حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبد اللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
مستدرك سفينه البحار (علي نمازي)، ج 5، ص 388
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جو کہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ـ
أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علي مشكور)، ص 126؛ مقاتل الطالبيين (ابوالفرج اصفهاني)، ص 52
اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوئے تھے۔
والد کیطرف سے طایفہ بنی ہاشم سے کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ہمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے۔ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلیے کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلیے سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ہاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے۔
مقاتل الطالبيين، ص 52؛
منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 373 و ص 464
حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا تھا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المؤمنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے۔
منتهي الآمال، ج1، ص 373
ابو الفرج اصفہانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (ص) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوئے ہیں۔
مقاتل الطالبيين، ص 53
اس قول کے مطابق شہادت کے وقت آپ 25 سال کے تھے۔
حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کر کے رشد و کمال حاصل کر لیا۔
امام حسین (ع) نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے بھرپور کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خود کو روک نہ پاتا تھا۔
بہر حال ، حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی۔
منتهي الآمال، ج1، ص 373
الارشاد (شيخ مفيد)، ص 459
قابل ذکر ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنے کے باوجود عاشور کے دن یزید کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنے نسب کا بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ہاشمی ہونے اور اہل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوئے یوں رجز خوانی کرتے تھے :
أنا عَلي بن الحسين بن عَلي نحن و بيت الله اَولي بِالنبيّ
أضرِبكُم بِالسّيف حتّي يَنثني ضَربَ غُلامٍ هاشميّ عَلَويّ
وَلا يَزالُ الْيَومَ اَحْمي عَن أبي تَاللهِ لا يَحكُمُ فينا ابنُ الدّعي
عاشور کے دن بنی ہاشم کا پہلا شہید حضرت علی اکبر (ع) تھے اور زیارت معروفہ شہداء میں بھی آیا ہے :
السَّلامُ عليكَ يا اوّل قتيلٍ مِن نَسل خَيْر سليل.
منتهي الآمال، ج1، ص 375
حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ہلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سر مبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آيا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کر کے شہید کر دیا۔
امام حسین (ع) انکی شہادت پر بہت متاثر ہوئے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روئے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا:
عَلَي الدّنيا بعدك العفا.
منتهي الآمال، ج1، ص 375
شہادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے۔
الارشاد، ص 458 منتهي الآمال، ج1، ص 375
مگر یہ کہ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے:
کان لی اخ یقال لہ علی ، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ
میرے ایک بڑے بھائی تھے، جنکا نام علی تھا کہ جنکو لوگوں ( شامیوں ) نے قتل کر دیا تھا۔
نسب قريش (مصعب بن عبدالله زبيري)، ص 85، الطبقات الكبري (محمد بن سعد زهري)، ج5، ص 211
تاریخ ولادت میں اختلاف ہونے کی وجہ سے شہادت کے وقت آپ کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ آپ شہادت کے وقت 18 سال کے تھے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ 25 سال بھی آپ کی عمر بتائی گئی ہے۔
شیخ مفید نے اپ کی عمر مبارک 19 سال بیان کی ہے۔
علامہ مقرم لکھتے ہیں کہ آپ کربلا میں شہادت کے وقت 27 سال کے تھے۔
لیکن مشہور یہ ہے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام امام سجاد علیہ السلام سے بڑے تھے بہت سے مورخین نے آپ کا لقب الاکبر بیان کیا ہے۔ لیکن شیخ طوسی نے آپ کا لقب الاصغر بیان فرمایا ہے اور آپ کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔
آپ کی کنیت ابو الحسن ہے اور محدث قمی کے بقول بعض روایات اور زیارت ناموں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ شادی شدہ تھے اور کچھ اولاد بھی رکھتے تھے۔
علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیہم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کیا کرتے تھے۔
آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:
سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست، ۔۔۔کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔
جیسا کہ اس [خدا] نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔
علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم بہ قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع [انا للہ و انا الیہ راجعون] جاری تھا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:
جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔
مشہور ہے کہ بنی ہاشم میں سے پہلے میدان کارزار میں جانے والے جناب علی اکبر ہیں۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا:
بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کیا کرتے تھے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی اور فرمایا: پروردگارا زمین کی برکات ان سے چھین لے اور ان کی چند روزہ زندگی میں ان کے درمیان تفرقہ پیدا کر دے اور ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی جان پر ڈال دے۔ اور ان حکمرانوں کو ان سے راضی نہ کر۔ اس لیے کہ اس گروہ نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری نصرت کریں لیکن ہمارے مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے۔ جس طریقے سے تم نے ہمارے ساتھ رشتہ کو کاٹا ہے۔ اور ہمارے رسول خدا [ص] کے ساتھ رشتہ کی رعایت نہیں کی۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ* ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ ایسی ذریت ہے جو بعض کی نسل میں سے بعض ہیں۔ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔"
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے تاریخ خاموش ہے کہ جناب علی اکبر بیبیوں سے کیسے رخصت ہوئے مگر میرا تصور یہ کہتا ہے کہ ایک کڑیل جوان کو مقتل میں جانے کے لیے ماؤں بہنوں نے کیسے رخصت کیا ہو گا؟ جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ جناب لیلی نے بیٹے کی رخصتی کے وقت کیسے اسے باہوں میں لیا ہو گا اور کیسے بین کیے ہوں گے۔ بہن سکینہ نے بھائی کو قتلگاہ بھیجتے ہوئے کیسے الوداع کیا ہو گا؟ یہ ایسا منظر ہے جسے الفاظ کے قالب میں بند نہیں کیا جا سکتا ہر باپ ماں اور بہن اس کا بخوبی تصور کر سکتے ہیں اور اپنے احساسات کے دائرے میں اس کی منظر کشی کر سکتے ہیں۔
آخر کار جناب علی اکبر علیہ السلام خیموں سے رخصت ہوئے اور میدان کارزار میں روانہ ہوئے اس حال میں کہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى
اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى عَنْ ابى
ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى
میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔
اس قدر نیزے سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ ٹیرا ہو جائے اور اس قدر تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تا کہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔
ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہم پر حکومت نہیں کر سکتے۔
آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔
نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کیے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تا کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔
امام علیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا: بیٹا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، علی علیہ السلام اور تمہارے بابا پر بہت سخت ہے کہ آپ پکاریں اور ہم جواب نہ دے سکیں۔ آپ مدد چاہیں اور ہم مدد نہ کر سکیں۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو، کہا: بابا اس میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں، فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔
جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں۔
آپ نے سخت اور لاجواب جنگ کی اور 80 شامی یزیدیوں کو مزید ہلاک کر دیا اور آخر کار منقذ بن مرّہ عبدی کی کڑی ضربت کار آمد ثابت ہوئی دشمنوں نے اطراف میں حلقہ ڈال دیا اور تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
بعض روایات میں ہے کہ ضربت کھانے کے بعد آپ نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈالا اور گھوڑا وحشت کا مارا ہوا آپ کو دشمن کے لشکر کی طرف لے گیا اور انہوں نے اپنی تلواروں سے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہوا کہا: بابا جان یہ جد امجد رسول خدا [ص] ہیں جو جام کوثر لیے کھڑے ہیں کہ اس کے بعد اب مجھے پیاس نہیں لگے گی، اور کہا: بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے آپ کا جام بھی آپ کے انتظار میں ہے۔
آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور جناب علی اکبر کے بدن کے کنارے بیٹھ گئے اپنا چہرہ آپ کے چہرے پر رکھا اور کہا: خدا نابود کرے اس قوم کو جس نے آپ کو قتل کیا ہے۔ کس چیز نے حرمت خدا اور پیغمبر کو توڑنے کی جرات دی ؟ اے بیٹا اب آپ کے بعد اف ہو اس دنیا پر۔
روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین، اے میرے بھتیجے" اور اس ٹکڑے ٹکڑے بدن پر اپنے آپ کو گرا دیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن کو واپس خیموں میں لوٹا دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے بنی ہاشم کے جوانوں کو بلایا اور فرمایا: علی اکبر کے بدن کو خیموں کی طرف لے چلو۔
اس سلسلے میں کہ جناب علی اکبر کی ماں جناب لیلی کربلا میں موجود تھیں یا نہیں تاریخ کی مشہور کتابوں میں اسکا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ صرف صاحب " ذخیرۃ الدارین" نے لکھا ہے کہ علی اکبر علیہ السلام کی ماں روز عاشور کو ان کے لیے دعا کر رہی تھیں۔
کتاب روضۃ الشہداء کی عبارتوں میں بھی یہ ملتا ہے کہ آپ کی والدہ کربلا میں موجود تھیں۔
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق جناب علی اکبر علیہ السلام کی قبر امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پائینتی طرف ہے۔
زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کا ایک جملہ یہ ہے:
«السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ مِنْ سُلالَةِ ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام»
سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے،
طلوع ستارہ کہکشاں حسینی:
رسول اکرم کی مولا حسین علیہ السلام کے ساتھ محبت زبان زد عام و خاص ہے۔ مشہور و معروف حدیث نبوی ہے:
'حسین منی و انا من الحسین‘
یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن ہی سے آغوش رسالت سے اس قدر مانوس تھے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
'حسین رسول خدا کی زندگی میں انہیں بابا کہہ کر پکارتے تھے اور مجھے ابا الحسن کہتے تھے۔ جب رسول خدا ظاہراً اس دنیا کو چھوڑ گئے تو پھر مجھے بابا کہنے لگے‘،
موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام ص 40
فراق جد میں نواسۂ رسول بہت مغموم و محزون رہا کرتے تھے کہ خداوند حکیم نے نواسۂ رسول کے گھر شبیہ رسول کو بھیج کر پھر سے وہ یادیں تازہ فرما دیں۔ کہکشاں حسینی کا یہ عظیم ستارہ شعبان المعظم کی 11 تاریخ کو صحن حسینی میں طلوع ہوا البتہ تاریخ میں سال ِطلوع کے بارے میں اختلاف ہے، مشہور قول کے مطابق سال طلوع 43 ہجری ہے۔
فضائل ،مصائب و کرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام ص31،خورشید جوانان ص 20
والد بزرگوار:
شہزادے کے والد بزرگوار محسن اسلام حضرت امام حسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں جن کے بھائی امام حسن مجتبی و ابو الفضل العباس علیہما السلام۔۔۔، ہمشیرہ جناب عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا، جن کی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور نانا بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ہیں۔ المختصر یہ خاندان فضائل و مناقب کا سر چشمہ تھا۔
والدہ ماجدہ:
شہزادے کی والدہ ماجدہ حضرت لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ آپ کے نانا عروہ بن مسعود ثقفی قریش میں عظیم المرتبت شخصیت تھے وہ قریش مکہ کی طرف سے حضرت پیغمبر اکرم کی خدمت میں صلح نامہ حدیبیہ کی موافقت کے لیے بھیجے گئے۔ عروہ اہل طائف تھے اور انہوں نے 9 ھ میں اسلام قبول کیا پھر اپنی قوم کی ہدایت اور دین اسلام کی تبلیغ کے لیے ان کی طرف گئے لیکن اسی قوم کے ہاتھوں نماز سے پہلے اذان کہتے ہوتے تیر ستم سے مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ پیغمبر خدا ان کی شہادت پر بہت افسردہ ہوئے اور اس شہید کے بارے میں فرمایا:
لیس مثلہ فی قومہ الا کمثل صاحب یاسین فی قومہ،
یعنی عروہ صاحب یاسین کی مثل ہیں جو اپنی قوم کے لیے ہدایت کا فریضہ انجام دیتے تھے، اور اسی راہ میں شہید ہوئے۔
خورشید جوانان ص32 از اصابہ ج 4ص 177
ابن جزری نے اسد الغابہ میں بروایت ابن عباس جناب رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
اربعۃ سادۃ فی الاسلام بشر بن ھلال العبدی وعدی بن حاتم و سراقہ بن مالک المدنجحی و عروہ بن مسعود ثقفی
اسلام میں چار سردار ہیں بشر بن ہلال العبدی، عدی بن حاتم، سراقہ بن مالک المدنجحی اور عروہ بن مسعود ثقفی،
سن مبارک:
شہزادے کے سال ولادت میں اختلاف کی وجہ سے سن مبارک میں بھی اختلاف ہے اور یہ اختلاف تاریخ و مؤرخین کے اس باب میں شدت ضعف پر دلیل ہے کیونکہ اس بارے میں متعلقہ کتب میں اقوال عجیب و غریب ہیں۔ ان مختلف اور متعدد اقوال کی وجہ سے انسان حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا ہے لیکن کچھ تحقیق اور دقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اختلاف دو تین اقوال میں ہے بہرحال بحمد اللہ قول مشہور ہمیں اس تعدد و کثرت سے وحدت پر لاتا ہے یہ قول دلالت کرتا ہے کہ شہزادۂ کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک 61 ہجری کربلا میں 18 برس کا تھا۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے سن مبارک میں مشہور قول درست ہے اور ظاہراً تمام اسلامی ممالک میں بھی یہی قول شہرت کا حامل ہے بالخصوص برصغیر میں جناب علی اکبر علیہ السلام (نثر و نظم میں) مشہور و معروف قول یہی ہے۔ مقتل کی تمام کتب میں موجود ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند دلبند کو میدان کی طرف روانہ کرنے لگے تو بارگاہ خدا میں یوں گویا ہوئے:
اللھم اشھد علی ھؤلاء القوم فقد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقا و خلقا و منطقا برسولک صلی اللہ علیہ وآلہ۔۔۔۔۔ '
بارالہٰا! گواہ رہنا اس قوم ستمگر سے جنگ کرنے کے لیے ایسا جوان جا رہا ہے جو خلقت و اطوار،رفتار و گفتار میں تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسول کے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
سحاب رحمت ص 458
لسان امامت سے ادا کیا ہوا لفظِ مبارک غلام یعنی جوان، نوخیز، اسی مطلب پر دلالت کر رہا ہے کہ شہزادہ سن کے اعتبار سے ابھی سنِ جوانی سے متجاوز نہیں ہوا تھا، جہاں تک تأویلات و توجیہات کا تعلق ہے تو اصل کلام اور اول کلام کو حقیقت پر ہی حمل کیا جاتا ہے اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں کہ حقیقت کی بجائے مجاز کی نوبت آئے لہٰذا غلام سے مراد یہی تازہ جوان ہی ہے جو کہ اقوال میں سے 18 سال سن کے ساتھ زیادہ موافقت و مطابقت رکھتا ہے۔ بزرگ محقق علماء جیسے شیخ مفید، شیخ طوسی و سید ابن طاؤوس (رح) نے اپنے اپنے آثار میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک کربلا میں اٹھارہ سال قلمبند فرمایا ہے۔
خورشید جوانان ص 29
مؤلف خورشید جوانان نے اس قول کے قبول کرنے کو تاریخی احتیاط سے تعبیر کیا ہے اگرچہ ان کے اپنے دلائل کا ماحصل اس قول کے خلاف ہے لیکن اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ بزرگ و محقق شخصیات نے جس قول کو اختیار کیا ہے تو یقیناً ایسے بزرگان علم کے دلائل پختہ اور قوی تر ہوں گے کہ انہوں نے 18 سال والا قول اختیار کیا ہے لہٰذا احتیاط تاریخی اس امر کی مقتضی ہے کہ ان کے قول کی مخالفت نہ کی جائے اور اسی مشہور قول کو قبول کر لیا جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان بزرگان کے پاس موجود دلائل ہمارے قیل و قال سے مافوق ہوں۔ اس محقق مؤلف نے اس بحث کے آخر میں اضافہ کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ لقب اکبر چھوٹے شہزادے علی اصغر علیہ السلام کے لقب اصغر سے قیاس کرتے ہوئے ملا ہو۔
خورشید جوانان ص 30
محقق تفریشی نے بھی اپنے استدلال میں سابق الذکر بزرگان کے قول کی تائید کی ہے لہٰذا ان کے نزدیک بھی شہزادے کا سن مبارک 18 سال ہے۔
خورشید جوانان ص 28
اس قول کی تائید میں کتاب مستطاب ثمرات الاعواد کے مؤلف بزرگوار یوں لکھتے ہیں کہ:
حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنی جدہ مظلومہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ اس لحاظ سے شباہت رکھتے ہیں کہ ان دونوں کی عمریں کم تھیں اور دونوں ہی اٹھارہ سال کی عمر میں شہادت کی سعادت پر فائز ہوئے۔
ثمرات الاعواد ص 228
حضرت امام حسین علیہ السلام کے کلمات و ارشادات پر مبنی کتاب موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام میں شہادت اہل البیت علیہم السلام کے تحت بحث کی ابتدا میں اعیان الشیعہ سے منقول قول میں بھی شہزادے کے 18 سال والے قول کو ٹھکرایا نہیں گیا بلکہ ان کے مطابق حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک 18 سال، 19 سال یا 25 سال ہے اور وہ آل ابو طالب کے پہلے شہید ہیں۔
موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
کتاب شریف مصابیح الہدیٰ میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک 19 سال نقل ہوا ہے اسی کتاب اور نیز تمام کتب مقاتل میں شہزادے کے مبارز طلبی کے اشعار موجود و محفوظ ہیں۔ شہزادے نے جب پہلی مرتبہ قوم اشقیاء پر حملہ کیا تو شہزادے کا رجز یہ تھا:
أناعلی بن الحسین بن علی
نحن و بیت اللہ اولیٰ بالنبی
تاللہ لا یحکم فینا ابن الدعی
اضرب بالسیف أحامی عن أب
ضرب غلام ھاشمی قرشی
مصابیح الہدیٰ ص 216
یہاں ہماری شاہد بحث شہزادے کے رجز کا آخری مصرعہ ہے جس میں خود فرمارہے ہیں کہ ‘‘میری ضرب، ہاشمی قرشی جوان کی ضرب ہے اس کلمہ غلام سے بھی شہزادے کا جوان سال ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
میدان کربلا میں بروز عاشورہ امام حسین علیہ السلام سے ان کے کڑیل جوان بیٹے نے اذن جہاد مانگا تو مولا نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اجازت دی اور لسان عصمت و طہارت سے یہ الفاظ جاری ہوئے :
وكان من اصبح الناس وجها واحسنهم خلقا فارخى عينيه بالدموع واطرق ثم قال: اللهم اشهدانه قد برز اليهم غلام اشبه الناس خلقا وخلقا ومنطقا برسولك، وكنا اذا اشتقنا إلى نبيك نظرنا اليه،
'خداوندا! گواہ رہنا، ان کی طرف ایسا جوان جا رہا ہے جو خلق ،خلق اور منطق میں تمام لوگوں میں سے تیرے رسول سے زیادہ شباہت رکھتا ہے، ہمیں جب بھی تیرے نبی کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تو ہم اس جوان کو دیکھ لیتے تھے۔
سوگنامہ کربلا متن لھوف سید ابن طاووس ص 207
شباہت ایسی چیز ہے کہ جس کی موجودگی میں دیکھنے والے کو مشبّہ پر مشبہ بہ کا گمان ہونے لگتا ہے اب یہ وجہ شباہت جس قدر زیادہ ہو گی اتنا ہی یہ منظر شدید اور واقعی لگے گا، پھر جب شباہت کا یہ عالم ہو کہ ایک معصوم امام جناب حسین علیہ السلام کو اپنے نانا کی یاد ستائے اور اس تشنگی کو زیارت علی اکبر علیہ السلام سے سیراب فرمائیں تو اندازہ کیجیئے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم سے کس قدر شباہت رکھتے تھے۔ امام کے فرمان کے مطابق شہزادہ حبیب خدا سے تین قسم کی شباہتیں رکھتے تھے۔ خلقی، خُلقی، منطقی
1- شباہت خلقی سے مراد قد و قامت اور صورتاً مشابہ ہونا ہے۔ جناب علی اکبر علیہ السلا مقد و قامت اور شکل و صورت میں رسولِ خدا کے ساتھ شباہت رکھتے تھے۔ معروف ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جب مدینے کی گلیوں میں نکلتے تھے تو لوگ فقط ان کے دیدار کی خاطر جمع ہو جاتے تھے۔ جناب علی اکبر اس قدر خوبرو تھے کہ ان کو دیکھ کر زمانے کو رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
زائر رسول کا بیہوش ہونا:
جناب علی اکبر علیہ السلام کے زمانے میں ایک عرب شخص حبیب خدا کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔ اسی اشتیاق میں گریہ کناں رہتا تھا۔ اسے بتلایا گیا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگرچہ رسولِ خدا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن شہزادہ حسینی جناب علی اکبر علیہ السلام ہوبہو شکل و صورت میں پیغمبر لگتے ہیں۔ جاؤ جا کر مدینہ میں شہزادے کی زیارت کر لو، رسولِ خدا کی زیارت ہو جائے گی۔
وہ عرب شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، ماجرا عرض کیا۔ مولا امام حسین علیہ السلام نے شہزادے کو آواز دی جناب علی اکبر تشریف لائے، جب بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو اس عرب شخص نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو دیکھا تو اسے ایسا محسوس کیا کہ میں رسول معظم کی زیارت کر رہا ہوں اور تاب نہ لاتے ہوئے وہ عرب بے ہوش ہو گیا۔
فضائل ، مصائب و کرامات حضرت علی اکبر (ع) تألیف عباس عزیزی ص 34
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے اس سے پہلے رسول اکرم کی زیارت کی ہوئی تھی۔
2- شباہت خُلقی سے مراد یہ کہ کسی سے اخلاق میں مشابہ ہونا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی نسبت ایک معصوم امام کی زبانی خلق عظیم کے مالک سے دی جا رہی ہے اور رسول معظم کے اخلاق کی اوج کی تصدیق ذات کردگار کے کلام سے ہوتی ہے۔
انک لعلیٰ خُلق عظیم،
آپ بے شک عظیم اخلاق کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں،
سورہ قلم آیت 4
اسی خلق وخو کی ہوبہو عکاسی آپ کو جناب علی اکبر علیہ السلام کے اخلاق میں ملے گی۔ اس عظیم اخلاق کی جھلک شہزادے میں اس قدر نمایاں تھی کہ شہزادے کے سلام کرنے سے لوگوں کو پیغمبر کا سلام کرنا یاد آ جاتا تھا۔ غرباء و فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے رفتار نبوی کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ کتب تاریخ میں موجود ہے کہ ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے مدینہ میں غریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں ہر روز و شب کھانے کھلانے کا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ شہزادہ کرم کے دستر خوان سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
خورشید جوانان ص 41
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس وجود نازنین کو وداع کے وقت بارگاہ احدیت میں راز و نیاز اور اور مناجات میں اس انداز سے پیش کیں کہ اے پروردگار ! تیرے حبیب کا سا اخلاق رکھنے والا یہ جوان تیرے دین کی حفاظت کے لیے اس بدبخت قوم کے سامنے بھیج رہا ہوں لیکن اس صورت و سیرت پیغمبر کے آئینہ دار شہزادے کو دیکھ کر بھی ان کی قساوت و شقاوت میں کمی نہیں آ رہی۔
3- شباہت منطقی سے مراد گفتار میں کسی کے مشابہ ہونا۔ لسانِ عصمت میں منطق علی اکبر علیہ السلام کو منطق رسول خدا سے تعبیر فرمایا گیا اور قرآن کریم منطق نبوی کے بارے میں یوں گویا ہے:
وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ
یعنی رسول خدا ہوا و ہوس سے کوئی کلام نہیں کرتے ان کا کلام تو صرف وحی الہٰی ہوتا ہے،
موسوعۃ کلمات امام الحسین علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام کو جب بھی اپنے نانا کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبر علیہ السلام سے کہتے کہ بیٹا اذان و اقامت کہو اور پھر راز و نیاز اور عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے 10 محرم الحرام کی صبح کو بھی جناب علی اکبر علیہ السلام سے اذان دلوائی گئی تا کہ لہجہ رسول سن کر شاید ان قسی اور شقی لوگوں کے دلوں پہ اثر پڑے لیکن۔۔۔۔!!!
کردار و رفتار و گفتار میں جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم کے اتنے مشابہ تھے کہ ان کو دیکھ کر لوگ رسول اکرم کو یاد کرتے تھے۔
معاویہ کی زبانی جناب علی اکبر علیہ السلام کی تعریف و تمجید:
ابو الفرج اصفہانی مغیرہ سے روایت کرتا ہے ایک دن معاویہ نے اپنے ہم درباریوں سے پوچھا من احق بھذا الامر؟ تم لوگوں کے نزدیک اس خلافت کا حق دار کون ہے ؟ سب نے کہا! انت۔ ہمارے نزدیک اس منصب کے لائق صرف آپ ہیں، معاویہ کہنے لگا، لا، اس طرح نہیں ہے جس طرح تم لوگ سوچتے ہو بلکہ:
اولی الناس بهذا الامر علی بن الحسین بن علی جده رسول الله و فیه شجاعه بنی هاشم و سخاه بنی امیه و زهو ثقیف.
اس منصب کےسب سے زیادہ سزاوار علی بن حسین ہیں جن کے جد رسول خدا ہیں جنہوں نے شجاعت و دلیری بنی ہاشم سے ، سخاوت بنی امیہ سے اور زیبائی اور فخر و مباہات ثقیف سے پائی ہے۔
حیاۃ الامام الحسین،ج 3،ص 245
شہزادہ علی اکبر علیہ السلام کے کمال ایمان و ایقان کا ایک واقعہ:
جناب علی اکبر علیہ السلام کا سینہ معرفت خداوندی سے پر تھا جس نے جنت کے سرداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کی تو ایسی ہستی کا علم و ایقان بھی اوج ثریا پہ ہو گا آپ کی دینی و سیاسی بصیرت کا علم سفر کربلا سے عیاں ہوتا ہے، جیسا کہ سفر کربلا میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی منزل قصر بنی مقاتل پر آنکھ لگ گئی جیسے ہی آپ نیند سے بیدار ہوئے تو فوراً کلمہ استر جاع انا لله و انا الیه راجعون پڑھا ۔ آپ نے تین مرتبہ اس جملے کو دوہرایا اور خداوند متعال کی حمد کی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے آپ سے کلمہ استرجاع کی وجہ پوچھی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا! میں نے خواب میں ایک گھوڑا سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ موت کی جانب رواں دواں ہے۔ اس پر شہزادے نے پوچھا : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ہم حق پر ہیں۔ تو شہزادے نے فرمایا :
فاننا اذن لا نبالى ان نموت محقین پھر ہمیں موت کی کیا پرواہ ہے؟ شہزادے کا یہ مخلصانہ جواب سن کر سید الشہداء نے ان کو دعائے خیر دی:
جزاک اللہ من ولد خیر ما جزی ولداً عن والدہ،
بحار الأنوار،ج 45،ص 43
نفس المہموم ص 108
شجاعت شہزادہ علی اکبر علیہ السلام:
جناب علی اکبر علیہ السلام فرزند علی علیہ السلام کے پروردہ تھے آپ کو شجاعت اپنے دادا مولا علی مر تضیٰ علیہ السلام شیر خدا سے ورثے میں ملی تھی۔
علامہ مجلسی نقل فرماتے ہیں: بروز عاشورہ آپ جس طرف رخ فرماتے لو گوں کو خاک ہلاکت میں ملاتے جاتے تھے۔
فلم یزل یقاتل حتّٰی ضجّ النّاس من کثرۃ مَن قتل منھم و روی اَنّہ قتل علی عطشہ ماۃوعشرین رجلاً ثم رجع الی ابیہ فلم یزل یقاتل حتٰی قتل تمام الماتین
آپ نے اسقدر شجاعت علوی کا مظاہرہ کیا کہ مقتولین کی کثرت پر لوگ گریہ و شیون کرنے لگے اور روایت میں ہے کہ علی اکبر نے پیاس کی شدت کے باوجود ایک سو بیس افراد کو تہ تیغ کیا۔ پیاس کی وجہ سے آپ والد گرامی کی طرف گئے پھر دوبارہ میدان میں اترے اور اس قدر جنگ کی کہ مرنے والوں کی تعداد دو سو تک پہنچ گئی۔
بحار الانوار ج 45
کربلا کاجوان،دین خدا کی جوانی
امام حسین محافظ شریعت ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے پر مصمم تھے اور ہر قیمت پر، ہر قربانی پر شجر اسلام کی جوانی کے خواہاں تھے۔ اب اسلام سائل تھا اور خاندانِ کرم کی سخاوت مند ترین فرد اپنی دولت و ثروت کے گنجینے لٹا دینے پر مائل بہ کرم دکھائی دے رہے تھے، حفظ دین کے وعدے اچھی طرح یاد تھے اور وفا کے انداز انتہائی نرالے تھے، سوچا اگر بر وقت دین کی جوانی کی ضمانت پیش نہ کی جائے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کی محنتیں بے ثمرہ ہو کر رہ جائیں گی۔ محافظ شریعت نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی آغوش مبارک میں پرورش پائی تھی، اس لیے دین کی بربادی ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے، اچھی طرح یاد تھا کہ نانا پاک نے جب آغوش میں ایک طرف اپنے اسی نواسے اور دوسرے طرف اپنے فرزند ابراہیم کو بٹھایا ہوا تھا۔ خداوند متعال نے امتحان لیا تھا کہ ان دو بچوں میں سے جو زیادہ عزیز ہے، دوسرے کو اس پر قربان کرنا ہو گا تو اس قدسی وجود نے اپنے فرزند کو نواسے پر قربان کر لینا منظور کیا تھا اور فرمایا تھا کہ:
حسین منی وانا من الحسین، اب اس حدیث شریف کے ذیل کے اثبات کا موقع تھا۔ دین خدا سوالی تھا، سوال جوانی کا سوال تھا، ہجرت ختمی مرتبت کے ساٹھ سال گزر چکے تھے، ساٹھویں سال کا نصف حصہ گزرنے کے بعد ماہ رجب کے اواخر میں نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوم محرم الحرام 61 ہجری کربلا پہنچ چکے تھے۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے نو دن گزر چکے تھے ایک رات کی مہلت لی تھی وہ بھی گزر چکی تھی۔ اعوان و انصار اپنی نصرت کے وعدے نبھا چکے تھے، دین کو کچھ قوت ملی تھی، اب جبکہ ہاشمی خون دین کے کام آیا چاہتا تھا، عاشقِ توحید مولا امام حسین علیہ السلام نے سب پر ایک نگاہ دوڑائی شاید ذہن مبارک میں موقع و محل کی مناسبت سے اُس آیت کریمہ کے مضمون کی فضا حاکم تھی کہ:
لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،
لہٰذا اپنے کڑیل جوان شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام کا انتخاب سامنے آیا ۔ اپنے بابا کے ارادوں کو سمجھنے والے اس عشق توحید کے پروردہ ممسوس فی اللہ۔ غرق عشق خدا، نے شکر خدا بجا لاتے ہوئے اذن جہاد کا سوال کیا۔ نواسہ رسول نے دیکھا تو اپنے روبرو شکل و صورت اور گفتار و سیرت کے آئینے میں گویا ہوبہو اپنے نانا کا جمال و کمال دکھائی دیا۔ اس طرف نانا کے دین کو دیکھا، اس طرف اپنے جوان حسین کو دیکھا اور ان دونوں کے ساتھ عشق حقیقی کے مقدس آئین کو دیکھا۔ پس بغیر کسی وقفے کے اجازت مرحمت فرما دی۔ اگرچہ علی اکبر جیسے جوان بیٹے کو امام حسین علیہ السلام جیسے باپ کے لیے اذن میدان دینا کچھ آسان کام نہیں تھا، لیکن اپنے ہدف اور عشق کے راستے میں یہ قربانی قبول کی۔ دین خدا نے اپنی تازہ جوانی پائی، انبیاء و رسل کی خزاں رسیدہ محنتوں کے چمن میں بہار آئی، عزازیل کی شکست و ہزیمت پر مہر ثبت ہوئی، ملائکہ کو، انّی اعلم ما لا تعلمون کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ اب اس جوانی دین کی حفاظت کا مسئلہ درپیش تھا تو کبھی بستر بیماری سے غش کے افاقے میں مولا علی زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں، کمسن شہزادے محمد باقر علیہ السلام اور کمسن معصوم سکینہ علیہما السلام کی آمین کی دلی التجاؤں نے مدد کی، کبھی کربلا کی شیردل خاتون ناموس خدا حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی سربراہی میں مخدرات عصمت و طہارت کی مناجات نے نصرت کی، کبھی عون و محمد علیہما السلام کے معصوم جذبے کام آئے تو کبھی قاسم ابن الحسن علیہما السلام کی پاکیزہ نوجوانی نے ڈھارس دی اور کچھ زیادہ ضرورت محسوس ہوئی تو سیرابی عطش کے بہانے شہنشاہِ وفا علیہ السلام کے قوت و قدرت والے دو مضبوط بازوؤں نے سہارا دیا۔
اہلبیت علیہم السلام کے افراد نے اپنے امام زمان علیہ السلام کی خوشنودی کے لیے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر کے حفظ شباب دین میں بہترین کردار ادا کیے اور پھر نفس مطمئنہ نے لفظ عشق کے مقدس پیکر کو جاودانی معانی کی ابدی زندگانی عطا فرما کر وہ جلوہ خلق فرمایا کہ دین محفوظ، انبیاء راضی، سید الانبیاء خوشنود اور خالق اکبر أحسن الخالقین کی رضایت بھری آواز میدان کربلا میں یوں گونجنے لگی:
یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
اے میرے حسین! اب وصل کی گھڑیاں آن پہنچیں، اس سے زیادہ فصل گوارا نہیں فورا میرے پاس لوٹ آ، تو مجھ سے راضی ہے اور میں تجھ سے راضی ،آ جا میرے خالص بندوں کے زمرے اور میری مخصوص جنت میں داخل ہو جا،
اکثر مورخین جیسے ابو الفرج اصفہانی مقاتل الطالبین میں صفحہ 74 پر، صاحب تاریخ طبری اپنی کتاب کی ج 4 ص 34 پر لکھتے ہیں کہ:
کربلا میں سب سے پہلے ہاشمی شہید عالیمقام شہزادہ ہیں اور یہ پہلا شہید ہونا اس بزرگوار شہزادے کے اعلی ادب بلکہ اوج کمال و ایمان کی دلیل ہے۔
علی اکبر شبہ المصطفی ص 51
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خدا نے بھیج دی بعد نبی حسین کے گھر
رکھی تھی اپنے لیے جو شبیہ پیغمبر
گئے رسول ادھر،اکبر اس طرف آئے
غم فراق کا شکوہ رہا ادھر نہ ادھر