ہویٰ (خواہش )ایک اسلامی اصطلاح ہے جو قرآن و حدیث سے ماخوذہے ۔اسلامی تہذیب میں اسکے اپنے ایک خاص معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں۔
یہ لفظ قرآن اور احادیث میں کثرت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے :
( رایت من اتخذ لٰھہ ھواہ أفأنت تکون علیہ وکیلا )(١)
''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ''
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے:(وأما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ فن الجنة ہی المأویٰ)(٢)
''اور جس نے رب کی بار گاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے ''
سید رضی نے مولائے کائنات حضرت علی کا یہ قول نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے:
(ن أخوف ماأخاف علیکم ثنان:تباع الھویٰ وطول الأمل)
''مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کاخوف رہتا ہے :خواہشات کی پیروی اورآرزووںکا طولانی ہونا ''
پیغمبر اکرم ۖاور امام جعفر صادق دونوں سے ہی یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپ حضرات نے فرمایا :
(حذرواأھوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی أعدیٰ للرجال من اتباع أھوائھم وحصائدألسنتھم)(3)
'' اپنی خواہشات سے اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو۔ کیونکہ انسان کیلئے خواہشات کی پیروی اور زبان کے نتائج سے بڑاکوئی دشمن نہیں ہے۔''
اور امام جعفر صادق ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ:
(لاتدع النفس وھواھا،فن ھواھارداھا)(4)
'' نفس اور اسکی خواہشات کو ہرگز یونہی نہ چھوڑدینا کیونکہ نفسانی خواہشیں ہی اسکی پستی کا باعث ہیں''
بنیادی محرکات
انسانی زندگی میں نفس اور''خواہشات ''کیا کردار ادا کرتے ہیں اسکے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خداوند عالم نے ہر انسان کو متحرک وفعال رکھنے اور علم وکمال کی جانب گامزن کرنے کے لئےاسکے وجودمیں کچھ بنیادی محرکات رکھے ہیں اور انسان کی تمام ارادی اور غیر ارادی حرکات نیز اسکی مادی و معنوی ترقی ا نھیں بنیادی محرکات کی مرہون منت ہے یہ چھ محرکات ہیں اور ان میںبھی سب سے اہم محرک ''ہویٰ''یعنی خواہشات نفس ہے۔
١۔فطرت:
اس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنی معرفت نیز وفاء ، عفت ،رحمت،اور کرم جیسے اخلاقی اقدارکی طرف رجحان کی قوت ودیعت فرمائی ہے۔
٢۔عقل :
یہ انسانی وجودمیں حق و باطل کے درمیان تشخیص اور تمیز دینے کی ذمہ دار ہے۔
٣۔ارادہ:
کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا انحصار اسی پر ہوتاہے اور شخصیت کا استقلال اسی سے وابستہ ہے۔
٤۔ضمیر:
عدل و انصاف پر مبنی درونی و باطنی آوازہے جس کا کام انسان کو صحیح فیصلہ سے آگاہ اور غلط باتوں پر اسکی توبیخ کرنا ہے تاکہ انسان حد اعتدال پر قائم رہے ۔
٥۔قلب ،صدر،:
آیات قرآنی کے مطابق علم ومعرفت کا ایک اور دروازہ ہے۔ اسی پر خداوند عالم کی جانب سے علم ومعرفت کی تجلی ہوتی ہے ۔
٦۔ہویٰ(خواہشیں):
وہ خواہشات اور جذبات جو انسان کے نفس میں پائے جاتے ہیںاور ہر حال میں انسان سے اپنی تکمیل کامطالبہ کرتے ہیں اور ان کی تکمیل کے دور ان انسان لذت محسوس کرتاہے انسان کو متحر ک رکھنے اور اسے علم ومعرفت سے مالا مال کرنے کے یہ اہم ترین محرکات ہیںجنہیںاللہ تعالیٰ نے انسانی وجود میںودیعت فرمایاہے ۔سردست ان کی تعداداورتفصیلات کے بارے میں کسی قسم کی علمی اور تفصیلی گفتگو مقصودنہیں ہے ۔
نفسیات کے اس گوشہ پر ابھی اسلامی نقطہ نظر سے مزید غور وفکر اور بحث وجستجو کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ کو ئی ایسا بلند پایہ مفکر سامنے آجائے جو آیات و روایات کی روشنی میں اس گوشے سے متعلق فکری جولانیاں دکھا سکے۔۔فکر اسلامی کا یہ گوشہ نہایت شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھوتابھی ہے اور یہی دونوں خصوصیات علماء و مفکرین کے اشہب فکر کو مہمیز کرنے کیلئے کافی ہیں۔
لہٰذا خدا وند کریم سے یہ دعا ہے کہ جو شخص اسلامی علوم کے خزانوں کے سہارے اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھا ئے وہ اسکے لئے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کردے ۔
فی الحال اس کتاب میں ہویٰ کے معنی ،اسکی تعریف ،اور انسانی زندگی میں اسکے کردار نیز اسکے خصوصیات ،اثرات ،اس سے مقابلہ کا طریقہ اور اس سے متعلق دوسرے امور کا جائزہ لینا مقصودہے لہٰذا ہم انسانی وجود میں موجود دوسرے محرکات سے صرف نظر کرکے صرف اور صرف''ہویٰ''خواہشوںکے بارے میں گفتگوکریںگے ۔
''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف
جب ہم اسلامی علوم میں ہویٰ کے معانی تلاش کرتے ہیں تو ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن میں ہویٰ ''انسان کے اندر پو شیدہ ان خواہشات اور تمنائوں کو کہا جاتا ہے جو انسان سے اپنی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں ۔''
انسان کی شخصیت میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کو متحرک بنانے اوراسے آگے بڑھانے کا ایک بنیادی سبب نیز اسکی تمام ارادی اور غیرارادی حرکتوں کی اہم کنجی ہیں ۔
''ہویٰ''کے خصوصیات
انسانی زندگی کی تعمیر یا بربادی میں اسکی نفسانی خواہشوں کے مثبت اور منفی کردارسے وا قفیت کے لئے سب سے پہلے ان کی اہم خصوصیات کوجاننا ضروری ہے لہٰذا ہم آئندہ صفحات میں اسلامی نقطۂ نگاہ سے خواہشات نفس کے اہم خصوصیات کا جائز ہ لیں گے ۔
١۔چاہت میںشدت
اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا انسانی خواہشات کی سب سے پہلی اور اہم ترین خصوصیت ہے البتہ سیر ہو نے یانہ ہونے کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں کیونکہ کچھ خواہشات تو ایسی ہو تی ہیں جن سے کبھی سیری نہیںہو پاتی اور چاہے جتنا بھی اس کی تکمیل کی جائے اس کی طلب اور چاہت میں کمی نہیںآتی ۔جبکہ کچھ خواہشات ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ سردتو پڑجاتی ہیں مگر بہت دیر کے بعد۔مختصر یہ کہ ان تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔
جیسا کہ رسول اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا ہے :
(لَوْکَانَ لِاِبْنِ آدَم وادٍمن مال لابتغیٰ لیہ ثانیاً،ولوکان لہ وادیان لابتغیٰ لھماثالثاً،ولایملأ جوف ابن آدم لاالتراب)(5)
''اگرفرزند آدم کے پاس مال ودولت کی ایک وادی ہو تی تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرتا اور اگر اس کے پاس ایسی ہی دو وادیاں ہو تیں تب بھی اس کو تیسری وادی کی تمنا رہتی اور اولاد آدم کا پیٹ مٹی کے علا وہ کسی اور چیزسے نہیں بھر سکتا ہے ''
پیغمبر اکرم ۖنے یہ بھی فرمایا ہے :
(لوکان لابن آدم وادیان من ذہب لابتغیٰ وراء ہما ثالثاً)(6)
''اگر آدمی کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو بھی اسے تیسری وادی کی تلاش رہے گی ''
جناب حمزہ بن حمران کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ مجھے جس چیز کی خواہش ہو تی ہے وہ مجھے مل جاتی ہے تب بھی میرا دل اس پرقانع نہیں ہوتا ہے اور مزیدکی خواہش باقی رہتی ہے ،لہٰذا مجھے کو ئی ایسی چیز تعلیم فر مائیے جس سے میرے اندر قناعت پیدا ہو جائے اور مزیدکی خواہش نہ رہے توامام نے فرمایا:
''جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ تمھیں مستغنی بنا دے تو دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا معمولی سا حصہ بھی تمھیںمستغنی بنا نے کے لئے کافی ہے اور جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ بھی تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پوری دنیا پاکر بھی تم مستغنی نہیں ہو سکتے ہو ''(7)
امیرالمو منین فرمایا کرتے تھے :
''اے فرزندآدم، اگر تجھے دنیا صرف اتنی مقدار میںدرکارہو جو تیری ضروریات کے لئے کافی ہو سکے تو اس کا معمولی ساحصہ بھی تیرے لئے کافی ہے اور اگر تجھے وہ چیزبھی درکار ہے جو تیرے لئے ضروری نہیںتو پوری دنیا بھی تیرے لئے ناکا فی ہے ''(8)
مذکورہ روایات میں خواہشات کی مزید طلب برقراررہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کبھی ان کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ان کی شدت طلب کو بتانا مقصود ہے اور یہ کہ عموماًخواہشات حد اعتدال پر قائم نہیں رہتے ۔ورنہ بعض خواہشات ایسی ہو تی ہیں جو زند گی کے آخری مرحلہ میں بالکل کمزور پڑجاتی ہیںحالانکہ کچھ ایسی خواہشات بھی ہیں جوانسان کے آخری سانس تک بالکل جوان رہتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو تی ہے ۔(9)
میں خداوند عالم کے ایک ایسے بندہ ٔصالح کو پہچانتاہوںجس نے توفیق الٰہی کے سہارے جوانی میں ہی اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ جب ان کی عمر ٩٠سال کے قریب ہوئی توان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ بنیادی طور پر صرف تین خواہشات ہیں : ١۔جنسیات ٢۔مال ٣۔عہدہ پہلی دو خواہشات کو تو میں نے اپنی جوانی میںہی رام کرکے ان پر غلبہ حاصل کرلیاتھا لیکن تیسری خواہش اب بھی میرے دل میں مسلسل ابھرتی رہتی ہے اور مجھے اس کی بنا پر شرک میں پڑنے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔
٢۔خواہشات میںتحرک کی قوّت
خواہشات، انسان کی حرکت و فعالیت کا سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ ہیں اور ان کے اندر پائی جانے والی قوت متحرکہ کے بارے میں صرف اتنا کہناکافی ہے کہ خواہشات نفس و ہ تنہا سبب ہیں جوجاہلانہ تہذیب و تمدن کو پروان چڑھاتے رہے ہیں اورتاریخی نیز جغرافیائی لحاظ سے یہی جاہلانہ تمدن روئے زمین کے بیشتر حصوں پر حکم فرمارہاہے ۔اس جاہلانہ تمدن میں فطرت،ضمیراورعقل کی حکم فرمائی کا سرے سے انکار تو نہیں کیا جاسکتاہے لیکن یہ طے شدہ ہے کہ اس تمدن کی پیشرفت میں خواہشات ہی سب سے بڑاعامل اور سبب ہیں چاہے وہ جنگ و صلح کے معاملات ہو ں یا اقتصاد اور علو م وفنون کے میدان یا دیگر جرائم سب اسی کی کوکھ سے جنم لیتے رہے ہیں ۔
انسانی تاریخ کے بیشتر ادوارمیںجاہلیت کی حکمفرمائی دیکھنے کے بعد خواہشات میں پائی جانے والی قوت متحرکہ کی وسعت کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔روایت میں ہے کہ جناب زیدبن صوحان نے امیر المومنین سے سوال کیا :
(ای سلطان اغلب وأقویٰ)'' کس بادشاہ کا کنٹرول اور غلبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا : (الھوی)'' خواہشات کا ۔''(10)
اسی طرح قرآن مجید نے عزیز مصر کی بیوی کا یہ اقراری جملہ نقل کیا ہے :
(ن النفس لأمارة بالسوء لامارحم ربی)(11)
''نفس تو برائیوں کی طرف ہی اکسا تاہے مگر یہ کہ جس پرخدا رحم وکرم کردے (وہی اس سے ۔
محفوظ رہ سکتا ہے)''یہ مختصر سا جملہ انسانی زندگی پر خواہشات کے مستحکم کنڑول کی ایک مضبوط سند ہے ۔
اور امیر المومنین سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
(الخطایا''الشھوات''خیل شُمُس حُمِل علیھاأھلھا،وخُلِعَت لُجُمھا،فتقحمت بھم فی النار،ألاوان التقویٰ مطایاذُلُلُ،حُمِل علیھاأھلھا،واُعطواأزِمّتھا،فأوردتھم الجنة)(12)
'' خطائیں اور''خواہشات'' وہ سرکش گھوڑے ہیں جن پر کسی کو سوار کرکے انکی لگام اتاردی جائے اور وہ اپنے سوار کو لیکر جہنّم میں پھاند پڑیں لیکن تقویٰ وہ رام کی ہوئی سواریاں ہیں جن پر صاحبان تقویٰ کو سوار کرکے ان کی لگام انکے ہاتھ میں دیدی جائے اور وہ ان کو جنّت میں پہونچادیں ''
شمس در اصل شموس کی جمع ہے اور شموس اس سرکش اور اڑیل گھوڑے کو کہتے ہیں جو کسی کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتا اورنہ ہی سوار کا تابع رہتاہے۔گویاسوار اسے لگام لگائے بغیر اس پر سوار ہوگیا تووہ اسکے قابو میں نہیںرہتااور وہ سوار کو لے اڑتاہے اور سواربھی اسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا ۔یہی حال خواہشات کا بھی ہوتا ہے جو اپنے اسیرانسان کوہر طرف لئے پھرتی ہیں اور وہ ان خواہشات کو صحیح جہت نہیں دے پاتا اور ان پر اپنا قابو اسی طرح کھو بیٹھتا ہے جس طرح ایک سرکش گھوڑا بے قابو رہتا ہے۔
اسکے برخلاف تقویٰ انسان کو اسکے خواہشات نفس اور ہوی وہوس پر قابو رکھنے کی قوت عطا کرتا ہے اور نفس کو اسکا مطیع اور فرمانبردار بنا دیتا ہے جسکے بعدانسان جدھر چاہے انکا رخ موڑ سکتا ہے اورانہیں خواہشات کے ذریعہ وہ جنت میں پہنچ سکتا ہے ۔
٣۔خواہشات اور لالچ کی بیماری
طمع اور لالچ خواہشات کی تیسری خصوصیت ہے جس کی بنا پر خواہشات کی طلب میں اوراضافہ ہوجاتا ہے اور اسکی خواہش بڑھتی رہتی ہے ۔جبکہ دیگر مطالبات میں معاملہ اسکے بالکل بر عکس ہوتاہے کیونکہ جب انسان کسی اور مطالبہ کو پورا کرتا ہے تو اسکی گذشتہ شدت اور کیفیت و کمیت باقی نہیں رہتی بلکہ شدت میں کمی آتی ہے اورسیرابی کا احساس ہوتاہے ۔
لیکن خواہشات (13)کامعاملہ یہ ہے کہ اگر ان کے مطابق عمل کرتے رہیں تو ان کی طلب میں اضافہ ہوتاجاتاہے ،ان کی چاہت کا لاوا مزید ابلنے لگتاہے ۔جسکے بعد دھیرے دھیرے ان پر انسان کا کنٹرول نہیں رہ جاتا لیکن اگر معقول ضابطہ کے تحت ،اعتدال کے دائرہ میںرہ کر ان خواہشات کو پورا کیا جائے تو پھر ان کے مطالبات خود بخود سردپڑجاتے ہیںاورانسان بخوبی انکے او پر غلبہ حاصل کرلیتاہے۔
مختصر یہ کہ بالکل آگ کی طرح ہوتی ہیں کہ اس میں جتنی زیادہ پھونک ماری جاتی ہے اسکے شعلے مزیدبھڑکنے لگتے ہیں اسکی لپٹیںاور بلند ہو جا تی ہیں ۔لہٰذا شرعی حدود میں رہ کر مناسب اور معقول انداز میں ان خواہشات کو پورا کرناان کو آزاد اور بے لگام چھوڑدینے سے بہتر ہے کیونکہ اگر بلاقید و شرط ان کی پیروی کی جائے تو ہر قدم پر تشنگی کا احساس ہوتارہے گااور خواہشات پر انسان کا اختیاربالکل ختم ہو جائے گا ۔
ان دونوں ہی باتوں کی طرف روایات میں اشارہ موجود ہے۔
١۔خواہشات کی بلاقید و شرط تکمیل سے ان کی شدت میں اور اضافہ ہوتاہے اور ان کے مطالبات بڑھتے ہی رہتے ہیں اور اسکے برعکس اگر صرف شرعی حدود کے دائرہ میںان کی تکمیل ہوتو سیرابی حاصل ہوتی ہے ۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:
(ردالشھوة أ قضی لھا،وقضاؤھاأشدّلھا)(14)
''شہوت اور خواہش کو ٹھکرادینا ہی اسکے ساتھ بہترین انصاف ہے اور اسکو پورا کرنا اسے مزید بڑھاوا دینا ہے۔''
یہاں خواہش کو ٹھکرادینے سے مراد محدود اور معقول پیمانہ پر ان کی تکمیل ہے ۔اور تکمیل سے مراد انہیںبے لگام چھوڑدینا اور ان کی تکمیل میں کسی قاعدہ و قانون کا لحاظ نہ رکھناہے۔
٢۔خواہشات کی بے جاتکمیل اور اس راہ میں افراط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان خواہشات کے سامنے انسان اتنابے بس اور مجبورہو جاتا ہے کہ اپنی خواہشات پر اس کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتااوروہ ان کاغلام اور نوکر بن کر رہ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف اگر انسان واقعاً کسی اصول وضابطہ کے مطابق محدود پیمانہ پران کی تکمیل کرے تو پھر اپنی خواہشات پر اسکا مکمل اختیار رہتا ہے اور وہ انہیں جدھر چاہے موڑسکتاہے۔
امام محمد باقر کا ارشاد ہے :
(مثل الحریص علی الدنیاکمثل دود القز،کلماازدادت من القزعلی نفسھا لفّاًکان أبعد لھا من الخروج حتیٰ تموت)(15)
دنیا کے لالچی انسان کی مثال ریشم کے اس کیٹرے جیسی ہے کہ جو اپنے اوپر جتنا ریشم لپیٹا جاتاہے اسکے نکلنے کا راستہ اتنا ہی تنگ ہوتاجاتا ہے اور آخر کا روہ موت کے منھ میں چلا جاتا ہے۔
..............
(1)سورئہ فرقا ن آیت ٤٣۔
(٢)سورئہ نازعات آیت٤٠۔٤١۔
(3)اصول کافی ج٢ص٣٣٥۔
(4)گذشتہ حوالہ
(5)الجامع الصغیرللسیوطی بشرح المناوی۔ ج٢ص٢٢٠ط ١٣٧٣۔
(6)مجموعۂ ورام ص١٦٣۔
(7)اصول کافی ج٢ص١٣٩۔
(8)بحار الانوار ج ٧٣ ص ١٧٠۔
(9)انس نے رسول ۖ سے (جامع صغیر سیوطی حر ف (ی)ج٢ص٣٧١)پر روایت کی ہے کہ آپۖ نے فرمایا ہے ٔٔٔٔ''فرزند آدم بالکل بوڑھا پھوس ہوجاتا ہے مگر اس کے ساتھ دو چیزیں باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور آرزو ۔''
(10)بحارالانوار ج٧٠ص٧٦حدیث٦۔
(11)سورئہ یوسف آیت ٥٣۔علمائے نحو کے بقول اس جملے میں نحوی اعتبارسے اتنی تاکیدیں پائی جاتی ہیں جو بہت کم جملوں میں ہوتی ہیں جیسے یہ جملہ اسمیہ ہے اور اسکی ابتداء میں انّ پھرا مارہ صیغۂ مبالغہ اور اسکے شروع میں لام تاکید یہ سب کثرت تاکید کی علامتیں ہیں۔
(12)نہج البلاغہ خطبہ ١٥۔
(13)خواہشات سے ہماری مراد تمام چاہتیں نہیں ہیں ۔کیونکہ بعض چاہتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ قاعدہ درست نہیں ہے ۔
(14)غررالحکم ج١ص٣٨٠۔
(15)بحار الانوارج٧٣ص٢٣۔
source : http://www.shiastudies.net