لفظ جھاد کے لغوی معنی ھے طاقت و اختیار کے ساتھ جد وجھد ،قرآن کریم میں بھی لفظ جھا د اسی معنیٰ میں متعدد بار استعمال ھوا ھے :
< وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا>[1]
لیکن ثانوی طور پر اس سے مراد اسلام کے دشمنوں سے جنگ اور راہ خدا میں جان ومال کو قربان کر دینا ھے ۔
< إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ >۔[2]
فقہ میں جھاد کبھی دفاع کے بجائے استعمال ھوتا ھے یعنی کفار سے وہ ابتدائی تھی جس کا مقصد یہ ھے کہ وہ کفر کو چھور کر خدا ئے وحدہ لاشریک پر ایمان لائےں اور نظام الٰھی کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔
یہ لفظ کبھی کفار سے متعلق جنگ کے لئے استعمال ھوتا ھے جس میں دفاع بھی شامل ھے قرآن کریم میں جھاد سے یھی عمومی معنی مرا د ھے اگر چہ اس کا اھم ترین مصداق دفاع ھے یا اس کے تمام مصداق دفاع پر ھی دلالت کرتے ھیں۔
جھاد کے اقسام
جھاد کی متعدد قسمیں ھیں جو غالبا ً دفاع کی حیثیت رکھتی ھے اور قرآن کریم میں قتال جھاد کے عنوان سے بیان ھوئی ھیں:
۱۔ان دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کے عز وقار اور حیثیت و آبرو کا دفا ع دین کی بنیادوں کو منھدم کر کے مجوسیت و نصرانیت و یھودیت وغیرہ کی شکل میں کفر ولادینی پھیلانا چاہتے ھیں جیسا کہ اسرائیل اسی جستجو میں ھے ۔
۲۔مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو و عزت یا اسلامی سر زمین پر اس حملہ آور دشمن کے مقابلے میں دفاع جس کا مقصد اسلام کی تباھی تونھیں۔ لیکن جن کا ھدف مسلمانوں کی عزت وآبرو اور جان ومال ھو ۔
۳۔مسلمانوں بھائیوں کا دفاع جو کسی علاقے میں کافروں سے بر سر پیکار ھوں ۔اور یہ خطرہ ھو کہ کفار ان پر غلبہ پالیں گے ۔ایسے موقع پر اتحاد و اخوت اسلام کا تقاضا ھے کہ مسلمانوں کے دفاع کی خاطر دشمنوں سے جنگ کی جائے۔
۴۔اسلامی علاقوں پر قابض جیسے کہ اس وقت دنیا میں رونما ھورھا ھے جس میں ایک فلسطین ،عراق ،افغانستان ،کشمیر یا مسلمانوں کے عقاید پر مسلط غاصب دشمنوں کی پسپائی اور اخراج کے لئے جھاد ،کیونکہ غیروں کے اقتدار سے نجات اور مسلمانوں کی عزت وآزادی کی بحالی تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے ۔
۵۔کفا ر سے جھاد تاکہ باطل عقائد سے چھٹاکارا دلا کر انھیں اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا جائے اسے اصطلاحاً جھاد ابتدائی بھی کھا جاتا ھے اس جھاد کے لئے کچھ خاص شرائط ھیں جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ھے ۔
اھمیت جھاد : قرآن کریم میں بہت ساری جگھوں پر جھاد کا ذکر آیا ھے مثلاً: < وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ>۔[3]
اسی طرح سورہٴ محمد، سورہٴ نساء ،سورہٴ احزاب ،حدید،نمل ،حج، شوریٰ،توبہ وغیرہ تقریبا ً ۴۰۴ آیتیں جھا دے مخصوص ھیں ۔البتہ بعض دیگر موضوعات کی طرح آیات جھاد کا مکمل احصاء مشکل ھے کیونکہ یہ عام طریقہ ھے کہ جب قرآن کسی موضوع کو چھیڑتا ھے تو کچھ باتیں بطورمقدمہ بیان کرتا ھے اور کبھی کسی مناسبت سے بیچ میں کچھ دوسری باتیں بھی بیان ھوجاتی ھے اور پھر تتمہٴ کلام میں بھی موضوع کی مناسبت سے کچھ دوسرے مسائل کا ذکر آجاتا ھے۔
جیسا کہ جھاد و انفاق ولایت سے متعلق آیتوں میں ابتداء یا وسط یا آخر میں کچھ دوسرے مسائل کا بھی تزکرہ ھوا ھے لہٰذا ایسی صورت میں مسائل کے لحاظ سے آیات کی صحیح تدوین اور موضوعات کی مناسبت سے جداگانہ عنوانوں کے تحت ان کی تقسیم وااضافہ بندی مشکل ھے ۔
آیتوں کی یہ کثیر تعداد اور ان میں انتھائی سخت ولولہ انگیر اور حتمی گفتگو سزا و جزا کے وعدے اور دھمکیاں اور طرح طرح کی تاکید ی جھاد کی عطمت واھمیت کی نشاندھی کرتی ھیں۔< وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ> < اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَاٴْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمْ الْبَاٴْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللهِ اٴَلاَإِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِیبٌ>[4] [5]
جھاد کی تشریعی اور فطری حیثیت :جھاد کی مذکورہ بالا دفاعی حیثیت کی حامل ھیں اور قدرتی طور پر دفاع فطری حق ھے جس میں کسی شک وشبہ کی گجنائش نھیں ۔دنیا کی کوئی منطق مسلمانوں کو اس حق سے محروم نھیں کر سکتی قرآن کریم اس کی پر زور حمایت کرتا ھے جھاد سے متعلق پھلی آیتیں جو نازل ھوئیں وہ سورہ ٴ حج کی آیتیں ھیں جو اس تعبیر سے شروع ھوتی ھیں :<اٴُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِاٴَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ (ز) الَّذِینَ اٴُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلاَّ اٴَنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلاَدَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللهِ کَثِیرًا>۔[6]
اس آیت میں مظلوم کو حملہ آور دشمن سے جنگ کی اجازت دی گئی تاکہ وہ دشمن کو دفع کر کے توحید کے مظاھرہ اور آثار شریعت کی حفاظت کر سکے۔اسی طرح ایک دوسری آیت ھے جسے جھاد سے متعلق اولیں آیتوں میں شمار کیا جاتا ھے بلکہ بعض مفسرین اسے جھاد کے سلسلہ کی پھلی آیت قرار دیتے ھیں وہ یہ : <وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ>۔[7]
اس آیہ کریمہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ھے جھاد سے متعلق تقریباً تمام آیتیں اسی دفاعی جنگ کے بارے میں صرف ایک ایسی آیت جو مطلق اور اسے ابتدائی جھاد مراد لیا جا سکتا ھے شاید بعض دوسری آیتوں کوبھی بطور شھادت پیش کیا جا سکے وہ آیت یہ ھے :< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً >۔[8]
یہ آیت کافر پڑوسیوں سے جنگ کا حکم دیتی ھے اور قدرتی بات ھے کہ اسلام کی توسیع کا راستہ ھی یہ ھے کہ قریب ترین مقام سے اس کی اشاعت شروع ھو ۔اور تدریجاً پوری دنیا میں پھیل جائے ۔
جھاد کے مقاصد : قرآن کریم نے مختلف مقامات پر جھاد کے جو مقاصد بیان فرمائے ھیں وہ حسب ذیل ھیں :
۱۔دفاع:<وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ >۔[9]
۲۔دفع فتنہ :،یہ عام معنیٰ میں مستعمل ھے اس میں دفاع بھی شامل ھے۔ < وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ>۔[10]
۳۔حکومت الٰھی کا قیام و ثبات اور سرکشوں کی سر کوبی واصلاح: < وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ >۔[11]
۴۔الٰھی نظام کی بر قرار ی اور ممکنہ وآئندہ دشمنوں کے حملے کی پیش بندی :< قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلاَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلاَیُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُہُ وَلاَیَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ >۔[12]
۵۔روئے زمین پر فتنہ و فساد کی روک تھام :< وَلَوْلاَدَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتْ الْاٴَرْضُ >۔[13]
۶۔مراکز عبادت اور دینی مظاھر کا تحفظ:<وَلَوْلاَدَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ>۔[14]
۷۔احقا ق حق وابطال باطل :< لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ>۔[15]
۸۔انسداد ظلم وحمایت مستضعفین:< إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ>۔[16]
ان عنوانات کے تحت جھاد کے اغراض ومقاصد قرآن مجید میں بیان ھوئے ھیں البتہ ان میں کچھ ایسے مقاصد بھی ھیں جو دوسرے مقاصد کے ضمن میں پورے ھو جاتے ھیں بلکہ یہ بھی کھا جا سکتا ھے کہ بحیثیت مجموعی جھاد کا مقصد انسان کے فطری اور مسلمہ حقوق کا دفاع ھے یعنی مسلمانوں کی عزت و آبرو جان ومال اور اسلامی سر زمین کا تحفظ دفاع۔
اس طرح دفاع کے عنوان سے ابتدائی جھاد کی بھی توجیہ کی جا سکتی ھے کیونکہ عظیم محقق و مفسر علامہ طباطبائی مرحوم کے بقول تو حید اور توحیدی نظام فطری نبیادوں پر استوار ھے اور اصلاح بشریت کا واحد راستہ ھے ۔
< فَاٴَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لاَتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ>۔[17]
اس کے بعد کوئی چارہ باقی نھیں رہتا کہ احیاء اساس توحید اور نظام ھائے توحید کے لئے تمام انسان مل کر سعی کریں کیونکہ یہ سب سے بڑا فطری حق ھے ۔
< شَرَعَ لَکُمْ مِنْ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحًا وَالَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی اٴَنْ اٴَقِیمُوا الدِّینَ وَلاَتَتَفَرَّقُوا فِیہِ>۔[18]
عقلائے عالم کے نقطہ نظر سے عظیم ترین فطری حق حق حیات ھے یعنی معاشرہ پر حاکم قوانین کے زیر سایہ زندگی گذارنا ،ایسے قوانین جو افراد کے مفادات کے حفاظت کرتے ھیں اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ھے کہ اس حق کادفا ع بھی فطری حق اور اس کے تحفظ و بقاء کا ضامن ھے اگر حق کادفاع نہ ھو تو حق حیات بھی مستکبروں کے ھاتھوں پائمال ھو جائے گا۔
اگر حدائی نظاموں پر مستکبروں کی جارحانہ دست درازی کو روکنے کے لئے دفاعی طاقت موجود نہ ھو تو دین یعنی وھی فطری حق جس کے سماجی مظاھر،مسجد وکلیسا جیسےء عادتی مراکز ھیں نیست ونابود ھو جائیں گے اور اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رھے گا ۔
سورہٴ نفال کی آیتیں واضح الفاظ میں بتاتی ھیں کہ اگر موحدوں کا دفاع نہ ھو تو حق پرستوں کی تاک میں کمین گاھوں میں بیٹھے ھوئے مجرم حق کی جگہ باطل کو رائج کردیں گے یہ جھاد ھے جو حق کی حفاظت کا ذمہ دار ھے ۔
< لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ >۔[19]جھاد ایک فطری حق ھے خواہ تحفظ مسلمین کی خاطر ھو ،یا دفاع سلام کے عنوان سے ھو یا ،ابتدائی جھاد کی صورت میں کہ یہ ان ملکوں میں جھاں جابروں کی دباوٴ کی وجہ سے فطرت الٰھی کا دم گھٹ رھا ھو۔اسے زندہ اور اس شرک کو نابود کرنا چاہتا ھے جو فطرت کی موت اور توحید کے حَسِین جلووٴں کے ماند پڑجانے کا باعث ھے <وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ>۔
اس مقدمے کی بنا پر کھا جا سکتا ھے کہ اسلام نے اپنے پیرووں کو حق دیا ھے کہ وہ دنیا کو شرک اور اس کی تمام نشانیوں سے چاھے وہ جس روپ میں بھی ھو پاک کریں ۔اور فطرت توحید کو زندہ کرے۔قرآن کریم نے بھی مسلمانوں سے اس کا وعدہ کیا ھے۔
< وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاٴَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمْ الَّذِی ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اٴَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لاَیُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا>۔[20]
جملہ ٴ< یَعْبُدُونَنِی لاَیُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا>بہترین دلیل ھے شرک اور اس کے تمام مظاھر کی تباھی ضروری ھے تاکہ توحید کا اخلاص جائے گزین ھو۔
< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ>۔[21]
یہ آیت ان مجاھدوں کا تذکرہ کر رھی ھے جو ھر طرح کی سرزنش وملامت سے بے پرواہ کامل خلوص کے ساتھ شرک سے روئے زمین کو پاک کرتے اور سارے عالم میں کلمہ حق کا پرچم بلند اور ایفائے وعدہ الٰھی کا فرض اداکر تے ھیں۔ان مقدمات سے اس بات کی تصدیق ھو سکتی ھے کہ مشرکوں کو دعوت توحید دینے کے لئے جھاد ابتدائی ایک مشروع اور فطری حق ھے جب رسالت کی طرف سے پیغام رسانی اور دعوت تنبیہ اور بشارت اتمام حجت اور دعوت حسنہ روشن آیات حق کی پیش کش اور حق وباطل میں امتیاز وغیرہ کی تمام عقلی ومنطقی کوششیں ناکام ھو جائیں تو ظالموں اور مستکبروں کی سرکشی و نافرمانی کے کچلنے کے لئے اسی حق کا مجبوراً استعمال کیا جاتا ھے یہ حق صرف دین سے مخصوص نھیں بلکہ یہ ایک ایسا فطری امر ھے جسے تمام قومیں تسلیم کرلیتی ھیں جب عوام کسی نظام کو مان لیتے ھیں اور معاشرہ کی اصلاح و ترقی کے لئے کوئی نظام قبول کر لیا جاتا ھے تو ایسے سرکش و نافرمان افراد کے لئے جو ارشاد وھدایت کے بعد بھی اپنی سرکشی ونافرمانی سے باز نھیں آتے اس حق کا جائز استعمال سمجھا جاتا ھے تاکہ وہ قانون کی برتری تسلیم کرے،جب ھر نظام کو یہ حق حاصل ھے تو پھر توحید کی بنیادوں پر استوار الٰھی نظام کو اس فطری حق سے کیوں محروم کیا جائے۔
جیسا کہ اشارہ ھو چکا ھے سورہٴ توبہ کی ۱۲۳آیت میںجھاد دفاع سے مخصوص نھیں ھے اسی طرح سورہ ٴ نمل میں ملکہ سباء کو حضرت سلیمان (ع)کی دھمکی : <فَلَنَاٴْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِنْہَا اٴَذِلَّةً وَہُمْ صَاغِرُونَ > ۔[22]
حالانکہ اسے پھلے ملک سباء کی طرف سے کوئی حملہ ھوا تھا نہ کہ حملے کی دھمکی دی گئی تھی ۔حضرت سلیمان (ع) کی دھمکی صرف اسی بنا پر تھی کہ ملکہ سباء نے حضرت سلیمان (ع)کی دعوت کوقبول نھیں کیا تھا::< اٴَلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَاٴْتُونِی مُسْلِمِینَ >۔[23] یہ واقعہ ابتدائی کے شرعی جواز کی بہترین توضیح ھے۔
انبیاء کی تاریخ میں جھاد
قرآن مجید کی آیتیں گواہ ھیں کہ انبیاء کی سیرت یہ رھی ھے کہ وہ بشارت روشن آیات حق اور گذشتہ وآئندہ انسانوں کے تذکر ے سے انسانی عقل وفطرت کو نھایت نرمی اور دلسوز ی کے ساتھ بیدار کرنے کی کوشش سے اپنی دعوت کا آغاز کرتے تھے قدرتی بات یہ ھے کہ پاک وصاف دل اور بیدار خواہ ضمیر نھایت خندہ پیشانی سے ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے لیکن مردہ دل آلودہ روح اور سرکش نفس رکھنے والے ان کی دعوت کو ٹھکرادیتے اور نور خدا کو خاموش کرنے کے لئے انبیاء کے مقابلے میں کھڑے ھوئے تھے جھاں کھیں محاذ حق کمزور ھوتا اور اس میں مقابلے کی طاقت نہ ھوتی تو وہ اپنی اور اپنے اصحاب کی جان کی حفاظت اور محدود پیمانے پر چراغ توحید کو جلائے رکھنے پر اکتفاء کرتے ھوئے مشرکوں پر عذاب الٰھی کے نازل ھونے کا انتظار کرتے تھے جب صبر کا پیمانہ لبریز ھو جاتا اور اھل حق امتحان کی کٹھن منزلوں کو طے کرتے ھوئے موت وحیات کے دوراھے پر پہنچ جاتے اس وقت وعدہٴ الٰھی پورا ھوتا زلزلہ ،طوفان، آندھی اور ایسی ھی دوسری شکلوں میں عذاب الٰھی نازل ھوتا ۔اور مومنوں کو ان سرکش طاغوتوں سے چھٹکارا مل جاتا جیسا کہ حضرت ھود (ع) ،حضرت ابراھی م (ع) ، حضرت نوح (ع)اور حضرت موسیٰ (ع)کے قصوں میں بیان کیا گیا ھے۔
لیکن جب توحید ی طاقتیں خود کو طاقتور محسوس کرتی اور دشمن پر غلبہ پانے کا امکان ھوتا تو وہ مقاصد رسالت کی تکمیل خدا خواھوں کے راستے کو ھموار اور ان کے سامنے سے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہتھیار اٹھانے میں پس وپیش نھیں کرتی ایسے موقع پر شرک کے وجود کو برداشت نھیں کیا جاتا تھا جیسا کہ سلیمان وملکہ سباء ،طالوت جالوت کے واقعات ،مختصر یہ کہ انبیاء ماسلف کی زندگی میں جنگ وجھاد دونوں کی سنت موجود تھی، <وَکَاٴَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ>[24]
مستقل جھاد
اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ جھاد بمعنیٰ عام جس میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع شامل ھے قرآن کریم میں ایک اھم فریضہ ھے ایسے پورے الٰھی نظام اور توحید کی اساس کا محافظ قرا دیا گیا ھے تاریخی تجزیہ خارجی واقعات اور عقل بھی ضرورت جھاد کی قطعی تائید کر تے ھیں اس میں شک نھیں کہ یہ فریضہ صرف صدر اسلام اور عصر رسول خدا (ص) سے مختص نھیں ھو سکتا ھے جھاد کے لئے مسلمانوں کی طاقت و قوت کے سوا کوئی شرط نھیں۔
جھاد بمعنیٰ عام کے کسی خاص زمانے یا عام شرائط ”جس میں قدرت و طاقت بھی شامل ھے“کے سوا دوسری شرائط سے مشخص ھونے کا تصور آرام پسندی حقائق قرآن سے ناواقفیت مصالح اسلام ومسلمین سے لاپرواھی اخلاقی کمزوری معاشرے اور اس کے مسائل سے صدیوں کی دوری و گوشہ نشینی اور صوفیانہ افکار کے غلبے کے سواکچھ نھیں ۔اگر یہ کمزوریاں نہ ھوتی تو کس طرح ایک اسلام شناس یا محقق چار سو سے زائد تاکیدی اور سخت لہجہ آیتوں کو صرف چند برسوں سے مخصوص سمجھتا اور اس فکر سے دشمنوں کے نرغے میں گھر ے ھوئے اسلام کو جس کے لئے دفاع ایک اھم ضرورت ھے ھمیشہ کے لئے نہتھا بنا کر مسلمانوں کی جان ومال عزت اسلامی اقدار اسلامی سر زمین پر دشمنوں کے غلنے کا راستہ ھموار کرتا ۔جو مسلمانوں کی عزت و قوت کی ضمانت ھے کسی ایک زمانے سے محدود ھو سکتی ھے کیا دشمنوں نے ھم سے معاھدے کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی نھیں کی پھر ھم نے اس آیت :<وان نکثوا ایمانھم من بعد عھد ھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائئمة الکفر انھم الایمان بھم>پر عمل کیوں نہ کیا خداوند کریم کا یہ وعدہ ھے :<وعدہ لاتعنوا ولاتحزنواوانتم الاعلون ان کنتم مومنین>کیا یہ صرف چند برسوں کے لئے تھا اگر جھاد ابتدائی میں شک وشبہ ھوسکتا ھو تو کیا دفاع میں بھی شک کیا جا سکتا ھے تمام زمانوں میں مسلمانوں کو دفاع کی ضرورت رھی ھے اور آج دشمن ھر زمانے سے زیادہ اسلام ومسلمین کے مقابلے میں صف آراء ھے اسے کسی مکر وحیلے سے عار نھیں آج اپنی جان ومال عزت کی حفاظت کے لئے ھر زمانے سے زیادہ امداد باھمی تعاون ،طاقت میں اضافہ اور جھاد کی ضرورت ھے ۔
اگر ھم مسلمان نہ ھوتے پھر بھی تقاضائے عقل و فطرت یہ تھی کہ اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ھوتے اور اتنی زیادہ ذلت برداشت نہ کرتے عربوں کی تعداد مسلمانوں کے لئے یھی ذلت کا فی ھے لگ بھلگ ۶۰لاکھ یھودیوں کے سامنے جن کے بارے میں قرآن میں ھے <ضربت علیھم الذلة والمسکنة> سر ذلت جھکائے ھوئے ھیں روز بروز ان کے میدان ھموار کرتے جارھے ھیں اور دست بستہ ان کے احکام کی بجاآوری کے لئے تیار ھیں کیا اس ذلت کو برداشت کرنے کے لئے محض یہ بھانہ کا فی ھے جو کہ امریکہ اسرائیل کا حامی ھے اے مسلمانو! کیا خدا ھما را مددگار نھیں،مسلمانوں پھر یہ ذلت کیوں مسلمانوں خدا کی نصرت وحمایت کے وعدے بر حق ھیں لیکن ھمارا اس پر ایمان نھیں،ھم شرط ایمان <ان کنتم کومنین >سے کوسوں دور ھیں مسلمانوں ھم اس آیت کے مصداق بن گئے ھیں :< اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنْ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِیلٌ (ز) إِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ>۔[25]
[1] سورہٴ عنکبوت،آیت ۶۹۔
[2] سورہٴ انفال ،آیت ۷۲۔
[3] سورہٴ بقرہ ،آیت ۱۹۰۔
[4] سورہٴ بقرہ ،آیت ۱۵۴۔
[5] سورہٴ بقرہ ،آیت ۲۱۴۔
[6] سورہ حج،آیت۴۰۔۳۹۔
[7] سورہٴ بقرہ،آیت ۱۹۰۔
[8] سورہ توبہ ،آیت ۱۲۳۔
[9] سورہٴ بقرہ ،آیت ۱۹۰۔
[10] سورہٴ بقرہ ،آیت ۱۹۳۔
[11] سورہٴ انفال،آیت ۳۹۔
[12] سورہٴ توبہ ،آیت ۲۹۔
[13] سورہٴ بقرہ ،آیت ۲۵۱۔
[14] سورہٴ حج،آیت۴۰۔
[15] سورہٴ انفال،آیت ۸۔
[16] سورہٴ شوریٰ ،آیت ۴۲۔
[17] سورہٴ روم، آیت ۳۰۔
[18] سورہٴ شوریٰ،آیت ۱۳۔
[19] سورہٴ انفال،آیت ۸۔
[20] سورہ ٴنور،آیت ۵۵۔
[21] سورہٴ مائدہ ،آیت ۵۴۔
[22] سورہٴ نمل،آیت ۳۷۔
[23] سورہٴ نمل،آیت ۳۱۔
[24] آل عمران ،آیت ۱۴۶۔
[25] سورہٴ توبہ،آیت ۳۸۔۳۹۔
source : http://www.sadeqeen.com