امام موسی ابن جعفر ٴ کی زندگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتاہے کہ آپ ٴ کی زندگی غیر معمولی واقعات و حادثات سے پر ہے اور میری نظر میں آئمہ علیہم السلام کی سیاسی تحریک کا لفظ عروج آپ ٴ ہی کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حضرت ٴ کی زندگی سے متعلق صحیح اور واضح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کہیں کہیں حضرت ٴ کی زندگی سے متعلق پتہ چلتا ہے کہ آپ ٴ کچھ دنوں تک عمال حکومت کی نظروں سے چھپ کر پوشیدہ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہارون کی پوری مشینری آپ ٴ کی تلاش میں رہتی ہے مگر آپ ٴ کا پتہ چلانے سے قاصر رہتی ہے۔ خلیفہ بعض افراد کو پکڑتا ہے اور انہیں اذیتیں دے کر آپ ٴ کا ٹھکانا معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اور اس چیز کی گزشتہ آئمہ ٴ کی زندگی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی ۔ ابن شہر آشوب مناقب میں درج ذیل روایت نقل کرتے ہیں جس سے اس قسم کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے: دخل موسی بن جعفر بعض قری الشام مستنکراً ھاربا موسی ابن جعفر بدحالی اور فرار کی حالت میں شام کے بعض علاقوں میں آئے۔
اس طرح کی چیز کسی اور امام ٴ کے بارے میں نہیں ملتی۔
اس سے امام علیہ السلام کی زندگی میں پائے جانے والے تحرک کا اندازہ ہوتا ہے اور اسی کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آخر آپ ٴ کو کیوں دائمی قید کی صعوبت جھیلنی پڑی ہے۔ ورنہ آپ نے سنا ہوگا کہ شروع میں جب ہارون تخت خلافت پر بیٹھتا ہے اور مدینہ آتا ہے تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ نہایت ہی لطف و نوازش کا برتاو کرتا ہے اور انتہائی احترام سے پیش آتاہے۔ چنانچہ یہ داستان جو مامون سے نقل کی گئی ہے بہت مشہور ہے : وہ کہتا ہے کہ حضرت ٴ ایک سواری سے اتر جائیں لیکن ہارون نے آپ ٴ کو ایسا نہیں کرنے دیا اور قسم دی کہ آپ ٴ کو میری جائے نشست تک یونہی سوار ہوکر چلنا ہوگا۔ چنانچہ آپ ٴ اسی طرح سوار وہاں تک پہنچے۔ سب نے حضرت ٴ کا احترام کیا اور آپس میں گفتگو ہوئی۔ جب آنحضرت ۰ جانے لگے تو ہارون نے مجھ (مامون)سے اور امین سے کہا کہ ابوالحسن کی رکاب تھام لو۔۔
ایک دلچسپ بات جو اس روایت میں مامون بیان کرتا ہے وہ یہ ہے: میرے باپ ہارون نے تمام لوگوں کو پانچ پانچ ہزار اور دس دس ہزار دینار (یا درہم)عطیہ و بخشش کے طور پر دئیے اور موسی ابن جعفر ٴ کو دو سو دینار دئیے حالانکہ جب ہارون نے حضرت ٴ سے احوال پرسی کی تھی تو حضرت ٴ نے اپنی سخت پریشانی اور مالی بدحالی کے ساتھ کثرت عیال کا تذکرہ بھی کیا تھا (یہ باتیں امام ٴ کی زبان سے نہایت ہی دلچسپ اور پر معنی معلوم ہوتی ہیں اور خود میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شاہی دور میں سیاسی سرگرمیوں کے دوران تقیہ کا تجربہ کیا ہے اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ امام علیہ السلام کا ہارون جیسے شخص کے سامنے اس طرح اپنی پریشان حالی کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ امام ٴ کیوں کہتے ہیں کہ میری حالت اچھی نہیں ہے گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے؟ اس طرح کی باتیں ہرگز ذلت و حقارت کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ جابر و ظالم و طاغوتی دور میں جان بوجھ کر ہم لوگ اس طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ انسان اس قسم کی سختیوں کے دور میں دشمن کو اپنی حالت اور کاموں سے غافل رکھنے کے لئے اس طرح کی باتیں کیا کرتا ہے۔)
بہر حال اصولی طور پر امام ٴ کی اس طرح کی باتوں کے بعد ہارون کو امام علیہ السلام کی خدمت میں کوئی بڑی رقم مثلاً پچاس ہزار دینار (یا درہم)پیش کرنی چاہئیے تھی لیکن وہ صرف دو سو دینار دیتا ہے۔
مامون کہتا ہے : میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : جو رقم مجھے ان کو دینی چاہئیے تھی اگر دے دوں تو مجھے خدشہ ہے کہ چند دنوں کے بعد وہ اپنے دوستوں اور شیعوں میں سے ایک لاکھ شمشیر زن میرے خلاف کھڑے کردیں گے۔
یہ ہارون کا تاثر اور خیا ل ہے اور میری نظر میں ہارون نے ٹھیک ہی سمجھا تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہارون کا یہ تاثر امام ٴ کے متعلق چغل خوریوں کا نتیجہ ہے لیکن حقیقی قصہ یہی ہے۔ اس زمانہ میں کہ جب امام ٴہارون کے خلاف جدوجہد میں مشغول تھے اگر واقعی اس وقت امام ٴ کے پاس دولت ہوتی تو ایسے بہت سے لوگ تھے جو آپ ٴ کی معیت میں تلواریں سوتنے پر آمادہ تھے اور اس کے نمونے ہمیں امام زادوں کی تحاریک میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں آئمہ علیہم السلام یقینا اپنے گرد زیادہ افراد اکھٹا کرسکتے تھے لہذا امام محمد باقر ٴ کا زمانہ اوج کا دور کہا جاسکتا ہے جو آپ ٴ کی قید پر منتہی ہوتا ہے۔
source : alhassanain