مغربي معاشروں ميں نوجوان اپني نوجواني کے پر نشاط زمانے کو بغير کسي قيد و شرط کے گزارتے ہيں، اپنے جلد بھڑکنے والے احساسات کے پيچھے دوڑتے اور اپني فطري و جبلّي خواہشات کو آزادانہ طور پر پورا کرتے ہيں ليکن جب وہ گھر تشکيل دينے اور رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے سن و سال کو پہنچتے ہيں تو ان کي ان فطري و جبلّي خواہشات اور طبيعي ميل کا بہت زيادہ حصہ (جو جواني کي آزاد فضا ميں خواہشات کي تکميل کے ذريعے اپنے حصے کا کام کر کے) ٹھنڈا ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ شوق، محبت اور عشق و الفت جو مياں بيوي کي روح ميں ايک دوسرے کے لئے موجود ہونا چاہيے، ان ميں نہيں ہوتا يا کم ہوتا ہے۔
بہت سے افراد اپني شادي کے زمانے کو اپني درمياني عمر ميں گزارتے ہيں کہ جو مغرب اور ان کي تہذيب و تمدن ميں ايک معمول ہے۔ ان کا يہ اقدام بھي ان کے اکثر فرضيوں اور فيصلوں کي مانند غلط، انساني مصلحت و فطرت کے خلاف ہے اور اس چيز سے جنم ليتا ہے کہ يہ لوگ شہوت پرستي، خواہشات نفس کي پيروي اور بے بند و باري کي طرف مائل ہيں۔ يہ لوگ چاہتے ہيں کہ اپني جواني کو خود ان کي اپني اصطلاح کے مطابق ہنسي خوشي گزاريں، اپني خواہشات کو جس طرح چاہيں سيراب کريں، خوب رنگ رنگيلياں اور مزے کريں اور جب ٹھنڈے اور تھک کر چور ہو جائيں اور (خدا کي طرف سے دي گئي) ان کي خواہشات کي (قدرتي) آتش خاموش ہو جائے تو اس وقت گھر بسانے کي فکر کريں۔ ملاحظہ کيجئے کہ يہ ہے مغرب ميں خانداني نظام زندگي۔ بہت زيادہ طلاقيں، ناکام شادياں، بے وفا مرد و عورت، جنسي آزادي کے نتيجے ميں ہونے والي بے شمار خامياں، برے نتائج اور غيرت و مروّت کي کمي يہ سب مظاہر مغربي معاشرے ميں زندگي کي عکاسي کرتے ہيں۔