امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی ولادت کے 25 سال بعد حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) یکم ذوالقعدۃالحرام سنہ 173 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئیں۔ ان دونوں کی والدہ حضرت سیدہ نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) تھیں جن کا تعلق موجودہ زمانے کے شمال افریقی ملک مراکش سے تھا؛ یوں ان دونوں نے ایک ہی والدہ کی آغوش میں پرورش پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کے والد ماجد حضرت امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) مسلسل عباسی بادشاہوں کے اذیتکدوں میں اسیری کے ایام گذار رہے تھے اور بالآخر اسیری میں ہی جام شہادت نوش کرگئے؛ جبکہ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر ابھی 10 سال سے زیادہ نہ تھی چنانچہ آپ (سلام اللہ علیہا) کی پرورش کی ذمہ داری حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے سنبھالی۔
عباسی بادشاہ ہارون الرشید کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا مامون الرشید اپنے بھائی مامون کو قتل کرنے کے بعد مقام ملوکیت میں مستقر ہوا تو اس نے بھی اپنے غدار اسلاف کی مانند ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کے فروغ کا راستہ روکنے کی ٹھانی اور سنہ 200 ہجری میں امام (علیہ السلام) کو اپنے دارالحکومت (مرو (Marw) میں بلوایا اور امام (علیہ السلام) نے یہ دعوت بامر مجبوری قبول کی لیکن اہل خاندان میں سے کسی کو بھی ساتھ لے کر نہيں گئے بلکہ اس سفر پر اکیلے روانہ ہوئے۔ گو کہ آپ (علیہ السلام) نے مرو روانہ ہونے سے قبل اہل خاندان کو بلوایا اور ان سے کہا: میرے اس سفر میں واپسی کا کوئی تصور نہیں ہے چنانچہ اہل خاندان نے آپ (علیہ السلام) کی موجودگی میں سوگ منایا۔ تجزیہ نگار مؤرخین کی رائے کے مطابق امام (علیہ السلام) نے ایسا کرکے درحقیقت اہل مدینہ کو بتانے کی کوشش کی کہ مامون کی دعوت ایک دوستانہ دعوت نہيں ہے اور آپ (ع) کو یہ دعوت مجبوری کی بنا پر قبول کرنی پڑ رہی ہے۔ اور دوسری طرف سے مامون کی طرف سے امام رضا (علیہ السلام) کو مرو لے جانے کے لئے، پورا لشکر مدینہ پہنچا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ایک سال بعد سنہ 201 ہجری میں اپنے چار بھائیوں اور کئی بھتیجوں کے ہمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوئیں اور جب یہ چھوٹا سا قافلہ شہر "ساوہ" کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم پر ان کے تعاقب ميں آنے والے دشمنان اہل بیت (علیہم السلام) نے ان کا راستہ روکا اور حملہ کیا۔ اس غیرمساوی اور غیرمنصفانہ لڑائی میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے چاروں بھائی اور باقی مرد ـ جن کی تعداد 23 تک پہنچتی تھی ـ شہید ہوگئے۔ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا صدمے اور غم کی شدت سے بیمار پڑ گئیں اور ایک قول کے مطابق عباسی گماشتوں نے ایک مقامی عورت کے ذریعے انہیں زہر دلوایا۔ اسی دن، شام کو یہ خبر اہل قم اور قم میں "آل سعد" خاندان کو ملی تو موسی بن خزرج ان کے نمائندے کی حیثیت سے ـ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو قم تشریف آوری کی دعوت دینے کی غرض سے ـ قم سے ساوہ کی طرف روانہ ہوئے۔ موسی بن خزرج غمزدہ کاروان سے ملے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قم آنے کی دعوت قبول کی تو موسی بن خزرج نے خود ہی آپ (سلام اللہ علیہا) کی سواری کی لگام سنبھالی اور قم میں اپنے گھر اور سرائے کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے شہر ساوہ میں قدم دکھا تو آپ (سلام اللہ علیہا) اپنے اہل کاروان سے دریافت کیا: یہاں سے قم تک کتنا راستہ باقی ہے؟ اہل کاروان نے جواب دیا تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے والد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ایک پیشنگوئی یاد آئی چنانچہ اہل کاروان سے فرمایا: مجھے قم لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے والد سے کئي بار سنا ہے کہ "قم ہمارے پیروکاروں کا مرکز ہے"، چنانچہ عباسی حملے کے بعد زندہ رہنے والے افراد نے مرو اور خراسان جانے کے بجائے، قم کا راستہ لیا اور 23 ربیع الاول سنہ 201 ہجری کو قم المقدسہ میں داخل ہوئے۔ قم میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی تشریف آوری کی خبر اہل قم کے لئے بہت زیادہ سرور انگیز تھی۔ قم کے زعماء، عمائدین اور عام لوگ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے استقبال کے لئے نکلے اور پروانہ وار آپ (سلام اللہ علیہا) کے شمع وجود کے گرد گھومنے لگے۔ ان سب کے آگے آگے شہر کے سب سے نامی گرامی بزرگ موسی بن خزرج الاشعری تھے جنہوں نے سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی اونٹنی کی لگام سنبھالی اور آپ (سلام اللہ علیہا) سے اپنے گھر میں سکونت پذیر ہونے کی درخواست کی جو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قبول کرلی۔ کہتے ہیں موسی بن خزرج اپنی عمر کے آخری لمحوں تک اس واقعے میں حاصل ہونے والی سعادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) اپنے بھائی کی جدائی اور اپنے دیگر بھائیوں اور بھتیجوں کی مظلومت اور شہات (اور بروایتے زہر خورانی) کے بموجب سترہ دن تک بیمار رہیں جبکہ آپ (سلام اللہ علیہا) اپنی حالت سے بہتر آگاہ تھیں چنانچہ یہ ایام آپ (سلام اللہ علیہا) نے عبادت الہی اور معبود کے ساتھ راز و نیاز میں گذارے اور بالآخر 28 سال کی عمر ـ غریب الوطنی میں ـ دنیا سے رخصت ہوئیں اور پیروان اہل بیت (علیہم السلام) سوگ و ماتم میں ڈوب گئے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر کی آخری عبادتگاہ آج کل "بیت النور" کہلاتی ہے جو اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے شیدائیوں کی زیارتگاہ ہے۔ سب سے پہلے میرابوالفضل عراقی نے بیت النور کے برابر میں ایک مسجد تعمیر کی چنانچہ وہ محلہ اور اس کے اطراف میں ایک وسیع احاطہ "میدان میر" کے نام سے مشہور ہے۔وفات کے بعد آپ (سلام اللہ علیہا) کے پیکر مبارک کو غسل و کفن دینے کے بعد نہایت باشکوہ انداز سے "باغ بابلان" میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آج روضہ مبارکہ موجود ہے۔جب آپ (س) کی قبر تیار ہوئی تو یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ آپ کے جسم اطہر کو قبر میں کون اتارے گا؟؛ آل سعد کے متقی اور پرہیزگار اکابرین نے اپنے خاندان کے ایک عمررسیدہ شخص کو بلوایا کہ یہ ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے لیکن اچانک دو نقاب پوش سوار قبلہ کی جانب رملہ (ریگستان) سے آتے ہوئے دکھائی دیئے. سوار جلد ہی نزدیک آکر گھوڑوں سے اترے ان میں سے ایک نے نماز جنازہ پڑھائی اورنمازکے بعد ایک نقاب پوش بزرگ قبر میں اترا اور دوسرے بزرگ نے جنازہ اٹھا کر اس کے ہاتھوں میں دے دیا تا کہ آپ (سلام اللہ علیہ) سپرد لحد کر سکے. وہ دونوں سوار تدفین کے بعد ـ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر ـ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اسی سمت میں چلے گئے جہاں سے آئے تھے اور انہیں کوئی بھی نہیں پہچان سکا۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ دونوں سوار دونوں امام و حُجَجِ خدا تھے. حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) پرہیزگار ترین خواتین میں سے تھیں جو عالمہ اور محدثہ تھیں اور شیعہ اور سنی کتب میں آپ (سلام اللہ علیہا) سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ عبادت اور زہد آپ (سلام اللہ علیہا) کی وجہ شہرت تھی اور علم و فضل میں کمال کے مدارج پر فائز تھیں۔ سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے کئی زیارت نامے وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک میں آپ کو "طاهره" (پاک و پاکیزہ)، "حميده" (قابل تعریف خصال کی مالک)، «برّۃ» (نیک اور بہترین تربیت سے بہرہ مند)، "نقيّہ" (پرہیزگار اور نیک خصال)، "مرضيه" (اللہ کی رضا یافتہ)، "رضيّه" (اللہ سے راضی)، "محدّثه"، "شفيعه" (یعنی روز جزا شفاعت کرنے والی) اور "معصومہ (مقام عصمت پر فائز) جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ لیکن آپ (سلام اللہ علیہا) کا مشہورترین لقب "معصومہ" ہے جو آپ (سلام اللہ علیہا) کے بھائی حضرت رضا (علیہ السلام) نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی مدح میں کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:
شال اشکوں سے بنوں معصومہ قم کے لئے
حرف مدحت کیا لکھوں معصومہ قم کے لئے
ثانی زینب لکھوں معصومہ قم کے لئے
اس سے بڑھ کر کیا کہوں معصوم قم کے لئے
کہکشاں سے رنگ لوں اور چاند تاروں سے بنوں
شان مدحت بھیج دوں معصومہ قم کے لئے
مدحت آل عبا جیسے فرزدق نے لکھی
میں وہ مدحت لکھ سکوں معصومہ قم کے لئے
جو خدا کے حکم سے اب تاجدار عصر ہے
اس کا بھی ہے سر نگوں معصومہ قم کے لئے
ذکر معصومین سے روشن رہیں یہ محفلیں
شیر میں لکھتا رہوں معصومہ قم کے لئے
ہے یزیدی ظلم جاری آج بھی چاروں طرف
ہے کہاں اب بھی سکوں معصوم قم کے لئے
کربلا کی جنگ میں چھ ماہ کا بچہ بھی ہے
یہ بھی ہے کرب دروں معصومہ قم کے لئے
آپ کی ہے قبر اطہر مثل قبر فاطمہ
ہے شرف کتنا فزوں معصوم قم کے لئے
ہو زیارت روضہ اقدس کی ساری زندگی
کاش قم میں جا بسوں معصوم قم کے لئے
موت جب آیے تو لب پہ تذکرہ بی بی کا ہو
لمحہ لمحہ میں جیوں معصوم قم کے لئے
بارگاہ کبریا میں یہ دعا موسیٰ کی ہے
جان اپنی وار دوں معصوم قم کے لئے
میری بخشش کا سبب بن جائے جو موسیٰ رضا
میں وہ مدحت لکھ سکوں معصوم قم کے لئے