اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

روزہ :انسانی جسم کا عمدہ محافظ

روزہ :انسانی جسم کا عمدہ محافظ

زندگی اللہ رب العزت کے تحت گذاری جائے تو زندگی ہے ورنہ اس کا مفہوم ہی ختم ہوجاتا ہے اس طرح حيوانات ،پرندے اور درندے پیدا ہونے کے بعد اپنی طبعی زندگی گذار کر ختم ہو جاتے ہیں مگر انسانوںکے لئے یہ زندگی ایک ضابطہ کے تحت گذارنے کا حکم ہے انسان کے لئے اٹھنے بھنےنی سے لے کر کھانے پینے حتیٰ کہ سونے تک کا ایک نظام مقرر ہے جب اس نظام میں حد سے زیادہ تجاوز بر تا جائے تو انسانی جسم لاتعداد عوارضات کا شکار ہو جاتا ہے ۔چونکہ انسان کی جسمانی رہنمائی کے لئے اقرار توحید ورسالت کے بعد اس کی نفس کی تربیت کے پیش نظر پانچ بار نماز پابندی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سرکش انسان یہ نہ بھول سکے کہ کچھ پابندیاں اور کچھ فرائض بھی اس کے ذمے ہیں اس کے ساتھ ہی اہم ذمہ داری رمضان المبارک کے بابرکت روزوں کی ادائیہ  ہے اور روزہ زکوٰة کو دین اسلام میں نفس کی اصلاح اور جسم کے لئے خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔
رمضان المبارک سب سے اہم اور متبرک مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں ہر طرف برکتوں کا نزول ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے رحمت خداوندی ہر پل کائنات پر سایہ فگن رہتی ہے ۔ایسے میں وہ خوش قسمت لوگ جو شب کی پچھلے پہر کی تنہائی میں اپنے خالق کے حضور سجدہ بائے نانز پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے قرب کو کچھ اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ ”نحن اقرب اليه من حبل الوريدا “(ذات خدا وندی انسانی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے )کا فرمان بالکل صادق دکھائی دیتا ہے۔ ذات خداوندی جب پہلے آسمان پر اتر کر یہ دعوت دے رہی ہو کہ ”ہے کوئی سائل کہ میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نواز دوں ”تو ان ہی لوگوں کی خوش بختی پر رشک ہوتا ہے۔جو ان سنہری لمحات کو اپنے وجود کاایک حصہ بنا لے د ہیں۔ جب یہ لمحات وجود انسانی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں تو اس کا نا تواں جسم جہاں تمام آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے وہیں وہ ایسی قوت کے خزانے کا مالک بن جاتا ہے جس کے سامنے ماسواءاللہ دنیا کی ہر چیز ہیچ ہو جاتی ہے یہ طاقت روحانی بھی ہوتی ہے جسمانی اور نفسیاتی بھی۔جسمانی اعتبار کے لحاظ سے روزہ انسانی صحت کے محافظ کا کردار ادا کرتا ہے وہ انسان کے جملہ نظاموں کی خرابی کی اصلاح کرکے ان کے افعال کو درست کرتا ہے جس کی بدولت اس میں ایک ایسی نئی قوت جنم لیتی ہے جو امراض کا دفاع کرکے انسانی جسم کو پروان چڑھاتی ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے روزہ انسانی اخلاق ،کردار ،گفتار اور حسن سلوک پر بہت عمدہ اثر ڈالتا ہے اس سے انسانوں میں باہمی بھائی چارگی اور محبت کی فضاءقائم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روزہ فقط اللہ کی رضا کے لئے رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی ادائیے۔ کے سلسلے میں اس کدءئییہوئے احکامات کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں رہتا اور انسان ان احکامات پر ہر ممکن عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔زبان درازی ،گالی گلوچ،دوسروں پرزیادتی اور بد اخلاقی سے روزہ دارپرہیزکرتا ہے چونکہ دین اسلام کا مقصد انسان کو ایک اعلیٰ زندگی پر گامزن کرنا ہے اس لئے روزہ اس کا تربیتی کورس بن جاتا ہے ۔غرض یہ کہ روزہ ایک ایساامتیازی عمل ہے جو اللہ کے خوف کے حصول کاذریعہ ہے اس سے انسان میں عاجزی وانکساری ،تونگری ،سخاوت ،شجاعت ،ہمدردی اور خود اعتمادی کی صفات پیداا ہوتی ہیں ۔
روزہ اور خود اعتمادی :۔
اسلام نے انسانی فکر وعمل کیپاکیزگی اور تندرستی کئےا  جو عبادات وشعائر مقرر کئے ہیں ان میں روزے کو بڑی اہمیت ہے ۔اسلام جو دین فطرت ہے فطرت انسانی کی کمزوری سے بخوبی آگا ہ ہے اس نے روزے کو فرض قرار دے کر عادتوں کے مقابلے میں ہماری خود اعتمادی کو مضبوط بنانا چاہا روزے کی پہلی ضرب ہماری عادتوں پر پڑتی ہے وہ ہمارے سونے جاگنے کے اوقات تبدیل کرتا ہے کھانے پینے پر اوردوسری ضروریات پرپابندی عائد کرتا ہے یہ نہیں ہے کہ کوئی چیز ہماری دست رس سے باہر کردی جاتی ہے اور ہم مجبور اً اس کیبغیرگذار ا کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس کھانے پینے کا سارا سامان اور دوسری طبعی ضروریات ہمارے سامنے ہوتی ہیں لیکن ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ہم کوئی عادت پوری نہیں کرتے او رنہ ہی کسی عادت کا حکم مانتے ہیں اور پورا ایک مہینہ اس طرح گزارتے ہیں گویا ان عادتوں کے کبھی محکوم تھے ہی نہیں ۔
اسطرح ہرگیارہ مہینے کے بعد ایک مہینہ ہم اپنی عادتوں کو یکسر بدل دیےے ہیں ہم نداد کی زنجیروں کو توڑتے ہیں پیاس کے شد ید مطالبے کو ردکرتے ہیں بھوک کی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہیں نفسانی خواہشات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر ہمیں روزے کے حقیقی مقصد یعنی تقوی،کا پاس ہو تو ہم ہر قسم کے فواحش ومنکرات سے بھی پرہیزکرتے ہیں جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوت ارادی کے مالک ہیں عادتوں کے ہم غلام نہیں بلکہ عادتیں ہماری غلام ہیں۔مضر عادتوں کو چھوڑ کر ہم مفید اور نئی عادتیں اختیار کر سکتے ہیں اپنے اخلاق وکردار کے لئے بہتر سانچے تلاش کرکے ان میں ڈھل سکتے ہیں عادتوں کی اس تبدیلی سے ہم میں اعتماد نفس کا جو ہر پیداہوتا ہے اگر ہم اس جوہر کو زندہ محفوظ رکھیں تو آئندہ زندگی کے دوسرے کئی مسائل پر ہم فتح حاصل کر سکتے ہیں ۔
روزہ کے تربیتی کورس کی مدت ایک مہینہ مقرر کی گئی ہے جس کے لئے ثابت قدمی اور استقلال کی ضرورت ہے جو شخص شروع سے آخر تک روزے کے تمام قواعد و شرائط کی پابندی کرے گا اس میں خود بخود یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ صبر آزما حالات سے مقابلے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور جب کبھی کوئی کٹھن مرحلہ پیش آئے تو مستقل مزاجی اور پامردی کا ثبوت دے سکتا ہے ۔
ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہےو کہ رمضان المبارک میں ہمیں جو قوت ارادی ،خود اعتمادی اور مستقل مزاجی کی دولت مرتو آئی ہے وہ کسی صورت ضائع نہ ہونے پائے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر حالتوں میں اخلاقی اوصاف کا یہ نہایت مفپیدا موقع ضائع کر دیا جاتا ہے اس صورت حال کی ذمہ داری روزے پر تو ہر حال میں عائد نہیں ہو سکتی بلکہ در حقیقت وہ نقطہ نگا ہ ہی اس حالت کا ذمہ دار ہے جو روزے کے متعلق عوام میں پایا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنے سے روزے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس کے برعکس قرآن حکما نے واضح طور پر بتا دیا کہ روزہ وہ ہے جس سے انسان میں تقویٰ (پرہزر گاری )پیداا ہو دوسرے لفظوں میں روزہ ایک ”ذریہے ہے اورپرہیزگاری اس کا مقصد مگر ہم نیذریعہکو مقصد سمجھ لاک اور مقصد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی نتیچہ ظاہر ہے ہم تسر دن بھوکے پاک سے بھی رہتے ہیں نماز قرآن مجپیدا کی تلاوت بھی پابندی سے کرتے ہیں اور جب یہ مبارک مہینہ گذر جاتا ہے تو ہمارے ظاہر وباطن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور پھر شوال میں ہم بالکل ویےد ہی ہوتے ہیں جےار شعبان میں تھے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم روزے کے متعلق اپنا نظریہ بدلں  اگر ہم اپنے طرز فکر کی اصلاح کرلں  اور ہمارا اعتقاد ہوکہ رمضان پر ہز  گاری کی مشق کا مہینہ ہے اور اس مشق کے جو نتائج حاصل ہوں وہ ہمیں برقرار رکھنا ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں حقیقی فوائد حاصل ہوں گے اور ہماری خود اعتمادی میں چار چاند لگ جائںئ گے ساتھ ہی ہمارے ذہن اور اعمال میں پاکزن گی بھی پیداا ہوگی ۔
روزہ کے بارے میں اب تک یہی خیال کان جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جے ہ جےزہ سائنس اور علم طب نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریخ علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔ قرآن حکمہ میں سورة بقرہ کی آیات ۱۸۳سے ۱۸۷ تک دین کے اہم رکن روزہ کا حکم دیا گاو ہے اور تمام تفصیلات بتائی گئی ہیں۔آیت نمبر ۱۸۴ آخری حصہ میں بتایا گار ہے کہ روزہ ایک اچھی چیز ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اس امر کا بھی اعلان کان گائ کہ ہم اس سے حاصل کردہ رحمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اگر ہم سچ کو پہچان سکںا تو قارئنب آئےہ ہم سائنس کے نظریہ سے دیکھتے ہیں کہ روزہ کس طرح ہماری صحت مند میں مدد دیتا ہے اور صحت کا محافظ ہے۔
روزہ اور خون کے روغنی مادے :۔
ہم سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران ہمار ی غذائی عادتیں بدل جاتی ہیں روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلالں ہیں خصوصاً دل کے لئے مفپیدا چکنائی ۔ایچ۔ڈی ۔ایل ۔کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کوہنکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزپیدا چکنائو ں ۔ایل۔ڈی۔ایل ۔اور ٹرائی گلرخص ائڈا کی سطحیںق بھی معمولی پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غذائی بے احتاذطوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائواں کے استحالے (میٹا بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔
دوران خون پر روزہ کے مفپیدا اثرات :دن میں روزہ کے دوران جسم میں خون کی مقدار کی کمی ہو جاتی ہے جس سے دل کو انتہائی آرام ملتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دباو ¿ ہمہار کم سطح پر ہوتا ہے ۔شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnanuls) کا پوری طرح تحللا نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائتا کے تمام ذرے تحللت ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیرت اجزاءجم نہیں پاتے جس کے نتیچے میںشریانںچ سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک باقتری شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis) سے بچنے کی بہترین تدبر  روزہ ہی ہے ۔اس کے علاوہ انسانی جسم کے اہم اعضاءکی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہو جاتی ہے ۔
روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اس کے نتیچے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیداا کر سکتے ہیں اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حاکتاlتی برکات کے ذریے  ایک دبلا پتلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اور موٹے لوگ روزے کی عمومی برکات کے ذریےr اپنا وزن کم کر سکتے ہیں ۔
نظام اعصاب پر روزہ کے مفپیدا اثرات :۔
روزہ کے دوران اکثر لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیھاt گاا ہے جس کا سبب لوگ روزے کو گردانتے ہیں مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لا غ چاہے  کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انسانوں کے اندر انانتر (egotistic) یا طبتتک کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پر سکو ن اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نز  عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع وخضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریاصنا ں بھی تحللں ہو کر ختم ہو جاتی ہیں اس طرح دور حاضر کے شدپیدا اور پیچپیداہ مسائل جو اعصابی دباو ¿ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً ناپیدا ہو جاتے ہیں۔روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علد طہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیداا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعورجو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانومں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناو ¿ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے ۔
خلالت (Cells) رمضان المبارک کا بے چیہ  سے انتظار کرتے ہیں :۔
روزہ کا سب سے اہم اثر جسمانی خلوکں کے درما ن اور اندورنی ساشل مادوں کے درمانن توازن کو قائم رکھنا ہوتا ہے چونکہ روزہ کے دوران مختلف سابل مقدار میں کم ہوجاتے ہیں جس سے خلویں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح Epithelial Cells جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزہ کے ذریےد بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔علم خلا تاہت کے نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود ،گردن کے غدود توضاسیہ اور لبلبہ کے غدود شدپیدا بے چیم  سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزہ کی برکت سے انہیں کچھ سستانے کا موقع مل جائے اور آئندہ مزپیدا کام کرنے کے لئے اپنی توانایﺅں کو اکھٹا کر سکں ۔
نظام ہضم پر روزہ کے اثرات :
نظام ہضم ہمارے جسم کا سب سے اہم نظام ہے اس کے اہم اعضاءلعابی غدود ،زبان ،گلا ،غذائی نالی ،معدہ ،بڑی آنت ،چھوٹی آنت ،مری ،جگر اور لبلبہ وغرےہ خود بخودایک نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں جےذا ہی ہم کچھ کھاتے ہیں یہ خود کار نظام حرکت میں آجاتا ہے اور اس کا ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کر دیتا ہے اور ظاہر ہے یہ سارا نظام چوبسں گھنٹے مصروف عمل رہتا ہے تو اعصابی دباو ¿ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے یہ گھس جاتا ہے تب روزہ اسکے لئے تریاق ثابت ہوتاہے اور ایک ماہ تک اس سارے نظام پر آرام طاری کر دیتا ہے مگر روزہ کا سب سے حریتناک اثر جگر پر یہ ہوتا ہے کہ اسے روزانہ چھ گھنٹوں تک آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے اور اپنی توانائی خون میں گلوبو لنا (جو جسم کو محفوظ رکھنے والے مناعتی نظام کو طاقت دیتاہے )کی پیدااوار پر صرف کر سکتا ہے ۔
روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والی رطوبتںا بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تز ابتئ (Acidity)جمع نہیں ہوتی اس کی پیدااوار رک جاتی ہے ۔معدہ کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کاماجبی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے ۔
آنتوں پر روزہ کے بہت مفپیدا اثرات ظاہر ہوتے ہیں یہ آنتوں کو توانائی بخشتا ہے انٹریوں کے جال کو نئی توانائی اور تازگی عطا کرتا ہے آنتوں کے ہاضم رسوں کی خرابی کو دور کرتا ہے اس طرح ہم روزہ رکھ کر ان تمام باے ریوں کے حملے سے محفوظ ہو جاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالورں پر ہوتے ہیں ۔
روزہ کے بے شمار فوائد:یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ روزہ خرابی معدہ کے مریونں کئےعد یا بھاری جسم والوں کے لئے بہت مفپیدا ہے طب یونانی کے علاوہ مغرب کے بلند پایہ ڈاکٹر بھی روزہ کی طبی اہمیت کو تسلمے کرتے ہیں ۔غذا کے ہضم ہونے میں بدن کی جو قوت صرف ہوتی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں یہی قوت بدن سے فاسداور ردی مادوں کو خارج کرتی ہے جس سے جسم پاک وصاف ہو جاتا ہے پرانے امراض مثلاً دائمی نزلہ ،ذیابیطیس ،ہائی بلڈ پریرو اور معدہ کی خرابی میں روزہ بہت ہی مفپیدا اثرات مرتب کرتا ہے اس سے بدن کی قوت مدافعت کو اسقدر طاقت ملتی ہے (قوت مدافعت جسم انسانی کو امراض وآلام سے محفوظ رکھتی ہے )کہ سال بھر تک بدن صحت مند رہتا ہے اس کے علاوہ ایسے لوگ جو غرا شادی شدہ ہیں روزہ رکھنے سے ان کے اندر ایک ڈسپیلن صبر اور ضبط نفس پیداا ہو جاتا ہے ۔
کار کھائںج کا  نہ کھائںغ ؟:۔روزہ رکھنے سے نہ صرف روحانی ،پاکزڈگی اور تزکیہ نفس ہوتا ہے بلکہ انسان مختلف امراض سے بھی نجات حاصل کرتا ہے روزہ میں جسم انسانی توانائی سے بھر جاتا ہے مگر یہ تمام فوائد صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم غذا کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں اور کھانے پینے میں اعتدال کی راہ اختیار کریں آج بھی اکثر لوگو ں کو یہ غلط فہمی ہے کہ روزہ رکھنے سے کمزوری آتی ہے یہ سراسر غلط ہے کوننکہ رمضان میں پروٹن  اور کابوہائڈاریٹ اجزاءسے پر غذا عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال کی جاتی ہے پھر تمام روز سحری میں بھی غذا استعمال کی جاتی ہے اس طرح روزہ رکھنے سے کسی بھی قسم کی کمزوری لاحق نہیں ہوتی بلکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس صورت میں جسم سے فاسد مواد خارج ہو جاتے ہیں ۔
روزہ دار کمزوری کے خیال سے خوب کھاتے ہیں افطاری کے وقت پکوڑے ،سموسے ،مٹھائی ،کھجور اور پھل وغرجہ شوق سے کھاتے ہیں پھر کھانے میں گھی سے پر مختلف اقسام کے کھانے بڑے مزے سے کھائے جاتے ہیں سحری میں پر اٹھے انڈے ،گوشت وغرےہ سے کام و دہن کی تواضع کی جاتی ہے جس سے کھٹے ڈکار آتے ہیں طبتکھ میں بوجھل پن ہوتا ہے اور معدہ خراب ہو جاتا ہے اس لئے رمضان المبارک میں ہلکی غذا استعمال کرنا سب سے عمدہ خیال کا  جاتا ہے خاص طور سے ایسی غذا جس میں گھی وغر ہ کی مقدار برائے نام ہو۔افطار کے وقت کھجور اور کوئی نمکن  چیز استعمال کریں نمک پارے یانمک استعمال کریں کوےنکہ انسان تمام دن فاقہ سے ہوتا ہے اس لئے جسم میں نمک کی کمی ہو جاتی ہے اور جسم نمکنچ چیز کا طالب ہوتا ہے تاکہ اس کی کمی کو پورا کر سکے ۔کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت ہے کوینکہ یہ دن بھر کی کمزوری کو دور کردیتی ہے ایک چھٹانک کھجور میں ۱۶۰ غذائی حرارے قوت ہوتی ہے ایک چھٹانک انگور میں ۲۶ اور ایک چھٹانک انار میں ۳۲ حرارے غذائی قوت ہوتی ہے افطار کے وقت چائے اور دودھ بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔آلو ،بگن س ،ماش کی ڈال چنے وغر ہ کھانے سرغذہیزکریں ۔پلاو ¿ یا کھچڑی کھائں  رات کا کھانا کھانے کے بعد تراویح پڑھںک تاکہ کھانا ہضم ہو جائے صبح سحری میں ہلکا پھلکا کھانا کھائںے خاص طور پر سبزی اور بکری کے گوشت کا شوربہ اور پاولی بھر چائے نہایت مفپیدا ہے ۔
روزہ کے سائنسی انکشافات :
اسلام نے روزہ کو مومن کے لئے شفاءقرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحققز کی تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کات کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے ۔فرانس میں آج بھی یہودی ایک پروجٹاس کے تحت کام کر رہے ہیں جس کاکام یہ تحقق  کرنا ہے کہ اسلام کے اندر کاذ کاج اچھائاٹں ہیں تو ہم بن کہے اسلام قبول کرلںٹ گے چنانچہ اس پر عمل کرتے ہوئے یہودی باقاعدہ مہینہ بھر روزہ رکھتے ہیں مسواک کرتے ہیں وضو کرتے ہیں نماز اور تلاوت کی پابندی کرتے ہیں باقاعدہ اعتکاف میں بیٹھتے ہیں سحری وافطاری کرتے ہیں اور عپیدا کی نماز بھی پڑھتے ہیں ۔
گاندھی جی فاقہ کے لئے مشہور تھے اور روزہ کے قائل تھے وہ کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست کر لاف  ہے اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم از کم خوراک دواور روزے رکھو سارا دن جاپ الا پو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو۔
آکسفورڈیونو رسٹی کے مشہور پروفرخو مورپالڈ اپنا قصہ اس طرح باان کرتے ہیں کہ ”میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کاچ اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظم  فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اورکوئی نعمت نہ ہوتی میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہےر پھر میں نے روزے مسلمانو ں کے طرز پر رکھنا شروع کئے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ (Stomach Inflammation) میں مبتلا تھا کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کان کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا حتیٰ کے میں نے ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ۔“
پوپ ایلف گال ہالڈمی کا سب سے بڑا پادری گذرا ہے روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح باان کرتا ہے کہ ”میں اپنے روحانی پر وکاروں کو ہر ماہ تنا روزے رکھنے کی تلقنت کرتا ہوں میں نے اس طریہ  کار کے ذریےج جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی مرچے مریض مسلسل مجھ پر زور دیےت ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریہب بتاو ¿ں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لا  ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تنر روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائںا ۔میں نے شوگر،دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریواں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے ۔شوگرکے مریویں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو گئی ،دل کے مریوہں کی بے چیای اور سانس کا پھولنا کم ہوگای سب سے زیادہ افاقہ معدہ کے مریویں کو ہوا ۔“
فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جمہ نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹٹہ  کروایا اس میں انہوں نے محسوس کاا کہ وہ غذائی متعفن اجزاء(food particles septic)جس سے معدہ تز ی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
مشہور ماہر نفسا ت سگمنڈ نرائڈر فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بررونی دباو ¿ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالاما ہے روزہ دار کو جسمانی کھچا ںو ¿ اور ذہنی تناو ¿ سے سامنا نہیں پڑتا۔
جرمنی ،امریہد ،انگلڈسل کے ماہر ڈاکٹروں نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کاا اور یہ نتیچہ اخذ کاو کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک ،کان ،گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
مغربی ماہرین سائنس ،ماہرین طب اور ماہرین نفسابت نے مل کر اسلامی زندگی پر تحقق  اور ریراچ کا ناا یاب کھولا ہے کولنکہ مغرب موجودہ طرز زندگی سے تنگ ہے اور اس وقت سب سے زیادہ خودکشی ،عصمت دری ،ہم جنس پرستی ،اغواء،قتل ،انتقامی کاروائاجں ،بم دھماکے ،اجتمائی قتل ،ناجائز اولاد ،طلاقںت وغرتہ جےت  مہلک خطرناک اور دنیا کو تباہی کے گڑھے میں ڈالنے و الے حادثات کی طرف یورپ اور مغربی معاشرہ گامزن ہے اب وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں وہ بخوبی سمجھنے لگے ہیں کہ ان تمام سے نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے ۔مستشرقنب اسوقت اسلامی تعلا وت کو کھنگال کر ان میں اپنے لئے اصلاحی راستے اور ترقی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں آج یورپ پھر پھرا کر واپس اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہم ہیں کہ یورپ کی تقلپیدا میں اندھے دوڑے چلے جار ہے ہیں ۔روزہ کے بارے میں یورپی ماہرین آج بھی تحقق  کر رہے ہیں حتیٰ کی وہ اس بات کو تسلمد کر چکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشی پریاقناہں بھی دور ہوتی ہیں کوےنکہ جب امراض کم ہوں گے تو ہسپتال بھی کم ہوں گے اور ہسپتال کا کم ہونا ہی معاشرہ کے پر سکو ن ہونے کی علامت ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی

 
user comment