بہت سے غلط طور طريقے اور رسوم و آداب کو جو خواتين سے مخصوص نہيں ہيں بلکہ مرد بھي کبھي کبھي انہي کو اپناتے ہيں، ہم سے يہ کہتے ہيں کہ جناب آئيے اور زندگي کے اس ترازو کي چيزوں (مياں اور بيوي کے کردار) کو ايک دوسرے سے تبديل کر ديتے ہيں۔ اگر ہم يہ کام انجام ديں تو کيا ہو گا؟ آپ کا يہ عمل خطائے محض اور گلستان حيات کي زيبائي اور خوبصورتي کو خراب کرنے کے علاوہ کچھ اور نہيں ہو گا۔ آپ، مياں بيوي کے اپنے اپنے مقام پر رہنے سے حاصل ہونے والے فوائد کا راستہ روک کر گھر کے تصوراتي ماحول سے بے اعتنائي برت رہے ہيں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ، مياں بيوي کو ايک دوسرے کي نسبت شک و ترديد اور دو دلي ميں مبتلا کر رہے ہيں اور يوں آپ اس محبت اور عشق کو جو اس مشترکہ زندگي کا اصل سرمايہ ہے، کھو بيٹھيں گے۔
کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ مرد گھر ميں عورت کي مانند کام کرتا ہے۔ يہاں عورت حاکم ِمطلق ہوتي ہے اور مرد کو دستور ديتي ہے کہ فلا ں کام انجام دو اور فلاں کام کرو۔ مرد بھي دست بستہ جورو کا غلام بن جاتا ہے۔ لہٰذا ايسا مرد ہرگز اپني بيوي کي تکيہ گاہ نہيں بن سکتا درحالانکہ بيوي ايک مضبوط پناہ گاہ کو پسند کرتي ہے۔
کبھي يہ بھي ہوتا ہے کہ مرد کي طرف سے کچھ چيزيں عورت پر زبردستي تھونپي جاتي ہيں۔ فرض کريں کہ گھر کي تمام خريداري، کام کاج، ديگر تمام مسائل کو نمٹانا اور تمام تقاضہ مند افراد کو جواب دينا عورت کي ذمہ داري ہے، آخر کيوں؟ کيونکہ شوہر يہ کہتا ہے کہ ميں نوکري کرتا ہوں، تھک جاتا ہوں اور ميرے پاس وقت نہيں ہے۔ گويا وہ وقت نہ ہونے کے ڈنڈے سے گھر کو چلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ميں باہر کام کے لئے جاوں گا اور گھر کے سارے کام بيوي انجام دے گي۔ يعني تمام خشک، غير دلچسپ اور بھاري بھرکم کام عورت کے لئے ! البتہ ممکن ہے کہ مرد اس طرح چند روز کے لئے عورت کو سر گرم رکھے ليکن حقيقت ميں يہ کام اس کي طبيعت و مزاج سے ميل نہيں کھاتے۔