مقدمہ۔
اس نظر سے کہ انسان ذاتی اور فطری طور پرکمال نہائی اور سعادت ابدی کا طالب ہے اور ہمیشہ کمال ابدی ونہائی کو پہچاننے کیلے اور وہاں تک پہےچنہ کا جو راستہ ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے راہ میں جو رکاوٹے ہںا انکو کس طرح سے بر طرف کرنا چاہیئے اسکے بارے میں غور و فکر کرتا ہے، لذا شیطان کو اپنے ہدف تک پہنچنے کیلے ایک رکاوٹ سمجہتاہے،اسلیے ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اس موجود پلید کو پہچان لے اور اسی طرح سےپہچان لے کہ کس طرح سے اسکے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ اس بنا پر تاریخ کے لحاظ سے شیطان کا مسئلہ اور اسکے خلق ہونے کی کیفیت وفلسفہ ،اور انسان کو گمراہ کرنے کیلےجو اسکے پروگرام ہیں،
اوراس نے جن مختلف ابزار و وسائل کا جو جھال بچھایا ہوا ہے، حزب شیطان ،اور اسکے ساتھ مقابلہ کرنےکی کیفیت ،اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ہمیشہ انسان کےساتھ رہے ہںو۔اورہمیشہ و ہر جگہ شیطان کےبارے میں بات ہوتی ہی ہے،اور بہت سارے سؤلات اسکے بارے میں ہوتے ہیں ۔
شیطان کی خلقت۔
قرآن مجید کی بہت ساری آیات سے استفادہ ہوتا ہےکہ شیطان(1)کا اولین مادہ آگ تھا جیسا کہ قرآن میں فرما رہاہے:«واذقلنا للملائکة اسجدوا لادم فسجدوا الاّ ابليس کانَ من الجنّ ففسق عن امرربّه۔» (کہف:50)
اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کیلئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا کہ وہ جنات میں سے تھا پھر تو اس نے حکم خدا سےسرتابی کی ۔
اس آیہ مجیدہ سے یہ ظاہر ہوتاہےکہ ابلیس کو جن میں سے قرار دیاہے۔ابلیس اس شیطان کا خاص نام ہے جس نےحضرت آدم کو گمراہ کیا تا ۔ خدا وند عالم نے اسے کبیہ ابلیس اور کبھی شیطان کے عنوان سے تعبیر کیا ہے۔(2)
اور دوسری طرف سے ، آیات میں جن کی خلقت کو آگ سے قرار دیاہے:
«والجانَّ خلقناه من نارالسّموم» اور جنات کو زہریلی آگ سے پیدا کیا (حجر:27) ؛«وخلق الجانّ من مارجٍ من نارٍ» اور جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا (الرحمن: 15) اور خود شیطان بی اپنی خلقت کو آگ سے جانتاہےکہ جب خداوند عالم نے اس سے سؤال کیا ،کس چیز نے تمہیں آدم کو سجدہ کرنےسے روکا؟تو کہنے لگا : «اناخيرٌمنه خلقتنى من نارٍ وخلقته من طينٍ۔» میں ان سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے پیدا کیا ہے(ص: 76) کسی اور جگہ پر فرمایا : «ءَاسجدُلمن خلقت طينا»کیا میں اسے سجدہ کرلوں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔(اسراء:61) ۔
لیکن اس آگ سے مراد وہی معمولی آگ ہے یا اسی کے مانند کوئی اور آگ، اسکےبارےمیں قرآن سے کوئی چیز حاصل نںین ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ کان جائے کہ:جن اصل میں ستر اور کور کے معنی میں ہے،اسی لیے جنین کو «جنين»کہا جاتا ہے؛چونکہ اپنے ماں کے رحم کے اندر چپا ہوا ہوتاہے۔اور جنون کو بی اسی مخفی ہونے کی دلیل سے«جنّ»کہا جاتاہے۔اور بہشت و باغ کو بین جنت کہا جاتاہےچونکہ درخت کےشاخوں کےنیچیے چیاو ہوئی ہوتی ہے۔ اور دیوانے کو بھی اسی دلیل سے کہ اسکا عقل چپا ہوا ہوتاہے؛ «جنون»کہا جاتاہے۔
بس ان سب باتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ،کہا جا سکتا ہےکہ ؛ملائکہ بیک جن ہیں،چونکہ ہماری نظروں سے غائب ہیں،لیکن صرف اسلئے کہ قرآن مجید فرماتاہے: کان من الجنّ ففسق عن امرِ ربّه (کہف: 50)
تو ابلیس کے فرشتوں میں سے نہ ہونے کو اس سے ثابت نہں کر سکتےہںچ ۔چونکہ ممکن ہے فرشتوں کےمخفی ہونے کی دلیل،ابلیس پر بیے جاری ہو جوکہ ان میں سے تا اسلئے اس پر جن کا اطلاق ہوا ہو ۔لیکن اسطرح کا نتیجہ لینا ظاہر آیہ کےخلاف ہے۔اسکے علاوہ کسی بیہ آیہ میں ملائکہ کیلۓ لفظ جن استعمال نہیں ہوا ہے،بلکہ لفظ جن قرآن میں موجودات مکلف میں سے ایک طائفہ کا نام ہے،کہ معمولا (انس)کے مقابل میں قرار پایاہے،جیسے : «يامعشرالجنِّ والانس الَم يأتِکم رسلٌ منکم يقصّون عليکم آياتى وينذرونکم لقاءَ يومکم هذا»
اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے جو ہماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے (انعام:130) «وماخلقتُ الجن والانس الاّ ليعبدون» اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے(ذاريات: 56)
«ولقدذرأنالجهنم کثيرامن الجنِّ والانس۔» اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو جہنم کیلئے پیدا کیا ہے (اعراف: 179) ۔
بعض مفسرین(3)کے قول کےمطابق کبیخ لفظ جن فرشتوں کےمقابل میں آگیا ہے؛جیسے : «ويومَ نحشرهم جميعاثم نقولُ للملائکةِ هؤلاءِ ايّاکم کانوا يعبدون قالوا سبحانک انت وليُّنا من دونهم بل کانوا يعبدون الجنِّ۔»
اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پرِ ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ لوگ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے (سبا: 41) ۔
یہ جو کہا گیا؛ اس سے اسکا جواب (کہ شیطان پہلے ایک فرشتہ تا لیکن آدم کو سجدہ نہ کرنے، اور حکم خداکی اطاعت نہ کرنےکی وجہ سے درگاہ الھی سے نکالا گیا،اور مخلوقات خدا کو گمراہ کرنے لگا)۔(4)کہنا بیے روشن ہو جاتاہے۔
کیا ابلیس فرشتوںمیں سے تاے ؟
ممکن ہے یہ وہم ہوجائے کہ ابلیس بیگ خدا کےفرشتوں میں سے ایک فرشتہ تا۔ ،چونکہ بعض آیات میں جوکہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنے ،اور ابلیس کا سجدہ کرنےسے انکار کرنےمیں ،فرشتوں کو مستثنی منہ اور ابلیس کو مستثنی قرار دیا ہے(5)۔اسکے علاوہ خود ابلیس نےبیک نہیں کہا کہ میں فرشتوںمیں سے نںت ہوں تاکہ سجدہ کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام علی علیہ السلام فرما رہے ہیں: «ما کان اللّه سبحانه ليدخل الجنةبشرا بامر اخرجٍ به منها ملکا» (6) ۔
اس توہم کا جواب : پہلا۔ قرآن مجید نے صراحت کیساتھ بیان کیا ہےکہ ابلیس جن میں سے تات،فرمایا : «کان من الجنّ ففسق عن امر ربّه» (کہف: 50)
دوسرا -کیونکہ ابلیس ایک طویل مدت کیلۓ فرشتوں کے درمیان تھا ،انی کے زمرہ میں تال ،اور یہ کہ قرآن فرما رہاہے: «واذقلناللملائکةِ اسجدوا لآدم فسجدوا الاّ ابليس»ممکن ہے اسی مقولہ سے ہو ۔
تیسرا۔شیطان کی خلقت آگ سے ہے اور فرشتوں کی خلقت نور سےہے(7)۔
چوتہا۔قرآن صراحت کیساتھ کہہ رہا ہے کہ فرشتے خدا کےنافرمانی نہیں کرتے ہیں:«لايعصون اللّه ما امرهم» خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتی ہیں(تحريم: 6)۔ «لايسبقونہ بالقول وهم بامره يعملون»کسی بات پہ اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اسکے احکام پر برابر عمل کرتے ہیں(انبياء:27)۔لیکن قرآن کی اس صراحت کےباوجود شیطان نے خدا کی نافرمانی کی: «ابى واستکبر وکان من الکافرين»اس نے انکار اور غرور سے کام لیا اور کافرین میں سے ہوگیا (بقرہ: 34)؛ «کان من الجن ففسق عن امر ربّه» (کہف: 50)؛«فسجدوا الاّ ابليس ابي» ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کر لیا (طہ: 116)؛«الاّ ابليس ابى ان يکون مع الساجدين» علاوہ ابلیس کے کہ وہ سجدہ گزاروں میں سے نہ ہو سکا (حجر: 30)؛«الاّ ابليس استکبرو کان من الکافرين» علاوہ ابلیس کے کہ وہ اکڑ گیا اور کافروں میں سے ہوگیا (ص:74)؛
«انّ الشيطان کان للرّحمن عصّيا۔» شیطان رحمان کی نافرمانی کرنے والا ہے(مريم: 44)
پانچواں۔قرآن نے شیطان کو صاحب اولاد جانا ہے،فرمایا : «واذقلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الاّ ابليس کان من الجن ففسق عن امرربّه افتتخذونه وذرّيّته اولياءمن دونى وهم لکم عدوٌ بئس للظالمين بدلاً۔»
اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کیلئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا کہ وہ جنات میں سے تھا پھر تو اس نے حکم خدا سےسرتابی کی ،تو کیا تم لوگ مجھے چھوڑ کر شیطان اور اسکی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رہے ہو ،جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں یہ تو ظالمین کیلئے بدترین بدل (کہف: 50) لیکن ایسی چیز فرشتوں کیلۓ ثابت نہیں ہے۔
چالم۔قرآن مجید فرما رہاہےکہ روئے زمین پر جو لوگ ہیں انکے لئے ملائکہ خدا وند عالم سے طلب مغفرت کرتے ہیں: «والملائکةُ يسبّحون بحمدربّهم ويستغفرون لمن فى الارض (شوری :5)وبالاسحارهم يستغفرون»
(ذاريات: 18) اور ملائکہ بھی اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں استغفار کر رہے ہیں اور سحر کے وقت اللہ کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتےتھے۔کسی اور جگہ پر فرما رہاہے: «الذين يحملون العرش ومن حوله يُسبّحون بحمدربّهم ويؤمنون به و يستغفرون للّذين آمنوا ربّنا وسعت کلّ شى ءٍ و علما فاغفر للّذين تابوا واتّبعوا سبيلک وقهم عذاب الجحيم۔»
جو فرشتے عرش الہي كو اٹھائے ہوۓ ہیں اور جو اس کے گرد معین ہیں سب حمد خدا کی تسبیح کر رہے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور صاحبان ایمان کیلئے استغفار کر رہے ہیں کہ خدایا تیری رحمت اور تیرا علم ہر شئ پر محیط ہے لہذا ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کا اتباع کیا ہے اور انہیں جہنم کے عذاب سےبچا لے (غافر: 7)
لیکن بت ساری آیات نے شیطان کو انسان کا کلمف کھلا دشمن جانا ہے، اور انسان کو اسکی پیروی کرنےسے روکا گیاہے«وانّ الشيطان للانسان عدوٌ مبينٌ» شیطان انسان کا بڑا کھلا ہوا دشمن ہے(يوسف: 5)؛ افتتخذونه وذرّيّته اولياءمن دونى وهم لکم عدّوٌ۔» (کہف: 50) (8)
خلقت شیطان کا فلسفہ۔
خدا وند عالم نے شیطان کو کیوں خلق کیا ؟تاکہ حضرت آدم علیہ السلام کو اور اسکی اولاد کو فریب دے، اور انکو گمراہ کرے؟اگر خلق نہ کرتا تو مسلما کوئی ایک بیف بندہ خداکی معصیت و نافرمانی نہ کرتا ؛اور کلی طور پر تمام انسان اسکے شر سے محفوظ رہتے بس اسکو کیوں خلق کیا؟
جواب:1۔خدا وند عالم نے شیطان کو جبرا کوئی شریر یا اذیت دینے والا خلق نہیں کیا ہے، بلکہ شیطان نے اپنی خلقت کےبعد خداکی اتنی عبادت کی؛ کہ فرشتوں کےزمرےمیں قرار پایا ،اسکےبارےمیں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
«واعتبروا بما کان من فعل اللّه بابليس اذا حبط عمله الطويل وجهده الجهيد وقد کان قدعبداللّه ستة آلافٍ لايدرى امن سنى الدّنيا امّن سنى الاخرة عن کبرساعةٍ واحدةٍ فمن ذا بعد ابليس يسلم عن اللّه بمثل معصيتة۔» (9)۔
بس یہ شیطان ہی تاش کہ جس نے اپنے اختیار سے خدا وند عالم کےحکم کی مخالفت کی،اور حضرت آدم کو سجدہ کرنےسے انکار کیا ،اسی لئے خدا وند عالم کی رحمت سے دور ہوگیا۔(10)۔
2۔خدا وند عالم نے انسان کو شیطان کےمکر و فریب کے مقابل میں انسان کو خالی نہیں چومڑاہے،بلکہ انسان کو عقل اور وحی جیسے قدرت سے نوازاہے،ایک طرف سے عقل کے وسیلےسے اور دوسری طرف وحی کے وسلیے سے شیطان کےمکر و فریب سے آگاہ ہو جاتا ہے۔(11)۔
3۔شیطان کا وجود ایک لحاظ سےانسان کیلۓ نعمت ہے، نہ کہ عذا ب، چونکہ شیطان خود ایک وسیلہ ہے انسان کے ترقی وتکامل تک پہنےاہ کیلۓ ،کیونکہ جو چیز انسان کو صراط مستقیم سے ہاننےکی کوشش کرے ؛ تو اسکے ساتھ اپنی پوری قوت و طاقت کیساتھ مقابلہ کیا جائے تو مسلما اسکی روح کی تربیت اور معنوی کمال تک پہنچنے کیلۓ بہت ہی موثرہے۔
اور دوسری طرف خدا وند عالم کی سنتوںمیں سے ایک <امتحان>ہے ،یعنی خدا وند عالم کا ارادہ اسطرح سےہےکہ وہ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزمائے اور امتحان لے: «احسب النّاسُ ان يترکوا وهم لايفتنون۔»
کیا لوگوں نے یہ خیال کررکای ہے کہ وہ صرف اس بات پر چوتڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دے کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں اور انکا امتحان نہیں ہوگا (عنکبوت: 2) (12)
شیطان کی خلقت بھی انسان کیلۓ ایک امتحان ہے،چونکہ انسان اس مسلہ کی طرف توجہ دیتے ہوۓ ،یہ کوشش کرتا ہےکہ شیطان کےمختلف قسم کےمکر وفریب کیساتھ مقابلہ کرے ،اور اپنے عقل و وحی الہی سے مدد لیتے ہوۓ شیاطین جن و انس کی فریب کاریوں اور حیلہ گریوں کےمقابل میں استقامت اختیار کرۓ؛ اور اسکی پیروی نہ کرے اسی وسیلےسے وہ کمال کےبلند ترین مرتبہ اور سعادت تک پہنج جائے گا۔
ہاں،انسان اپنے اختیار سے اپنے نفس کی پیروی کرتے ہو ئے شیطان کی جال میں پنس سکتاہےاور حیوانیت کے پست ترین درجےمیں گر سکتاہے،اور معمولا بے ایمان لوگ معادکی بہ نسبت سے ایسے ہی ہں : «ولتُصغى اليه افئدة الّذين لايؤمنون بالاخرة وليرضوه وليقترفوا ماهم مقترفون۔» اور یہ اس لئے کرتے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل انکی طرف مائل ہو جائیں اور وہ اسے پسند کر لیں اور وہ خود بھی انہی کی طرح افتراء پردازی کرنے لگیں (انعام:113)
کیا انسان شیطان کےمقابل میں مجبورہے؟
انسان اپنے علم حضوری کے ہوتے ہو ئے نہ فقط صاحب اختیار ہونےسے با خبر ہوتاہے(13)،اور نہ صرف قرآن مجیدکی متعدد آیات اسکے صاحب اختیار ہونے پر دلالت کرتی ہیں(14)؛بلکہ قرآن کی بہت ساری آیات بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان شیطان کےمقابل میں مسلوب الاختیارنہیں ہے،بلکہ شیطان تزیین کےطریقےسے (آراستہ، زيباجلوہ دیکر) (15)، وسوسہ (16)، دعوت (17)، تسويل (فریب دیکر) (18) استزلال (لغزش) (19)، اور افتنان (فتنہ) (20) اضلال (گمراہ کرکے) (21)، ايحاء (القا ،اور وسوسہ کے زریعےسے) (22)اور جوٹھا وعدہ دیکر(23)اور اسی طرح سے انسان کو خدا کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اور یہ سارے شیطان کےلوازمات میں سےہیں،توجہ کرنا چاہےہ کہ اگر بعض آیات میں شیطان کے بعض افراد پر مسلط ہونے کی طرف اشارہ ہواہے،(24)تو وہ سلطہ تکوینی نںین ہے،اسی لئے جب قیامت کےدن شیطان اپنے پیروکاروں کےسامنے ہوگا تو انکو کےگ گا : «انّ اللّه وعدکم وعدالحقّ ووعدتکم فاخلقتکم وما کان لى عليکم من سلطانٍ الاّ ان دعوتکم فاستجبتم لى فلاتلومونى ولوموا انفسکم وما انتم بمصرخيّ انّى کفرت بما اشرکتمون من قبل۔۔۔»
اللہ نے تم سے بر حق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدے کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا ،تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اسی کا شریک بنا دیا۔(ابراہيم:22)
البتہ واضح و روشن ہےکہ آیہ شریفہ میں جو تسلط آیاہے وہ مطلق ہے،ہر قسم کی تسلط کو شامل ہے؛ چاہے ان کے جسموں پر مسلط ہو؛ یا ان کے افکار پر مسلط ہو ۔
شیطان ، دعوت؛ اعمال کےتزیین اور تسویل اور وسوسہ کرکے انسان کو گناہوں کی طرف شوق و رغبت دلا سکتاہے،اور انسان بیو آسانی سے اس معصیت اور خداکی نافرمانی کو انجام دیدے،تو اسکا معنی یہ نہیں کہ انسان سے اسکا اختیار سلب ہوا ہو ،بلکہ وہ مخیر ہےکہ اپنے دل اور فکر کو محل ومقام شیطان قرار دیدے یا محل ذکر الہی قرار دیدے؛ ۔بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ حتی ایک لحظہ کیلۓبی اپنے دل کو شیاطین کےوسواس کا محل قرار دینے کو حاضرنہیں ہوتے ،انکا دل ایمان خدا سے برہا ہواہے،اور ہمیشہ اسی پر توکل کرتےہںل اسی لۓ شیطان ان پر مسلط نہیں ہو سکتاہے:
«انّہ ليس سلطانه على الّذين آمنوا وعلى ربّهم يتوکلّون» شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا ہے جو صاحبان ایمان ہے اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے (نحل: 99) اوروہ خداکےبندوں پر(جو واقعا خداکےبندے ہو )کبیہ بیّ غالب نہیں آسکتاہے،مگر اپنے گمراہ پیروکاروں کے: «انّ عبادى ليس لک عليهم سلطانٌ الاّ من اتّبعک من الغاوين»
میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے علاوہ ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرنے لگیں۔(حجر:42)
شیاطین جن و انس۔
بعض آیات میں شیاطین جن و انس کی بات ہو رہی ہے: «وکذلک جعلنالکل نبي عدّوا شياطين الانس والجنّ يوحى بعضم الى بعضٍ زخرف القول غرورا ولوشاء ربّک ما فعلوه فذرهم ومايفترون۔
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے جنات و انسان کے شیاطین کو انکا دشمن قرار دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کیلئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں اور اگر خدا چاہ لیتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے لہذا آپ انہیں ان کی افترا کے حال پر ہی چھوڑ دیں (انعام :112) ولتصغى اليه أفئدةُ الّذين لايؤمنون بالاخرة وليرضوه وليقترفوا ماهم مقترفون۔»
اور یہ اس لئے کرتے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل انکی طرف مائل ہو جائیں اور وہ اسے پسند کر لیں اور وہ خود بھی انہی کی طرح افتراء پردازی کرنے لگیں (انعام: 113)
جیسا کہ بعض آیات سے استفادہ ہوتا ہےکہ شیاطین جن و انس اپنے گمراہ کرنے والے پروگرام کو بطور مخفی، اور جلدی و فریب کے زریعۓسے دوسروں کے دل میں ڈالتاہے،انہی القاءات کے اثر کی وجہ سے بعض بے ایمان لوگوں کا دل انکی طرف مائل ہو جاتا ہے،ایسی باتںر اور برنامے کہ جسکا ظاہر خوبصورت و زیباہےاور انکا باطن برا اور نا پسند ہے،کوان سے قبول کرتےہںف اور اسی سے امید رکتےںہںر اسی طرح مختلف قسم کے گناہوںمیں مبتلا ہو جاتےہیں : «وليقترفوا ماهم مقترفون۔»
یہ فقط شیاطین جن ہی نںیا بلکہ شیاطین انس بیح لوگوں کو گمراہ کرنے کیلۓمختلف حر بے استعمال کرتےہیں، اسیلۓ قرآن مجید نےمنافقوں کےلیڈروں کو جوکہ مسلمانوں کو شکست دینےکیلۓ ہر ممکن کوشش کرتےہیں،شیاطین کا لقب دیاہے:
«واذا لقوا الّذين آمنوا قالوا آمّنا واذا خلوا الى شياطينهم قالوا انّا معکم انّانحن مستهزئون»
جب يہ صاحبان ايمان سے ملتے ہے تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لے آئیے اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہاری ہی پارٹی میں ہیں ہم تو صرف صاحبان ایمان کا مزاق اڈاتے ہیں۔(بقرہ: 14)
حزب شیطان۔
قرآن کی بعض آیات سے استفادہ ہوتا ہےکہ خدا وند متعال نے انسان کو ہوشیار کردیا ہےکہ شیطان آپکا دشمن ہےلذا آپ بھی اسے اپنا دشمن جانو ،اور اسکی پیروی نہ کرو،کہ وہ آپکو گمراہ کرنےکےعلاوہ اور کوئی مقصدنہیں رکھتاہے،اور وہ اپنے گروہ کو منحرف راستے کی طرف دعوت دیتا ہے،کہ اسکی عاقبت جہنم کا ٹکاےنہ ہے۔:
«انّ الشيطان لکم عدوٌ فاتخذوه عدّوا انّمايدعوا حزبه ليکونوا من اصحاب السّعير۔»
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو وہ اپنے گروہ کو صرف اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ سب جھنمیوں میں داخل ہو جائیں۔(فاطر:6)
لیکن حزب شیطان سے کیا مراد ہے، اسکےبارےمیں قرآن خود توضیح دیتا ہے؛ بعض آیات میں(25) ،منافقین کےتعارف اور انکے بعض کاموں و فریب کاریوں کو بیان کرنےکےبعد (جیسا انکا ایسے لوگوں سے دوستی کرنا کہ جن پر غضب الہی نازل ہوا ہے؛ اور مشکلات کےوقت مسلمانوں کاساتھ نہ دینا ،اور جوٹھا قسم کھا کر مومنون کیساتھ وفاداری کا اعلان کرنا ،اور قسم کھا کر لوگوں کو راہ خدا سے دور کرنا۔۔۔) فرمایا : «استحوذ عليهم الشيطان فانساهم ذکراللّه اولئک حزب الشيطان الا انّ حزب الشيطان هم الخاسرون۔»
ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کر دیا ہے آگاہ ہو جاؤ کہ یہ شیطان کا گروہ ہیں اور شیطان کا گروہ بہر حال خسارے میں رہنے والا ہے۔ (مجادلہ: 19)؛
شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کیاہےاور یاد خدا کو ان کے ذہنوں سے پاک کیاہے۔وہ شیطان کےگروہ ہیں آگاہ ہو جاو کہ حزب شیطان خسارےمیں ہیں۔بس حقیقت میں حزب شیطان کی دو مشخص وظاہرعلامات ہیں:ایک یہ کہ شیطان کا ان پر مسلط ہونا اور دوسری یہ کہ خدا کو بلا دینا ،ان دو میں سے کوئی بیا ایک علامت انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کو برباد کر سکتی ہے۔اسی طریقےسے شیطان اپنے برنامے کو چلاتاہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : «الا وانّ الشيطان قد جمع حزبه واستجلب خيله و رجله۔۔» (26)
آگاہ ہوجاو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو جمع کیاہے،اور اپنے پیدل و سوار سپاہیوں کو بلایاہے۔
مرحوم علامہ جعفری ان قیمتی کلمات کے ذیل میں فرماتا ہے(مسلم ہےکہ کوئی گروہ بنام حزب شیطان مخصوص علامت کیساتھ؛یا مخصوص لباس میں کسی بیا تاریخ بشری میں ظاہرنہیں ہوا ،ہم تاریخ میں جس گروہ یا حزب کیساتھ روبرو ہو تے ہیں،تو وہ ایک جالب صفت کیساتھ جوکہ مفہوم امید انسان ہے،سےاپاس تعارف کرواتاہے،جیسے تحریک انصاف ، تحریک آزادی اور تحریک ترقی پسند وغیرہ،اسی بنا پر حزب شیطان سے مراد شیطان کا کوئی رسمی حزب یا کوئی معین برنامہ یا کوئی ہدف معین نہیں بلکہ قاعدہ اصلی کے مطابق :
ناریان مر ناریان را طالبند
نوریان مر نوریان را جاذبند
یعنی آگ والے آگ ہی کو طلب کرتےہیں اور نور والے نور کوہی جذب کرسکتےہیں۔
لوگوں کے اجتماعات اور تنظیمیں ان کے ظاہری اجتماعات میں شمار ہوتےہیں،کہ ہوا و ہوس اور خود پرستی و مقام پرستی نے انکو ایک دوسرے کیساتھ شریک وہمنشین بنایا ہے۔ اسطرح کے گروہ و تنظیم کو امیرالمومنیئ علیہ السلام نے حزب شیطان نام رکھاہے،حقیقت کے اعتبار میں اسطرح کےتنظیم وحشی حیوانات اور درندوں سےبی بدتر و قبیح ہیں کیونکہ حیوان جس قدر اور جس طرح سے بھی وحشی ہو ،وہ اپنے معین غریزہ کو چوتڑ کر وسیع اور عمیق فعالیتون کو انجام نہیں دے سکتا ہے۔
گروہ شیطان کے اسکے علاوہ اوربین مختصات ہیں،کہ جن میں سے ایک یہ ہے ،کہ انسان کے بلند ترین مفاہیم ،جیسے علم ،کمال ،عدالت ،وطن ؛اور آزادی،سے غلط استفادہ کرتے ہو ئے انکو لمبی امیدیں دلا کر تباہی میں ڈال سکتا ہے(27)،بعض آیات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ شیطان کےپاس ایک لشکرہےجس کو اس نے انسانوں کو گمراہ کرنے کیلۓ جمع کیا ہواہے: «وجنودُ ابليس اجمعون» (شعرا: 95)؛
«انّه يراکم هو وقبيله من حيث لاترونهم انّا جعلنا الشياطين اولياء للّذين لا يؤمنون»
وہ اور اس کے قبیلہ والے تمہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح کہ تم انہیں دیکھ رہے ہو بیشک ہم نے شیاطین کو بے ایمان انسانوں کا دوست بنا دیا ہے ۔(اعراف: 27)؛
«واذقلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدو ا لاّا بليس کان من الجن ففسق عن امرربّه افتتخّذونه وذرّيتّه اولياءمن دونى وهم لکم عدوٌ بئس للظالمين بدلاً»
اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کیلئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا کہ وہ جنات میں سے تھا پھر تو اس نے حکم خدا سےسرتابی کی ،تو کیا تم لوگ مجھے چھوڑ کر شیطان اور اسکی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رہے ہو ،جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں یہ تو ظالمین کیلئے بدترین بدل ہے۔(کہف:50)
اور امام علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ کی وہ باتںو بیا اسی حقیقت کو بیان کرتی ہیں،کہ امام نے فرمایا (انہوں نے اپنے زندگی میں شیطان پر اعتماد کیا ،اپنے کاموں میں اسی کا ساہرا لیا ،اور اسی کو معیار قرار دیدیا ،اور اس نے بھی انکو اپنے دام میں رکھ کر دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے کا وسیلہ قرار دیا اور ان کےسینوں کو اپنا گورنسلہ قرار دیا اور ان کے اندر تمام برائیوں و پستیوں کا بیج بویا ، اور اس کے نتیجے کو ان کی گود میں پروان چھڑایا دیا کہ انیر کےآنکواں سے دیکتااہے اور انیا کی زبان سے بولتا ہے، اور انیغ کی مدد سے گمراہی و ضلالت کےمرکب پر سوار ہوتاہے،برے اور ناپسند کاموں کو ان کی نظر میں اچاي اور خوبصورت دکھاتاہے۔یہ ان لوگوں کی طرح ہے،کہ جنکا عمل اس بات پر گواہ ہےکہ شیطان کی مدد سے انجام پایاہے،اور باطل باتوں کو ان کی زبان پر جاری کیاہے(28)۔
بہر حال ایسے دل کہ جو ذکر الہی کی جگہ ہوں ،شیطان کے گوپنسلہ میں تبدیل ہو جائیں، اورخیالات ،وسوسہ ،توہمات ؛اور شک و تردید ،انکار وجوسٹ،اور فریب شروع ہو جائے ،تو واقعا یہ سارے شیطان کے بیج یا اسکے بچے ہیں،اسوقت ایسے افراد خود ہی ایک وسیلہ بنتے ہیں دوسرے افراد کو شکار اور گمراہ کرنے کیلۓ، ان کی آنکںہی شیطانی اوران کے زبان شیطانی ہو جائنگے ،
اس طریقےسے کہ ان کی باتیں شیطانی باتیں ہونگی ،ہاں ،ایسے افراد ہی حزب شیطان ہیں اور ان کی مدد کرنے والے ہیں ۔
یہ ایسے لوگ ہیں کہ پہلے انسانی خصوصیات رکتےہ تےج ،لیکن شیطان کی دعوت کو لبیک کہتے ہوۓ اس کے حزب میں داخل ہو گئے ، اور صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ،اور ان خصوصیات انسانی کو اپنے ہاتو ں سے جانے دیا ،اور خودہی شیاطین انس میں تبدیل ہوگئے۔
حزب اللہ:
حزب شیطان اور اس کے ساتھ مربوط آیات میں جو کچھ ذکر ہوا،ان باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے ،اس نکتہ کو ذکر کرنا لازمی ہےکہ قرآن کی نظر میں ایک اور حزب موجودہے جو کہ حزب شیطان کےمقابل میں ہے، وہ (حزب اللہ)ہے۔لیکن حزب اللہ سے مراد کیاہے،اس کےبارےمیں قرآن نے اس حزب کے اندر رہنے والے افراد کی خصوصیات کو اس طرح سے بیان کیاہے:
«لاتجد قوما يؤمنون باللّه واليوم الآخر يوادّون من حادّ اللّه ورسوله ولو کان آباؤهم او ابناؤهم او اخوانهم اوعشيرتهم اولئک کتب فى قلوبهم الايمان و ايدّهم بروحٍ منه ويدخلههم جناتٍ تجرى من تحتها الانهارخالدين فيهارضى اللّه عنه ورضوا عنه اولئک حزب الله الا انّ حزب اللّه هم المفلحون۔»
آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور اور روز آخرت پرایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے دوستی کررہے ہے جو اللہ اوراسکےرسول سےدشمنی کرنے والے ہیں چاہیےوہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں( 29) اللہ نے صاحبان ایمان کی دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے زریعہ تائیدکی ہی اور وہ انہیں ان جنتوں میں داخل کریگا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ انہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ، خدا ان سےراضی ہوگا اور وہ خدا سےراضی ہونگے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہو جاو کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے ۔ (مجادلہ22)
اسکے بعد خداوند عالم اس آیہ شریفہ کےآخر میں فرماتے ہیں،ایسی جمعیت اور افراد کہ جو ان خصوصیات کے حامل ہوں ان کو «حزب اللہ » کانام دیا ،اورفرمایا آگاہ ہوجاوکہ وہ حزب اللہ ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والےہیں ۔ایک اور آیت میں حزب اللہ ایسے لوگوں کو قرار دیاہےکہ جو خدا ورسول کےپیروکار اور ولایت کو ماننے والےہوں:
«انّما وليُّکم الله ورسوله والّذين آمنوا الذين يقيمون الصّلوة ويؤتون الزّکوة وهم راکعون ومن يتولَّ اللّه ورسوله والّذين آمنوا فانّ حزب الله هم الغالبون۔» ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواۃ دیتے ہیں ،اور جو بھی اللہ ، رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے ۔(مائدہ: 55-56)
وہ تمام آیات جو کہ حزب اللہ سے مربوط ہیں ان سے استفادہ ہوتا ہےکہ :1۔وہ خداکےدشمنوں سے دوستی نہ رکتےگ ہوں ۔2۔انکے دل ایمان سے سرشار ہو ں۔ 3۔وہ خدا وند عالم کےنزدیک مقبول ہوں ۔ 4۔انکا انعام بہشت ہے۔5۔ خدا وند عالم ان سے راضی ہو ،اور وہ بیں خدا سے راضی ہوں ۔6۔ وہ اہل نجات اور کامیاب ہیں ۔7۔ صرف خدا ورسول کی اطاعت اور خط ولایت پر ہو ۔8۔ وہ لوگ کامیاب ہونے والے ہیں (اور یہ قرآن و خدا وند عالم کا وعدہ ہے )
شیطان کے جال اور اس کے منصوبے:
ابلیس کو جب حضرت آدم کو سجدہ کر نے کا حکم ہوا ،تو اس نے اپنے اس غرور اور تکبر کیوجہ سے سجدہ کرنےسے انکار کیا ،اور خدا وند متعال کو کہنے لگا:اگر قیامت تک مجھے زندہ رکوے گے تو سوائے کچھ بندوں کے سب کو گمراہ کر دونگا ،اور انکو آپکی اطاعت و بندگی کرنےسے روک دونگا : «قال ارأيتَک هذا الّذى کرمت عليّ لئن اخّرتن الى يوم القیامة لاحتنکنّ ذرّيّته الاّ قليلاً۔ » اورخداوندمتعال نے فرمایا:جاؤ ،ان میں سے جوبیخ آپ کی اطاعت کریگا اسکا ٹکا نا جہنم ہوگا :
«قال اذهب فمن تبعک منهم فانّ جهنّم جزاؤکم جزاءً موفورا۔» کیا تو نے دیکھا ہے کہ یہ کیا شئے ہے جسے میرے اوپر فضیلت دیدی ہے اب اگر تو نے مجھے قیامت تک کی مہلت دے دی تو میں انکی زریت میں چند افراد کے علاوہ سب کا گلا گھونٹتا رہوں گا ،جواب ملا جا اب جو بھی تیرا اتباع کریں گا تم سب کی جزاء مکمل طور پر جہنم ہے۔(الاسراء:62-63 )
یہاں پر خدا وند عالم شیطان کے منصو بے اور انسان کو گمراہ کرنےکےاسباب اور وسائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے شیطان کو کہہ رہا ہے : ان میں سےجس کسی کوبیخ تحریک کر سکتے ہو کرلو ،اپنے پیدل اور سوار نظام کو انکی طرف بجتو دو ،اور انکے ساتھ انکے مال و اولاد میں شریک ہو جاو ،اور انکو وعدے دیدو ۔اور شیطان انکو فریب کےعلاوہ کوئی وعدہ نہیں دیتاہے۔حقیقت میں میرے بندوں پرتمارا کوئی تسلط نںنک ہے ،اور آپ کا پروردگار ان کی نگہبانی کیلے کافی ہے :
«واستفزز من استطعت منهم بصوتک واجلب عليهم بخيلک ورجلک وشارکهم فى الاموال والاولاد وعدهم وما يعدهم الشيطان الاّ غرورا انّ عبادى ليس لک عليہم سلطان وکفى بربّک وکيلاً۔»
جا جس پر بھی بس چلے اپنی آواز سے گمراہ کر اور اپنے سوار اور پیادوں سے حملہ کر دے اور ان کے اولاد اور اموال میں شریک ہو جا اور ان سے خوب وعدے کر کہ شیطان سوائے دھوکہ دینے کے اور کوئی سچا وعدہ نہیں کر سکتا ہے ،بیشک میرے اصل بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں ہے اور آپکا پروردگار ان کی نگہبانی کیلئے کافی ہے۔(اسرا: 64-65)
حقیقت میں اگر ہم دقت کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ خدا وند متعال نے شیطان کےچہارمنصوبوں کو ذکر کیا ہےجوکہ انسان کو گمراہ کرنے کیلۓ استعمال کرتا ہے،اور دنیا میں بھی اسی سے استفادہ کرتا ہے: 1۔«واستفززمن استطعت منهم بصوتک»؛ ان میں سے ہر کسی کوبی تحریک کرسکتے ہو کرلو ،اور وسوسہ کردو ۔آج بی بڑے بڑے شیاطین انس اپنے ان شیاطین جن کی اطاعت و پیروی کرتےہوۓ اپنے تبلیغاتی میدان میں ان کو ملاک قرار دیکر مختلف ابزار اور و سائل کےزریعے سے، شائعات اور جورٹی تبلیغات کرکے لوگوںکو گمراہ کرتےہیں ،مخصوصا جوانوں کو ،اییو تبلیغات جوکہ کاملا ایک طے شدہ منصوبہ کےتحت تیار ہوتی ہیں چاہے اخبارکےضمن میں ہو یا شعر ،و مصاحبہ وغیرہ میں ، اس طرح کی تبلیغات حزب شیطان کی ہی ہو سکتی ہیں۔
2 ۔«واجلب عليهم بخيلک ورجلک»؛ اپنے تمام لشکر سوار و پیدل کو بلا کر ان کی طرف روانہ کردو ۔کہ آج بیل بڑے شیطان انس نے اپنے بڑے لشکر کو مختلف عناوین کےتحت تیار کیا ہوا ہے،دہشتگروں کیساتھ مقابلہ کرنے کےبہانے سے ،اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلۓ انکو تیار کیا ہواہے،اور جب چاہیں اور جہاں بھی چاہیں اپنے مفاد کو دیکںیم وہاں پر حملہ کر دیتےہیں ، تاکہ اپنے مقصد تک پہنچ سکیں؛
انکے اہداف و مقاصد ، استقلال اور آزاد ی طلب لوگوںکو سرکوب کر نا ،اپی اطاعت و پیروی کرنے والوں کی حمایت کرنا ، اپنےسیاسی اور اقتصادی منافع کو حاصل کرنا ۔
3 ۔«وشارکهم فى الاموال والاولاد»؛ اوران کے ساتھ ان کے مال و اولاد میں شریک ہو جاو ، حزب شیطان کےموصعبوںمیں سے ایک شیاطین کا خداکےبندوں پر مسلط ہونا اور انکو گمراہ کرنا ہے ،اور ان کے درمیان سود رائج کرناہے،اور ان کے اقتصادی منافع پر مسلط ہونا تاکہ ان کے مال و ثروت کو یرغمال کرکےلے جاۓ ،اور انکو اپنا مطیع بنایے ،اورانہیں منحرف کردیں ۔اور دوسرے طرف سےفحشاء و منکرات کو رائج کرنا ،فسادکےمراکز کو ایجاد کرنا ،ناجائز اور غیر شرعی بچوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ، یعنی جوانوں کو بیگانہ کرنا اس طریقےسے کہ اپنا کلچر بورل کر دوسرے کے کلچر کو اپنائیں ،اور کلی طور پر انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہو جائیں،اپنی فطرت و انسانی خصوصیات کو بوکل جائیں۔یہ سب شیاطین کے منصوبے ہیں تاکہ اقتصادی اور فرہنگی مسائل کےزریعے ان پر دست رسی حاصل کرسکیں۔
4 ۔ «وعدهم» اور انکو جو ٹے وعدے اور فریب دیدو ۔انکو جوبٹے وعدوں کے ساتھ کہ اگر آپ ہمارے موصیبوں پر عمل کرینگے تو مستقبل میں آپ آرام و آسائش سے زندگی بسر کرینگے ،
اور اگر عمل نہ کرینگے ، تو اس مدینہ فاضلہ سے دور ہو جائیں گے اس قسم کے اور وعدے دے کر ان کو فریب دیتےہیں۔لیکن قرآن انسان کو ہوشیار کرتا ہےکہ مبادا خدا کے صالح بندے اس قسم کے جوبٹے وعدوں کےفریب میں آجائیں : «و ما يعدہم الشيطان الاّ غرورا»اورشیطان صرف فریب کے علاوہ اور کوئی وعدہ نہیں دیتاہے۔پرا شیطان کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا : «انّ عبادى ليس عليهم سلطان»؛میرے بندوں پر کبیص بیے مسلط نہیں ہو سکوگے۔ «وکفى بربّک وکيلاً۔»۔
شیطانی کاموں کی بعض نشانیاں۔
بتایا گیا کہ شیطان مختلف طریقوں سے انسان کو دعوت دیتا ہے ،جیسے تزیین ،استزلال ،افتنان ،کے زریعہ سے انسان کو گمراہ کرتا ہے اور یہ چیزیں انسان کےصاحب اختیار ہونے کیساتھ کوئی منافات بی نہںع رکیی ہیں،یعنی انسان شیطان کےمقابل میں سلب اختیارنںر ہوگا ۔اور یہ بیر بتایا گیا کہ بہت ساری آیات میں خدا وند متعال انسان کو ہوشیار کرتا ہےکہ ہرگز شیطان کی اطاعت نہ کرو ۔ان باتوں کی طرف توجہ دیتےہوۓ ،قرآن مجید شیطانی کاموں کی بعض نشانیوں کو ذکر کر رہاہے،یعنی انسان کو ہوشیار کر رہاہےکہ شیطان اس طرح کے کام کو انجام دینے کا حکم دیتاہے لذا ہوشیار رہو ۔اور یہ خدا وند عالم کا لطف و عنایت ہےکہ وہ اپنے بندوں کو اچےا راستے کی طرف ہدایت کرتاہےتاکہ انسان شیطان کےوسوسوں اور اسکے فریب میں نہ آجائے ۔
بہر حال ،شیطانی کاموں کی بعض علامات اس طرح سےہیں ۔1 ۔فقر کا وعدہ دیتا ہے،انسان کو انفاق کرنےاور خمس و زکواة ادا کرنےسے روک دیتاہے،تاکہ فقیر نہ ہو جائے ۔«الشيطان يعدُکم الفقر» (بقرہ:268)2۔ فحشا کا امر کرتاہے ؛ «۔۔۔ ويأمرکم بالفحشاء» (بقرہ: 268)؛3۔ منکر کا امر کرتاہے؛ «فانہ يأمر بالفحشاءوالمنکر» (نور: 21)؛4۔ ۔ اپنے دوستون کو ڈراتاہے (تاکہ جہاد نہ کریں، اور کفّار کیساتھ جنگ نہ کریں )؛ «انّما ذلکم الشيطان يخوّف اولياءه فلا تخافوهم وخافون ان کنتم مؤمنين» (آلعمران: 175)5۔مسلمانوں کےدرمیان شراب خوری اور قماربازي کے زریعہ سے دشمنی پیدا کرتاہے: «انّما يريد الشيطان ان يوقع بينکم العداوة والبغضاءفى الخمروالميسر» (مائدہ: 91)؛6۔ خدا کو یاد کرنےسے انسان کو روک دیتاہے: «وامّا ينسينک الشيطان بعدالذکرى فلا تعقد بعدالذکرى مع القوم الظالمين» (انعام:68)؛«استحوذعليهم الشيطان فانسيهم ذکراللّه» (مجادلہ: 19)؛7۔ انسان کو آرزو و امید دلاتاہے: «يعدهم ويمنيّهم ومايعدهم الشيطان الاّ غرورا» (نساء: 120)؛8۔ اور خدا کے ساتھ جنگ کرتاہے: «ومن النّاس من يجادل فى اللّهِ بغيرعلمٍ ويتّبع کلَّ شيطانٍ مريد» (حج: 3)شیطانی کاموں کی بہت سارے نشانیاں ہیں ،سب کو اس بحث میں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
وسوسہ شیطان کےمقابل میں ہمارا وظیفہ ۔
ان آیات کےعلاوہ کہ جو انسان کو ہوشیار کرتی ہیں کہ مبادا شیطان کی اطاعت کرو ۔(الم اعهد اليکم يا بنى آدم ان لا تعبدوا الشيطان انّه لکم عدوٌ مبينٌ و ان اعبدونى هذا صراط مستقيم)اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا وعدہ نہیں لیا تھا کہ خبر دار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے (يس: 60-61) اوران آیات کے علاوہ کہ جو شیطانی کاموں کی نشانیوں کو بیان کرتی ہیں جو (پہلے ذکر ہوا)۔اور ان تمام آیات کے علاوہ کہ جو شیطان کے ساتھ رابطہ کرنےمیں انسان کو ہوشیار رہنے کا حکم دیتی ہیں ،قرآن مجید پیغمبر اسلام کو حکم دیتا ہےکہ جب وسوسہ شیطان کے روبرو ہوجاؤ تو خداکی پناہ میں آجاو ۔«وامّا ينزغنّک من الشيطان نزعٌ فاستعذبالله انّه سميع عليم» اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا ہوجائے تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شئ کا سننے والا اور جاننے والا ہے،( اعراف: 200 )یہ متقین کا طریقہ ہے کہ جب شیاطین ان کے دل کےاطراف میں چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ ان کے دل میں وسوسہ پیدا کریں ،تو فورا وہ خدا کو یاد کرتےہیں ،اچانک جاگ جاتےہیں اور (غفلت کا پردہ ان کے آنکوہں سے ہٹ جاتا ہے): «انّ الّذين اتّقوا اذامسّهم طائفٌ من الشيطان تذکّروا فاذاهم مبصرون» جو لوگ صاحبان تقوی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں(اعراف: -201)۔
البتہ استعاذہ یعنی خدا کا پناہ لینابی1 ایک قسم کا ذکر (اور خداکی طرف متوجہ ہونا )ہے ،کیونکہ استعاذہ کا معنی ہی یہی ہےکہ خدا وند عالم ہی اس حملہ آور دشمن کو اپی1 قدرت کے زریعہ سے ہی دور کر سکتاہے۔اور اسی طرح سے استعاذہ بیک ایک قسم کا خدا پر توکل ہے ۔(30)کسی اور جگہ پر فرمایا: «وامّا ينزغنّک من الشيطان نزغٌ فاستعذبالله انّه هوالسميع العليم۔» اور جب تم میں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوجائے تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شئ کا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔(فصلت: 36)
کسی اور جگہ پر فرمایا: «وقل ربِّ اعوذبک منه همزات الشياطين واعوذبک ربِّ ان يحضرون۔»پیغمبراسلام کوحکم دے رہا ہےکہ کہو پروردگارا شیطانی وسوسوں سے آپکی پناہ لیتا ہوں اور پر پناہ لیتا ہوں اس سے کہ میرے پاس حاضرہوجائے(31)(مؤمنون:97-98)
بے ایمان لوگوں کا سر پرست شیطان۔
مسلما شیطان تمام افراد کو اپنے طرف جذب کرنے کی طاقت نہیں رکھتاہے کہ زبردستی کرکے انسان کو گمراہ کرے ،بلکہ وہ بے ایمان اور دنیا طلب ،و آخرت سے غافل لوگ ہیں کہ اپنے آپ کو شیطان کےاختیار میں قرار دیتےہیں اور اسکو اپنا ولی انتخاب کرتےہیں اور اسکے کہنے کی اطاعت کرتےہیں ۔خدا وند متعال ایک طرف سے فرما رہاہے : «انّا جعلنا الشياطين اولياء للذين لايؤمنون » بیشک ہم نے شیاطین کو بے ایمان انسانوں کا دوست بنا دیا ہے ۔(اعراف: 27) کسی اور مقام پر فرما رہاہے:شیطان کا تسلط ایسے افراد پرہےکہ جنہوں نے اسکو اپنا سرپرست قرار دیاہے:«انّما سلطانه على الّذين يتولّونه والّذين هم به مشرکون» اسکا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سر پرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں(نحل: 100) کسی اور مقام پر اس تسلط کو گمراہوں کی نشانی کے طور پرذکر کیا ہے:«انّ عبادى ليس لک عليهم سلطانٌ الاّمن اتّبعک من الغاوين» میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے علاوہ ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرنے لگیں۔ (حجر:42) کسی اور مقام پر ،منافقوں کو شیطان کے زیر تسلط قرار دیاہے:«واستحوذ عليهم الشيطان فأنسیهم ذکر اللّه» ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کر دیا ہے ۔(مجادلہ:19)اور دوسری طرف سے ،یہ کہ مبادا شیطان انسان پر مسلط ہو جائے اور اسکے دل میں نفوذ کرلے،قرآن مجید نے باربار شیطان کو انسان کا دشمن جاناہے،کہ جسکا بحث پہلے گزر چکا ہے ، تا کہ انسان شیطان کے جال میں پنس نہ جائے اسکو فرما رہاہے:کہ کبیي بیص شیطان کی پیروی نںحث کرنا: «يا ايُّها الّذين آمنوا لاتتّبعوا خطوات الشيطان» اے ایمان والو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا۔(نور:21) اورایسے لوگوں کو کہ جنہوں نے شیطان کو اپنا ولی و سر پرست انتخاب کیاہے ضرر اور خسارہ اٹامنے والوں میں سے جانا ہے : «ومن يتخّذ الشيطان وليّا من دون اللّه فقدخسرخسرانا مبينا» اور جو خدا کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا ولی اور سرپرست بنائے گا وہ کھلے ہوئے خسارے میں رہے گا ۔(نساء:119) کسی اور مقام پر ،شیطان کو برا دوست جاناہے: «ومن يکن الشيطان له قرينا فساءقرينا» جس کا شیطان ساتھی ہوجائے وہ بدترین ساتھی ہے۔(نساء: 38)
شیطانی وسوسوں سے مخلصین کا محفوظ رہنا۔
دوسروں کو گمراہ کرنے کیلۓ تمام امکانات شیطان کے پاس موجودہیں،لیکن مخلصان خدا کو گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتاہے،جس طرح سے کہ وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کر رہاہے : «قالَ فبعزّتک لاغويّنھم اجمعين الاّ عبادک منھم المخلصين۔» اس نے کہا تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کر دونگا ،علاوہ ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنا لیا ہے۔(ص: 83-82) مخلصین ایسے لوگ ہیں کہ جوھو ں نے اپنے کو خدا کیلۓ خالص بنایا تو خدا وند عالم نےبی انکو اپنے لئے خالص کیا،اسطرح سے کہ خداکےعلاوہ کسی اور کیلۓ انکے دل میں جگہ نہیں ہے ۔کبید بیں وہ غیر خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوۓہیں اور خداکےعلاوہ کسی اور کی اطاعت نہیں کرتےہیں ۔شیطانی وسوسے اور خواہشات نفسانی کبیم بی ان کے دل میں داخل نہیں ہو سکتی ہیں۔(32) جسطرح سے کہ آیات سے استفادہ ہوتاہے، مخلصین کا مصداق کامل ،انبیاء الہی اور اہل بیت علیہم السلام ہیں ۔قرآن مجید بعض انبیاء الہی کےبارےمیں فرما رہاہے: «واذکر عبادنا ابراهيم واسحاق ويعقوب اولى الايدى والابصار انّا اخلصناهم بخالصةٍ ذکرى الدار وانّهم عندنا لمن المصطفين الابرار۔» ہم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا ،اور وہ ہمارے نزدیک منتخب اور نیک بندوں میں سے تھے۔(ص: 46- 46) اوربعض دیگر (حضرت موسى عليہ السلام )کے بارےمیں فرمايا: «انّہ کان مخلصا وکان رسولاً نبيّا» وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے۔(مريم: 51) اورحضرت يوسف عليہ السلام کےبارےمیں فرمايا:«انّه من عبادنا المخلصين » وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔(يوسف: 24) اوراہل البيت عليہم السلام کے بارےمیں فرمايا: «انّما يريدُ اللّهُ ليذهب عنکم الرّجس اهل البيت ويطهرکم تطهيرا ۔» بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اھلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اسطرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔ (احزاب:33) بس خدا وند عالم کا ارادہ ،ارادہ تکوینی ہےکہ وہ ہر قسم کے رجس و پلیدی سے پاک ہیں۔تو ظاہر ہےکہ شیطان ان کے دل میں کبیل بیا نفوذ نہیں کر سکتاہے۔
شیطان کیوں مخلصین کو گمراہ نہیں کرسکتاہے؟
شیطان کا محدود وجود کبیر بیی انسان کامل کےبلند مقام کو نابودنہیں کرسکتاہے،اوروہ خداکےمخلص بندوں کے حریم میں کبی بیط داخل نہیں ہو سکتاہے۔اگر شیطان کسی انسان کو فریب دینا چاہے تو فکرکےراستے سے اسکو فریب دیتاہے،لیکن انسان کامل اور خداکےمخلص بندوں کو دھوکہ نہیں دے سکتاہےکہ ان کے دل میں وسوسہ ایجاد کرے۔بلکہ نہ ان کے وہم و خیال سے اور نہ ہی ان کے عقل کے زر یعہ سے انکو دھوکہ دے سکتاہے۔اور دوسرےانسانوںمیں شیطان رخنہ ڈالتاہے تو یہ اسلئے ہےکہ انکا عقل وہم و خیال سے آلودہ ہو گیاہے،لیکن انسان کامل اپنے وہم و خیال کو عقل کامل کےمقابل میں خاضع کر دیا ہے۔انسان کامل کی داخلی قوت اسکی عقلی قوت کی پیروی کرتی ہے،لذا شیطان کبیع بی انسان کامل کےعقل عملی میں ،امید و محبت اور رغبت کےراستے سے داخل نہیں ہو سکتاہے،اور نہ ہی اسکے عقل نظری میں علم و فکرکےراستے سے داخل ہو سکتاہے۔چونکہ شیطان کےنفوذ کرنے کا جو بلند ترین مرتبہ ہےوہ وہم و خیال ہے،اور اس سے اوپرنہیں جا سکتاہے۔شیطان عقلی تجرد تام سےبہرہ مند نہيں ہے،چونکہ میدان عمل میں شہوت اور غضب سے آگے نہیں بڑھتا ہے،اور مرحلہ اخلاص ،ایثار،اور تولی و تبری تک نہیں پہنچتاہے۔شیطان ایک مادی موجود ہےاور برزخی و مثالی تجرد کا مالک ہے، عقل محض کی کوئی علامت بیر نہيں رکھتاہے،لیکن وہ عالم مثال تک پہنچ سکتاہے، بس انسان کامل کےمقام تک نہیں پہنچ سکتاہے،کیونکہ نہ وہ مثل انسان کامل بغیر واسطے کےآسمانی حقائق سے آشنا ہو سکتاہے،اور نہ ہی فرشتوں کی طرح ، واسطے کے ساتھ آشنا ہوسکتا ہے ۔وہ ان دونوں میں سےکسی بیم مرحلہ کا لائق نہیں ہیں ؛لذا وہ دو چیزوںمیں گرفتار ہو جاتاہے: پہلا انسان کامل کےمقام سےجاتلت اور دوسرا تکبر میں ،اور اس تکبر کا منشأبھی وہی وہم و خیال ہے؛کیونکہ عقل کبید بیی انسان کو تکبرکی طرف دعوت نہیں دیتا ہے۔یہ وہم ہےکہ جو جو ٹے لوگوں کےمقام کو سچ کر دکھاتا ہے،اور انسان کو دھوکہ دیتاہے۔ یہ جو کہا کہ شیطان انسان کامل کو وسوسہ کرکے ان میں نفوذنہیں کر سکتاہے،یہ خیال نہ کریں کہ وہ انکا دوست ہوا ہے یا ان سے بے خبرہے،بلکہ شیطان انکا دشمن ہے،وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہےکہ کس طرح سے ان میں نفوذ کرلے ،اگر ڈائرکٹ ان کے اندر نفوذ نہ کر سےر تو یہ کوشش کرتا ہےکہ ان کی چاہتوں اور برناموںمیں رخنہ ڈالے تاکہ ان کی وہ چاہتیں پوری نہ ہو سکیں : «وارسلنامن قبلکَ من رسولٍ ولانبيٍ الاّ اذاتمنّى القى الشيطان فى اُمنيّته» ۔اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بیھجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اسکی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا،(حج: 52) (33)
شیاطین کا آسمان پر داخلہ ممنوع ہونا:
بعض مفسرین کے مطابق،شیاطین اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کیلۓ آسمان تک جاتےہیں تاکہ ملائکہ کی باتوں کو چپب کر سن لیں ،اور ایمان میں کمزور افراد کو بتا دیں،اور دوسری طرف،انہي کے وسیلۓسے کاہنوں کے دل میں وسوسہ ڈال دیں،اور ان کے دل میں یہ وہم پیدا کر لیں کہ شیاطین علم غیب جانتےہیں۔(34)اور یہ خود ایک وسیلہ ہے لوگوں کو گمراہ کرنے اور انکی ہدایت میں خلل ڈالنے کیلئے ۔لیکن اسلام کےظہورکےبعد اس قسم کی اطلاعات کو حاصل نہیں کر سکے ، کیونکہ آسمانی شہاب یا ستارےان کے آسمان میں داخل ہونے سے مانع بنتےہیں ،اور جب بی وہ داخل ہونا چاہتےہیں تو ستارے انکو اپنا ہدف قرار دیتےہیں:«انّا زيّناالسمّاء الدّنيا بزينة الکواکب وحفظا من کلِّ شيطانٍ مارد لايسمعون الى الملأ الاعلى ويقذفون من کل جانبٍ دحورا ولهم عذاب واصبٌ الاّمن خطف الخطفة فاتبعه شهابٌ ثاقبٌ» بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین بنا دیا ہے اور انہیں ہر سر کش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے کہ اب شیاطین عالم بالا کی باتیں سننے کی کوشش نہیں کر سکتے اور وہ ہر طرف سے مارے جائیں گے،ہنکانے کیلئے اور ان کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب ہے علاوہ اس کے کہ جو کوئی بات اچک لےتو اسکے پیچھے آگ کا شعلہ لگ جاتا ہے ۔ (صافات:6تا 10 ) «وانّا لمسنا السماء فوجدناها ملئت حرسا شديدا وشهبا وانّا کنّا نقعدمقاعدللسّمع فمن يستمع الان يجدله شهابارصدا» اور ہم نے آسمان کو دیکھا تو اسے سخت قسم کے نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننا چاہے گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا۔(جن: 9)؛«وماتنزّلت به الشياطين وماينبغى لهم ومايستطيعون انّهم عن السمع لمعزولون۔» اور اس قرآن کو شیاطین لے کر حاضر ہوئے ہیں یہ بات ان کے لیے مناسب بھی نہیں ہے اور ان کے بس میں بھی نہیں ہے ۔(شعرا: 212)؛وحفظناها من کل شيطانٍ رجيمٍ الاّ من استرق السّمع فاتبعه شهابٌ مبينٌ۔» اور ہر شیطان رجیم سے محفوظ بنا دیا مگر یہ کہ کوئی شیطان وہاں کی بات چرانا چاہے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگا دیا گیا ہے ۔(حجر:18--17)
یہاں پر ممکن ہے یہ کہاجائے کہ تاریخ بطور متواتر اس پر دلالت کرتی ہےکہ پیغمبر اسلام کےآنےسے پہلے بیا یہ ستارے موجود تھے ،جہاں تک کہ حکماءاور فلاسفہ نے اسلام سےپہلے بیت ان کے حدوث کےبارےمیں بات کی ہے۔ تو یہ دعوا نہیں کر سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کےزمانےمیں ہی ایسے حوادث واقع ہوۓہیں اور ایسےستارے وجود میں آگئےہیں ۔فخر رازی اس شبہ کےجواب میں کہتاہے،اسلام سےپہلے بھی اسطرح کےستارے موجود تھے اما پیغبر اسلام کےزمانےمیں یہ ستارے زیادہ ہو گئےہیں ، اور پیغمبرکےزمانےمیں ان کا زیادہ ہونا ان کے معجزات میں سے شمار ہوتا ہے ۔(35)
فخر رازی نے ایک اور شبہ کو یہاں بیان کیاہےکہ ملائکہ فلک کےبالا ترین سطح پر موجود ہیں،جکہ شیاطین کا اسفل ترین سطح پر پہنچنا ممکن ہیں۔اسلئے فلک مانع ہوتا ہےکہ مبادا شیاطین فرشتوں کے نزیک پہنچ سکیں ۔اسوقت اشکال پیدا ہوتا ہےکہ شیاطین فرشتوں کی باتوں کو سن نہیں سکتےہیں کہ رجم کی ضرورت پیش آئے ۔پر جواب دیتاہے:افعال الہی غیر معللہ ہیں ،«فيفعل الله مايشاء ويفعل ما يريد»کوئی بیں افعال الہی کےبارےمیں اعتراض نہیں کرسکتا ہیں ۔ (36)
لیکن توجہ رکیاي چاہئے کہ اس قسم کے شبہات کیلۓ ایسا جواب دینا اسوقت ممکن ہےکہ جب ہم فرشتوں کو موجودات مادی اور مکان مادی پر مشتمل جان لیں ،وگرنہ ایسے موجودات جو غیر مادی ہو کہ ایسا ہے بیں؛اورانکی خلقت انسانوں اور شیاطین کےقسم سے نہ ہو کہ نہیں ہے؛ بلکہ موجودات اور مخلوقات نورانی اور مجرد ہوں، کہ جو اپنی جگہ پر ثابت ہے۔اسوقت ایسے جوابات نہ صرف غیر معقول ہیں،بلکہ اسطرح کےسوالات کو مطرح کرنا اصولا مناسب نںیا ہے، مسألہ کوئی اور شکل پیدا کرتاہے ۔
مرحوم علامہ طباطبائی اسکےبارےمیں فرماتےہیں: کہ اس قسم کے بیانات جوکہ خداکےکلام میں ہمارے لئے بیان ہوئے ہیں،وہ اسلۓ ہےکہ یہ ایسے حقائق ہیں کہ جو ہمارے حس سے باہرہیں اور حواس کےزریعہ سے ان تک پہنچنا ہمارے لئے ممکن نہيں ہے تاکہ بصورت محسوس یا ان کے نزدیک ہوکر ان کا تصور کریں ، اسیلےو خدا وند متعال فرمارہاہے:
«وتلک الامثالُ نضربہا للناس ومايعقلها الاّ العالمون۔» اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کیلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ (عنکبوت: 43)
اسکے علاوہ بھی بہت سارے حقائق ہیں، کہ خداوند عالم کے بیانات میں اسطرح سے ہمارے لئے بیان ہوۓہیں ۔جیسے عرش ،کرسی ،لوح ،کتاب وغیرہ۔۔۔ اسی بنا پر ،ایسے آسمان سے مراد کہ جہاں پر فرشتےرہتےہیں ،عالم ملکوت ہےکہ جو بلند ترین افق پر ہے، جسکی عالم مشہود سےوہی نسبت ہےکہ جو آسمان محسوس کی زمین سےہےلیکن شیاطین کا آسمان کےقریب ہونے اور ملائکہ کی باتوں کو چپی کر سننے ،اور ستاروں کےزریعے انکو پیچےے ہٹانے ، سے مراد ،شیاطین کا عالم فرشتگان سے قریب ہونا ہے تاکہ آئندہ ہونے والی حوادث سے باخبر ہو جائیں یہاں پر ہےکہ ایک آسمانی نورکےزریعے پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے ۔اور یہ کہہ سکتے : اسکا مقصد یہ ہےکہ شیاطین حق کو باطل کر نے کیلۓ اپنے کو ان سے قریب کرتےہیں (حق کو باطل اور باطل کو حق کی صورت میں دکھاتےہیں ۔)یہاں پر فرشتے حق کےوسیلےسے انکوپنکے دیتےہیں؛ان کی باطل چیزوں کو نابود کرتےہیں اور حق کو آشکار کرتےہیں ۔(37)
بس مرحوم علامہ رحمہ اللہ کی فرمائش کے مطابق ،یہ کہہ سکتےہیں کہ :آیہ شریفہ میں (سماء)سے مراد عالم ملکوت ہے،اور شیاطین کے آسمان پر صعود کرنےسے مراد قریب ہونا اور انکا عالم فرشتگان کی طرف متوجہ ہوناہے،اور (شہاب)سے مراد وہی معنوی و نورانی شہاب ہےکہ جن کے وسیلےسے شیاطین کو پیچھے دھکیل دیا جاتاہے۔یا یہ کہہ سکتےہیں کہ :سماءحق کےمعنی میں ہےاور صعود شیاطین کامعنی یعنی انکا حق کےقریب ہونا تاکہ اس کو نابود کریں ،اور شہاب کا معنی ملائکہ کےتوسط سے حق کا آشکار ہونا ہے ۔لیکن یہاں پر ایک تیسرا احتمال بیک ہےکہ جو بعض مفسرین نے بیان کیاہے؛ اور وہ یہ ہےکہ : ہم جانتےہےکہ شیطان جن کے قسموں میں سےہیں جن بیا ایک موجود مادی ہے اور انسان کی طرح روح رکھتاہے،اگرچہ آگ سے خلق ہواہے؛ اور ایین موجودات کہ جو روح و جسم پر مشتمل ہوں ،انکا روح و جسم ایک دوسرےسے متأثر ہوتےہیں،مثلا انسان اگر غمگین ہو جاتاہےتو اسکی یہ حالت روحانی و معنوی ہےکہ جس کے اثر سے اسکا جسم کمزور ہو جاتاہے۔اسی طرح سے جسم بی روح پر اثر کرتاہے،جیسے بعض اییع غذائیں کہ جن کےکھانےسے انسان خوشحال ہوتاہے جیسے زعفران کھانےسے انسان بانشاط ہوتاہے،یایہ کہ انسان جب غذا کھاتاہےتو احساس سنگینی کرتاہے،چونکہ خون کی گردش کم ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے خوشحال نہیں ہوتاہے۔
بس اگر روح اپنے مخصوص کام کو انجام دینا چاہے تو اسکا جسم وہ تمام شرائط رکھتا ہو ۔مرتاض لوگ بی اپنے روح کو تقویت دینے کیلۓ اسی قضیہ سے استفادہ کرتےہیں،مثلا کھانا کم کھاتےہیں ؛یا کمتر حرکت کرتےہیں یا کمتر سانس لیتےہیں ، اس کے حرام و حلال ہونے کی طرف دیکھے بغیر ،اسی وسیلےیسے وہ موجودات جن سے رابطہ برقرار کرتےہیں ،اور اطلاعات کو کسب کرتےہیں۔اور یہی قانون (جن)کےبارے میں بیا صحیح ہے چونکہ وہ بیا ایک موجود مادی ہے، ایسا رابطہ جسم اور روح کےدرمیان ہے،یعنی یہ تصور کر سکتےہیں کہ جن کا زمین کےاطراف میں جانے کلئے خاص معنوی شرائط کا ہونا لازمی ہے تاکہ وہ اس سے اوپر والے عالم کے ساتھ رابط برقرار کر سکیں کہ گویا اسطرح سے اوپر جانا ان کیلۓ ایک قسم کی ریاضت ہے کہ اسی وسیلئےسے خاص شرائط کےحاصل ہونےسے معنوی امور کو بہترین طریقےسے حاصل کر سکتاہے ،جیسے اطلاعات کو کسب کرنا اس مقصد کے ساتھ کہ لوگوں کی ہدایت میں خلل ڈال سکے ۔یہ ماجرا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی ولادت تک جاری رہا اور اسی وسیلے سے وہ لوگوں کو گمراہ کیا کرتےتھے ،لیکن نص قرآن ہےکہ وہ لوگ ابیج ایسانہیں کر سکتےہیں : «فَمَن يستمع الآن يجدله شهابا رصدا۔» (جن: 9) لیکن اس صورت میں (شہاب) سے مراد کیا ہوگا ،کہہ سکتے ہیں کہ :یہ احتمال بعیدنہیں،کہ شہاب ایک امر معنوی ہو،اگرچہ ممکن ہے اس کا مقصد وہی ظاہری شہاب ہو،کیونکہ علت طبیعی کے موجود ہونے سے ماورائ طبیعت کی نفی میں نہيں ہوتی ہے،کیونکہ ممکن ہے یہ ایسے ابزار اور معدات میں سے ہو جو عالم طبیعت میں اثر رکتے، ہوں،لیکن ان عوامل سے زیادہ حقیقی اور اصلی اثر ماوراءطبیعت میں ہے ۔بس یہ تصور کر سکتےہیں کہ ان شہابوں کا اختیار ملائکہ کے ہاتھ میں ہےجس طرح سے کہ آیات سے استفادہ ہوتا ہےکہ وہ مدبّرات اور رسل الہى ہیں اور پیغمبر اسلام کی ولادت کے بعد ان ستاروں کیلۓ تدبیر الہی اسطرح سےہےکہ جب بی شیاطین ملائکہ کےباتوں کو چپں کر سننا چاہیں تو ان ستاروں کےزریعہ سےشیاطین کو پنکالیجاتاہے،جس طرح سے کہ بارش بطور طبیعی برستی ہے، لیکن مومنی نماز استسقاء کے زریعہ سے بارش کو طلب کرتےہے،تو ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے؛یہی عوامل ملائکہ پر اثر کرتےہیں،جس کے نتیجےمیں تدبیر الہی پر اسطرح سے عمل کرتےہیں کہ مومینن کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔(38)
--------------------------------------------
ماخذ و منابع:
1 - التحقيق معناى شيطان کے بارے میں لکھ رہا ہے: «۔۔۔ والقول الجامع ان الشيطان هو المائل عن الحق وصراطه مع کونه متصفابالاعوجاج وهذا مفهوم کلى وله حقيقة وثبوت فى الخارج۔۔۔»ر۔ ک: حسن المصطفوى،التحقيق فى کلمات القرآن الکريم،ج6،ص68،تہران،1360
2 – اییح آیات کہ جن میں بعنوان ابلیس ذکر ہوا ہے: مانند: «واذقلنا للملائکةِ اسجدوا لادم فسجدوا الاّ ابليس ابى واستکبر وکان من الکافرين» (بقره:34) ونيزر۔ ک: حجر: 31-32 / اسرا: 61/ کهف: 50 / طہه: 116/ ص: 7475۔ اوربعض آیات میں شيطان کےنام سے یاد ہوا ہے: جیسے: «يابنى آدم لايفتننّکم الشيطان کما اخرج ابويکم من الجنّة۔» (اعراف: 27) ونيزر۔ک: بقرہ: 26 / طہ: 120۔ ضمنا ایی آيات کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ شیطان وہی ابلیس ہے آيات 61-65 اسراء ہیں۔3 - الفخرالرازى، التفسيرالکبير، ج1،ص213، چاپ دوم،بيروت، داراحياء التراث العربى4 - محمد معين، فرہنگ معين، لفظ «شيطان»5 - «واذقلنا للملائکةِ اسجدوا لادم فسجدوا الاّ ابليس» (بقره: 34) و نيز ر۔ ک: اعراف : 11 / اسرا :61 / کهف:50/طه:116 / حجر: 30/ ص: 73)6- نهج البلاغه، تدوين صبحى صالح، خطبه192 (قاصعه)، ص 287
7 - امام صادق عليه السلام : «انّ الله عزوجل خلق الملائکة من نورٍ وخلق الجانّ من النار۔»محمد باقرمجلسى،بحارالانوار، ج 61،ص 306) امام على عليه السلام : «۔۔ وجعل فى کل سماءٍساکنا من الملائکةِ خلقہم معصومين من نورٍ من بحورٍعذبةٍ وهوبحرالرحمةِ وجعل طعامهم التسبيح و التهليل و التقديس»۔۔۔» (قبلی، ج 57، ص 92) پيامبر صلى الله عليه و آله : «خلقت الملائکة من نورٍ وخُلق الجانُ من مارجٍ من نارٍ» (فخررازى،قبلی ، ج 2، ص 214)
8 - و نيز ر۔ک: بقرہ: 168 و 208 / انعام: 112 و 124 / اعراف: 22 / طه: 117 / قصص: 15/ فاطر: 6/ يس: 60 / زخرف: 62 / اسراء:53)
9 - نهج البلاغه، تدوين صبحى صالح، خطبه 192 (قاصعه)، بيروت، 1387 ق، ص 287
10 - «فاخرج منهافانّک رجيم وانّ عليک اللعنةُ الى يوم الدين۔» (حجر: 3435) ونيزر۔ک: اعراف: 13 /
اسرا: 62 / ص: 7877)
11-ر۔ک: يوسف: 5/ کهف: 50/ بقرہ: 168و208/ انعام: 112و124/ اعراف:22 /طہ:117/ قصص:15/ فاطر:6/يس:60/زخرف:62/اسرا:53۔
12 - و نيز ر۔ک: عنکبوت:3/ ص:34/ دخان:17/ ص: 24 / تغابن: 15/ انفال:28/ بقرہ: 102/ بقرہ: 155/ محمد: 31/ کہف:7/ محمد:4/ ہود:7/ ملک:2/آل عمران:186/بقرہ:124/آل عمران:154
13 - ایسے حالات مثلا پشيمانى، شک و ترديد اور عذرخواہى اور مدح و ستايش يا مذمّت و سرزنش اورساری حقوقى، اخلاقى و تربيتى، نظام سب کےسب انسان کےاختیار میں هونے کی حکایت کرتےہیں۔
14 - ر۔ک: محمود رجبى، انسان شناسى، قم، مؤسسہ آموزشى و پژوہشى امام خمينى، 1380، ص 155
15 -«فزيّن لهم الشيطان اعمالهم فصدّهم عن السبيل» (نحل: 24) «تاللّه لقدارسلنا الى اُمم من قبلک فزيّن لهم الشيطان اعمالهم » (نحل: 63) ونيزر۔ک: عنکبوت: 38/ انعام:43/ انفال:48
16 -«فوسوس اليه الشيطان قال يا آدم هل ادلّک على شجرة الخلد وملکٍ لايبلي» (طه: 120) و نيز ر۔ک: اعراف: 2و200 / ناس: 4و5/ فصلت:36/ يوسف:100
17 - «۔۔۔ وما کان لى عليکم من سلطانٍ الاّ ان دعوتکم فاستجبتم لي » (ابراہيم: 22) ونيزر۔ک: لقمان:21
18 - الّذين ارتدّوا على ادبارهم من بعد ما تبيّن لهم الهدى الشيطان سوّل لهم و املى لهم» (محمد:25)
19 - فازلّهما عنها فاخرجهما ممّا کانا فيه» (بقرہ:36) ونيزر۔ک: آل عمران:155
20 - «يابنى آدم لايفتننکّم الشيطان کمااخرج ابويکم من الجنة» (اعراف: 27)
21 -«۔۔۔ ويريدُ الشيطان ان يضلّهم ضلالاً بعيدا» (نساء:60) ونيزر۔ک: يس: 62/ نسا: 119/ قصص:15
22 -«وکذلک جعلنا لکلّ نبيٍ عدوا شياطين الانس و الجنّ يوحى بعضهم الى بعضٍ زخرف القول غرورا» (انعام:13) ونيزر۔ک:انعام:121
23 -«وعدهم وما يعدهم الشيطان الاّ غرورا۔» (اسرا: 64) ونيزر۔ک: ابراہيم: 22
24 -«انّماسلطانه على الّذين يتولّونه والّذين هم به مشرکون۔» (نحل:100) ونيزر۔ک: زخرف: 36/ مجادلہ:19/ اعراف:27
25 - ر۔ک: مجادله: 1419
26 -نهج البلاغه، خطبه 10، ص 54
27 - محمدتقى جعفرى، ترجمه و تفسير نہج البلاغہ، تہران، 1358، ج 3، ص 193
28 - نهج البلاغه، ص 53، خطبہ 7: «اتخذوا الشيطان لأمرهم ملاکا واتخذهم له اشراکا فباض وفرّخ فى صدورهم ودبِّ ودرج فى حجورهم فنظر باعينهم و نطق بالسنتهم فرکب بهم الزلّل و زيّن لهم الخطل فِعْلَ من قدشرکه الشيطانُ فى سلطانه ونطق بالباطل على لسانه»
29 - سوره توبه، آيه 24 میں فرمایا: «قل ان کان آباؤکم وابناؤکم واخوانکم وازواجکم وعشيرتکم واموال اقترفتموها وتجارةٌ تخشون کسادها و مساکن ترضونها احبّ اليکم من اللّه و رسولهِ و جهادٍ فى سبيله فتربّصوا حتى يأتى اللّه بامره والله لا يهدى القوم الفاسقين۔»
30 - محمدحسين طباطبائى، الميزان، بيروت، مؤسسة الاعلمى للمطبوعات 1390 ق، ج 8، ص 381
31 -«همزات»جمع«همزة»دفع اور تحريک شديدکےمعنی میں ہے۔ اور بعض تفاسير روائی میں ھمزات کے معنی میں آیا ہے: « هو ما يقع فى قلبک من وسوسة الشياطين»ر۔ک: عبدعلى الحويزى،نورالثقلين،قم،دارالکتب العملية،ج 3،ص 552،حديث 113
32- مأخذ : محمدحسين طباطبائى، قبلی، ج 11، ص 130 و ج 12، ص 165
33 - عبدالله جوادى آملى، تفسير موضوعى، قم، اسراء، ج 6، ص 198، سيرہ پيامبران در قرآن، با تلخيص
34- ابوعلى الفضل طبرسى، مجمع البيان، بيروت، داراحياء التراث العربى، 1379 ق، ج 8، ص 438
35و36 الفخر رازى، قبلی ، ج 26، ص 121 / ص 122
37 - محمدحسين طباطبايى، قبلی ، ج 17، ص 124
38 - محمدتقى مصباح، معارف قرآن، قم، در راہ حق، 1371، ص 310311
source : alhassanain