اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

زندگی کا آغازنبوت ھے

قارئین کرام !   جو دلیل نبوت کی ضرورت پر دلالت کرتی ھے وھی دلیل امامت کی ضرورت پر بھی دلالت کرتی ھے کیونکہ نبوت کا وجود بغیر امامت کے نامکمل هوتا ھے او راگر امامت کو نبوت سے جدا مان لیا جائے تو یہ حقیقت اسلام کے منافی ھے کیونکہ رسالت کا قیامت تک باقی رہنا ضروری ھے، پس:

زندگی کا آغازنبوت ھے ۔

اور امامت اس حیات کا برقرار رکھنا ھے۔

 اگر ھم امامت کو چھوڑ کر صرف نبوت کی بات کریں تو ھم یہ کہہ سکتے ھیں کہ نبوت ورسالت کا زمانہ معین ھے اور رسول کی حیات کے بعد باقی نھیں رہ سکتی او راپنے اہداف کی تکمیل اور استمرار کے لئے کسی وصی کو بھی معین نھیں کرسکتی (جب تک خدا کی مرضی نہ هو )

اور چونکہ اسلام کا ہدف ومقصد ایک ایسی حکومت ھے جو تمام انسانوں کو ، اختلاف ِ وطن و رنگ کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے، لہٰذا ضروری ھے کہ اسلام اس ہدف کی خاطر رسول جیسی زندگی رکھنے والے شخص کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد قیادت اور رھبری کا انتظام کرے۔

خلاصہ گفتگو:

در حقیقت منصب امامت، معنی نبوت کوکامل کرنے والا ھے او رنبی کا وجود بغیر امامت کے عملی طور پر مکمل نھیں هوسکتا، اسی وجہ سے شیعوں کا عقیدہ یہ ھے کہ جس طرح نبوت ضروری ھے اسی طرح امامت بھی ضروری ھے، جس طرح خدا پر نبوت واجب ھے اسی طرح امامت بھی واجب ھے اور اس کے لئے بہترین سند اور بہترین دلیل درج ذیل مشهور ومعروف حدیث رسول  ھے:

”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتةالجاھلیة“

(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے تو اس کی موت جاھلیت کی موت هوتی ھے)

اور جب امامت کا هونا ضروری ھے تو کیا اسلام نے مسلمانوں کو اس چیز کا اختیار دیا ھے کہ وہ اس امام کا انتخاب کریں جو اس عظیم اور اھم ذمہ داری کو سنبھالے یا منصب امامت کا انتخاب الٰھی نصوص کے ذریعہ هوتا ھے اور نبی کے ذریعہ معین کیا جاتا ھے۔

چنانچہ شیعہ او راکثر معتزلہ کا عقیدہ ھے کہ امام کے لئے ضروری ھے کہ اس کو خود نبی منصوب کرے اور نبی بذات خود اس کو معین کرے ۔

جس کی دلیل یہ پیش کرتے ھیں:

چونکہ امامت، نبوت کا استمرار ھے لہٰذا اس میں بھی نبوت کی طرح تعین خاص کی ضرورت ھے جس سے یہ کشف هوجائے کہ خداوندعالم نے اس منصب کو اختیار کیا ھے اور خدا اس سے راضی ھے۔

پس جس طرح نبوت بھی انتخاب اور شوریٰ سے نھیں هوسکتی اسی طرح امامت بھی شوریٰ کے انتخاب سے نھیں هوسکتی۔

اور یھی وہ راستہ ھے جو امامت وامام کے مسئلہ میں ثابت اور معین ھے لیکن دوسرے اسلامی فرقوں نے اس سلسلہ میں کوئی خاص راستہ نھیں اپنایا۔ [18]

بلکہ کہتے ھیں جو شخص بھی امامت کا متولی هوگیا او راپنے کو امام تصور کرنے لگا تو وہ امام ھے چاھے اس متولی کو انتخاب کے ذریعہ بنایا گیا هو جیسے ابوبکر ،عثمان، حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) کے لئے هوا، اور تاریخ اسلام میں ان کے علاوہ کسی کا انتخاب نھیں هوا ، یا اپنے سے ما قبل نے ان کے بارے میں وصیت کی هو جیسا کہ عمر بن خطاب اور اکثر خلفائے اموی، عباسی اور عثمانی کے لئے هوا ھے یا چاھے طاقت کے بل بوتہ کی بنا پر هو جیسے معاویہ بن ابی سفیان اور ابو عباس السفاح نے کیا ھے۔

چنانچہ شیعہ حضرات تعین امام کے بارے میں نص کی ضرورت پر اس آیت سے استدلال کرتے ھیں کہ ارشاد قدرت ھے:

<وَرَبُّکَ  یَخْلُق مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ مَاکَانَ لَہُمُ الْخَیَرَةَ>[19]

”اور تمھارا پروردگار جو چاہتا ھے پیدا کرتا ھے اور( جسے چاہتا ھے) منتخب کرتا ھے ۔“

کیونکہ یہ آیت واضح الفاظ میں دلالت کرتی ھے کہ دین وشریعت کے محافظ ونگھبان کی ذمہ داری خداوندعالم پر ھے، بندوں کو اس سلسلہ میں ذرابھی اختیار نھیں دیا، اور اس موضوع میں فقط وفقط خداوندعالم ھی کو اختیار ھے۔

 لیکن بعض لوگوں نے اس استدلال پر اعتراض کیا کہ اس آیت میں جس اختیار کی طرف اشارہ کیاگیاھے وہ صرف نبوت سے مخصوص ھے او راگر امامت کے بارے میں بھی کوئی یھی کھے تو اس کا یہ قول قابل قبول نھیں ھے۔

لیکن جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ مذکورہ آیت کے صدر وذیل میں کوئی ایسا اشارہ نھیں ھے جس میں اختیار کو انبیاء  (ع) سے مخصوص کردیا جائے بلکہ آیت مطلق اختیار کی بات کررھی ھے اور کسی بھی طرح کی کوئی قید او رتاویل کو قبول کرنے کے لئے تیار نھیں ھے ، اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ امامت وھی نبوت کا استمرار ھے، اور امامت، رسالت کومکمل کرنے والی ھے لہٰذا جب نبوت کے اختیار کا حق صرف خدا کو ھے توپھر امامت میں بھی اختیار صرف خداوندعالم کی ذات ھی کو هونا چاہئے۔

اور حق بات تو یہ ھے کہ اگر روایات واحادیث کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وصیت بھی ثابت نہ هو تو صرف عقل ھی اس وصیت کو ثابت کرنے کا حکم کرتی ھے کیونکہ ھم میں سے کوئی ایک بھی اس بات پر راضی نھیں هوگا کہ اگر موت قریب ھے تو اگرچہ مال ودولت اور اولاد کم هو ، کہ ان کے بارے میں وصیت نہ کریں بلکہ ھر انسان ایسے موقع پر کسی کو اپنا وصی بناتا ھے تاکہ وہ اس کے بعد اس کی اولاد اور مال ودولت کا خیال رکھے۔

تو کیا پھر وہ نبی اعظم  جو اتنی عظیم میراث (اسلام) کو چھوڑکر جارھا هو تو کیا وہ اپنی اس میراث کا کسی کو وصی نھیں بنائے گا، تاکہ وہ اس کی محافظت کرے اور اس میں صحیح طریقہ سے تصرف کرسکے۔؟!

حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے وقت موجود ہ قرائن سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے وصیت فرمائی اور اپنی میراث کو لاوارث نھیں چھوڑا تاکہ وہ زمانہ کے حوادث وبلاء میں گرفتار نہ هوجائے۔

وہ اسلام جس نے دنیا کے تمام مسائل میں احکام وقواعد معین کئے ھیں انسان کی زندگی کے ھر پھلو پر نظر رکھی هو؛ خرید وفروخت هو یا حوالہ وکفالہ، اجارہ ووکالت هو یا مزارعہ ومساقاة، قرض ورہن هو یا نکاح وطلاق، صید وذباحہ هو یا اطعمہ واشربہ اور چاھے حدود ودیات هو یا دیگر مسائل ، جب ان سب کو بیان کردیا تو کیا وہ اس اھم مسئلہ امامت کو نھیں بیان کرے گا؟!

 کیونکہ مسئلہ امامت اتنااھم ھے جس کے ذریعہ امت اسلامی کی قیادت او ررھبری هوتی ھے اور جس چیز کا آغاز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ھے اس کو پایہ تکمیل تک پهونچانا ھے۔

وہ اسلام جو اپنے احکام میں عدالت ومساوات او رمسلمانوں کے لئے اطمینان کا خیال رکھتا ھے جو ھر خوف سے امان دیتا ھے اور انسان کے اعضاء وجوارح کو ایسی طاقت عطا کردیتا ھے جس سے خیانت، فتنہ وفساد او ربرائیوں سے اپنے نفس کو روک لیتا ھے تو کیا اسلام بغیر امام کے اس عظیم ہدف تک پهونچ سکتا ھے؟!!

 کیونکہ امام کی لوگوں کو گمراھی سے نجات دینے ولاتاھے اور بے عدالتی کو ختم کرتاھے کیونکہ بے عدالتی سے حاکم فاسد هوجاتا ھے اور حاکم کے فاسد هونے سے انسانی نظام اوردین فاسد هوجاتا ھے لہٰذا ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے امام کی ضرورت ھے جس میں تمام صفاتِ کمال موجود هوں، ھر برائی سے پاک وپاکیزہ هو، او راپنے قول وفعل میں ھر طرح کی خطا وغلطی سے محفوظ هو، ھم اسی چیز کو عصمت کہتے ھیں۔

 یہ بات واضح ھے کہ ان تمام صفات کے حامل شخص کا انتخاب هونا ضروری ھے جو کسی معمولی شخص میں جمع نھیں هوسکتیں، تو پھر نبی کے لئے ضروری ھے کہ وہ امت کے سامنے اس منصب کے بارے میں بیان دے، اور صاف طور پر لوگوں کو بتائے کہ میرے بعد فلاں امام ھے۔

اور یہ عصمت جس کے بارے میں ھم نے اشارہ کیا کوئی عجیب چیز نھیں ھے جیسا کہ بعض اسلامی فرقوں خصوصاً یورپی موٴلفین کا عقیدہ ھے بلکہ یہ تو حاکم کے شرائط میں سے ایک اھم شرط ھے ،اور وہ بھی ایسا حاکم جس کا کام قرآن کی تفسیر کرنا اور اسلام کے غیر واضح مسائل کی شرح کرنا ھے، کیونکہ عصمت کے معنی عرب میں ”منع“ کے ھیں [20]

اور اصطلاح میںیھی معنی مراد لئے جاتے ھیں یعنی عصمت ایک نفسانی ملکہ (قوت) ھے جو انسان کو فعلِ معصیت او رترک طاعت سے منع کرے اور اس کی عقل وشعور پر احاطہ رکھے تاکہ اس کو ھر طرح هوشیار رکھے اور اس سے کوئی بھول چوک نہ هو اوراس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ هو جس سے خدا ناراض هو۔ کیونکہ معصیت کا مرتکب قرآنی اصطلاح میں ظالم هوتاھے:

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاٴُوْلٓئِکَ ہُمُ الظَّاْلِمُوْنَ>[21]

”اور جو خدا کی مقرر کی هوئی حدوں سے آگے بڑھتے ھےںوھی لوگ تو ظالم ھیں“

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ>[22]

”اور جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا)

<ہٰوٴُلٓاءِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا عَلٰی رَبِّہِمْ اٴَلاٰ لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ>[23]

”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ (بہتان) باندھا، سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی پھٹکار ھے“

<ثُمَّ نُنْجِیَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّاْلِمِیْنَ فِیْہَا جَثِیًّا>[24]

”پھر ھم پرھیزگاروں کو بچائیں گے اور نافرمانوں کو اس میں چھوڑ دیں گے“

اسی طرح قرآن مجید میں دیگر مقامات پر اس مضمون کی آیات موجود ھیں۔

اور یہ عاصی (گناہگار) جس کو قرآن مجید نے ”ظالم“ کھا ھے اس کو کوئی بھی شرعی ذمہ داری جو دین وشریعت اور خداوندعالم سے متعلق هو؛ نھیں دی جاسکتی، اور اس بات پر قرآن مجید نے واضح طور پر بیان دیا ھے، ارشاد خداوندعالم هوتا ھے:

<وَاِذِبْتَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ قَالَ لاٰ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ>[25]

”(اے رسول اس وقت کو یاد کرو) جب ابراھیم کو ان کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا اور (جب) انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا (امام) بنانے والا هوں (جناب ابراھیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی، فرمایا (ھاں مگر) میرا یہ عہدہ ظالمین تک نھیں پهونچ سکتا“

اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی صاحب کہتے ھیں:

”یہ بات ثابت ھے کہ اس عہد سے مراد امامت ھے کیونکہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ کوئی فاسق شخص امام نھیں هوسکتا، تو بدرجہ اولیٰ رسول نہ فاسق هوسکتا ھے او رنہ ھی گناہ اور معصیت کرسکتا ھے۔[26]

 اسی طرح یہ بات بھی واضح ھے کہ ”عصمت“ کے معنی اور شرائط امامت، عجیب وغریب نھیں ھیں بلکہ یہ وہ معنی ھیں جس کے ذریعہ شرعی نصوص اورروحِ دین مکمل هوتی ھے۔

چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی مسئلہ ”عصمت“ پر شیعوں کے عقیدہ پر حاشیہ لگاتے هوئے کہتے ھیں:

”تمام سیاسی فلاسفہ جس وقت کسی حکومت کی بڑی ریاست کی بات کرتے ھیں یا کسی دوسرے بڑے عہدے کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ھیں تو اس کو شبھات واعتراضات سے بالاتر قراردیتے ھیں ، اسی طرح وہ سیاسی فلاسفہ جو ”ڈکٹیٹری“ (Dictatory) اور کسی حکومت میں حاکم کی سب سے بڑی ریاست کے قائل ھیں وہ اس کے لئے بھی عصمت کے قائل ھیں اگرچہ دوسرے صفات بھی اس میں ضروری مانتے ھیں۔

اسی طرح ”ڈیموکراسی“ (Democracy)کے فلاسفہ بھی اس کے شعبوں اور قواعد وقوانین میں عصمت کے قائل ھیں اور کہتے ھیں کہ ”ان تمام ریاستوں کے لئے عصمت کا هونا ضروری ھے تاکہ ان کا نظام قائم هو اور ان کے ماتحت افراد ان کی تائید کریں“

”تمام سیاسی نظام میں باوجودِ اختلاف ایک ایسی ریاست کا وجود هوتا ھے جس میں تمام احکام میں اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ھے او رکسی بھی فرد کوحاکم یا قانون گذار نھیں بنایا جاسکتا ھے جب تک کہ اس میں قداست اور عصمت نہ پائی جائے لہٰذا صرف شیعہ ھی عصمت کے قائل نھیں ھےں جس سے کسی شخص کو تعجب هو، اگرچہ شیعہ حضرات نے ھی عصمت کے بارے میں بحث شروع  کی ھے لیکن وہ اس نظریہ میں تنھا نھیں ھیں بلکہ دوسرے افراد بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں“ [27]

قارئین کرام !   جیسا کہ مذکورہ باتوں سے ظاھر هوتا ھے کہ شیعوں نے اپنے احساسات یا ھمدردی کی بنا پر کسی معین شخص کا انتخاب نھیں کیا اور نہ ھی کسی سیاست سے کام لیا بلکہ انھوں نے نص وروایات سے وہ چیزیں حاصل کی ھیں جس میں حیات صحیح اور بناء سلیم [28] کا ذریعہ پایا جاتا ھے اور وہ اس نظریہ کا دفاع کرتے ھیں جو ایمان، اسلام او راخلاص کی جان ھے اور اس سے ہدف اور شعورِ مصلحت تک پهونچا جاسکتا ھے۔

چنانچہ جو لوگ نص کی ضرورت کا دعویٰ کرتے ھیں ان کی بات کی تائید درج ذیل نکات سے واضح هوجاتی ھے:

۱۔نص کا هونا ،اس انسانی شعور وفطرت کے مطابق ھے جو انسان کے وجود میں موجودھے جس کے ذریعہ وہ اپنے ماورائے غیب (خدا) کے محتاج هونے کی ضرورت کا احساس کرتا ھے کیونکہ تمام امور میں اسی ذات کی طرف رجوع کیا جاتا ھے۔( یعنی اگر ھم امام کو منصوص من اللہ قرار دیں تو ھمارا ربط ھمیشہ خدا سے برقرار رھے گا)

 پس امامت (منصوص من اللہ) ھی وہ ذریعہ ھے جو انسان کو ما ورائے غیب سے متصل کرتی ھے، کیونکہ امامت کے پاس وہ شعوروادراک اور اطمنان هوتا ھے جو انسان کو راہ ضلالت سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزن کردیتا ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ...
حضرت علی علیه السلام کی خلافت حدیث کی روشنی میں
انتظار احادیث کی روشنی میں
ماہ رمضان کے دسویں دن کی دعا
پھل اور فروٹ کی خصوصیات(حصہ دوم)
حضرت رقیہ بنت الحسین(ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے
میرا زاد راہ تقویٰ اور میری منزل میرا مولا ہے
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
قرآن کی حفاظت
حضرت فاطمہ الزہرا ء تیر ہویں قسط

 
user comment