اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

یوم القدس کی عالم اسلام میں اہمیت

۔ اس بات پر تاکید کی جانی چاہیے کہ یوم قدس اور اس کو باشکوہ تر منائے جانے کی عملی اہمیت، کہ جس کے بارے میں پہلی بار انقلاب اسلامیء ایران کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) نے اس چیز کے پیش نظر کہ اتحاد قدرت اور ترقی کا باعث ہ
یوم القدس کی عالم اسلام میں اہمیت

اس بات پر تاکید کی جانی چاہیے کہ یوم قدس اور اس کو باشکوہ تر منائے جانے کی عملی اہمیت، کہ جس کے بارے میں پہلی بار انقلاب اسلامیء ایران کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) نے اس چیز کے پیش نظر کہ اتحاد قدرت اور ترقی کا باعث ہے اور تفرقہ دیانت کی سستی اور پسماندگی کی وجہ ہے، اعلان کیا ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ کی مدت میں یوم قدس کو ہمیشہ ایک محور ،علامت ، معیار اور حقیقت میں دنیائے اسلام میں اتحاد پیدا کرنے کی ایک اصلی پیشگی شرط اور اس کے راستے کے طور پر پہچانا گیا ہے ،مسلمانوں اور امت عظیم اسلامی کو چاہیے تھا کہ  عالمی صہیونزم کے نحس موجود کا مقابلہ کرنے اور دنیائے اسلام کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے عنوان سے جو اس کے آثار و نتائج ہیں ان کو دفع اور نابود  کرنے کی خاطر اس دن کو منعقد کرنے کے لیے ایک خاص اہتمام کرتی  تا کہ جو اس کے عظیم اور حساس مقاصد ہیں ان کو دنیائے اسلام میں اتحاد قائم کرنے کے ذریعے اور عالمی صہیونزم کو جنگ اور مقابلے کی نظر سے دیکھتے ہوئے نہ کہ صلح اور سازش کی نظر سے حاصل کیا جا سکے ۔

قدس شریف اور اس کی سیاسی جغرافیائی اور حساس زمینی موقعیت

قدس شریف وحی کی حامل اور  اسلامی  نگاہ میں مسجد الاقصی کی وجہ سےغیر معمولی قدر و قیمت کا حامل ہے ۔قدس شریف کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ مقدس سر زمین انبیاء کی جائے سکونت اور ان کی بعثت کی جگہ ،مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور پیغمبر اعظم ص کے آسمانی معراج کی جانب جانے کی جگہ ہے ۔جیسا کہ بیت المقدس یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی دینی اور مذہبی لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے ۔

قدس شریف ایک مقدس شہر ہے کہ عمر بن عاص بن وائل نے صدر اسلام میں اس کو فتح کیا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ میں اس کو صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کروایا تھا سلیمان قانونی نے سولہویں صدی میں اس کی دیواریں تعمیر کی تھیں ۔یہ شہر مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ قبۃ الصخرۃ اور مسجد الاقصی دو مقدس مقامات ہیں جو اس شہر میں ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا یہ پہلا قبلہ اور دنیائے اسلام کا تیسرا حرم شریف اور پیغمبر اکرم ص کے معراج کی جانب عروج پانے کی جگہ ہے ۔

۱۹۶۷ میں جب سے قدس شریف پر صہیونیوں نے قبضہ کیا ہے اس کو اسرائیل کا دائمی پایتخت اعلان کر دیا گیا ہے ۔ تمام نظریں قدس پر جمی ہوئی ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے دل اس پر ٹکے ہوئے ہیں ۔اسی وجہ سے یہودی اس کوشش میں ہیں کہ اپنے لیے ایک تاریخ بنائیں اور انہوں نے اپنی پوری کوشش اس کو یہودی بنانے پر متمرکز کر رکھی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ دیوار ندبہ ان کی ہے ،قدس کو اس کے مقام اور مرتبے کے پیش نظر دنیا کو بہت اہم اور حساس شہر قرار دیا جانا چاہیے ،اس طرح کہ اس وقت وہ اسرائیل کی غاصب حکومت  اور مسلمانوں اور خاص کر قدس کے رہنے والوں کے درمیان تنازعے کی بنیاد بن چکا ہے ۔اس شہر کی اصلی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ  یہ تین آسمانی ادیان ،اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کا مرکز ہے ۔ یہ وہ مشترکہ نقطہ ہے جو اسلامی مقولے کو بیان اور مجسم کرتا ہے اور جو دوسرے ادیان اور مذاہب سے مختلف ہے ۔ خداوند عالم نے مسجد الاقصی کو اس شہر میں قرار دیا ہے اور اس کو مبارک قرار دیا ہے اور اس شہر کا انتخاب کیا ہے کہ یہ تین آسمانی ادیان کے اتصال کا مرکز بن جائے ۔لیکن اس کو یہودی بنانا اور اس میں یہودیوں کے رہائشی شہر تعمیر کرنا اور اسلامی اور وحی کے آثار کو مٹانے کی سیاست اس حکومت کی وسعت طلبی اور نسل پرستی کی سیاستوں کے ساتھ کہ جن پر اس وقت عمل ہو رہا ہے وہ بالکل اس شہر کی ماہیت اور اس  مقدس شہر  کے واقعی مفہوم کے ساتھ متضاد اور متعارض ہے ۔

یہودی سازی قدس شریف کے لیے سب سے بڑا خطرہ

قدس شریف اور فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے چھ دہائیوں سےزیادہ گذر چکی ہیں ۔عرب حکومتوں نے ابتدائی مقابلے اور اقدامات کے بعد اور غاصب اسرائیلی حکومت  کے چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست  کے بعد کہ جس میں مصر شام اور لبنان کے کچھ علاقوں پر صہیونیوں کا قبضہ ہو گیا تھا ،بعض قدامت پرست اور سازشی عرب حکومتوں نے کچھ مواقع پر فلسطین کے مقاصد کے ساتھ بے وفائی شروع کر دی ۔ قدس شریف اور فللسطین کے مقاصد کے سلسلے میں قدامت پرست عرب سربراہوں کی بے توجہی کی وجہ سے فلسطینیوں کا دائرہء حیات تنگ ہو چکا تھا اور صہیونی بھی نئے نئے نقشوں اور منصوبوں کے تحت مسجد الاقصی کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے پراگندہ خواب دیکھ رہے تھے ۔قدس شریف کو یہودی بنانا قدس پر قبضے کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ترین منصوبہ تھا ۔حقیقت میں مسجد الاقصی کی عمارت کے نیچے سے سرنگ بنانا ،اور فلسطین نشین علاقوں میں بے رویہ شہروں کی تعمیر وغیرہ کے پیچھے صہیونیوں کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک فلسطینیوں کو نکالنا اور دوسرا اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹانا  ہیں تا کہ یہ حکومت اس  مقدس شہر کوکہ جو بنیادی طور پر فلسطینیوں اور مسلمانوں کا ہے اپنے قبضے میں رکھ سکیں ۔

واقعیت یہ ہے کہ صہیونیوں کی نظر میں قدس شریف ایک بہت اہم جغرافیائی حساسیت سے بر خوردار ہے  اس طرح کہ یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ صہیونزم کے سربراہ اور پالیسی میکر اپنی جعلی حکومت کی بقاء اور اس کے دوام کو اس مقدس شہر سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران اور خاص کر گذشتہ دو دہائیوں میں صہیونی رہنماوں کی پوری کوشش ہے کہ قدس شریف کو یہودی شہر میں تبدیل کر دیا جائے کہ جس پر اس وقت اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ اصل میں شہر تعمیر کرنے اور مقبوضہ سر زمینوں کو یہودی سر زمینوں میں تبدیل کرنے کا خاص کر بیت المقدس کے اطراف کی سر زمینوں کو یہودی زمینوں میں تبدیل کرنے کا صہیونیوں کا مقصد قدس شریف کو مکمل طور نابود کرنا اور مقبوضہ زمینوں میں یہودی حکومت کی تشکیل دینا ہے ۔

صہیونیوں کے بوڑھے جنرل ایریل شیرون کو کہ جو عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تمام جنگوں میں محاذ پر سب سے آگے رہا ہے اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ اس کا نام ایک طرح سے جڑ گیا ہے شہر قدس اور غصبی سر زمینوں میں شہر بنانے کی سیاست کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے  واقعیت یہ ہے کہ مسکونی علاقے بنانا اور قدس کو یہودی بنا نا اور اس کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنا کہ جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور فلسطین کے سلسلے پاس کی گئی قراردادوں کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے ،مدتوں پہلے شروع ہو گیا تھا اور اس وقت تیزی کے ساتھ جاری ہے             جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سب سے پہلے صہیونی اس مقدس مکان کو یہودیوں کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ شہر قدس مقدس اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اسلامی شان کا حامل ہونے کے ساتھ ،یہودیوں کے لیے بھی مختلف پہلووں سے اہمیت کا حامل ہے اس طرح کہ صہیونی رہبر اور خاص کر ان کے انتہا پسند گروہ اسرائیل کی عبری حکومت کی تاسیس اور بقاکو قدس کی اسلامی ماہیت اور شناخت کی نابودی اور قدس کی یہودی طرز پر ساخت کو قرار دیتے ہیں ۔

صہیونی پہلے تو اس شہر کو مذہبی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ۔جس زمانے میں دیگر ملکوں جیسے یوگینڈا ، سیبری ، یا اتریش میں دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی غاصب حکومت کی تاسیس کی بات چلی تو اس کو رد کر دیا گیا اس لیے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے محسوس کیا  کہ یہودیوں کو کسی ایک ملک میں جمع کرنے کا واحد راستہ صرف مذہبی مسئلہ ہے ۔اسی لیے انہوں نے فلسطین پر اصرار کیا ،نہ اس اعتبار سے کہ وہ فلسطین کی سر زمین کو دوست رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدس پر غلبہ حاصل کریں ،چونکہ قدس یہودیوں کے لیے ایک مذہبی محرک ہے ۔اگر چہ صہیونی تحریک کے رہنما اور خود تحریک بے دین اور لا مذہب تھی ،لیکن انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہودیوں کے یکجا کرنے کا واحد راستہ قدس ہے  اسی بنا پر انہوں نے طے  کیا کہ یہودی حکومت اس ملک میں ایجاد کی جائے  ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ برطانیہ کے حیاتی منافع بھی اس مذہبی رجحان کے ساتھ وابستہ تھے ،اس بنا پر مذہبی اور حیاتی منافع کا یکجا ہو نا باعث بنا کہ فلسطین صہیونیوں کی نسل پرستی کے منصوبے کا شکار بن جائے ۔

اس بنا پر صہیونیوں کے لیے قدس کی اہمیت کو صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین کے اس مشہور جملے سے جانا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قدس کے بغر اور قدس کا ھیکل سلیمانی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں ۔ اس بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ قدس کس قدر یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور صہیونی بھی اس کی یہودی طرز پر تعمیر کے لیے کس قدر ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ اور اس کے بارے میں امریکہ میں بھی پروپیگنڈا ہوتا ہے  کہ قدس کو اس کے اطراف کی زمینیں غصب کر کے یہودی طرز پر تعمیر کیا جائے ۔

یوم قدس اور فلسطینی کاز کا ہمہ گیر دفاع

قدس اس وقت دو بنیادی موضوعات کے مقابلے پر ہے ایک مذہبی موضوع ہے اور دوسرا حقوقی موضوع ہے ۔اس کے حقوقی مذہب سے متعلق یہ ہے  کہ یہ ایک غصب شدہ شہر ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قدس اور غصبی زمینوں سے اسرائیلی غاصبوں کو نکلنا چاہیے ۔لیکن مذہبی لحاظ سے قدس مسلمانوں کے لیے ایک علامتی شہر ہے اور اس کے ساتھ ہی عیسائیوں کے لیے بھی اور اس کو مطلق طور پر یہودیوں کا شہر نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ وہ بھی ان یہودیوں کا کہ جن کی نظروں میں لالچ ہے ۔

قدس فلسطین کی نشانی اور علامت ہے اور جہان اسلام کے اتحاد کا محور ہے جب کہ یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا ہے اور اپنی جعلی حکومت کی بقاء کو اس پر قبضے کے باقی رہنے اور اس کو یہودی طرز پر تعمیر کرنے میں سمجھتے ہیں ۔ ۔صہیونیوں نے بارہا تقریروں میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل قدس کے بغیر اور قدس اسرائیل کے بغیر بے معنی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدس شریف پہلے تو اسلام کے متعلق ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور حیاتی اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ مسلمان دنیا قدس اور اس کے مذہبی مفہوم کے گرد جمع ہوتی ہے ۔اس بنا پر مسلمان بھی  قدس کے سلسلے میں اپنے مذہبی اعتقادی اور دینی اصول سے صرف نطر نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہیے کہ ان کو بندھے ہاتھوں یہودیوں کے حوالے کر دیں تا کہ وہ جو چاہیں کریں چونکہ اگر یہودیوں کے اختیار میں چلا جائے توو وہ خود کو قدس یا فلسطین تک محدود نہیں رکھیں گے اس لیے کہ صہیونیوں کا منصوبہ قدس اور فلسطین تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطی کو شامل ہے ۔

ٹھیک اسی مسئلے اور قدس کی مسلمانوں کے لیے حساس اہمیت کو درک کرتے ہوئے امام (رہ ) اور آپ کی پاس کردہ حکومت نے  انقلاب اسلامیء ایران کی ابتدا سے ہی   مستضعفین اور خاس کر فلسطین کے عوام اور قدس شریف کے دفاع کو جمہوریء اسلامی کے ایک اہم اور ناقابل تردید اصول کے طور پر مقرر فرما دیا تھا ۔اسی سلسلے میں ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس اور فلسطین کے کاز کے دفاع کا دن قرار دیا ۔ امام خمینی کی ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کوعالمی یوم قدس کا نام دینے کی بے نظیر ایجاد نے دنیا والوں کو غافل کر دیا تھا ۔امام رہ نے اس عملی اقدام کے ذریعے صہیونی حکومت اور اس کے عربی اور مغربی حامیوں کو بتا دیا کہ اس کے بعد نہ قدس اور نہ فلسطین اور نہ دنیا کا کوئی مظلوم تنہا نہیں ہے ۔

یوم قدس کی اہمیت

یوم قدس مختلف زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے ، منجملہ یہ کہ اس سے غاصب اسرائیلی حکومت کے ناجائز وجود کی عالمی سطح پر مخالفت ہوتی ہے ۔یہی یوم قدس صہیونی حکومت پر دباو کی علامت ہے ۔ ۔

فلسطین کے مسئلے کو قومی پہلو سے خارج کرنا اور اسکو عالمی اور اسلامی  مسئلے میں تبدیل کرنا ایک اور مسئلہ ہے کہ جس سے مسلمانوں اور امت اسلام کے درمیان عالمی یوم قدس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں یہ توضیح  ضروری ہے کہ صہیونی دشمن کی شروع میں کوشش تھی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس جنگ کو عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک قومی منازعے میں تبدیل کریں لیکن دنیائے اسلام کے ایک بڑے دینی  مرجع ہونےکے لحاظ سے امام کے موقف کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ نیم جان مبارزے میں تازہ روح پھونک دی گئی اور اس کے باعث دوسری ہر چیز سے بڑھ کر فلسطین کی جنگ اسلامی مقاومت میں تبدیل ہو گئی اور فلسطین کے عوام نے دیگر گروہوں سے رابطہ منقطع کر لیا جو اس بات کی تائیید ہے ۔

مغرب اور صہیونی حکومت کی سازش کو ناکام کرنا اور مسلمانوں پر معنوی اثر ڈالنااور ایک طرح کی عمومی مشارکت ایجاد کرناان دیگر موضوعات میں سے ہے کہ جس سے یوم قدس کی اہمیت پہلے سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے ۔اور آخر کار دنیائے اسلام کی مغرب پسند اور قدامت پرست حکومتوں پر سوال اٹھنا ایک اور موضوع ہو کہ جو اس دن کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کرتا ہے ۔در واقع جیسا کہ امام نے فرمایا یہ دن حق و باطل کے درمیان امتیاز اور جدائی کا دن ہے اور دنیائے اسلام اور امت اسلامی نے اس دن کی ریلی کی راہ میں علاقے کی بعض حکومتوں کی جانب سے روڑے اٹکانے کو دیکھا ہے کہ جس سے ان حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان سیاسی رابطے کے پائے جانے کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف یہ ان ملکوں کی حقانیت کی علامت ہے کہ جو اس دن کو زیادہ سے زیادہ شاندار طریقے سے منانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس لیے کہ آج ایک طرح سے اسلام اور عالمی صہیونزم کا سیدھا مقابلہ ہے ۔اس چیز کو اسرائیل اور لبنان کی ۳۳روزہ اور صہیونی حکومت اور غزہ کے مسلمانوں کی ۲۲ روزہ اور ۸ روزہ جنگ میں بعض ملکوں کے طرز عمل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض ملکوں اور گروہوں منجملہ القاعدہ نے موقف اختیار کر کے اس جنگ سے اپنی ناخوشنودی کا اظہار کیا اور اپنی اسلام دشمن ماہیت کو سب پر عیاں کر دیا ،اور دوسری طرف پوری دنیا میں دنیا کے مغرب سے لے کر انڈونیشیاء اور ملیشیاء تک مشرق میں حزب اللہ اور فلسطین کی مظلوم ملت اور ان کے حامیوں کی حقانیت کا باعث بن گیا ۔

آخری تحقیق

یوم قدس کی ریلی اس سال کی ایسی حالت میں منعقد ہو رہی ہے  کہ جب مشرق وسطی اور دنیائے اسلام کے خاص حالات ہیں ۔ مصر ، ٹیونس اور لیبیا میں بنیادی تبدیلیاں ہوئی ہیں علاقے میں اسلامی بیداری کی لہر چل رہی ہے عالمی صہیونزم ااور سامراجی نظام سے وابستہ  طاقتیں بہت سارے ملکوں کے سیاسی منظر سے غائب ہو رہی ہیں ۔ملت بحرین آل خلیفہ کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے ۔سعودی عرب میں بھی بعض لوگ اپنے حقوق کے پیچھے ہیں اور یہ موضوعات ایسے شرائط ہیں کہ فلسطین میں بھی صہیونی حکومت کے ساتھ سازش کی بات مردود ہو چکی ہے اور مقاومت کی بات عمومی افکار نے قبول کیا ہے ۔ایسی فضاء میں قدس کو آزاد کرنے کے نظریے کے طرفدار زیادہ ہو گئے ہیں ۔

اس طرف صہیونی حکومت اس وقت سخت اور دشوار حالات میں بین الاقوامی اور علاقائی لحاظ سے اور مقبوضہ فلسطین کی سر حدوں کے اندر ،سامنا کر رہی ہے ،صہیونی پارٹیوں میں عدم تعاون اور شدید اختلاف مقبوضہ علاقوں کے بہت سارے رہنے والوں کے الٹی ہجرت پر مبنی مطالبات صہیونی حکومت کے خلاف ملتوں کا بڑھتا ہوا غیظ و غضب ،اور اسرائیل کی جعلی حکومت کی حمایت میں اس کے بعض بین الاقوامی حامیوں کی ناتوانی ،صہیونی حکومت کو در پیش کچھ مشکلات ہیں کہ یہ سب کے سب آثار اور نتائج یوم قدس  اور اسلامی بیداری کی دین ہیں ۔

اس لیے آخری تحقیق کے عنوان سے تاکید کی جانی چاہیے کہ مجموعی طور پر دنیائے اسلام کی فضا اس سال قدس کی ریلی کی صورت میں قدس کی آزادی کی دوبارہ تاکید کے لیے ہموار ہے ۔یہ تیاری ایک مطلوبہ نقطے پر ہے اور ممکن ہے کہ امام کی جو عمر کے آخری دنوں میں فکر تھی کہ قدس آزاد ہو جائے وہ پوری ہونے والی ہے


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

معنائے ولی اور تاٴویل اھل سنت
گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ
آداب معاشرت رسول اکرم (ص )
دعائے رویت ہلال
اصلاح امت اور حضرت علی علیه السلام
یوم القدس کی عالم اسلام میں اہمیت
رمضان المبارک کے سولہویں دن کی دعا
شیعہ ہونے والی ٹونی بلئیر کی سالی لاورن بوتھ
حقیقت عصمت
جلتے ہوئے خيموں سے امام سجاد (ع) کي حفاظت

 
user comment