اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

آرام بخش اسباب و عوامل

آرام بخش اسباب و عوامل



اس کے ھم کلاس طلبہ اس کی بڑی تعریف کر رھے تھے اور اس کے گھر والے بھی داد وتحسین کی نگاھوں سے اسے دیکھ رھے تھے اس کے سامنے بڑا اور فیصلہ کن امتحان تھا۔ لیکن آقا رضا بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کامیابی کی بات کر کے دوسروں کو امید دلا رھا تھا ۔
اس کا سکون واطمینان زبان زد عام وخاص تھا، وہ بڑی اچھی طرح سوجاتا اور آسانی کے ساتھ اٹھ جاتا تھا ۔ منظم اور ٹائم ٹیبل کے حساب سے اپنے درسوں کو پڑھتا تھا اور اپنے کاموں کو انجام دیتا تھا بغیر کسی بے چینی و اضطراب کے بغیر کسی درد سر یا پریشانی کے ۔
آخر اس کے پاس کیا تھا؟ اس نے کیا کیا تھا اور کس طرح زندگی بسر کر رہا تھا کہ اس قدر پر سکون تھا؟آئیے انھیں سوال کو قرآن کی آیتوں اور معصومین (ع)کی حدیثوں کے سامنے رکھتے ھیں اور انھیں سے جواب طلب کرتے ھیں۔ آیات و روایات ہم سے کہتی ھیں کہ: سکون واطمینان کے عوامل واسباب کی معرفت حاصل کرو پھر ایک ایک کرکے سب کو اپنے اندر ایجاد کرواور ہر چیز سے پہلے دھیان رکھو کہ سچا سکون اور حقیقی اطمینان تو بس اللہ کے دوستوں کا نصیب ھے ۔ معصوم کا ارشاد ھے:
(اذا احب الله عبدا زینه بالسکینة والحلم)۔ 1 اللہ جب کسی بندے کو دوست بنا لیتا ھے تو اسے سکون و وقار اور حلم و برد باری کی زینت سے آراستہ کر دیتا ھے ۔ قرآن مجید میں بھی ارشاد خداوند ی ھوتا ھے:
(هو الذی انزل السکینةعلی قلوب المومنین)۔ 2 خدا ہی نے تو مومنین کے دلوں پر سکون و اطمینان نازل کیا ھے ۔
1۔ ایمان اور یقین

آدمی کے اندر اضطراب و بے چینی کا سب سے بڑا سبب اس کے ذھن و روح میں پیدا ھوجانے والا شک و شبہ ھے، انسان کا ہمیشگی شک و شبہ جو ہر انسان کے فکری بلوغ کے دور میں اس پر غالب رھتا ھے اور انسان کو کائنات، مخلوقات اور خالق ھستی، حقیقت زندگی وغیرہ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر تا ھے یہ سارے شکوک و شبھات اگر چہ بڑے پرانے اور بشریت کے ھم زاد ھیں لیکن یہی شکوک و شبھ ہر نوجوان کے لئے نئے اور تازہ اور خوف وہراس پیدا کرنے والے ھوتے ھیں۔
جوانوں کا دل ان شکوک وشبھات کی جولانگاہ میں دھڑکتا ھے اور نوجوان سکون واطمینان کو کھو دیتا ھے اور سوالات اشکالات اور شکوک و شبھات کے طوفان میں ایسا گرفتار ھوجاتا ھے کہ وہ اپنی ذات میں اپنے اندر موجود صلاحیت و قابلیت اور توانائی میں بھی شک و شبہ کرنے لگتا ھے اور اس پر اضطراب راہ کے آخری موڑ پر صرف حقیقت اور صداقت ھے کہ جو اس طوفان دریامیں سکون واطمینان کا ساحل اور جان و روح انسانی کے لئے لنگر کا کام کرتےھیں حضرت امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
(القلب، لیتجلجل فی الجوف یطلب الحق فاذا اصابه اطمانّ وقرّ) 3 دل انسان کے سینہ میں دھڑکتا رہتا ھے اور حق کا تلاش میں رھتا ھے اور جونہی حق کو پالیتا ھے مطمئن اور پر سکون ھوجاتا ھے ۔
اس ظاھر اور ھویدا حقیقت پر دسترسی جب بھی تسلیم کی منزل میں آجائے اور انسان کو اس پر یقین ھو جائے تو یہ اعتقاد و یقین ثمر بخش ھو جاتا ھے پھر اس سے ایمانپیدا ھوتا ھے اور سکون واطمینان میں پائیداری و استحکام آجاتا ھے اور اس صورت میں دل کو سکون و سکینۂ الٰہی کے نزول کا مرکز بنا دیتا ھے ارشاد معصوم ھوتا ھے:
(المومنون هم اهل الفضائل هدیهم السکوت واولئک المومنون المطمئنون) 4 مومنین ہی تو اہل فضائل وکمالات ھیں ان کی سیرت، سکوت ھے اور وہی لوگ اطمینان سے سر شار مومنین ھیں ۔
2۔ خدا کی یاد

جو انسان، ایمان کی بدولت سکون واطمینان حاصل کر لیتا ھے اسے چاھئے کہ کوشش کرے یہ نو مولود اطمینان اس کے دل کے اندر گھر کر جائے اور پھر تابندہ نور کی شکل اختیار کر لے تاکہ اس کے پورے وجود وجان و روح کو منور کر دے ۔ اور یہ کام صرف اس کی بنیاد کا پاس ولحاظ رکھ کر ھی ممکن ھے یعنی ھمیشہ خدا کی یاد میں تازہ رکھنا اور یاد خدا کے محکم قلعہ میں وارد ھوجانا۔
جو شخص خدا کی یاد کو بھلا دیتا ھے وہ زندگی کے تلخ اور تھکا دینے والے حادثات میں وحشت زدہ ھوجاتا ھے اور اپنا سکون واطمینان کھو بیٹھتا ھے۔ لیکن با ایمان اور قدرت و رحمت خدا یاد رکھنے والا انسان، حوادث کی سختیوں کا خدا کی بے کراں قدرت سے مقایسہ کرتا ھے اور حادثات کی خرابی اور سختی سے پیدا شدہ رنج آور صورت حال کا خدائے بزرگ کے لطف وکرم اور اس کی مہربانیوں سے موازنہ کرتا ھے تو پھر اپنی تقدیر سے بھلے ہی بڑی مبھم مشکوک ھی کیوں نہ ھو ۔ اپنے دل میں بے قرار ی و اضطراب کو نھیں آنے دیتا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ سارے امور کی باز گشت خدا کی طرف ھے ارشاد ھوتا ھے:
(الی الله ترجع الامور۔۔۔ والیه المصیر) 5 سارے امور کی باز گشت بالاخر خدا کی طرف ھے اور اس کی طرف سب کی باز گشت ھے۔
تمام قدرت وطاقت سے بڑی قدرت وطاقت والے تمام ارادوں کے اوپرغالب ارادے والے تمام پناہ طلبوں کی پناہ، بھر پور نعمتوں بے شمار وبے انتھا نعمتوں کے مالک خدا کی یاد، انسان کو چھوٹے بڑے، تلخ وشیرین، سخت وآرام ھرحادثات میں انسان کو سکون وقرار عطا کرتی ھے یہی وجہ ھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سورۂ رعد کی، ۲۸ 6 ویں آیت کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
(ذکر الله جلاء الصدور وطمانیة القلب) 7 اللہ کی یاد سینوں کی جلا اور دلوں کا سکون واطمینان ھے۔
اس جگہ اھم نکتہ، ذکر خدا کی کیفیت اور خدا کی یاد کے طریقہ پر ھے۔ زبانی اذکار و ادوار کی قرائت ان راھوں میں سے ایک راہ ھے دوسری راہ نیک اعمال اور اطاعت الٰہی بجالانا ھے کہ جس میں بھترین اطاعت وعمل، نماز ھے ۔نماز پیغمبروں اماموں اور ھمارے دینی پیشواؤں کی ھمیشہ پناہ گاہ رھی ھے حضرت حذیفہ جنا ب رسول خدا (ص) کے بارے میں فرماتے ھیں:
(کان النبی اذا احزنه امر صلی) 8 رسول خدا(ص) کو جب کوئی مشکل رنجیدہ و محزون کرتی تھی تو آپ نماز پڑھتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) بھی جب کسی چیز سے کبیدہ خاطر ھو تے تھے تو نماز کی پناہ لیتے تھے اور نماز کے بعد اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے تھے:
(استعینوا بالصبر والصلاة) 9 10صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔ حضرت امام جعفرصادق(ع) تمام امتیوں کو نماز کی تاکید کرتے ھیں اور آپ اس طرح فرماتےھیں:
(مایمنع احدکم اذا دخل علیه غم من غموم الدنیا ان یتوضا ثم یدخل مسجده ویرکع رکعتین فیدعوا الله فیهما اما سمعت الله يقول: استعینوا بالصبر والصلاة) 11 تم لوگوں کوکون سی چیز مانع ھو رھی ھے کہ جب تم میں سے کسی کے اوپر غم ومشکلات دنیاکا سامنا ھو جائے تو وضو کرے اور اپنے مصلے پر آکر دورکعت نما ز پڑھے پھر خداسے دونوں رکعت میں دعا کرے کیا تم نے خدا کا یہ قول نھیں سنا ھے (صبر اور نماز سے مدد طلب کرو)؟
3۔ نڈرھونا

خوف وھراس، اضطراب و بے چینی کا اھم سبب ھے۔ زندگی وحشتناک حالات ھمیں بے چین کردیتے ہین اور ہمارے سکون و قرار کو چھین لیتے ھیں اور ہمیں بجائے اس کے کہ نا گوار حادثہ اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں فرار اختیار کرنے کی دعوت دیتے ھیں ۔ خوف ھمارے اندر عزم و ارادہ کی قوت و قدرت کو کمزور کردیتا ھے اور جسمانی صدمات کے علاوہ دل کی تپش، رگوں کو سرد اور ھماری روح وجان اور ارادہ کو سست بنا دیتا ھے کہ جس کا نتیجہ ناتوانی و کمزوری کا احساس ہمیں ستانے لگتا ھے اور ہم پناہگاہ ڈھونڈھنے لگتے ھیں اور جب پناہ کے چکر میں پڑجاتے ھیں تو پھر نا امیدی و بے اعتمادی پر اس کا خاتمہ ھوتا ھے ۔
اسلامی روایات نے ہمیں اس قسم کے لاعلاج مرض اور لا ختم نہ ھونے والی مشکل سے مقابلہ ھونے کا دو راستہ اور دوراہ حل بتلاتی ھے ۔
الف) عملی راہِ حل

اس روش کے بارے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
"اذاهبت امرا فقع فیه؛ فان شدة توقیه اعظم مما تخاف منه؛" 12 جب تمھیں کسی چیز سے خوف ووحشت ھو رہی ھو تو خود کو اس میں ڈال دو کیونکہ اس سے بچتے رھنے کی سختی وپریشانی کھیں بڑی ھے کہ جس سے تم ڈر رھے ھو قابل ذکر بات یہ ھے کہ مقابلہ اور مشق بار بار، بتدریج اور مسلسل ھونا چاھئے اور نیچے سے اوپر یا کم سے شروع ھو کر زیادہ کی طرف جانا چاھئے یعنی چھوٹے چھوٹے حادثوں اور کم خوف والے مسئلوں سے شروع کرنا چاھئے اور ورزشی مشقوں کی طرح جب چھوٹے سے خوف ختم ھو جائے اور اس سے سامنا اس کے لئے آسان ھوجائے تب بڑے حادثوں اور خطرناک اور خوفناک مسئلوں سے مقابلہ کرنا چاھئے اس کی مثالیں بھت ھیں جیسے تفریحی سفر میں پہلے چھوٹے سے پہاڑ پر چڑھنا، کلاس میں کوئی چیز پڑھنا، کوئی چھوٹا سا مقالہ لکھنا یا قبرستان کی تاریکی میں ٹھہرانا یارات کی تاریکی کے خوف کو دور کرنا وغیرہ۔
ب) فکری راہِ حل

خوف وھراس کو ختم کرنے اور اس سے پیداھونے والی بے چینی کو دور کرنے کے لئے فکری راہ حل وہی ھے جسے پہلے عامل یعنی خدا کی یاد میں بتلایا گیا جس طرح پہلے عامل میں قوت ایمان و یقین کی طرف اشارہ ھوا وہ اس جگہ بھی کا ر ساز ھو سکتا ھے' خدا کی صحیح معرفت اور اس سے معرفت کا زندہ وپائندہ رکھنا اور روح کی گہرائیوں میں یقین و باور کو اتار لینا انسان کی شخصیت کو صحیح معنوں میں سنوارتا ھے حضرت امیر المومننین علیہ السلام نے ان دونوں کی طرف اشارہ فرمایا ھے:
"الجبن والحرص والبخل غرائز سوء یجمعها سوء الظن بالله سبحانه؛13خوف وہراس، حرص و طمع اور بخل وکنجوسی، بری خصلتیں ھیں جو خدا پر سوء ظن سے پیدا ھوتی ھیں ' نیز جناب امیر علیہ السلام کا ارشاد ھے:
"شدة الجبن من عجز النفس وجعف الیقین؛14زیادہ خوف و وحشت ' نفس کی ناتوانی اور خد اپر کمزور یقین سے پیدا ھوتا ھے فکری راہ حل کی تلاش میں رہنے والے انسان خوف کو بھی کامیابی ایک سبب سمجھتے ھیں اور شکست کو عبرت حاصل کرنے کا اور کامیابی کا ایک مقدمہ سمجھتے ھیں وہ لوگ حتیٰ کہ اپنے اضطراب کو ظاہر کرنے اور اپنے خوف کی جلوہ نمائی سے اپنے دل کے اندر ڈر نھیں بسنے دیتے بلکہ خوف و دہشت کو مزید کوشش کا انگیزہ سمجھ لیتے ھیں ۔مثلا امتحان میں فیل ھونے کے خوف کو شب بیداری اور درس پڑھنے کا عامل، فقرو فاقہ کے خوف کو سعی وتلاش اور کام کا انگیزہ، مقبول نہ ھونے کے خوف کو اپنے اندر پوشیدہ کمالات اور صلاحیت کو رشد ونمو دینے کا موجب بنا لیتے ھیں ' پریشانی کو ناراضگی اور بے چینی کو پسپائی کا سبب نھیں سمجھتے ۔ وہ لوگ جو بھی ھو جائے جتنی بھی چیخ وپکار کی جائے اپنے ارادے میں مضبوط اور، محکم اور ھو کر قدم آگے ھی بڑھاتے ھیں ۔
4۔ خوش ھونا

اپنے سامنے مدرسہ کی گھنٹی بجنے کا تصور مسجم کرو' سوچو جس وقت رضا اپنا مقالہ پڑھتا تھا کلاس کے آخرمیں سب ھنستے تھے رضا بھی مسکرا دیتا تھا اور اسے اپنے لئے تشویق و ترغیب سمجھتا تھا نہ کہ طنزآمیز ہنسی اور مسخرہ کرنا۔
خوش بین لوگ ۔ مسکراہٹوں کو تشویق،بزرگ نمائی کواحترام ہاتھ ہلا دینے کو محبت کے اظہار کا وسیلہ سمجھتے ھیں وہ لوگ خوش بینی کے ذریعہ منفی افکار وخیالات کو اور واقعیات پر بد بینی اور غلط توضیحات کو اور دوسروں کے سلوک وکردار کی غلط بیانی کو اپنے ذھن و فکر سے دور کردیتے ھیں اور اس روش کو اپنا کر وہ اپنے اندر سے بے چینی و بے تابی کے ایک اھم ترین عامل کو دور کردیتے ھیں ۔ وہ لوگ جان بوجھ کر تھوڑی سے خوش بینی اپنے راہ کر لیتے ھیں اور اپنے دل کو قدرے سکون عطا کرتے ھیں بھلے ہی واقع میں انھیں سکون وا اطمینان نہ ھو۔ امام معصوم کا بیان، اس روش کی تائید کرتا ھے:
"خذ من حسن الظن بطرف تروح بہ قلبک و یروح بہ امرک؛ 15خوش بینی اختیار کرو کہ اس سے تمہارے مضطرب دل کو قدرے راحت وآرام مل جائے گا اور تمہارے کام بھی آسانی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے" من لم یحسن ظنه استوحش من کل احد؛ 16 جو خوش بین نھیں ھوتا وہ ہر ایک شخص اور ہر شیء سے وحشت کرتا ھے ۔
خوش بین انسان ہر آواز کو اپنے خلاف نھیں سمجھتا ہر تحریک و حرکت کو اپنا مخالف نھیں گردانتا اس لئے نہ وہ ڈرتا ھے اور نہ بے چین ھوتا ھے وہ دوسروں پر اعتماد کرتا ھے اپنی مشکلات کے حل کے لئے دوسرے سے مدد چاہتا ھے اور اپنے کو خوف و ہراس اور اضطراب و بے چینی اور دوسروں سے دوری میں مبتلا نھیں کرتا۔ وہ اپنی مشکلات کو اپنے میں ھی منحصر کرنے اور سماج و معاشرہ سے دوری اختیار کرنے سے پرہیز کرتا ھے ایسا آدمی کام کو انجام تک نہ پہنچانے اور اپنی ذمہ داری کو نہ نبھانے کو برا سمجھتا ھے نہ کہ دوسروں سے مدد لینے کو۔
یہ بھی قابل ذکربات ھے کہ خوش بینی کا دائرہ ماحول اور معاشرہ کی صلاح و فساد سے وابستگی کے باعث تنگ و وسیع بھی ھوسکتا ھے اور یہ انسان کا عقل اور شعور وادراک ھے جو معاشرہ کی خوبی یا بدی کے پیش نظر اپنے اندر خوش بینی اور بد بینی کو منظم کرے ۔ حضر ت امیر المومنین(ع) فرماتے ھیں:
"اذا استولیٰ الصلاح علی الزمان واهله، ثم اساء رجل الظن برجل لم تظهر منه حوبة فقد ظلم واذا استولی الفساد علی الزمان واهله فاحسن رجل الظن برجل فقد غرر"؛ 17 جس وقت درستگی و صلاح زمانے اور زمانے والوں پر حکم فرما ھو اگر کوئی کسی پر۔ بغیر اس کے کہہ اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ھو۔ بد گمانی کرے تو اس نے ظلم کیا ھے اور جس وقت زمانے اور زمانے والوں پر فساد کا غلبہ ھو اگر کوئی کسی پر خوش بین رھے تو فریب کھایاھے ۔
5۔ عدم تصنع

ھم میں سے بھت سے لوگ مہمان یا نئے دوست کے آجانے پر اپنے آپ کو مرتب اور ٹھیک ٹھاک کرتے ھیں۔ کمرہ کو صاف ستھرا کرتے ھیں گھر کے ساز وسامان پر ہاتھ لگاتے ھیں اور انھیں منظم طریقہ سے رکھتے ھیں حتی اپنے لحن ولہجہ میں تبدیلی لاتے ھیں اور بھت سے کلمات زبان پر جاری نھیں کرتے ۔ یہاں تک تو ٹھیک اور طبیعی چیز ھے اور یہی صحیح ھے ۔ لیکن اس سے پہلے یعنی اپنی جیب میں لگانے کے لئے کسی کے خوبصورت قلم کا قرض لینا، اپنے ھم کلاس کی خوبصورت کاپی لے کر اس کی ورق گردانی کرنا ماں باپ یا بھائی بہن میں سے کسی کے ذریعہ انشاء لکھھ کر لے جانا یہ سب کا سب دکھاوا اور بے جا تکلف ھے اور انسان کے اضطراب و بے چینی میں اضافہ کا باعث ھے ۔ اس لئے کہ دل میں قلق رہتا ھے کہ اگر قرض نہ دیا ۔ اگر ہم کلاسی نے اپنی خوبصورت کاپی نہ دی اگر پتہ چل گیا کہ میرے ہاتھ لکھی ھوئی انشاء نھیں ھے وغیرہ وغیرہ یہ سب اضطراب کا باعث ھے اور ان سب کا موں کا مطلب ھے کہ انسان خود کچھ نھیں ھے اور اپنے اندر سے اپنے کو بزرگ و بڑا دکھا نا چاہتا ھے یعنی بالکل ایک ھواسے پھولے ھوئے غبارہ کے مانند اس نے اپنے حقیقی وجود کے اوپر لگارکھا ھے کہ جو ایک سوئی کے نوک لگ جانے سے سکڑ جائے گا یا اس کی ھوا ھوا ھو جائے گی۔جب کہ آقا رضا یعنی ھمارا پر سکون ھم کلاسی ایسا نھیں ھے اس نے اپنی قدر قیمت پہچان لی ھے 18 وہ کہتا ھے کہ: میرے لکھنے کی قدرت و طاقت بس اتنی ھے میرا مطالعہ، میری فکر وسوچ، میری صلاحیت بس ایسی ہی انشاء نگاری کی اجازت دیتی ھے میں اپنی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نھیں رکھتا ھوں۔ 19 میرے گھر کی اقتصادی حالت بس اس قسم کے قلم کاپی، بیگ اور جوتے و لباس کی اجازت دیتی ھے اور میں ان سے اس سے زیادہ کی امید بھی نھیں رکھتا، آقارضا حضرت امام امیر المومنین (ع)کی اس فرمایش پر ایمان رکھتا ھے:
اهنیٔ ُالعیش اطراح الکلف؛ 20 گوارہ ترین زندگی تکلفات (اور بے جا دکھاوے) کا دور پھینکنا ھے۔ وہ کبھی امتحان میں کم نمبر لانے سے بے چین نھیں ھوتا کیونکہ اس نےاپنی توان بھر کوشش و سعی کی تھی وہ کبھی نقل کرنے کو سوچتا بھی نھیں کیونکہ وہ ضرورت بھر خوشنود تھا اور زبردستی دوسروں کے علم وآگہی کو اپنے اندر مصنوعی اضافہ کو حقیقی ترقی اور واقعی علمی اضافہ نھیں سمجھتا ۔ وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ھے مگر حقیقی خوبصورتی کو وہ قدرت و توانائی چاہتا ھے مگر غیر واقعی طاقت کو نھیں، اس لئے اسے اپنی حقیقت کے اظہار اور اپنے اندر کی بات کے اظہار کرنے میں کبھی خوف وہراس نھیں ھوتا اور نہ ہی اسے اپنے آپ کو پیش کرنے میں کسی قسم کا اضطراب لاحق ھوتا ھے ۔
6۔ صداقت و صاف گوئی

سکون واطمینان ایجاد کرنے والا ایک دوسرا عامل جو دوسرے عوامل سے کسی طرح کم تر نھیں ھے صداقت و صاف گوئی ھے۔ کردار گفتار رفتاراور معاملات میں صداقت و سچائی سے پیش آنا اپنے آپ سے، دوسروں سے دوستوں سے رشتہ داروں سے بلکہ تمام لوگوں سے سلوک و رفتار میں صاف گوئی و صداقت رکھنے سے انسان کا وجود ایک صاف شفاف وجود میں دھل جاتا ھے، آئینہ کبھی اپنے سامنے کی چیز کو جیسے ھے ویسی ہی دکھلا نے میں کسی قسم کا خوف وہراس نھیں رکھتا ۔ سچا و درستکار انسان بھی اس بات سے کہ دوسرے اس کی نیت وارادہ اور اس کے جذبات وخیالات سے آشنا ھوں جائیں کوئی خو ف وہراس اپنے دل میں نھیں لاتا۔ سچائی و درستگی اپنے وسیع مفھوم کے ساتھ۔ تمام عقائد و افکار میں، نظریات و گفتار میں سلوک وکردار میں انسان کو سکون واطمینان عطا کرتی ھے جس طرح کہ جھوٹ، شک و تردیدکو اپنے ہمراہ لاتا ھے پیامبر اسلام(ص)کا ارشاد ھے:
الصدق طمانینة والکذب ریبة؛ 21 سچائی اطمینان بخش اور جھوٹ شک و تزلزل کا باعث ھے۔
7۔ نیکی و بھلائی

خیر ونیکی بھی سچائی کی طرح وسیع مفھوم کی حامل ھے اور اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود اس کے سکون واطمینان میں بڑی تاثیر گذار ھے ۔ ٹھیک اس کے مقابل برائی و بدی انسان کے متزلزل و مضطرب ھونے کا باعث ھے حضرت رسول خدا(ص) فرماتے ھیں:
الخیر طمانینۃ والشر ریبۃ؛ 22 خیر ونیکی اطمینان بخش اور بدی و برائی شک و تردید کا باعث ھے۔ اسی لئے نیک لوگ زیادہ سر گرم عمل اور آرام و پرسکون تر ھوتے ھیں بہتر کام کرتے ھیں اور زیادہ کام پیش کرتے ھیں (بہتر بھی زیادہ بھی) اسی لئے اپنی محنتوں اور کاموں سے رضایت وخوشنودی کا احساس کرتے ھیں اور بعد کی نیکیوں کے لئے مزید انرجی حاصل کر لیتے ھیں کیونکہ روح وجان کو نیکی کرنے اور نیک کام انجام دینے سے سکون وآرام ملتا ھے اسی لئے پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا ھے:
البر ماسکنت الیه النفس واطمان الیه القلب والاثم ما لم یسکن الیه النفس ولم یطمئن الیه القلب؛ 23 نیکی وہ ھے کہ جس سے روح وجان کو سکون اور دل کو اطمینان حاصل ھو جائے ۔ برائی وہ ھے کہ جس سے نہ روح و جان کو سکون حاصل ھو اور نہ ہی دل کو اطمینان نصیب ھو۔
تمام حلال اور نیک کام انسانی فطرت و روح کے لئے اطمینان بخش ھیں اور تمام حرام کام خیانتیں، جنایات اور نا فرمانیاں سکون وچین چھیننے والی ھیں 24 اس لئے بھت سے جرم جنایت کرنے والے دھوکہ دھڑی اور جعل سازی کرنے والے جرم وجنایت کرنے کے وقت بھی اور کرنے کے مدتوں بعد تک اضطراب و تشویش میں مبتلا رہتے ھیں اور یہی اندرونی کیفیت اور بد حالی، جرم وجنایت کشف کرنے والے اور سچ اور جھوٹ کا اندازہ لگانے والے اور جنایتکاروں کے کلام میں صداقت کا پتہ لگانے والے ماہرین کو جرم کشف کرنے کی توانائی عطا کرتی ھے۔
8۔ رضایت و خوشنودی

رضایت یعنی یہ کہ انسان کو اطمینان ویقین ھو کہ خدا وند متعال ہمارے لئے برا نھیں چاہتا اور تمام مقدرات بشر کی منفعت کے لئے ھے یہاں تک کہ بلائیں سختیاں مصیبتیں اگر کوئی تمام چیزوں کو نعمت گردانے ھر چیز کو خوبصورت سمجھے اور خلقت میں خطا کو قبول نہ کرے تو اپنے کو اتنی سب نعمتوں کا مستحق نھیں سمجھے گا اور اتنی سب نعمتوں کے مقابلہ میں اپنے اعمال اور شکر گذاری کو بھتکم سمجھے گا۔ ایسا آدمی جو کچھ خدا نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ھے اس پر قانع و راضی رہتا ھے نہ کسی چیز کا ھم وغم رکھتا ھے اور نہ ہی مستقبل کی فکر اس کو ستاتی ھے اور اس طرح وہ سکون واطمینان کے کمال تک پہنچ جاتا ھے حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
الروح الراحة فی الرضا والیقین، والهم والحزن فی الشک والسخط؛ 25 چین وآرام رضا ویقین میں ھے اور ھم وغم اور رنج وملال، شک و تردید اور ناراضگی میں ھے۔
یہ صحیح ھے کہ سکون وآرام کے لئے لوازم زندگی امنیت اور کام وکسب کی درستگی اور مناسب ذریعہ معاش ضروری ھے اور زندگی بغیر ان کے اجیرن ھے لیکن بھت سے انسان مادی زندگی کی بدحالی تہہ بتہہ فقر و تنگدستی میں بھی جو کچھ خدا نے ان کے واسطے مقرر کر رکھا ھے اس سے رضایت و خوشنودی کا اظہار کرکے بڑے سکون وآرام کی زندگی بسر کررھے ھیں بلکہ اپی زندگی سے بے حد راضی ھیں حضرت امام علی (ع) فرماتے ھیں:
ان اهنا الناس عیشا من کان بما قسم الله له رضیا؛ 26 لوگوں میں سب سے بہترین زندگی کا مالک وہ ھے جو خدا کی جانب سے اپنے لئے مقرر کردہ چیزوں پر راضی وخوشنود ھے۔ یہی امام ھمام رضایت و خوشنودی کو ھم وغم دور کرنے کا بہترین وسیلہ سمجھتے ھیں فرماتے ھیں:
نعم الطار للهم الرضا بالقضاء؛ 27 ھم وغم کو دور کرنے والا بھترین ذریعہ، خدا کے فیصلہ پر راضی و خوشنود رہنا ھے ۔ آپ (ع) رضایت خوشنودی کو راحت وآرام کا بلا فصل ثمرہ اور بہترین نتیجہ گردانتے ھوئے کہتے ھیں:
ارض، تسترح؛ 28 راضی رھو آسودہ خاطر رھو گے۔
اتنی ساری تفصیلات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ھے کہ جو معنی سست اور کاھل لوگوں نے نکالا ھے اس کا کوئی نتیجہ نھیں ھے کیونکہ بغیرکوشش کئے ھوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بہٹھے رہنے سے کوئی فائدہ نھیں ھے بغیر کوشش کے اللہ پر بھروسہ کو فقر و فاقہ سے باہر نکلنے کا بہانہ، کام نہ کرنے کا بہانہ سعی و تلاش سے فرار کا بہانہ نھیں قرار دیا جا سکتا۔ بلکہ خدا پر توکل واعتماد کا مطلب ھے کہ اگر انسان اپنی تمام تر سعی و کوشش کے باوجود مصیبت زدہ یا فقیر رہ گیا اور طبیعی وانسانی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ھوگیا اور اپنی ضروریات زندگی کی معمولی چیز یں بھی فراہم نہ کر سکا تو اسے چاھئے کہ عنصر رضا وخوشنودی سے توکل واعتماد بہ خدا سے مدد مانگے تاکہ جسمانی پریشانیوں کو روحانی ومعنوی اضطراب و بے چینی میں تبدیل نہ کر لے اور یہ یقین کر لے کہ سمندر کی اوپری سطح میں طوفان آتا رھتا ھے مگر اس کا کوئی اثر اس کی گہرائیوں میں نھیں ھوتا ۔
ایک وضاحت

ایک مطلب جس سے غافل نھیں ھونا چاھئے یہ ھے کہ یہ عوامل واسباب سکون واطمینان ۔ اللہ کی لایزال قدرت سے قابل تحصیل ھیں صرف اس کی عنایت وتوجہ سے ہی یہ سارے عوامل ہمارے اختیار میں آسکتے ھیں۔ لیکن ان عوامل سے استفادہ اور انھیں صحیح ڈھنگ سے استعمال کرنا یہ عقل خرد انسانی سے وابستہ ھے ۔عقل اپنے حقیقی مفھوم میں دینی معارف اور فطری صلاحیت کی مدد سے سکون واطمینان بخش عوامل میں سے ہر ایک کی چھان بین و تحقیق کرکے انھیں صحیح طریقہ اور بر محل اور بقدر ضرورت انسان کے حوالے کرسکتی ھے اس کے لئے انسان کے اس ظاہری چہرے کے پیچھے ایک دیندار عقل و خرد کے وجود کا پتہ دینے والا سکون واطمینان سے لبریز چہرہ چھپا ھوا ھوتا ھے اور یھیں سے حضرت امیر المومنین(ع) کے فرمان مبارک کی عظمت کا پتہ چلتا ھے آپ فرماتے ھیں:
السکینة عنوان العقل؛ 29 سکون واطمینان،عقل وخرد کا عنوان ھے نیز اس کو تقویت پہنچاتا ھے۔ 30
جی ہاں!عقلمند اور دیندار آدمی انھیں عوامل پر عمل کرکے تزلزل آفرین حوادث میں پائیداری واستقامت سے کام لیتا ھے اور فتنوں اور شبہوں اور موانع و نفاق سے مقابلہ کرتا ھے اور میدان زندگی میں سکون وچین کے ساتھ پا بر جا رہتا ھے آئیے ھم حضرت امام زین العابدین(ع) کے ھم آواز ھو کر اس چیز کو خدا وند عالم سے باصرار طلب کریں۔
الهی! فاجعلنا من الذین ترسخت اشجار الشوق الیک فی حدائق صدورهم ۔۔۔واطمانت بالرجوع الی رب الارباب انفسهم وتیقنت بالفوز والفلاح ارواحهم؛ 31 خدایا! مجھے ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جن کے سینوں کے چمنستانوں میں تیرے شوق واشتیاق کے درختوں کی جڑیں بیٹھ چکی ھیں۔۔۔ اور ان کی جانیں اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر مطمئن ھو چکی ھیں اور ان کی روحیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ھو چکی ھیں ۔
آخری سخن:

خیال سکون کے حوالے سے ھم سب اپنی دنیاوی زندگی میں بظاہر پائیدار پلیٹ فارموں پر اعتماد واطمینان کر کے اپنے کو مطمئن و پر سکون سمجھتے ھیں اور جیسے ہی ان کی کمزوری و بے پائیگی اور سستی کا راز فاش ھوجاتا ھے خود کو کھو بیٹھتے ھیں اور ھمارے پورے وجود پر اضطراب و بے چینی کا غلبہ ھوجاتا ھے ان تمام ناپائیدار سکون بخش تکیہ گاہ کا خلاصہ اور جامع، دنیا اور دوستی دنیا ھے اور دنیا سے متعلق لمبی لمبی خیالی آرزوئیں ھیں، خدا ورسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین(ع)، نے انسانوں کو دنیا پہ اطمینان واعتماد کرنے سے منع کیا ھے اسی طرح جوانی، پیسہ اور مواقع پر بھروسہ کرنے سے ھوشیار رکھا ھے ۔
حضرت موسیٰ(ع) سے خطاب کرتے ھوئے حدیث قدسی میں آیا ھے:
لا ترکن الی حب الدنیا فلن تاتینی بکبیرۃ هی اشد منها؛ 32 دنیاکی دوستی ومحبت پر بھروسہ نہ کرو کہ ایسی صورت میں اس سے بھاری گناہ کے ساتھ میرے پاس نہ آنا۔ حضرت رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ھے: آپ عبد اللہ بن مسعود کو خطاب کرکے فرماتے ھیں:
لا ترکن الی الدنیا ولا تطمئن الیها فستفارقهاعن قلیل؛ 33 دنیا پر اعتماد نہ کرنا اور اس پر مطمئن نہ ھوجانا کہ بھت جلد تمھیں چھوڑ کر چلی جائے گی۔
روایت میں آیا ھے کہ کسی نے حضرت امام جعفر صادق(ع) سے واعظ ونصیحت چاہی آپ نے فرمایا:
ان کانت الدنیا فانیة، فالطمانینة الیها لماذا؟ 34 اگر دنیا فنا پذ یرھے تو اس پر اطمینان کرنا کیسا؟ سچ مچ ہم سکون وآرام کی شاخوں کو کس خاک میں گاڑیں؟ کس سقا خانہ سے اطمینان و اعتماد کا پانی پئیں؟ حقیقت تویہ ھے کہ صرف اس سایہ دار درخت سے سکون وا طمینان حاصل کیا جا سکتا ھے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ھو اور موت کی تیز و تند خزاں جس کے پتوں کو سکھا کر زمین بوس نہ کردے کہ نہ جانے کتنے لوگوں نے دنیا پر بھروسہ کیا اور زمین بوس ھو گئے زمین و خاک پر آرھے ۔ 35
----------------------
1. غررالحکم، ح۴۰۹۹۔ اس کتاب کی تمام احادیث امام علی(ع) سے منقول ھیں۔
2. سورۂ فتح، آیت۴۔
3. الکافی، ج۲، ص۴۲۱۔
4. بحار الانوار، ج۷۸، ص۲۳۔
5. سورۂ آل عمران، آیت، ۲۸و ۱۰۹۔
6. "الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب"۔
7. غررالحکم، ح۵۱۶۵، اور دیکھیں بحار الانوار، ج۹۴، ص۱۵۱۔
8. سنن ابی داؤد، ج۲، ص۳۶(ح ۱۳۱۹)۔
9. سورۂ بقرہ آیت ۱۵۳۔
10. الصلاة فی الکتاب والسنۃ(فارسی ترجمہ)، ص۱۱۸(ح ۳۲۹)۔
11. گذشتہ حوالہ، ح۴۳۰۔
12.نہج البلاغہ، حکمت ۱۷۵۔
13. غررالحکم، ح۱۸۳۷۔
14. گذشتہ حوالہ، ح۵۷۷۳۔
15. بحار الانوار، ج۷۸، ص۲۰۹۔
16. میزان الحکمۃ فارسی ترجمہ، ج۷، ص۳۳۹۴(ح۱۱۵۳۴)۔
17. نہج البلاغہ، حکمت، ۱۱۴۔
18. رحم اللہ امرءُ عرف قدرہ۔
19. لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا؛خدا کسی کو اس توان سے زیادہ تکلیف نھیں دیتا۔(سورۂ بقرہ، آیت۳۸۶)
20. غرر الحکم، ح۲۹۶۴۔
21. کنز العمال، ح ۷۲۹۶۔
22. گذشتہ حوالہ۔
23. کنزالعمال، ح۷۲۷۸۔
24. گذشتہ حوالہ دیکھیں، ح۷۳۰۶۔
25. بحار الانوار، ج۷۱، ص۱۵۹۔
26. غررالحکم، ح۳۳۹۷۔
27. غررالحکم، ح۹۹۰۹۔
28. گذشتہ حوالہ،ح۲۲۴۳۔
29. غررالحکم، ح۷۸۵۔
30. بحار الانوار، ج۱، ص۱۰۷۔
31. میزان الحکمۃ فارسی ترجمہ، ج۴، ص۱۸۵۴(۶۴۴۱)
32.تنبیہ الخواطر، ج۱، ص۱۳۴۔
33. بحار الانوار، ج۷۷، ص۱۰۴۔
34. الکافی، ج۴، ص۳۹۳(ح۵۸۳۶)
35. کم من ذی طمانینۃ الی الدنیا قد صر عنھ (غررالحکم، ح۶۹۴۸)۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

معنائے ولی اور تاٴویل اھل سنت
گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ
آداب معاشرت رسول اکرم (ص )
دعائے رویت ہلال
اصلاح امت اور حضرت علی علیه السلام
یوم القدس کی عالم اسلام میں اہمیت
رمضان المبارک کے سولہویں دن کی دعا
شیعہ ہونے والی ٹونی بلئیر کی سالی لاورن بوتھ
حقیقت عصمت
جلتے ہوئے خيموں سے امام سجاد (ع) کي حفاظت

 
user comment