدیجہ  سلام اللہ علیھا  رسول ﷺ کا دایا ں بازو تھیں  انہوں نے  رسول اللہ کے پیروی کی اور اسلام کے پایوں  کے استحکام کے لیے اپنا سارا مال  خرچ کردیا اور اولین مسلمان   اور خواتین میں سب سے پہلی  نمازی تھیں اس کے ساتھ ساتھ  اجر عظیم کی ملکہ  ہو کی حیثیت سے اللہ نے ان کو اجر عظیم عطا  کیا تھا ۔  رسول خدا ﷺ کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر گئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔    
حضرت خدیجہ کے خصوصیات:

آپ علیہا السلام  رسول خداکی سب سے پہلی بیوی ہیں۔
آپ علیہا السلام   حلقہ اسلام میں سب سے پہلے داخل ہوئی۔
آپ علیہا السلام   سب سے پہلے نماز حضرت خدیجہ نے رسول اللہ ﷺ  کے ساتھ پڑھی۔
آپ علیہا السلام  سب سے پہلے رسول خدانے اپنی بعثت کا تذکرہ حضرت خدیجہ سے کیا۔
آپ علیہا السلام   سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی۔
آپ علیہا السلام   کو حضرت علی ؑ کی پرورش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
آپ علیہا السلام   دنیا کے   چار  بہترین عورتوں میں سے ایک  ہیں۔
آپ علیہا السلام   کو جدہ ایمہ   ہونے  کا شرف حاصل ہوا۔
2-حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا

حضرت فاطمہ بنت اسد   کی ولادت 55 سال قبل از ہجرت ہوئی حضرت فاطمہ بنت اسد    وہ   اولین خاتون ہیں   جن کے ماں باپ دونوں ہاشمی ہیں ۔  اسی طرح تاریخ اسلام میں وہ واحد خاتوں ہیں جن کے لیے   خانہ کعبہ کی دیوار شق ہو گئی  اور اللہ کے گھر میں داخل ہونے کا  راستہ ملا  یہ شرف  نہ آپ سے پہلے کسی کو نصیب ہوا تھا اور نہ  آپ کے بعد کسی کو حاصل ہوا ہے ۔ پیامبر اسلام ﷺ   کےزمان طفولت میں   جد امجد حضرت عبد  المطلب  کا انتقال ہوا تھا اس بنا پر  آپ ﷺ اپنے چچا حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں رہے   یہ خاتون ابو طالب کی زوجہ  ہونے  کے  ناطق  حضور اکرم کی تربیت میں ابوطالب ؑ کے ساتھ برابر شریک تھیں حضرت فاطمہ بنت اسد نے  اپنی زندگی کا کردار اس طرح ادا کیئے کی  پیامبر اسلام نے  حضرت فاطمہ بنت اسد کے انتقال کے وقت فرمایا: "آج میری ماں رحلت کر گئیں"۔ آپﷺنے اپنا پیراہن بطور کفن فاطمہ بنت اسد کو پہنایا اور ان کی قبر میں اترے اور لحد میں لیٹے اور جب کہنے والے نے کہا کہ "اے رسول خدا ﷺآپ اس قدر بےچین کیوں ہوئے ہیں؟" تو آپﷺ نے فرمایا: "وہ بےشک میری ماں تھیں؛ کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں اور مجھے کھانا کھلاتی تھیں، اور انہیں گرد آلود چھوڑ دیتی تھیں جبکہ مجھے نہلاتی اور آراستہ رکھتی تھیں؛ حقیقت ہے کہ وہ میری ماں تھیں۔  
پیامبر اسلام جب تبلیع رسالت کے لیے   کوہ صفاہ پر کھڑا ہو کے لوگوں سے بیعت لیے تو مکہ کے مردوں کے ساتھ  مکی کے خواتین نے بھی  بیعت لی تھیں  ان میں سے ایک باایمان عورت   حضرت فاطمہ بنت اسد     بھی تھیں اسلام کو قبول کرکے آپ ﷺ کی بیعت کئی جس کے بارے میں  پروردگار عالم نے  سورہ ممتنحہ میں ارشاد فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِینَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِینَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِینَهُ بَيْنَ أَيْدِیهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِینَكَ فِی مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔
ترجمہ: اے پیغمبر! جب آپ کے پاس ایمان لانے والی عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں، ان شرائط پر کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور چوری نہیں کریں گی اور زناکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کی جان نہیں لیں گی اور کوئی بہتان نہیں باندھیں گی اپنے ہاتھوں اور پیروں کے بیچ میں اور آپ کے احکام کی جو نیکی کے ساتھ ہوں گے نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیجئے اور ان کے لئے اللہ سے دعائے مغفرت کیجئے۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان۔ (9)
اس آیت کے تفسیر میں ابن عباس  فرماتے ہیں کہ یہ آیت   حضرت فاطمہ بنت اسد کے شان میں نازل ہوئی ہے ۔  (10)
 اس با کردار مومنہ کے بارے میں امام صادق ؑ  فرماتے ہیں: "امیرالمؤمنینؑ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پائے پیادہ مکہ سے مدینہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی۔ وہ رسول اللہ(ص) کی نسبت نیک سیرت ترین خاتون تھیں" (11) حضرت فاطمہ بنت اسد  سن  4 ہجری میں وفات پائی وفات کے وقت پیامبر اکرم ﷺ  نے فرمایا : جبرائیل نے مجھے خبر دی کہ وہ جنتی خاتون ہیں اور خداوند متعال نے ستر ہزار فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ ان کی نیابت میں نماز بجا لایا کریں"۔ بعدازاین پیغمبر ﷺ   نے ان پر نماز میت ادا کی اور ان کے جنازے میں شرکت کی حتی کہ میت جنۃ البقیع میں ان کی قبر تک پہنچی۔ پیغمبر اسلامﷺ قبر میں اترے اور لحد میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور آپ نے  میت کو خود اپنے ہاتھ میں لے کر قبر میں رکھ لی۔(12)
3-حضرت فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیھا

حضرت فاطمہ  زہرہ  سلام اللہ علیھا رسول خدا اور  حضرت خدیجہ کی بیٹی  ،  امیرالمومنین حضرت علی ؑ کے شریک حیات ہیں  آپ کے القاب میں سے مشہور ترین القاب  بَتول، سیدۃ نساء العالمین اور اُمّ اَبیہا ہیں آپ کی ولادت  20 جمادی الثانی میں ہوئی اور سن 11 ہجری قمری کو اس دنیا سے رحلت کر گئیں ۔معصومہ عالم   جناب فاطمہ زہرہ   سلام اللہ علیھا  کا کردار و  عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کی پروردگار عالم نے  آپ کو ایسے  خصوصیات عنایت  کی ہے کہ جن میں  نہ کوئی اولین میں سے کوئی آپ کے ساتھ شریک ہے اور نہ آخرین میں سے کوئی شریک   ہے۔  ذاتی طور پر  مالک کائنات نے آپ  کی چادر کو محل نزول  آیہ تطہیر بنایا ،  اور مباہلہ میں آپ کو گواہ صداقت پیامبرﷺ قراردیا تھا اسی طرح  آپ کے مودت کو اجر رسالت قرار دیاہے ۔ فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیھا اپنے والد رسول خدا  ﷺکے گھر میں، آپ کی دینی تعلیم و تربیت سے فیض یاب ہوکر پروان چڑھیں آپ کے عضمت کے لیے اتنا کا فی ہے   حضور اکرم ﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا : خدا نے سب سے بڑی نعمت  تمہیں عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ  مجھ جیسا باپ ، علی جیسا شوہر اور حسن و حسین جیسے بیٹوں سے نواز ہے ۔  (13)      
آپ نے اپنے ولولہ انگیز خطبہ میں نہایت قیمتی حقائق بیان کئے ہیں  حضرت فاطمہ زہرہ  سلام اللہ علیھا کا خطبہ استدلال بھی ہے  جس میں ظلم وجور ، سیاست وحکومت کے بارے  میں روشن دلائل موجو دہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی مختصر زندگی مختلف سماجی سرگرمیوں اور سیاسی موقف پر مشتمل تھی۔ ہجرت مدینہ، جنگ احد اور جنگ خندق کے موقع پر زخمیوں کا مداوا اور مجاہدین تک جنگی سازو سامان کی ترسیل اور  فتح مکہ کے موقع پر آپ کی حاضری پیغمبر اکرمﷺ کی رحلت سے پہلے کی آپ کی سماجی سرگرمیوں میں سے ہیں۔ لیکن آپ کی سیاسی موقف کا اظہار پیغمبر اکرمﷺکی رحلت کے بعد دیکھنے میں آتی ہے۔ اس مختصر عرصے میں اسلامی حکومت کے سیاسی منظر نامے پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا سیاسی کردار کا موقف کچھ یوں دیکھنے میں آتی ہیں: سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے میں پیغمبر اکرم کے بعد ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت سے انکار،  مہاجرین و انصار کے سرکردگان سے خلافت کیلئے امام علی کی برتری کا اقرار لینا، باغ فدک کی دوبارہ مالکیت کے لئے سعی و تلاش، مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کے بھرے محفل سے خطاب اور دروازے پر مخالفین کے ہجوم کے وقت حضرت علیؑ  کا دفاع۔ محققین کے مطابق پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے جس رد عمل کا اظہار فرمایا ہے وہ در حقیقت ابوبکر اور ان کے حامیوں کی جانب سے خلافت کے غصب کئے جانے پر اعتراض اور احتجاج تھا۔(14)    
شہزادی دوعالم  نے تاریخ اسلام کے مشکل ترین دور میں ایک نمونہ عمل بیوی اور ایک عالی مان کا بہتریں کردار پیش کیا  قدیمی رسم و رواج،جاہلیت زدہ انسانیت کے درمیان متقبل کے لیے اعلی اور دائمی منصوبے تیار کی، ایس جاہلیت  جس میں عورت کی انسانیت   ہی نہیں تھی ایسے ماحول میں شہزادی کائنات حضرت  فاطمہ زہرہ   سلام اللہ علیھا     جو پیامبر اسلام کی اکلوتی بیٹی تھی نے انفرادی و سماجی کردار  کا ایک مجسم نمونہ عمل بن کے خواتین کے لیے پیش ہوئی۔ (15)
میراث فاطمہ

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی عبادی، سیاسی اور اجتماعی زندگی اور ان امور میں آپ سلام اللہ علیھا کی فرمائشات ایک گران بہا معنوی میراث کی طرح تمام مسلمان اپنی روزمرہ زندگی میں انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔
1.    مصحف فاطمہ: ایسے مطالب پر مشتمل ہے جنہیں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرشتوں سے سنا اور امام علی ؑنے اسے آپ  کے کہنے کے مطابق تحریر کی شکل میں لے آئے۔  (16)     
2.    اخبار فاطمہ : آپ کے فقہی ، اخلاقی ،سیاسی،اوراجتماعی احادیث  مستقل کتابوں کی شکل میں ہیں ان کو اخبار  فاطمہ کہتے ہیں۔(17)    
3.    خطبہ فدکیہ:حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی مشہور خطبات میں سے ایک ہے جسے آپ نےواقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ اور باغ فدک
کےغصب کے با امام علی ؑنے اس ذکر کے سننے کے بعد کسی بھی صورت میں اسے ترک نہیں فرمایا۔رے میں مسجد نبوی میں صحابہ کے بھرے مجمع میں ارشاد فرمایا۔
4.    تسبیحات حضرت زہرا : آپ   کے تسبیحات سے مراد وہ مشہور ذکر ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو تعلیم دی تھی امام علی ؑنے اس ذکر کے سننے کے بعد کسی بھی صورت میں اسے ترک نہیں فرمایا۔ (18)    
4-حضرت زینت سلام اللہ علیھا

آپ کا نام زینب ہے جو لغت میں "نیک منظر اور خوشبو دار درخت" کے معنی میں آیا ہے۔اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں. متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر خدا نے رکھانیز کہا گیا کہ آپ نے علیؑ اور زہرا کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے متاخر منابع میں سے جزائری نے خصائص الزینبیہ میں لکھا کہ رسول اللہ نے آپکا بوسہ لیا اور فرمایا:میری امت حاضرین کو غائبین کو میری اس بیٹی کی کرامت سے آگاہ کریں وہ اپنی جدہ خدیجہ کی مانند ہے۔تاریخ ہی نہیں  بلکہ تاریخ انسانیت میں  جو شخصیات کے منفرد پاکیزہ کردار کا تذکرہ اپنی روحانی آب وتاب کے ساتھ سب کے دلوں میں روشن ہے  اور ذہنوں میں تازگی بکھرتا ہے ان   شخصیات میں سے ایک  شیر خدا کی شیر دل بیٹی حضرت زینب بنت علی ہے علی کے شیر دل بیٹی نے دامن امامت و آغوش عصمت میں آنکھیں کھولی۔اور علم و معرف کے کمالات کودرک کرنے والی خاتون ہے دین اسلام اور پیامبر اسلام کے لائے ہوئے شریعت محمدی کی بقاء اودوام کو یقینی بنانے میں علوی شجاعت و فاطمی شہامت کا کردار ادا کی ہے اور رہتی دنیا  تک آنے  والی نسلوں اور عاشقان حق کے لیے مشعل راہ چراغ بن گیں۔ یہ
وہ خاتون ہے جس کے رگوں میں علی و فاطمہ کے لہو کی گرمی  ،

جس کی آنکھوں میں رسالت کانور، کانوں میں امامت کی صدا ور زبان پر ہمیشہ ذکر خداہو تو  ایسی خاتون کو ہی  شیر خدا کی شیر دل بیٹی کہا جاسکتا ہے ۔ اس بی بی کا تاریخی کردار کچھ اس طرح ہے کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علی اور والدہ ماجدہ حضرت زہراسے احادیث بھی نقل کی ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علی کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"میرے ماں باپ ان پر قربان ہوجائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں (19)
حضرت زینب صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلاء میں جب اپنے بھائی حسین کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچی تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:
بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما۔ (20)    
 کوفہ میں زلزلہ آور  خطبہ میں یزید کو مخاطب کر کے کہا :  تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور خاندان رسول ﷺ  کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہیں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔
عبادت کے میدان میں دیکھے  تو کیا شان ہے بی بی کی حضرت زینب كبری  سلام اللہ علیھا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہیں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین کہتی ہیں:شب عاشور پھوپھی زینب مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔  خدا کے ساتھ حضرت زینب کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسین نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
 "یا اختی لا تنسینی فی نافلة اللیل"  ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔(21)          
دور حاضر میں خواتیں  کا کردار

اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے معاشرے میں  خواتین شریعت محمدی  اور  فاطمہ زہرہ کی سیرت پر عمل کرتے  ہوئے معاشرے میں تعلیم یافتہ،مسلمان اورباایمان خواتین کی تعدادبہت زیادہ ہے جو یا تحصیل علم میں مصروف ہیں یا ملکی جامعات میں اعلی درجے کے علوم و فنون کو بڑے پیمانے پر تدریس کررہی ہیں اور الحمد اللہ مکتب تشیع  میں ایسی  خواتین کی تعدادبہت زیادہ ہے کہ جو طب اور دیگر علوم میں ماہرہیں  یہ ہمارے لیے  باعث افتخار ہے ۔الحمدللہ   پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مالک ہیں بلکہ ایسی بھی خواتین ہیں کہ جنہوں نے دینی علوم میں بہت ہی ترقی کی  ہیں اور بہت بلند مراتب ودرجات عالیہ تک پہنچی ہیں۔
دنیا کے مختلف  ممالک میں بہت سارے خواتین فاطمہ زہر کے کردار کو اپنا تے ہوئے علمی، فلسفی اور فقہی اعلی مقامات تک رسائی حاصل کرنے والی ہیں ۔یہ خواتین ہمارے مکتب تشیع کیلئے باعث افتخار ہیں۔ اِسے کہتے ہیں پیشرفت زن اور خواتین کی ترقی۔ اسلامی نقطے نگاہ سے مر د اور عورت دونوں  انسانی کمال کا میدان میں ایک دوسرے کے برابر ہیں جیسے قرآن میں ارشاد ہورہا ہے ۔ِ
انّ المُسلمِینَ والمُسلماتِ والمومِنینَ و المُومنِاتِ والقَانِتِینَ وَالقاَنِتاتِ والصَّادِقِینَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرینَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِینَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِینَ والمُ تصَدِّقاتِ والصَّآئِمِینَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِینَ فُرُوجَہُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِینَ لٰلهَّ کَثِیراً والذَّاکِرات‘
ترجمہ : بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتین  ، مومن مرد اور مومن عورتین، فرمان برداری کرنے والے مرد اور عورتین  ، راست باز مرد اور راست باز  عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور عورتین ،عاجزی کرنے والے مرد اورعوتیں، خیرات دینے والے مرد اور عورتین، روزے رکھنے والے مرد اور عورتیں ، شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور کثرت سے ذکر الھی کرنے والے مرد و عورتیں سب کے لیے مغفرت اور بڑا ثواب ہے ۔ (22)
مسلمان، مومن، صادق ،صابر ، خاشع، صدقہ دینے والے ، روزہ دار، شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور خدا کا کثرت سے ذکر کرنے والےمرد اورعورت   یعنی یہاں خداوند عالم نے مرد اورعورت کی دس بنیادی صفات کو کسی فرق و تمیز کے بغیر دونوں کیلئے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد خداوند عالم ارشادفرماتا ہے ۔
’اَعَدَّ لٰلهُّ لَهم مَغفِرَةً وَّ اَجراً عَظِیم   اللہ نے ایسے مردوں اورخواتین کیلئے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کیا ہے لہٰذا اِس میدان میں اسلام کی نظر کو معلوم کرنا اور اُسے بیان کرنا چاہیے۔دوسرا میدان کہ جس میں عورت اپنے وجود کو ثابت کرسکتی ہے، وہ اجتماعی فعالیت کا میدان ہے، خواہ وہ سیاسی فعالیت ہو، اقتصادی ہو یا اجتماعی یا کوئی اور غرض یہ کہ عورت، معاشرے میں وجود رکھتی ہو۔ لہٰذا اِس میدان میں بھی اسلام کی نظر کی وضاحت کرنی چاہیے۔ خواتین کے لیے دور حاضر میں ضروری ہے کی  خاندانی نظام زندگی کو بہتر بنائے بہترین نظام زندگی ہی   عورت کے لیے میدان عبارت ہے لہٰذا اس میں بھی اسلام کی نظر کو واضح کرنے ضرورت ہے۔ دور حاضر کے خواتین کے  لیے  دوسرا میدان کہ جہاں خواتین اپنے وجود کو ثابت کرسکتی ہیں وہ اجتماعی فعالیت کامیدان ہے۔ خواہ وہ فعالیت اقتصادی ہو یا سیاسی،یا خاص معنوں میں اجتماعی فعالیت ہو یا تحصیل علم اور تحقیق وریسرچ ،تعلیم و تدریس اورراہ خدا سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں جدوجہد اورمحنت کرناہو ، ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں مختلف قسم کی فعالیت اورمحنت و جدوجہدکرنے میں

مردو عورت میں اسلام کی نگاہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ مرد کو تحصیل علم کا حق ہے ، عورت کو نہیں، مرد تدریس کرسکتاہے، عورت نہیں؛ مرد اقتصادییو معاشی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے عورت کو اقتصاد ومعیشت سے کیا سروکار اور مرد سیاسی فعالیت انجام دےسکتا ہے ، عورت کا سیاست سے کیا کام؟تو نہ صرف یہ کہ اِس کہنے والے نے اسلام کی منطق کےبرخلاف بولا بلکہ ایسا شخص  اسلام،قرآن و حدیث کے مقابکہ میں منکر بن گیا۔ اسلام کی نگاہ میں انسانی معاشرے اور زندگی کے تمام شعبوں سے مربوط فعالیت میں مرد وعورت دونوں کو شرکت کی اجازت ہے ۔ہاں البتہ بعض ایسے کام ہیں جو خواتین کے کرنے کے نہیں ہیں چونکہ اُس ک جسمانی ساخت اور اُس کی طبیعت و مزاج اورفطرت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بعض کام ایسے ہیں جنہیں انجام دینا مرد کے بس کی بات نہیں ہے چونکہ اُس کی جسمانی، اخلاقی اور روحی صفات و عادات سے میل نہیں ہوتے ہیں۔
اگر معاشرے میں عورت کے بارے میں غلط فکر و نظر موجود ہو تو صحیح معنی میں اوروسیع پیمانے پر اُسے ازسر نوصحیح کرنا مشکل ہوگا۔ خود خواتین کو بھی چاہیے کہ اسلام میں خواتین کے موضوع پر کافی مقدار میں کام کرئے تاکہ دین مبین اسلام کے کامل نظریے کی روشنی میں اپنا حقوق کا بھرپور دفاع کر سکیں۔ اسی طرح اسلامی ممالک میں معاشرے کے تمام افراد کو یہ جاننا چاہیے کہ خواتین، مختلف شعبوں زندگی اُن کی موجودگی، فعالیت،تحصیل علم،اجتماعی ،سیاسی ، اقتصادی  اورعلمی میدانوںمیں اُن کا کردار  گھر کے اندر اور   گھر سے باہر اُن کے کردار  کیا ہے اور کیا  فرائض ہیں۔(23)
نتیجہ

اللہ  تعالی کی  دی ہوئی بصیرت سے اگرتاریخ  کا مطالعہ کیا جائے تو خواتین کے بارے میں مختلف قسم کے معلومات ملتے ہیں ۔ کائنات کے مختلف ادوار میں مختلف   اقوام میں عورت مظلوم تر رہی ہے  اور کسی نے بھی ان پر رحم کے نگاہ سے نہیں دیکھا لیکن جسے  ہی آفتاب اسلام نمودار ہو  تو سب سے پہلے عورت کو ظلمات  کے تاریکی سے اٹھا کے  نور کے فضاء میں جگہ عنایت کیا اور مختلف ازمان میں حضرت خدیجہ ، حضرت فاطمہ بنت اسد ، حضرت فاطمہ بنت رسول اور حضرت زینب تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل بن کے آگئیں ہیں۔

____________________
    1 -   کلیات اقبال    
    2 – صحیفہ امام خمینی
3-    سورہ بقرہ  آیت -30
4-    سورہ مائدہ  آیت-27
5-    سورہ مؤمن آیت -   67
6-    سورہ المؤمنون آیت -  13
    7 – سورہ حجرات آیت- 13
    8 – لافصاح فی الامامہ، ص217
    9-سورہ ممتحنہ کی آیت- 12
    10- تذکرة الخواص، ص10
    11- اصول کافی، ج1، ص422۔

12-المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص108۔
    13 - بحار الانوار –ج 43
    14 - سیرہ سیاسی فاطمہ
    15 – فدک ( علامہ ذیشان حیدر)
16-    الکافی، ج۱، ص۲۴۱.
17-    کتابشناسی فاطمہ  (معموری)
18-    من لایحضرہ الفقیہ، ج۱
19-    لہوف
20-    فیض الاسلام   ۔ص 185
21-    زبیح اللہ محلاتی
22-    سورہ احزاب آیت 35
23-    رہبر معظم کا خواتین سے خطاب (تہران)
منابع

      
1    قرآن حکیم        
2    اصول کافی        یعقوب کلینی    نشر معشر تہران
3    من لایحضرہ الفقیہ    شیخ صدوق        الکساء     ۔ پبلیشر  نارتھ کراچی
4    الافصاح    فی الامامہ    شیخ مفعد    دار المفید (1414)ق
5    تذکرة الخواص    ابن جوزی        مجمع جہانی اہلبیت (1426)ق
6    المستدرک علی الصحیحین        نیشابوری        دار المیمان
7    بحار الانوار         علامہ مجلسی    انتشارات اسلامی
8    زبیح اللہ محلاتی    جعفرالنقدی    مرکز مطالعات اسلامی
9    لہوف    ابن طاوس        عباس بک ایجنسی رستم نگر لکھنو
10    فدک    علامہ ذیشان حیدر    عصمت پبلیکیشیز کراچی
11    صحیفہ امام خمینی    امام خمینی    تنظیم آثار خمینی
12    کلیات اقبال    مجمع اشعار علامہ اقبال   

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بارش اور پانی، اللہ کی نشانی
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
حدیث ثقلین پر ایک نظر
واقعہ فدک
حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور ...
تاریخ نزول قرآن
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
قرآن کے بارے میں چالیس حدیثیں
اسلامی انقلاب کی کامیابیاں
حضرت ابوطالب(ع) كى قربانياں

 
user comment