رُوح کا ناسور
Email
0 ووٹ دیں 0.0 / 5
مقالے ›
اخلاق اوردعا ›
اخلاقی مقالے
شائع ہوا
2009-11-08 13:05:30
”اور جو خوش حالی اور کٹھنائی کے وقت میں بھی (خدا کی راہ پر) خرچ کرتے ہیں۔ اور غصّہ کو روکتے ہیں اور لوگوں (کی خطا) سے در گذرتے ہیں۔ اور نیکی کرنے والوں سے خدا الفت رکھتا ہے۔“ (قرآن حکیم کا فرمان، سورہ آل عمران، آیت نمبر ۴۳۱)
حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: ”غصّہ ہر طرح کی برائیوں اور گناہوں (کے دروازے) کی کنجی ہے۔“(الکلینی الکافی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۳، حدیث ۳)
رُوح کا ناسور: ﴿غَضَب﴾
حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا۔کہ ایک بدّو رسول خدا کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ریگستان میں رہتا ہوں۔ مجھے عقل اور دانش کی باتیں بتائیں۔ جواب میں جناب رسول اللہ نے فرمایا۔ ”میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ غصّہ نہ کیا کرنا۔“
اسی سوال کو ۳ دفعہ دہرانے اور رسول خدا سے ایک ہی جواب پانے پر بدّو نے اپنے دل میں کہا کہ اس کے بعد میں پیغمبر خدا سے اور کوئی سوال نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ نیکی کے علاوہ اور کسی چیز کا حکم نہیں دیں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کہتے تھے کہ میرے والد ماجد فرمایا کرتے تھے :
”کیا غضب سے بڑھ کر اور کوئی شدید شئے ہوسکتی ہے؟ ایک شخص کو غصّہ آجاتا ہے اور وہ کسی ایسے آدمی کا قتل کردیتا ہے۔ جس کا خون اللہ کی طرف سے حرام کردیا گیا ہے یا ایک شادی شدہ عورت پر تہمت اور الزام لگا بیٹھتا ہے۔“
(الکلینی الکافی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۳، حدیث ۴)
غصّہ و غضب کی حقیقت
غصّہ انسان کی ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو کہ اندرونی کشمکش اور انتقامی کاروائی کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور جب یہ کشمکش اور اندرونی ہیجان زیادہ شدید ہوجاتا ہے تو یہ آگ غیظ و غضب کو بڑھاوا دیتی ہے۔
ایک تند و شدید ہلچل دل و دماغ پر جاری ہوجاتی ہے۔ جس کی بنا پر آدمی اپنے دماغ اور جذبات پر قابو کھو بیٹھتا ہے اس طرح وہ بالکل بے بس ہوجاتا ہے۔ اس بے بسی کے وقت اندرونی طور پر ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک غار جس کے اندر آگ لگ چُکی ہے اور اس غار کے اندر شعلے اور گلا گھوٹنے والے جیسے دھویں سے بھر جاتا ہے۔ اور یہ شعلہ اور دھواں اس کے منہ سے باہر اُچھل کر شدید برہمی کے ساتھ خطرناک بھونکنے میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب یہ کیفیت کسی کی ہوجاتی ہے۔ اس کو سمجھانا اور شانت کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے اور اس کے من میں لگی آگ کو بجھانا دوسرے کے اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔ جو بھی طریقہ اس کو سمجھانے اور ٹھنڈا کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اس کی اس حالت کاایک حصّہ بن کر اس آگ کو اور بھڑکا دیتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص اس حالت میں ایک طرح سے اندھا اور بہرہ ہوجاتا اور اخلاق سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ اس حالت میں آپ کتنا ہی سمجھائیں، شریفنانہ برتاؤ اور نرمی برتیں، وہ اتنا ہی شدّد پکڑتا جاتا ہے۔ اور بھڑکتا ہی جاتا ہے۔ حتّٰی کہ یہ مغلوب الغضب شخص مار پیٹ پر اتر آتا ہے یا بدلے کی کاروائی کرنے لگتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ ”بیشک اس غصّے کو شیطان ملعون نے جنگاری دکھائی ہے۔ ابن آدم کے قلب میں۔“
(الکلینی، الکافی، جلد ۲، ص ۴۰۳، حدیث نمبر ۲۱)
غیظ و غضب کے تباہ کن اور غارت گر اثرات و نتائج
ایک شخص جو غصّے کے قبضے میں آچکا ہے۔ اس کے حرکات و سکنات غیر مناسب اور عقل سے عاری ہوجاتے ہیں اور پاگل اور دیوانے کی طرح حرکتیں کرنے لگتی ہے۔ جس کے افعال بے شرم اور اخلاق سے گرے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی زبان اعضاء اور جسم اس کے قابو میں نہیں رہتے ہیں۔
غصّہ ایک شخص کو بڑھاوا دیتا ہے کہ اللہ کے نبیوں کے خلاف گندی زبان نکالتا اور گالی گلوج کرسکتا ہے خدا کے پیغمبران اور ان کے اولیاء کے بھی خلاف اور یہی غصّہ محترم و مقدّس شخصیتوں کی دھجّیاں اڑا سکتا ہے کسی متقی اور زاہد کا قتل کرسکتا ہے ایک معصوم کے پرخچے اڑا سکتا ہے اللہ کی مخلوق کو برباد کرسکتا ہے۔ اور کسی کا پردہ فاش کرسکتا ہے۔ جس میں وہ ملبوس ہیں۔
ایک شخص غضب سے مغلوب ہوکر ظلم و ستم اور بتاہ کاریوں کی ساری حدیں پار کرلیتا ہے اس طرح وہ بہت سے لوگ بہت سے گھرانے اور سارے سماج کو ختم کرسکتا ہے۔
بد کرداری کے طور پر غصّہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طرف بغض و عناد پیدا کرتا ہے۔ جو کہ انبیاء اور اولیاء کے خلاف دشمنی پیدا کردیتا ہے بلکہ ایک قدم اور آگے جاکر خدانے رزاق کے خلاف دشمنیاں مول لے لیتا ہے۔ یہ غیظ و غضب دوسری بہت ساری بُرائیاں پیدا کردیتا ہے۔ حسد، اندرونی دشمنی اور بے قابو اور غیر عادلانہ انتقام پر اکساتا ہے۔
اس دنیائے فانی کا غصّہ ایسا ہی ہے جیسا آخرت کی بھڑکائی ہوئی خدائی جہنم کی آگ۔ یہ آگ جیسے دل کی گہرائی سے نکل کر باہر آتی ہے۔ اس آگ کی حقیقت بھڑکتے شعلے بیرونی اعضاء مثل آنکھ ، کان اور زبان سے ظاہر ہوتے ہیں۔
غصّہ جو ایک شخص کی مستقل عادتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ ایک بہت ہی بتاہ کن چیز ہے یہ انسان کے قلب کو سست اور مردہ بنا دیتا ہے۔ اور اس کے عقل و دانش پر اثر انداز تصور اس دنیا میں نا ممکن ہے۔ وہ ایسا ظالم اور خوفناک قالب بن جائے گا جس کی مثال دینا کے خطرناک سے خطرناک درندے سے نہیں کی جاسکتی ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
اللہ کی کتاب توریت میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی‘ میں خدائے قدیر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا اور تاکید کی ہے کہ خبردار، اے موسیٰ(علیہ السلام) اپنے غصّہ پر قابو رکھو اور ان لوگوں پر غضب نہ ڈھاؤ جن کو تمہارے قابو میں دیا گیا ہے۔ تاکہ میں تم کو اپنے قہر سے باز رکھوں۔“
(الکلینی، الکافی، جلد۲، صفحہ ۲۰۳، حدیثنمبر ۷)
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا:
’اپنے آپ کو غصّہ سے بچاؤ اس لئے کہ اس کی ابتداء دیوانگی ہے اور انتہا اس کی ندامت اور پشیمانی۔‘
غصّہ پر قابو پانے کا وصف
ایک بہادر حوصلہ مند شخص کا برتاؤ اس کی دانش مندی اور روح کی پاکیزگی پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ غصہ کرتا بھی ہے تو مناسب موقع محل پر اور عام طور پر صابر اور اپنے اوپر قابو رکھنے والا رہتا ہے۔ اس کا غصّہ ایک مناسب حد تک ہوتا ہے۔ اور اگر کبھی انتقامی کاروائی پر اترتا ہے تو معقول دلیل اور سمجھ بوجھ کر۔
وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ کس کو معاف کیا جاسکتا ہے ایک حقیقی مؤمن کا غصّہ بھی اللہ ہی کے لئے ہوتا ہے۔ غصّہ کے عالم میں وہ اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور کبھی ظلم نہیں کرتا۔ وہ نہ تو کبھی رکیک جملے زیان سے نکالتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی بد اخلاقی اپنے عمل میں ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ہر فعل معقول عادلانہ اور روحانی قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ ایسا کام کبھی نہیں کرتا کہ بعد میں اس کو پشیمانی اور شرمندگی ہو۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ
”بہترین طاقت ور اور قوی وہ شخص ہے جو اپنے غصّے پر صبر و سکون سے قابو رکھتا ہی اور اسے دبا دیتا ہے۔“
(الریشاہری، میزان الحکمہ، حدیث نمبر ۷۲۰۵۱)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: ”اگر کوئی شخص اپنے غصّے پر کسی کے خلاف قابو پالیتا ہے تو اللہ اس کے اعمال کو قبول اور رازوں کو چھپا دیتا ہے۔“ (المجلسی ، بہار الانوار جلد ۳۷، صفحہ ۴۶۲، حدیث ۱۱)
جب غصّہ پر مشتعل کیا جائے
جب غصّہ کو بڑھاوا دیا جائے تو اس کا ایک علاج یہ ہوسکتا ہے کہ اس پر قابو پالیا جائے۔ جب کہ غصّے کی شروعات ہو اور آدمی ابھی عقل سلیم کی اندررہی ہو۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ: ”جب کسی کو کسی پر غصّہ آگیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اگر کھڑا ہے۔ بے شک اگر وہ ایسا کرے گا تو شیطان کے وسوسوں سے اور اس کی گندگیوں سے دور رہے گا۔ اور جب کوئی اپنے کنبہ کے افراد پر غصّہ کرے تو اسے چاہئیے کہ خاندان کے اس فرد کے جسم کو چھوئے اس لئے کہ ایسا کرنے سے اپنے خونی رشتہ اور خاندانی لگاؤ کی بنا پر اس کے ہیجان میں کمی آجائے گی اور غصّہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور وہ پر سکون ہوجائے گا۔“(الکلینی، الکافی، جلد۲، صفحہ ۲۰۳،حدیث نمبر۳)
جب غصّہ کو مشتعل کیا جائے
امیر المؤمنین حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ”اگر کسی شخص کو غصّہ آجائے تو اسے فوراً زمین پر بیٹھ جانا چاہئیے کچھ لمحوں کے لئے ۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سے شیطان وسوسوں سے نجات پا جاتا اس وقت۔“
(البریشہری، میزان الحکمہ، حدیث ۹۵۰۵۱)
غصّہ کے علاج کے لئے چند نصائح
ایسے شخص کو معلوم ہونا چاہئیے جسے غصّہ آجاتا ہے کہ یہ صفت اللہ کی ایک دین ہے اپنے بندوں پر۔ تاکہ وہ حفاظت کرسکے۔ اپنی اور بندگان خدا کی کنبہ میں ایک نظام قائم رکھا جاسکے اور نسلِانسانی کا تسلسل باقی رہے۔ حقوق انسانی اور خدائی قانون کی بقا اور حفاظت ہوسکے۔
لیکن یہی شخص جو خدا کے دین کے اس مقصد کو بھلا کر اپنے آپ کو غصّہ کے قابو میں دے دیتا ہے اور خدائی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ اعتماد کو ٹھیس پہونچاتا ہے۔ اس طرح وہ خدا کے عتاب کا اپنے آپ کو مستحق بنا لیتا ہے۔ انسان کا یہ عمل اللہ کے حکم کے خلاف ہے اور جہالت سے بھر پور اورانصاف کے خلاف ہے۔ جس کے لئے اللہ کی ناراضگی اور سزا کا مستحق بنائے گا۔
اس لئے اس شخص کو غصّہ کی بُرائیاں، اخلاق سے گرے ہوئے عمل کے نتائج پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ اور اس کے خراب اور بُرے نتائج سے گو خلاصی کرنا ہے۔ ہر ایک نتیجے کا اثر اسے ہمیشہ ہمیشہ بھگتنا پڑے گا۔ جس کی سزا نہ صرف اس دنیا میں بلکہ قیامت میں بھی نہ چھوڑے گی۔
غصّہ کا بنیادی علاج توبہ ہے کہ غصّہ کو اشتعال دینے والی چیزیں کو ہی ختم کردینا چاہئیے۔اوراسے قبول نہ کرنا چاہئیے۔ غصہ کو مشتعل کرنے والی چیزوں میں اپنی ذات سے محبت جس کی بنا پر اپنی طاقت جتانا اور لاگو کرنا ہوجاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ غصّہ کی آگ کو بھڑکانا ہے۔ اس لئے کہ جو ان چیزوں پر فریفتہ ہے۔ ان پرکافی دھیان دیتا ہے۔ اور اس کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص ان چیزوں سے کچھ نہیں پاتا ہے تو وہ بے چین ہوجاتا ہے اور بے حد غصّہ میں آجاتا ہے۔
ایک اور چیز غصّہ کو بھڑکا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس کو ایک وصف سمجھتا رہتا ہے اور اپنی لاعلمی کی بنا پر اس کو ایک بہادری سمجھ لیتاہے۔ اس طرح غصّہ آدمی کی روحانی کمزوری، ناکافی اور ضعیف ایمان، گستاخ کردار کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
عقلمند اور دانشور شخص غصّے کے بُرے اثرات کو اچھی طرح احتیاط کے ساتھ سوچتا ہے اور یہ کہ اس کے روکنے سے کیا فوائد ہیں۔ اس لئے اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے کہ کسی طرح بھی غصّہ کی آگ کا گولہ ہر صورت سے دل کے بارہ نکال دے۔ وہ اپنے دل سے دولت کا لالچ، جھوٹی عزت اور وقار جو غصّہ کو بڑھاوا دیتا ہے، نکال دے۔
اگر وہ اپنے دل کے اندر پیدا ہونے والے ہیجان اور ان اندرونی جذبات‘ دنیاوی خواہشات کے خلاف فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ کے کرم اور تائید ایزدی سے ان نیچ اور دنیاوی رغبت سے چھٹکارا پالیتا ہے۔ اور اس طرف سے اس کا دھیان کم ہونے لگتا ہے۔
اور اس کا یہ وصف کہ دنیاوی لالچ دولت کی ہوس وغیرہ سے اس کے اندرونی سکون اور بے نیازی۔ اس کی ذات کو بے انصافی اور غلط راہ روی سے باز رکھے گا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے اوپر قابو رکھے گا جب کبھی اس پر غصّہ غالب آجائے اور کسی وجہ سے اس کے دل میں اشتعال پیدا ہوجائے۔ ”آخر کار وہ غصّہ پر کامل قابو پالیتا ہے۔“(الخمینی سے حاصل، چالیس حدیث، باب ۷، غضب)
الحاصل
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا:
”ایک مؤمن کی پہچان یہ ہے کہ جب کبھی اسے غصّہ آجاتا ہے تو یہ غضب اس کو حق کے راستے سے ہٹنے نہیں دے سکتا ہے۔“
(الکلینی، الکافی، جلد ۲، صفحہ ۶۸۱، حدیث ۱۱)