ھر صاحب عقل پر یہ بات واضح ھے کہ نبی چونکہ پیغامات الٰھی کولوگوں تک پهونچاتا ھے اور ان کے سامنے دینی احکامات پیش کرتا ھے لہٰذا اس کی باتوں پراس وقت یقین کیا جاسکتا ھے جب وہ صادق هو اور بھول چوک اور خطا وغلطی سے پاک هو، اور ھر طرح کی معصیت وگناہ سے دور هو ،نیز خدا کی مکمل طریقہ سے اطاعت کرتا هو،تاکہ (یقینی اور قطعی طور پر ) ان تمام چیزوں سے پاک ومنزہ هو جو اس کے اقوال، اعمال اور دیگر امور میں باعثِ شک بنتے هوں۔
چنانچہ اسی چیز کو علماء علم کلام”عصمت “ کہتے ھیں۔
اس بنا پر عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ھے جو نبی کو ترکِ طاعت، فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ھے۔
انبیاء (ع) کی عمومی زندگی کی معرفت کے بعد انسان اس نتیجہ پر پهونچ جاتا ھے کہ نبی کے لئے صاحب عصمت هونا ضروری ھے اور ھمارے لئے انبیاء کی عصمت پر یقین رکھنا واجب ھے، چنانچہ شیعہ حضرات انبیاء (ع) کی عصمت کی ضرورت پر زیادہ اصرار کرتے ھیں اور اسلامی فرقوں میں صرف ھمارا واحد مذھب ھے جو انبیاء (ع) کی عصمت کا قائل ھے چونکہ دوسرے اسلامی فرقے انبیاء (ع) کی عصمت مطلقہ کو ضروری نھیں سمجھتے، جبکہ فرقہٴ معتزلہ اگرچہ انبیاء (ع) کو گناہِ کبیرہ سے معصوم مانتاھے لیکن ان کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز جانتا ھے البتہ ایسے گناہِ صغیرہ جو فقط ثواب کو کم کرتے ھیں لیکن باعث عذاب نھیں هوتے۔[1]
اور چونکہ مسئلہ واضح ھے لہٰذا اس میں زیادہ گفتگو اور دلیل کی کوئی ضرورت نھیں کیونکہ خود انسان کا وجدان اور دل اس بات کی گواھی دیتا ھے کہ وہ نبی جو خطا وغلطی کرتا هو اور معصیت وگناہ کا مرتکب هوتا هو اس صورت میں کوئی بھی انسان اس کی اطاعت وپیروی نھیںکرے گا اور نہ ھی اس کے قول وفعل او رامر ونھی کو قبول کرے گا۔
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں بہت سی کلامی کتابوں میں بغیر سوچے سمجھے لکھ دیا گیا ھے اور اس سلسلہ میں ان لوگوںکے وھم کی وجہ سے قرآن مجید کی وہ آیات ھیں جن کے ظاھر سے اس بات کااشارہ هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمگناہ اور معصیت کے مرتکب هوئے۔
لیکن جب ھم بحثِ نبوت اور نبی کی عظمت کا صحیح طریقہ سے جائزہ لینا چاھیں تو ھمیں اس طرح کی آیات کے ظاھر سے پرھیز کرتے هوئے ان کے اصل مقصد تک پهونچنا چاہئے یھاں تک کہ ھم پر حقیقت امر واضح هوجائے اور ھم شکوک وشبھات کا سدّ باب، مستحکم دلیل وبرھان اور فھم صحیح سے کردیں۔ (لہٰذا مناسب ھے کہ پھلے ھم ان آیات کو بیان کریں جن کے ذریعہ سے مخالفین عصمت نے استدلال کیا ھے اور پھر ان کا مکمل جواب پیش کریں۔)
پھلی آیت:
ارشاد خداوندعالم هوتا ھے:
<لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَ>[2]
جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ھے کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ کرنے پر واضح طور پر دلالت کرتی ھے (اگرچہ ان کی بخشش کا وعدہ کیا گیا ھے)
جواب :
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں لفظ ”ذنب“ کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت سی وجوھات بیان کی ھیں ان میں سب سے بہتر وجہ وہ ھے جس کو سید مرتضیٰ ۺ نے اختیار کیا ھے ، (سید مرتضیٰ ۺ کا علم وادب اور لغت میں منفرد مقام ھے) چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:
”آیہ کریمہ میں لفظ ”ذنبک“ سے مراد امت محمدی کے گناہ ھیں کیونکہ ذنب مصدر ھے اور مصدر کبھی کبھی فاعل کی طرف مضاف هوتا ھے مثلاً ”اعجبنی شعرک اٴو ادبک اٴو نثرک“ (مجھے تمھارے اشعار یا نثر اور ادب پر تعجب ھے) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف هوا ھے، لیکن کبھی کبھی مصدر اپنے مفعول کی طرف بھی مضاف هوتا ھے مثلاً: ”ساء نی سجنک اٴ و مرضک“ ( میں آپ کے قید هونے یا مرض میں مبتلاهونے کی وجہ سے پریشان هوا) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف هوا ھے اور جس کو قید هوئی یا بیمارهو وہ مفعول ھے۔
اب آئےے قرآن مجید کی اس آیت میں دیکھتے ھیں کہ لفظ ”ذنب“ مفعول کی طرف اضافہ هوا ھے اور ذنب سے مراد امت کے ذریعہ نبی کے اوپر واقع هونے والے سبّ و شتم ا ورمذاق اڑانے کے گناہ ھیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تکذیب اور جنگ میں آپ کو اذیت دینے والے کے گناہ مراد ھیں۔
اور اگر قرآن کی آیت کے اس طرح معنی نہ کریں تو آیت کی تفسیر نھیں هوسکتی، آیت کو ملاحظہ فرمائیں ارشاد هوتا ھے:
<اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ>[3]
”اے رسول یہ حدیبیہ کی صلح نھیں (بلکہ) ھم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی ھے تاکہ خدا تمھاری امت کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے۔“
کیونکہ اس آیہٴ کریمہ میں فتح کے بعد غفران وبخشش کا ذکر ھے اور جس روز فتح حاصل هوئی اس روز غفران نھیں تھی کیونکہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بعد نازل هوئی، خداوندعالم نے اس صلح کانام فتح رکھا، اور اسی صلح کے ذریعہ سے فتح مکہ کے اسباب فراھم هوئے، چنانچہ اس طرح سے آیت کے معنی واضح هوجاتے ھیں :
” اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً لِیَغْفِرَلِاَجَلِکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ قومکَ نَحْوِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَمنہ بعد ہذا الصلح والی ان َیُتِمَّ الفتح ولیتم نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ بالفتح الکبیر والنصر العظیم“
یعنی اے میرے حبیب ھم نے تم کو واضح طور پر فتح وکامیابی عنایت کی اور اس صلح کے بعد سے مکمل کامیابی تک آپ کی وجہ سے آپ کی قوم کے گذشتہ وآئندہ کے گناہ بخش دئے تاکہ خدا اس عظیم فتح کے ذریعہ تم پر اپنی نعمتیں نازل کرے۔
قارئین کرام ! اگر مذکورہ آیہ مبارکہ کے معنی بعض کج فکر لوگوں کی طرح کریں کہ ذنب سے مراد بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ ھیں تو پھر اس فتح کے بعد غفران وبخشش کوئی معنی نھیں رکھتے، کیونکہ اس بخشش کے سوا اس کے اور کوئی معنی نھیں هوتے کہ فتح کے بعد ان لوگوں کے گناہ بخش دئے جائیں جنھوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شان میں بے ادبی کی، ان لوگوں کے وطن کو لشکر نبوی کے ذریعہ فتح کرائے او ران کے جاھلیت کے زمانہ کو ختم کردے۔
دوسری آیت:
< وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِ وَاٴَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اٴَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللهَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللهُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَاہُ فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا۔>[4]
”اے رسول اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص (زید) سے کہہ رھے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ)کیا اور تم نے اس پر (الگ)احسان کیا ،(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو، غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (طلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا“
جیسا کہ بعض لوگوںنے دعویٰ کیا ھے کہ اس آیہ کریمہ میں رسول اسلام کی سرزنش اور ملامت کی گئی ھے کیونکہ وہ لوگوں کی قیل وقال سے خوف زدہ تھے۔
جواب:
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیںکہ یہ آیہ کریمہ زید بن حارثہ اور ان کی زوجہ جناب زینب بنت جحش کے بارے میں ھے او رھم نے چند صفحے قبل اس بارے میں تفصیل بیان کی ھے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کرام آیت کے سیاق وسباق سے اچھی طرح آگاہ ھیں چنانچہ آپ حضرات اس آیت کے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں پاتے۔
تیسری آیت:
<عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْنَ >[5]
بعض لوگوں کا گمان یہ ھے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ پر دلالت کرتا ھے کیونکہ بخشش اور معاف کرنا گناہ او رخطا کے بعد ھی تصور کیا جاسکتا ھے۔
جواب:
حقیقت یہ ھے کہ اس آیہ کریمہ کے معنی اس وقت تک سمجھ میں نھیں آسکتے جب تک اس کے سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھیں کیونکہ ماقبل ومابعد کو سامنے رکھ کر ھی آیت کے اصلی معنی سمجھے جاسکتے ھےں۔
ارشاد خداوندی هوتا ھے:
< لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّةُ وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُونَ اٴَنفُسَہُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ۔ عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَہُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ ۔لاَیَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاہِدُوا بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ ۔ إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ ۔ وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَہُ عُدَّةً وَلَکِنْ کَرِہَ اللهُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِینَ >[6]
”(اے رسول ) اگر سردست فائدہ اور سفر آسان هوتا تو یقیناً یہ لوگ تمھارا ساتھ دیتے مگر ان پر مسافت کی مشقت طولانی هوگئی، اور (اگر پیچھے رہ جانے کی پوچھو گے تو )یہ لوگ فوراً خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ھم میں سکت هوتی تو ھم بھی ضرور تم لوگوں کے ساتھ ھی چل کھڑے هوتے (یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھاکر ) اپنی جان آپ ھلاک کئے ڈالتے ھیں او رخدا تو جانتا ھے کہ یہ لوگ بیشک جھوٹے ھیں ۔(اے رسول ) خدا تم سے درگزر فرمائے تم نے انھیں (پیچھے رہ جانے کی)اجازت ھی کیوں دی تاکہ (تم ایسا نہ کرتے تو) سچ بولنے والے (الگ )ظاھر هوجاتے اور تم جھوٹوں کو (الگ) معلوم کرلیتے۔ (اے رسول ) جو لوگ (دل سے) خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جھاد (نہ) کرنے کی اجازت مانگنے کے نھیں (بلکہ وہ خود جائیں گے)
اور خدا پرھیزگاروں سے خوب واقف ھے (پیچھے رہ جانے کی) اجازت تو بس وھی لوگ مانگیں گے جو خدا او رروز آخرت پر ایمان نھیں رکھتے اور ان کے دل (طرح طرح کے) شک کررھے ھیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواںڈول هورھے ھیں (کہ کیاکریں او رکیا نہ کریں)اور اگر یہ لوگ (گھر سے) نکلنے کی ٹھان لیتے تو (کچھ نہ کچھ) سامان تو کرتے مگر (بات یہ ھے ) خد ا نے ان کے ساتھ بھیجنے کو ناپسند کیا تو ان کو کاھل بنادیا اور (گویا) ان سے کہہ دیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے (مکھی) مارتے) رهو۔“
جواب:
قارئین کرام ! ان آیات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ میں گناہ شرعی نھیں ھے یعنی حکم خدا کی مخالفت نھیں کی بلکہ ان آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس بات کی ہدایت کی گئی ھے کہ آپ جنگ میں شرکت نہ کرنے والوں کے جھوٹ وسچ کو کن طریقوں سے پہچانےں تاکہ آپ کو اپنے اصحاب میں صادقین وکاذبین کی شناخت هوجائے، کیونکہ اگر آپ ان لوگوں کی تاخیر میں اجازت نہ دیتے تو جھوٹے اور سچوں کی پہچان هوجاتی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان لوگوں کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دیدی جو یہ کہہ رھے تھے کہ ھم جنگ میں جانے سے معذور ھیں لہٰذا ان کی سچائی کا ثبوت نہ مل سکا کیونکہ ان میں سے بعض لوگ سچے تھے اور بعض لوگ صرف بھانہ کررھے تھے لیکن ان کے درمیان کوئی پہچان نہ هوسکی۔
چوتھی آیت:
<وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَہَدیٰ>[7]
اور چونکہ ضلال عصمت کے مخالف ھے اور گمان کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا کہ جس میں ضلالت وگمراھی پائی جائے گی وہ ذات معصوم نھیں هوسکتی۔
جواب:
حقیقت یہ ھے کہ ضلال کے معنی ذھاب اور انصراف کے ھیں جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپھلے یہ نھیں جانتے تھے کہ کس طرح خدا کی عبادت کی جائے اور اپنے واجبات کی ادائیگی کرکے کس طرح تقرب الٰھی حاصل کیا جائے تو اس وقت تک خاص معنی میں عبادت نھیں کرتے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے آپ کی ہدایت کی اور رسالت اسلام سے سرفراز کیا اور مذکورہ آیت انھیں آیات میں سے ھے جن میں خداوندعالم نے اپنے نبی پر نازل کردہ نعمتوں کو شمار کیا اور اپنی خاص عنایات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے شامل حال رکھیں۔
ارشاد هوتا ھے:
<اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَآویٰ وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَہَدیٰ وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی>[8]
”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر (ابوطالب) کی پناہ نھیں دی (ضرور دی) او رتم کواحکام سے ناواقف پایا تو تمھیں منزل مقصود تک پهونچادیا او رتم کو تنگدست پاکر غنی کردیا“
چنانچہ یہ آیات واضح طور پر ھمارے مطلوب ومقصور پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ خداوندعالم نے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یتیم پایا تو آپ کو پناہ دی اور پرورش کی اور جب آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی کردیا اس کے بعد جب خاص معنی میں عبادت کا طریقہ نھیں آتا تھاتو خداوندعالم نے عبادت خاص کی طرف ہدایت کی۔
پانچویں آیت:
<وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ >[9]
”اور تم سے وہ بوجھ اتاردیا“
جبکہ عرف عام میں”وزر“ کے معنی گناہ کے ھیں۔
جواب:
حقیقت یہ ھے کہ لغت میں ”وزر“ کے معنی ثقل (بوجھ) کے ھیں اور گناهوں کو اسی وجہ سے ”وزر“ کھا جاتا ھے کیونکہ گناهوں کا انجام دینے والا سنگین هوجاتا ھے، چنانچہ اس بناپر ھر وہ چیز جو انسان کو بوجھل کردے تو اس کو ”وزر“ کھا جاتا ھے حقیقی ثقل سے شباہت کی وجہ ھے جیسا کہ یہ ذنب سے بھی مشابہ ھے اور ذنب کو بھی ”وزر“کھا جاتا ھے۔
لیکن وہ چیز جو رسول اسلام کو سنگین اور بوجھل کرتی تھی،وہ آپ کی قوم کا شرک وکفر اور آپ کی رسالت کا انکار نیز آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنا تھا لیکن جس دین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلملے کر نازل هوئے آپ اس کی مسلسل دعوت دیتے رھے جبکہ آپ دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور اور ضعیف تھے او رنہ ھی آپ کے ساتھ بہت زیادہ افراد تھے جو اذیت اور شرارت کے وقت ان کا مقابلہ کرتے۔
اور یھی معنی ھیں ”وزر“ کے یعنی ایسی سنگینی جس کے غم والم کی وجہ سے آپ کی کمر ٹوٹی هوئی تھی،اور شاید اسی معنی میں آیات کاا دامہ بہترین شاہد هو کہ ارشاد هوتا ھے:
<وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً>[10]
کیونکہ رفع ذکر اور مشکلات کے بعد آسانیوں کا تذکرہ اس صورت میں صحیح ھے جب وزرسے مراد رسول اسلام کی وہ سنگینی مراد لی جائے جو آپ کی قوم میں ہدایت اور اسلام سے بے توجھی کی وجہ سے آپ کے دل میں موجود تھی۔
قارئین کرام ! یہ تھی نبوت بمعنی عام کی گفتگو جو ہدایت بشر اور بہترین نظام زندگی کو سازوسامان بخشنے والی ھے اور یہ تھی بحث ”خاتم النبین“ (ص) کی جو تمام لوگوں کے رسول بناکر بھیجے گئے جو ”شاہد بھی ھےں اور مبشر ونذیر بھی جو خدا کے حکم سے خدا کی طرف دعوت دینے والے سراج منیر بھی ھیں۔ آپ کی ذات گرامی، وہ ھے جن کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:
< وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهویٰ اِنْ هو الِاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی>[11]
” وہ تو اپنی خواہش سے کچھ بولتے ھی نھیں یہ تو بس وحی ھے جو بولی جاتی ھے“
آخر کلام میں اس گفتگو کا اختتام اس طرح کرتے ھیں:
<رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ>[12]و<اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ>[13]
”اے ھمارے پالنے والے جو کچھ تو نے نازل کیا ھم اس پر ایمان لائے اور ھم نے تیرے رسول (عیسیٰ (ع)) کی پیروی اختیار کی“ ”شکر ھے اس خدا کا حس نے ھمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ھمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ھم کسی طرح یھاں تک نھیں پهونچ سکتے تھے“۔
[1] ”مذاھب الاسلامین “ تالیف ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی جلد اول ص ۴۷۸، اسی طرح امام غزالی کی کتاب ”المنخول“ پر رجوع فرمائیں، جیسا کہ مولف کہتے ھیں: ”انبیاء (ع) کے لئے عصمت کا قائل هونا ضروری نھیں ھے“ اس کے بعد اضافہ کرتے هوئے کہتے ھیں: ھم تو یہ بات بھی جائز جانتے ھیں کہ خدا کسی کافر کو نبی بنائے اور اس کو معجزہ عطا کرے“ اسی طرح مذکورہ کتاب کے محقق نے اس بات پر حاشیہ لگایا اور کھا: اس سلسلہ میں رافضی مخالف ھیں کیونکہ وہ انبیاء (ع) کو معصیت اور گناہ سے پاک وپاکیزہ مانتے ھیں اسی طرح معتزلہ کا بھی عقیدہ ھے مگر یہ لوگ انبیاء (ع) کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز مانتے ھیں۔“
[2] سورہ فتح آیت۲۔
[3] سورہ فتح آیت۱،۲۔
[4] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[5] سورہ توبہ آیت ۴۳۔
[6] سورہ توبہ آیات ۴۲ تا ۴۶۔
[7] سورہ والضحیٰ آیت ۷۔
[8] سورہ والضحیٰ آیت ۶ تا ۸۔
[9] سورہ شرح آیت۲۔
[10] سورہ انشراح آیت ۵،۶۔
[11] سورہ نجم آیت ۳تا ۴۔
[12] سورہ آل عمران آیت۵۳۔
[13] سورہ اعراف آیت ۴۳۔
source : http://www.sadeqeen.com