رمضان کا مہینہ اپنے دامن میں رحمتوں کو سمیٹے آگیا،یہ برکتوں کا مہینہ ہے ،اسی مہینہ میں قرآن نازل ہوا ؛شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔ ہاں دوستو !ہر چیز کے لئے بہار ہے اور بہار قرآن رمضان ہے ؛ لکل شئی ربیع و ربیع القرآن الرمضان۔اسی لئے دنیا بھر کے تمام مسلمان ان دنوں تلاوت قرآن کا خاص اہتمام کرتے ہیں ، ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ ایک دن میں ایک پارہ ختم کرکے رمضان بھر میں قرآن ختم کرلے ؛جس مہینہ میں ایک ایک سانس تسبیح اور نیند تک عبادت ہوتو تلاوت قرآن کا کیا ثواب ہو سکتا ہے اس کا اندازہ بشر نہیں لگا سکتا ہے ۔
عن رسول الله انّه قال فی خطبتة الشعبانیة:من تلا فیه آیة من القرآن کان له اجر من ختم القرآن فی غیره من الشهور
جو شخص اس مبارک مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے تو اس کا اجر اس شخص کے مساوی ہے جو دوسرے مہینہ میں ختم قرآن کر لے!
عن الامام الرضا علیه السلام:من قرء فی شهر رمضان آےة من کتاب الله عزّو جلّ کان کمن ختم القرآن فی غیره من الشهور
جو شخص ماہ رمضان میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے توگویا اس نے دوسرے مہینہ میں ختم قرآن کر لیا
لیکن ہمارے بعض نو جوان دوست ،قرآن پر لگے ( زیر، زبر، پیش وغیرہ) دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن پڑھنا بہت مشکل ہے ۔حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ! یہ زیر، زبر، پیش وغیرہ (حرکات و علامات) در اصل ہماری سہولت کے لئے ہیں۔
آئے ! جائزہ لیتے ہیں یہ علامات اور حرکات کب اور کس نے قرآن پر لگائی ہیں؟
شروع شروع میں قرآن جب نازل ہوا اور جب لکھا گیا تو اس وقت نہ حروف پر حرکتیں تھی نہ ہی نق--طے!اس وقت عرب اپنی عربی ذوق کی وجہ سے قرآن صحیح پڑھتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح ہم اردو پڑھتے ہیںحالانکہ زیر زبر نہیں ہوتا لیکن ہم (اِس)اور(اُس)،(اِن)اور (اُن) ...میں اشتباہ نہیں کرتے اس زمانیں میں عرب بھی عربی پڑھنے میں غلطی نہیں کرتا تھا البتہ ذوق عربی کے علاوہ دو اور ایسے عامل تھے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان اور بھی گھٹ جاتا تھا ۔
۱-عربوں کا حافظہ:
چونکہ عرب کی اکثریت جاہل تھی لہذا کسی چیز کی یادآوری کے لئے لکھ تو سکتے نہیں تھے !خصوصاتجارت کے حساب و کتاب لہذا اسے ذہن میں بٹھا لیا کرتے تھے !ان کی اس عادت نے ان کے حافظہ کو اتنا قوی کر دیا تھا کہ وہ سفر کرتے وقت اونٹ پر بیٹھے اپنے ساتھی کے ساتھ ذہن ذہن میں شطرنج کھیل لیا کرتے تھے!شطرنج کی لا تعداد چالیںان کے ذہن میں محفوظ رہتی تھیں!!اور قرآن کا حفظ کرنا تو او ربھی اسان ہے!اس کی وجہ ہے قرآن مجید کی نظم و ترتیب فصاحت و بلاغت !اور قرآن کو حفظ کرنے کا معنوی اجر!
۲-وجود پیغمبر اسلام :
ذوق عربی اور قوی حافظہ کے باوجود اگر کہیں کسی خطا کا امکان پیدا بھی ہوتا تھا تو خود رسول اکرم موجودتھے اور لوگ رسول سے پوجھ لیا کرتے تھے اشتباہ برطرف ہو جایا کرتا تھا !لیکن زمانہ بڑھتا گیا اور اسلام کے قلمرو میں بھی اضافہ ہوتا گیا !اب اسلام عرب سے نکل کر عجم میں پھیل گیا ساتھ ہی ساتھ عربی اور عجمی آپس میں گھل مل گیا لہذاجب عجم نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو ظاہر سی بات ہے غلطی تو ہونا ہی تھی عجم تو عجم اب عرب کی بھی زبان خالص نہیں رہ گئی تھی اور اس کو بھی نحو و صرف کی ضرورت ہورہی تھی چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے اس علم کی بنا ڈالی۔۔۔!
ہماری بحث اعراب و اعجام کے سلسلہ میں ہو رہی تھی !تو سب سے پہلے اس کے معنی سمجھ لیں۔
اعراب :
یعنی ظاہر کرنا اسی لئے عرب کو عرب کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی زبان میں اتنی وسعت ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ہر بات الفاظ کے سانچے میں بیان کر سکتا ہے اور غیر عرب کو عجم اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی زبان بہر حال کہیں نہ کہیں اس کے افکار کے آگے گونگی ہو جاتی ہے۔
اصطلاح میں اعراب انہیں زیر و زبر اور پیش کو کہا جاتا ہے کیو نکہ انہیں کے ذریعہ حروف کی حرکت کو ظاہر کیا جاتا ہے۔
اعجام :
لفظ عجمہ سے لیا گیا ہے اور عجمہ یعنی مبہم گونگا!لیکن جب عجمہ سے اعجام بنایا گیا تو اس کے معنی بدل گئے۔چنانچہ اعجام یعنی ابہام کو برطرف کرنا۔اسی لئے نقطہ دار حروف کو معجمہ اور بغیر نقطہ دار حروف کومہملہ کہتے ہیں۔
اصطلاح میں اعجام حروف کے نقطوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ اگر نقطے نہ ہوتے تو ہم ب‘ ت ‘ث و سکتے تھے ۔ اسی لئے مشہور ہے کہ ایک نقطہ کی اونچ نیچ سے خدا ‘جدا ہوجاتا ہے۔
تنقیط الاعراب قرآن میں
اعجام یعنی-- حروف پر نقطہ گزاری سے پہلے حروف کے حرکات کو واضح کیا گیاہے یعنی اعراب گزاری ہوئی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی اور شاگرد ابو الاسود دوئلی ۳کسی رہ گزر سے جا رہے تھے کہ کسی کو تلاوت قران کرتے سنا جو یوں پڑھ رہا تھا(انّ اللہ بری من المشرکین و رسولِہِ)حالانکہ آیہ میں رسولُہُ ہے !آیہ کا مطلب ہے خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں ۔لیکن جو وہ پڑھ رہا تھا اس کا مطلب یوں نکل رہا تھا کہ خدا بیزار ہے مشرکین سے اور رسول سے!!یہ سنتے ہی انہیں سخت احساس ہوا کہ قرآن پر اعراب لگانا بہت ضروری ہے چنانچہ انہوں نے اپنے شاگردوں میں سے سب سے بہترین کو چنااور کہا کہ میں قرآن کو بہت آہستہ آہستہ پڑھ رہا ہوں تم میرے ہونٹوں کی حرکت کو غور سے دیکھو اگر کسی لفظ کو اداء کرنے میںمیرے ہونٹ کھل جائیں تو اس لفظ کے اوپرایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام فتحہ(یعنی زبر) رکھواور اگر لفظ کو اداء کرنے میں ہونٹ گِر جائیں تو اس لفظ کے نیچے ایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام کسرہ (یعنی زیر) رکھواور اگر کسی لفظ کو اداء کرنے میںہونٹ سِکُڑ جائیں تو اس حرف کے آگے ایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام ضمّہ(یعنی پیش) رکھو۔
اس طرح نقطوں کے ذریعہ سے حرکتوں کا تعیّن ہوا۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ حرکت کو حرکت اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہونٹوں کی حرکتوں سے بنایا گیا ہے ورنہ خود اس میں تو کوئی حرکت نہیں پائی جاتی۔
ایک بات اور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے تاکہ کسی کو یہ اشتباہ نہ ہو کہ یہ قرآن میں سے ہے یا قرآن کو کسی نے بدل دیا ‘یا قرآن میں تحریف ہو گئی!
ابو الاسود کے اس عمل کو بہت سراہا گیا اور اسے تنقیط الاعراب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں اعراب گزاری نقطوںکے ذریعہ کی گئی تھی!
تنقیط الاعجام
تنقیط الاعراب کے بعد بہت سی مشکلیں حل ہو گئی لیکن ابھی بھی ایک بہت بڑی مشکل باقی تھی‘کیونکہ حروف کے اوپر نقطے نہیں لگے تھے‘ البتہ محققین کا کہنا ہے کہ حروف کے نقطوں کا وجود پہلے سے تھا لیکن لگایا نہیں جاتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح ھماری اردو زبان میں حرکات کا وجود تو ہے لیکن لگایا نہیں جاتا ۔ہاں حرکات کا وجود نہیں تھا اس کو ابو الاسود دوئلی نے ایجاد کیا!
بہرحال حروف پر نقطہ نہ ہونا ایسی مشکل تھی جس کا فوری حل بے حدّ ضروری تھا اس لئے کہ ایک حرف کئی کئی طریقوں سے پڑھا جا سکتا تھا نتیجہ میں معنی بالکل بدل جاتے مثلا:تتلوا کو یتلوا ‘ تتلوا اور نتلوا بھی پڑھا جا سکتا ہے!لہذا ابو الاسود کے شاگرد یحیی بن یعمر اور نصر بن عاصم نے حروف کے نقطوں کو بھی لگا دیا۔اس کام کو تنقیط الاعجام کہتے ہیں کیونکہ اس عمل سے نقطوں کے ذریعہ حروف کے ابہام کو دور کیا گیا ہے!اس کے بعد قرآن کا پڑھنا ذرا مشکل ہو گیا کیوںکہ قران نقطوں سے بھرگیا ‘ایک طرف اعراب کے نقطے تو دوسری طرف اعجام کے نقطے!حالانکہ اعراب کے نقطے لال رنگ کے تھے!
یہاں تک کہ خلیل بن احمدفراہیدی نے اعراب کے نقطوں کوہٹا کر اس کو ایک نئی شکل دی ‘فتحہ کو الف سے لیا کسرہ کو یا سے لیا اور ضمّہ کو واو سے لیا( َ ِ ُ ) خلےل ابن فراہےدی کے اس عمل نے اےک انقلاب برپاکردےا ․ نقطے کم ہونے کی وجہ سے قرآن پڑھنا اور بھی آسان ہو گےا۔اب ضمہ (پےش)کو حرف کے آگے لگانے کی ضرورت نہیں رہی لہذا اسے حرف کے اوپر ہی لگاےا جانے لگا البتہ اےک بات قابل غور ہے وہ ےہ کہ عربوں نے حرکات کی طبےعت کو دےکھ کر نام رکھا لہذا حرکات کی شکل بدلنے کے بعد بھی وہ نام صحےح ہے لےکن فارسی اور اردو میں حرکات کانام اس کی موقعےت کو دےکھ کر رکھا گےا اس صورت میں پےش جائے وقوع بدلنے کے بعد پےش کو پےش کہنا غلط ہے ہاں غلط العام کے طور پر استعمال ہوتاہے ۔فراہےدی نے تنوےن کی بھی شکل حل کردی اور فراہےدی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے نقطوں کے سلسلے میں اےک مکمل کتاب لکھی ۔
آخر میں خلاصہ بحث کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ :۔
قرآن میں پہلے نہ نقطے تھے اور نہ ہی حرکات و علامات
ہماری سہولت کےلئے ابواسود دوئلی نے نقطوں کے ذرےعے حرکات معےن کی ہیں اسے تنقےط الاعراب کے نام سے ےاد کےا جاتا ہے
پھر ابواسود دوئلی کے شاگرےحےی ابن ےعمر نے حروف کے نقطوں کو معےن کےا اسے تنقےط الاعجام کے نام سے ےاد کےا جاتا ہے
اس کے بعد فراہےدی اعراب کے نقطو ں کو بدل کر اےک نئی شکل دی جس سے آج ہم مانوس ہیں۔
حواشی:
۱ :بحار الانوار ج۹۶ ص۳۴۱
۲ :باب افعال کے اےک معنی سلب کے ہیں
۳ :ا بواسود دوئلی حضرت علی کے جےد صحابی جنگ جمل میں جناب امےرالمو منین کے ہم رکاب تھے اہلبےت کی شان میں قصےدے اور مرثےہ خوب کہے،آپ کی زےادہ تر شہرت علم نحو کی وجہ سے ہے حضرت علی نے علم نحو سب سے پہلے آپ ہی کو سکھاےا اور آپ نے اس علم کو خوب پھےلاےا اسطرح کہ آپ کا نام علم نحو سے جوڑ گےا اور آپ کو واضع علم نحو کے نام سے ےاد کےا جانے لگا