تمام روئے زمین کے قبائل و شعوب میں سے قریش کو ہر لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل ہے اور پھر قریش سے خاندان بنو ہاشم باعتبار نسب تمام اہل عالم سے افضل و اعلیٰ ہے جو ملت ابرا ہیم ـکا امین چلا آرہا تھا نیز خانہ کعبہ کی تولیت کے شرف کے باعث ایک عظمت کا حامل بھی تھا اور بنوہاشم کی فضلیت کا راز نبی اکرم ۖکی ذات گرامی سے وابستہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں کتب احادیث میں بکثرت روایات پائی جاتی ہیں نبی مکرم ۖنے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ سے بیان کیا ۔
''قلّبت الارض مشارقها ومغاربها فلم اجد احداً افضل من محمد صلی الله عليه وآله وسلم وقلبت الارض ومشارقها ومغاربها فلم اجد بنی اب افضل من بنی ہاشم ''
''میں نے زمین کے مشارق مغرب کو الٹا پلٹا کیا ہے مگر کسی شخص کو حضرت محمد ۖ سے افضل نہیں پایا اور میں نے مشارق ومغرب کی گردش کی لیکن کسی باپ کے بیٹوں کو بنی ہاشم سے افضل نہ پا یا ''
اللہ تعالیٰ نے اسی معزز ترین خاندان میںسے بنی مکرم حضرت محمد ۖ کومنتخب کیا ہے جو بشارت حضرت موسی ـکا مدعا اور نوید حضرت عیسیٰ ـکا مقتضا ،وحدت کا معلم اور نبوت کا خاتم بن کر تشریف لا ئے ۔جب کہ سایہ پدری بھی اُٹھ چکا تھا آپ کے دادا حضرت عبد المطلب اس نور علیٰ نور کو اٹھا کر خانہ کعبہ میںلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور اس کی عطا پر شکر ادا کر تے ،کافی دیر کھڑے رہے آپ ۖ جب چھ برس کے ہوئے تو والدہ محترمہ بھی انتقال فرما گئیں ، آپ ۖاپنے دادا جان کے ساتھ رہے جو سردار بنی ہاشم تھے جن کے لیے کعبة اللہ کے زیر سایہ فرش بچھا یا جاتا اور ان کے فرزند ان اس کے اطراف میں بیٹھتے ،اپنے والد بزرگوار کی عظمت کے پیش نظر فرش پر کو ئی نہ بیٹھتا تھا ،لیکن حضور نبی کریم ۖ جب تشریف لاتے تو وہ اپنے دادا جان کے ساتھ فرش پر بیٹھ جاتے ،آپ کو ہٹانے کے لیے جب کوئی شخص پکڑتا تو حضرت عبد المطلب ـ فرماتے کہ ایسی جسارت مت کرو،خدا کی قسم یہ توبڑی شان والا ہے اور پھر آپ کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے رہتے ،حضرت عبد المطلبـ کے موحد ہو نے کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ جب ابر ہہ نے ہا تھیوں کا لشکر لے کر خانہ کعبہ پر چڑھائی کی تو اس کے لشکری حضرت عبد المطلب ـ کے اونٹ پکڑ کر لے گئے ۔حضرت عبد المطلب ـ کو جب یہ اطلاع دی گئی تو آپ اپنے اونٹ واپس کرانے کے لیے ابرہہ کے خیمے کی طرف روانہ ہو ئے ،ابرہہ نے دور سے دیکھا کہ قریش کے سب سے معزز خاندان بنو ہاشم کے سردار جو خانہ کعبہ کے کلید برداربھی ہیں، آرہے ہیں اور وہ یقینا خانہ کعبہ سے محاصرہ اٹھانے کا مطالبہ کریںگے ،لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہوا کہ عبد المطلب نے جب اپنے اونٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا تو ابر ہہ حیران ہو کر بولا :
''اے سردار بنو ہاشم آپ اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو لے کر آگئے مگر خانہ کعبہ کے متعلق کو ئی بات ہی نہیں کی ''
حضرت عبد المطلب ـ نے فرمایا کہ اونٹ میرے ہیں، جس کے لیے میں آیا ہوں ،خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کا ہے میرا نہیں ۔
حضرت عبد المطلب ـ کا یہ جواب آپ کے ایمان بالتوحید پر واضح دلیل ہے جس پر سورہ فیل شاہد ہے کہ ہا تھیوں کے اس لشکر کو اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں سے کنکریاں مروا کر تباہ کیا اور یہ اس طبقے کے لیے بھی دعوت فکر ہے جو حضور ۖ کے آباء و اجداد کے ایمان کا قائل نہیں ،حضور نبی کریم ۖ نے ابھی آٹھویں سال میںہی قدم رکھا تھا کہ حضرت عبد المطلب رحلت فرما گئے اور وقت آخر اپنے فرزندوںمیں سے حضرت محمد ۖ کو حضرت ابو طالب ـ کی کفالت میں دے دیا چنانچہ اس سلسلہ میں علامہ سید احمدبن زینی دحلان مکہ لکھتے ہیں :
''فان ابا طالب رباه صغيراً وآواه کبيراً ونصره وقره وذب عنه ومدحه بقصائد غرررضی باتباعه '' ١
''بے شک حضرت ابو طالب ـ نے نبی کریم ۖ کی بچین میں پرورش کی اور آپ کو بڑی عمر میں ٹھکانا دیا اور آپ کو عزت ووقار دیا،آپ سے دشمنوں کی تکالیف کو دور کیا اور بہت سے شاندار قصیدوں میں آپ کی تعریف فرمائی اور آپ کے متبعین کی بھی عزت کی اور سے راضی رہے ''
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے''الاصابه فی تمييز الصحابه''میں حضرت ابو طالب کے تذکرہ میں واشگاف الفاظ میں لکھا
''ولما مات عبد المطالب اوصی محمد ۖ فکفله واحسن تربيته وسافر به صحبته الی الشام وهو شاب ولما بعث قام فی نصرته وذب عنه من عاداه مدحه عدته مداح منهما قوله استسقی اهل مکه فتسقوا وابيض یستقی الغمام بوجهه ثمال اليتامیٰ عصمته للارامل ومنها قوله من قصيدة وشق له من اسمه ليجعله فذو العرش محمود هذا محمد ''
''جب حضرت عبد المطلبـ کا وقت انتقال آیا تو انہوں نے حضرت ابوطالبـ کو محمدۖ کے لیے وصیت فرمائی، حضرت ابو طالبـ نے آپ کی کفالت فرمائی اور بہترین تربیت کی اور شام کے سفر کوتشریف لے گئے تو آپ کو اپنے ساتھ رکھا ،یہاں تک کہ آپ جوان ہو گئے اورپھر جب آپ نے اعلان نبوت فرمایا تو ابو طالب ـ آپ کی نصرت و حمایت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپ کی مدح وتعریف میںکئی قصائد انشاء فرمائے ان کا ایک شعر یہ ہے، جس میں نبی کریم ۖ کے صدقہ سے اہل مکہ کو بارش نصیب ہو ئی ،اور وہ گورے رنگ والے جن کے چہرہ انور کے صدقہ سے بارش طلب کی جا تی ہے جو یتیموں کی جا ئے پناہ اور بیوائوں کے نگہبان ہیں ، اور آپ کے قصیدے کا ایک شعر یہ ہے
اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی اپنے اسم گرامی سے مشتق فرمایا پس وہ عرش پر محمود ہے اور یہ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )٢
یہی بات علامہ سید الناس متوفی٧٣٤ ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''عيون الا ثر فی فنون المغازی والشمائل والسير''،جلد اول ،ص٩٧مطبوعه بيروت ''میں لکھی ہے کہ جب آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہوا تو آپ کے داد ا جان حضرت عبد المطلب ـ آپ کے کفیل ہو ئے ،جب آپ آٹھ برس دو ماہ دس دن کے ہو ئے تو آپ کے دادا جان انتقال فرماگئے پھر آپ کے چچا جان حضرت ابو طالب نے آپ کی کفالت فرمائی ۔
مشہور مفسر علامہ شیخ محمد شربینی الخطیب اپنی تفسیر میں سورہ والضحیٰ کی آیت مبارکہ''اَلَمْ يجوک يتيماً فاٰویٰ '' کے ذیل میں رقم طراز ہیں :
''اي بان ضمک الی عمک ابی طالب فاحسن تربيتک''
''یعنی نبی کریم ۖ کو حضرت ابو طالب کی آغوش میں دے دیا تو انہو ں نے آپ کی بہت اچھے طریقے سے تربیت فرمائی ''٣
علامہ فخر الدین الرازی مذکور ہ بالا آیت مجیدہ ،کی تفسیر میں تحریر کر تے ہیں :
''وکان عبد المطلب يوصی اباطالب به لان عبدالله وابا طالب کان من ام واحده فکان ابو طالب هو الذی يکفل رسول اللّٰه صلی الله عليه وسلم ''
''حضرت عبدالمطلب نے جناب ابوطالب کو رسول ۖ کی کفالت کی وصیت فرمائی تھی کیونکہ حضرت ابو طالب ـ اور حضرت عبد اللہ ـ (والد پیغمبر ۖ)دونوں ایک ہی ماں کے بطن اطہر سے پیدا ہو ئے تھے اور حضرت ابو طالبـ وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام ۖ کی کفالت فرمائی تھی '' ٤
حبر الامت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھمااس آیت کی تشریح میںفرماتے ہیں:
''يتيماً بلا أ ب ولاام فاوی فاواک الی عمک ابی طالب''
''بغیر ماں باپ کے فاویٰ ،آپ کو ان کے عم محترم ابو طالب کی آغوش عطا فرما دی ''٥
حافظ ابن کثیر الد مشقی لکھتے ہیں :
''وله العمر ثمان سنين فکفلهعمه ابو طالب ثم لم يزل يحوطہ وينصره والا حوی ويرفع من قدره ويوقره ويکف عنه اذی قومه ''
''آپۖ کی عمر مبارک اس وقت آٹھ برس تھی جب آپۖ کے عم محترم ابو طالب نے ان کی کفالت فرمائی حضرت ابو طالب ہمیشہ نبی مکرم ۖ کا احاطہ کیے رہے اور آپ کی نصرت و حمایت کر تے رہے اور آپ کو ہر اس چیز سے بچاتے رہے جو آپ کی عزت و توقیر پر حرف لا نے والی ہو اور ہر حال میں ان (کفار مکہ )کی اذیتوں سے آپ کو بچاتے رہے ۔٦
عظیم مفسر علامہ نظام الدین حسن نیشاپوری اپنی تفسیر غرائب القرآن بھامش تفسیر ابن جریر پ٣٠،ص١٠٩مطبعة بولاق مصر ١٣٢٩ھ میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے ذیل میں یوں صراحت کرتے ہیں ۔
''فکفل ابو طالب رسول الله ۖ الی ان اتبعته اللّٰه للرسالة فقام بنصرته مدت مديدة وعطفه الله عليه فاحسن تربيته''
''حضرت ابو طالبـ نے رسول ۖکی کفالت فرمائی حتی کہ آپ کی بعثت کا وقت قریب آگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب رسالت پر متمکن فرمادیا، اس طویل عرصے میں حضرت ابو طالب ـ آپ کی نصرت کرتے رہے اور ان کی زیر کفالت اللہ تعالیٰ اپنے (رسول ۖ )کی بہترین تربیت فرما تا رہا ''
علامہ جمال الدین یوسف ابن المبرد متوفیٰ ٩٠٩ ھ،نے اپنی بیش بہا تصنیف ''الشجرة النبوےة فی نسب خیر البریہ ، ص١١٧،١٢٢،١٨٣،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢٦ ھ میںبالتصریح تحریر کیا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے وصیت کی تھی کہ محمد ۖ کی کفالت حضرت ابو طالب کریںاور انہوں نے ہی آپۖ کی کفالت وپرورش کی ہے۔
بعینہا یہی صراحت بہت سی مستند کتب میں دیکھی جا سکتی ہے چند ایک کے نام یہ ہیں،
(١)شرف المصطفیٰ للحافظ عبد الملک بن ابی عثمان الخر کوشی النیشاپوری المتوفی٤٠٦ ھ جلد اول ٣٨٩ھ تاص٣٩١
طبع دارالبشائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ الطبعة الاولیٰ١٤٢٤ ھ
(٢)(لباب التاویل للخازن،ج٧،ص٢١٦مطبعة التقدم مصر،٣٣٢اھ)
(٣)(تفسیر معالم التنزیل للبغوی،ج٤،ص٢٣٩،مطبع فتح الکریم بمبیٔ،١٣٠٩ھ)
(٤)تفسیر صاوی علیٰ الجلالین للشیخ احمد الصاوی المالکی،ج٤،ص٢٧٨ طبع داراحیاء الکتب العربیہ مصر
(٥)تفسیر فتوحات الا لھیہ بتوضیح تفسیر الجلالین المعروف بہ جمل ،ج٤،ص٦٤٤،طبع اکمل المطابع دہلی،١٢٨٥ھ
(٦)تفسیر جلالین مع صاوی ،ج٤،ص٢٧٨
نیز شاہ عبد العزیز دہلوی نے تفسیر عزیزی پارہ نمبر ٣٠،ص٢١٩،٢٢٠ مطبع محمدی لاہور ، ١٣٠٠ھ میں بھی بالتصریح ذکر کیا ہے بلا شبہ حضرت ابو طالب ـ نے اپنے والد بزرگوار کی وصیت کے مطابق سرور کا ئنات ۖکو اپنی آغوش تربیت میں لیا اور نہایت حسن وخوبی سے وہ تمام فرائض جو ایک مربی کے لیے ضروری ہیں انجام دئیے جس کا اعتراف ہر عہد کے مورخ نے کیا ہے چنانچہ مشہور مورخ محمد بن سعد بصری متوفی٢٣٠ ھ نے واشگاف الفاظ میںتحریر کیا ہے ۔
''کان يحبه حباً شديداً لا يحبه ولده وکان لا ينام الا الی جنبه ويخرج فيخرج معه و صب به ابو طالب صباية لم يصبّ مثلها بشی ء قط وکان يخصه بالطعام ''
''حضرت ابو طالب ـ حضور نبی کریم ۖسے بے پناہ محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ آپۖ کو چاہتے تھے آپ ہی کے پہلو مبارک میں سوتے ،جب حضرت ابو طالب ـ کہیں باہر جا تے تونبی کریم ۖ کو اپنے ساتھ لے جا تے اور دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ آپ ۖ پر فریضة و گرویدہ تھے ''٧
حضرت ابو طالب ـ آپ ۖ سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کو ئی دشمن رسول اللہ ۖکو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہذا حضرت ابو طالب ـ کا یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گز ر جانے کے بعد وہ نبی کریم ۖ کو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے تھے اور اس جگہ اپنے بیٹے حضرت علی ـ کو سلا دیا کر تے تھے ایک روز ایسے موقع پر حضرت علی ـ نے کہا بابا جان ! کیا میں یہاں قتل کر دیا جائوں گا ۔حضرت ابو طالب ـ اپنے بیٹے کے اس سوال سے نہایت متاثر ہو ئے او ر فرمایا بیٹا علی ـ !! ہم نے تمہیں اس شدید ابتلا کے زمانے میں رسول اللہ ۖ کا فدیہ بنا دیا ہے ۔
حضرت ابوطالب ـ تاجرانہ حیثیت سے ایک قافلے کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہو نے لگے تو حضور ۖ کو اپنے ساتھ ہی ہمسفر رکھا ان کی جدائی گوارا نہ کی ،دوران سفر کے معجزات ،ابر کے ٹکڑے کا سایہ فگن ہو نا ،درخت کی ڈالیوں کاآپ پر جھکنا تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں عام ملتا ہے نصرانی راہب کا لات وعزی کی قسم دے کر حضور ۖ سے یہ کہنا کہ جو بات میں پوچھوں بتائے جائیں اور آپ کا یہ جواب دینا کہ
''لا تسالنی بالات والعزی شيا فو الله ما ابغضت شهيا قط بغضهما ''
'' لات وعزی کی قسم دے کر مجھ سے کو ئی بات نہ پو چھ ،خدا کی قسم مجھے ان دونوں سے جتنا بغض ہے اور کسی چیز سے کبھی نہیں رہا ''
آپ ۖ کا یہ جواب سن کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا پھر اس نے آپ کی پشت مبارک دیکھی دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا نشان اس مقا م پرموجود تھا، جہاں نصرانی راہب کی کتاب میں اُس کا تذکرہ مرقوم تھا ،نصرانی نے حضرت ابو طالب ـ سے دریافت کیا ،اس لڑکے کا آپ سے کارشتہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا میرا بیٹا ہے راہب نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا اس لڑکے کا باپ زندہ نہ ہو نا چاہیے ،حضرت ابو طالبـ نے فرمایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے نصرانی راہب نے کہا پھر اس کا باپ کہاں ہے ۔آپ نے جواب دیا کہ اُن کا انتقال ہو چکا ہے تب راہب نے کہا آپ نے سچ کہا اپنے اس بھتیجے کو لے کر اپنے شہر کو واپس جائو اور یہودسے اس کی حفاظت کرو ،اگر انہوں نے دیکھ لیا اور وہ سب کچھ جان لیا جو میں نے سمجھ لیا ہے تو وہ اسے ضرور نقصان پہنچائیں گے ۔
حضرت ابو طالب ـ تجارت سے فارغ ہو تے ہی جلد مکہ چلے آئے ۔حضور ۖ اب عالم شباب کے میدان میں قدم رکھ رہے تھے ۔زندگی کا یہ وہ دور ہو تا ہے جس سے شخصیت کے متعلق اندازہ کیا جا تا ہے ۔نبی مکرم ۖ کے معاملات پر کسی فرد کو بھی انگشت نمائی کا موقعہ نہ ملا بلکہ ہر ایک نے صادق اور امین کہہ کر پکارا ۔
حضرت خدیجہ حسب ونسب میں اعلیٰ ترین قریش تھیں ،مال ودولت کے لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہ تھا متمول اور خوشحال قبائل کے افراد آپ سے نکاح کرنے کے خواہش مند تھے مگر آپ نے ہر کسی کی خواہش کو ٹھکرایا اور اپنی خاص سہیلی نفیسہ کی وساطت سے حضرت سرور کائنات ۖکی خدمت میںاپنے ارادے کا اظہار کیا ، آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب ـ سے اس کا ذکر فرمایا تو آپ نے اسے منظور کیا چنانچہ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی اور وقت مقررہ پر حضرت ابو طالب ـ اور تمام روسا ء خاندان جن میں حضرت حمزہ بھی تھے ۔حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لا ئے حضرت ابو طالب ـ نے خطبہ نکاح پڑھا ،خطبہ کی ابتداء ان الفاظ سے ہو تی ہے :
''الحمد لله الذی جعلنا من ذرية ابراهيم وزرع اسماعيل وضئضیٔ معدٍّ وعنصر مضرِّ وجعلنا حضنة بيته۔۔۔۔۔۔۔الخ''
''تمام تعریف اس خدائے بزرگ وبرترکے لیے سزوار ہے جس نے ہمیں ذریت ابراہیم ـاور اولاد اسماعیل ـ ونسل معد اور صلب مضر سے پیداکیا اور ہم کو اپنے بیت (کعبہ )کا محافظ اور اپنے حرم محترم کا نگہبان مقرر فرمایا ، ہمارے لیے ایک ایسا گھر قرار دیا جس کا خلق خدا حج کر تی ہے اور ایسی متبرک زمین عطا کی جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن پاتی ہے ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا ۔۔۔ ''
اما بعد میرا یہ بھیجتا محمد بن عبد اللہ جن کا اگر کسی شخص سے مقابلہ اور موازنہ کیاجائے تو ازروئے فضل وکمال اور باعتبار شرافت ودیانت یہی گرامی تر نکلے گا۔ یہ مالداراور دولت مندی میں اگرچہ کم ہے مگر مال ایک ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے اور متغیر و مبدل ہوجانے والا حال ہے ۔محمد ۖوہ شخص ہے جس کی قرابت جوکچھ مجھ سے ہے آپ لو گ اس کو خوب جانتے ہیں اس نے خدیجہ بنے خویلد سے تزویج کا ارادہ کیا ہے ۔ اور اس طرح میں نے اپنے مال سے (خدیجہ ) کے مہر موجل (رقم مقررہ )اور صداق موجل (رقم ،مہر جو بروقت ادا کیا جا ئے)ادا کر دیا ،میں خدا کی قسم سے کہتا ہوں کہ محمد ۖ دہ شخص ہے جس کے لیے کو ئی خبر عظیم اور اعلیٰ ترین منصب نصیب ہونے والا ہے ۔٨
محترم قارئین !
حضرت ابو طالب ـ کے اس خطبے کو با ربار پڑھیے اور ایک ایک جُملہ پر غور فرمائیے کہ آپ کا ایمان بالتوحید والرسالت کس طرح ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے آبا ء واجداد کے ایمان پر بھی کس انداز سے فخر ومباہات فرما رہے ہیں اور اپنے مال سے حق مہر کی ادائیگی کر رہے ہیں سچ ہے کہ حضرت عبد المطلب کویقین کامل تھا کہ میرا یہ بیٹا ابو طالب موحد ہے اسی لیے دنیا سے رخصت ہو تے وقت حضور ۖکو کسی اور بیٹے کی نگرانی میںنہ دیا۔آقائے نامدار علیہ الصلوة والسلام پر نزول وحی 'اِقْرَا بِاسِمِ رَبّکَ الَّذِیْ خَلَقَ 'کی آیت مبارکہ سے ہوا تو اس کا ذکر حضور ۖ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجة الکبری سے فرمایا ۔حضرت علی المرتضیٰ ـبھی اس وقت آپ کے پاس ہی رہتے تھے،آپ نے اپنے اخبار الہیٰ ہو نے کا جب قریش پر انکشاف کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی ہوں تو اعلان نبوت پر قریش میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں جو کو ئی ایک دوسرے سے ملتا ہے یہی کہتا ہوا نظر آتا کہ کچھ سنا ابو طالب ـ کا بھتیجا محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے یہ خبر پورے مکہ اور اس کے گردو نواح کی آبادیوں میں پھیل گئی ہر طرف سے تعجب کا اظہار ہو نے لگا کہ محمد ۖ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور وہ اس امر کی تلقین کر تا ہے کہ کہو 'لا الہ الا اللہ 'اعلان نبوت کے بعد حضرت ابو طالب نے جب دیکھا کہ قریش، حضور نبی کریم ۖ کی مخالفت پر تُل گئے ہیں تو آپ نے قریش پر جس جذبہ اور جس شجاعانہ انداز سے اپنے خاندان کی عظمت ایمان بالتوحید اور رسول اللہ ۖ کی حفاظت و نصرت کے لیے جان کی قربانی تک کی پرواہ نہ کرنے کا عرب کے ملکی رواج کے مطابق اشعار میں چیلنج فرمایا ۔تقریبا ًایک سو اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ سیرة ابن ہشام اردو کے صفحہ ٢٥٦تا ٢٦٨ پر ''ابو طالب کا مشہور قصیدہ ''کے عنوان سے موجود ہے۔ اسے قصیدہ اس لیے کہاگیا کہ اس میں اپنے خاندان کی عظمت و برتری کے ساتھ سر و ر کائنات ۖکے فضائل ومحاسن بھی شامل ہیں ۔حضرت ابو طالب ـ کی نبی کریم ۖکی حفاظت و نصرت اور حمایت وتائید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ۔لہذا حضرت ابو طالب اعلان نبوت سے ہی آپ ۖ کے اس مقدس مشن میں برابر کے شریک تھے ۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
١۔ اسنی المطالب فی نجاة ابی طالب ص١٩،مطبعہ محمد آفندی مصر،١٣٠٥
٢۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٤،ص١١٥،مطبعة السعادہ مصر،١٣٢٨ الطبعة الاولیٰ
٣۔ تفسیر سراج المنیر ج٤،ص٥٥٠تا ٥٥٢ مطبوعہ نولکشور لکنہو، ١٢٩٣ ھ
٤۔ تفسیر کبیرج٨، ص ٠ ٦٠مطبوعی قسطنطینیہ، ١٣٠٨ ھ
٥۔ تنویرا لمقیاس من تفسیر ابن عباس ص٤٥٢مطبعة المشہد الحسینی قاہرہ ،١٣٩٠ ھ
٦۔ تفسیر ابن کثیر بھا مش فتح البیان ج٥،ص٢٤٦مطبعہ بولاق الطبعة الاولیٰ مصر ، ١٣٠١ھ
٧۔ طبقات ابن سعد جلداول ص٧٥ تحت ''ذکر ابی طالب وضمہ رسول اللہ ۖ ،طبع لیدن ،١٣٢٢ ھ
٨۔ المواھب اللدنیہ مع شرح الزرقانی جلد ١ص٢٠١ ،المطبعة الازھر یہ مصر، الطبعة الا ولیٰ ١٣٢٥ ھ ،
سبل الھدیٰ والرشاد للشامی جلد ٢،ص١٦٥دارالکتب العلمیہ بیروت ،١٤٦٨ ھ ،
شرف المصطفیٰ للحافظ خرکوشی النیشاپوری المتوفیٰ ٤٠٦ ھ ،جلد اول ، ص٤١٣طبع ،دارالبسئائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ ١٤٢٤
سیرت الحلبیہ جلد ١،ص ٢٢٦،مطبعةالمصطفیٰ،مصر ١٣٨٤ ھ
source : alhassanain