اردو
Wednesday 20th of November 2024
0
نفر 0

وہ حدیث ھے جس کی سند کے صحیح هونے کا محدثین اور رجالِ اھل سنت نے اعتراف کیا ھے۔

حدیث ششم:

وہ حدیث ھے جس کی سند کے صحیح هونے کا محدثین اور رجالِ اھل سنت نے اعتراف کیا ھے۔ اس کا خلاصہ یہ ھے کہ کچھ لوگ ابن عباس کے پاس آئے جو امیر المومنین(ع) کے بارے میں ناروا الفاظ استعمال کر رھے تھے، تو ابن عباس نے کھا:ایسے شخص کے بارے میں ناروا کہہ رھے هو جو ایسی دس فضیلتوں کا مالک ھے کہ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے نھیں ھیں۔

۱۔جنگ خیبر میں (جب دوسرے گئے اور عاجز هو کر پلٹ آئے تو) رسول خدا(ص) نے فرمایا: ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدانے ھر گز ذلیل ورسوا نھیں کیا وہ خدا ورسول(ص)سے محبت کرتا ھے اور خدا اور رسول(ص) اس سے محبت کرتے ھیں۔

سب گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے کہ وہ کون ھے ؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا: علی(ع) کھاں ھیں؟ آپ دکھتی آنکھوں کے ساتھ آئے، رسول خدا سے شفا پانے کے بعد، آنحضرت(ص)نے علم کو تین مرتبہ لھرانے کے بعد علم علی(ع) کو دیا۔

۲۔فلاں کو رسول خدا(ص) نے سورہٴ توبہ کے ساتھ مشرکین کی جانب روانہ کیا، پھر اس کے پیچھے علی(ع) کو بھیجا اور اس سے سورہ لے کر فرمایا: یہ سورہ اس فرد کے علاوہ کوئی نھیں لے جاسکتا جو مجھ سے ھے اور میں اس سے هوں۔

۳۔رسول خد ا(ص) نے فرمایا: تم میں سے کون ھے جو دنیا او رآخرت میں میرا ولی هو؟ کسی نے قبول نہ کیا، علی(ع)سے فرمایا:دنیا وآخرت میں تم میرے ولی هو۔

۴۔ خدیجہ کے بعد علی(ع) سب سے پھلے ایمان لائے۔

۵۔ رسول خدا(ص) نے چار افراد علی و فاطمہ وحسن  وحسین علیھم السلام پر اپنی چادر اوڑھا کر فرمایا:ِٕنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا>

۶۔ علی(ع) وہ ھے جس نے اپنی جان کو رسول خدا(ص) پر فدا کیا، آنحضرت(ص) کا لباس پھن کر رات بھر آپ(ص) کے بستر پر سوئے اور صبح هونے تک مشرکین آپ(ع) کو پیغمبر سمجھ کر پتھر برساتے رھے۔

۷۔ غروہ تبوک میں علی(ع) کو اپنا نائب بنا کر مدینہ میں رھنے کو کھا۔ جب علی(ع) رسول خدا(ص) کے فراق کی وجہ سے آبدیدہ هوئے  تو آپ(ص) نے فرمایا:آیا تم راضی نھیں هوکہ تمھاری نسبت مجھ سے وھی هو، جوھارون کو موسی سے تھی،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیںھے۔ یقینامیرا جانا اسی وقت سزاوار ھے جب تم میرے خلیفہ هو۔

۸۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:میرے بعد تم ھر مومن ومومنہ کے ولی هو۔

۹۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) کے گھر کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کیا۔

۱۰۔رسو ل خدا(ص) نے فرمایا :((من کنت مولاہ فعلی مولاہ))[111]

آیا پیغمبر(ص) کی اس نص کے باوجود کہ تمام اصحاب کے هوتے هوئے فتح کاعلم علی(ع) کو دیا،صرف اس کو خدا اور رسول(ص)کا حبیب و محبوب کھا، خدا کے پیغام کو دوسروں سے لے کراسے دیا کہ ضروری ھے کہ علی(ع)  مبلّغ کلام خدا هو، کیونکہ وہ مجھ سے او رمیں اس سے هوں، اسی طرح آنحضرت(ص) کی یہ تصریح کہ میرا جانا اس وقت تک سزاوار نھیں جب تک کہ تم میرے خلیفہ نہ هو، علی(ع) کی ولایت مطلقہ و کلیہ کا بیان ((اٴنت ولی کل مومن بعدی ومومنة )) اور ((من کنت مولاہ فعلی مولاہ))۔کیا اس سنت صحیحہ کے باوجود علی(ع) کی خلافت بلا فصل میں اھل نظر وانصاف کے لئے کسی قسم کے شک و تردید کی گنجائش باقی رہ جاتی ھے ؟!

  اس مختصر مقدمے میں اس موضوع سے متعلق آیات واحادیث کی گنجائش نھیں، جیسا کہ پانچویں صدی ھجری کے نامور افراد میں سے حسکانی حنفی نے مجاھد جیسے بزرگ تابعین اور اعلامِ مفسرین سے نقل کیا ھے کہ علی(ع) کے لئے ستر فضیلتیں ایسی ھیں جن میں سے کوئی ایک بھی، پیغمبر اکرم(ص) کی کسی صحابی کو حاصل نھیں ھے، جب کہ اصحاب پیغمبر(ص) کے تمام فضائل میں علی(ع) ان کے شریک ھیں۔ [112]

اور ابن عبا س سے روایت کی ھے کہ قرآن کی <اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ> جیسی تمام آیا ت کے مصادیق میں علی(ع) سب کے سید وسردار ھیں اور اصحاب محمد(ص)میں سے کوئی ایسا نھیں جس پر خدا نے ناراضگی کا اظھار نہ کیا هو، جب کہ علی(ع) کو اچھائی کے علاوہ یاد نھیںکیا۔ [113]

علی(ع) میں اٹھارہ فضیلتیں ایسی ھیں کہ اس امت کے کسی فرد کے پاس اس جیسی ایک فضیلت بھی هو تو اس کے ذریعے نجات یافتہ هوجائے اور بارہ فضیلتیں ایسی ھیں جو اس امت میں سے کسی کے پاس بھی نھیں ھیں۔[114]

ابن ابی الحدید کہتا ھے:”ھمارے استاد ابوالہذیل سے پوچھا گیا:خدا کے نزدیک علی(ع) کا مقام زیادہ  بلند ھے یا ابو بکر کا ؟“

جواب دیا:” خدا کی قسم! خندق کے دن علی(ع) کا عمرو سے مقابلہ، تمام مھاجرین وانصار کے اعمال واطاعت کے برابر ھے، تم  تنھاابو بکر کی بات کرتے هو“[115]

حنبلی مذھب کے امام، احمد کا کھنا ھے:((ماجاء لاٴحد من اٴصحاب رسول اللّٰہ من الفضائل ماجاء لعلیّ بن اٴبی طالب))[116]

    لغت وادب کے ماھر اور علم عروض کے بانی، خلیل بن احمد کے بقول:”کسی کے بھی فضائل یا دوستوں کے ذریعہ نشر هوتے ھیں یا دشمنوں کے ذریعے۔ علی بن ابی طالب(ع) کے فضائل کو دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے حسد کی وجہ سے چھپایا، اس کے باوجود آپ کے فضائل اس طرح سے نشر هوگئے“[117]

اگر دشمنوں کا حسد اور دوستوں کو خوف نہ هوتا اور حکومتِ بنو امیہ و بنی عباس کی اندھیری راتوں کی تاریکیاں اس سورج پر پردے نہ ڈالتیں تو علی(ع) کی فضیلتوں کا نور آفاق کو کس طرح روشن و منور کر دیتا؟!

اس مقدس گفتگو کو آپ(ع) کی شان میں دو آیتوں کے ذکر پر ختم کرتے ھیں:

۱۔ِٕنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکوٰةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ>[118]

اکابر علمائے اھل سنت نے، اس آیت کے امیر المومنین(ع)کی شان میں نازل هونے کا  اعتراف کیا ھے،فخر رازی کی نقل کردہ حدیث کو بطور خلاصہ ملاحظہ فرمائیے:

”ابو ذر کہتے ھیں:میں نے ظھر کی نماز رسول خدا(ص) کے ساتھ ادا کی، ایک سائل نے مسجد میں آکر بھیک مانگی۔ کسی نے اسے کچھ نہ دیا، علی(ع) رکوع کی حالت میں تھے، آپ (ع)نے اس انگلی  سے، جس میں انگوٹھی تھی،سائل کو اشارہ کیا، سائل نے آپ کے ھاتھ سے وہ انگوٹھی لے لی۔ پیغمبر اکرم(ص) نے خدا سے التجا کی اور فرمایا:خدایا! میرے بھائی موسی پیغمبر نے تجھ سے سوال کیا اور کھا :<رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ> تو نے اس پر نازل کیا <سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاٴَخِیْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمْا سِلْطَاناً>، بار الھا! میں محمد تیرا بندہ  هوں، مجھے شرح صدر عطا فرما، میرا کام آسان فرما اور میرے اھل سے علی کو میرا وزیر قرار دے۔اس کے ذریعے میری پشت کومضبوط فرما۔ ابو ذر کہتے ھیں: خدا کی قسم! ابھی رسول خدا(ص) کے کلمات ختم نہ هوئے تھے کہ جبرئیل اس آیت کے ساتھ نازل هوئے۔“[119]

رسول خدا(ص) کی دعا کے بعد اس آیت کا نازل هونا آپ(ص) کی دعا کا اثر ھے،کہ جو مقام ھارون کو موسی کی نسبت حاصل تھا وھی مقام و مرتبہ علی(ع) کو رسول خدا(ص) کی نسبت عطا کیا گیا۔

اور اس آیت میں حرف عطف کی بنا پر جو الٰھی ولایت، رسول خدا(ص) کے لئے ھے، علی(ع) کے لئے بھی ثابت ھے۔اور لفظ ((إنما)) انحصار پر دلالت کی وجہ سے اس بات کو ثابت کرتا ھے کہ اس آیت میں خدا، رسول اور علی کی ولایت ایسی ولایت ھے جو صرف ان تین میں منحصر ھے اور ” ولی“ کے معانی میں سے اس کا معنی، ولایت امر کے علاوہ کچھ نھیں هوسکتا۔

۲۔<فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ  وَاٴَنْفُسَنَا وَ اٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللّٰہِ عَلیَ الْکَاذِبِیْنَ>[120]

اس آیت کریمہ میں اھل نظر کے لئے چند نکات ھیں، جن میں سے تین نکات کی طرف،طویل تشریح سے گریز کرتے هوئے اشارہ کرتے ھیں۔

رسو ل خدا(ص)کامباھلہ کے لئے دعوت دینا آپ(ص)کی رسالت کی دلیل وبرھان ھے، جب کہ نصاریٰ کا مباھلہ سے گریزنصرانیت کے بطلان اور آئین محمدی کی حقانیت کا اعتراف ھے۔ لفظ ((اٴنفسنا))امیر المومنین علی(ع) کی خلافت بلا فصل کی دلیل ھے، کیونکہ نص قرآن کے مطابق نفسِ  تنزیلی  کے هوتے هوئے، جو در حقیقت وجودِ ختمی مرتبت(ص)کا تسلسل ھے،کسی اور کی جانشینی ھی نھیں۔

تمام جیّد مفسرین ومحدثین کا جس بات پر اتفاق ھے وہ یہ ھے کہ((اٴبنائنا))سے مراد حسن وحسین علیھما السلام، ((نسائنا))سے مراد فاطمة الزھر اسلام اللہ علیھا اور((اٴنفسنا))سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) ھیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا مضمون بطور خلاصہ ملاحظہ هو، جسے فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ھے:

”رسول خدا(ص) نے جب نجران کے نصاریٰ کے سامنے اپنے دلائل پیش کر دئے اور وہ اپنی جھالت پر قائم رھے تو آپ(ص) نے فرمایا: ”خدا نے مجھے حکم فرمایا ھے کہ اگر تم دلیل نھیں مانتے هو تو میں تمھارے ساتھ مباھلہ کروں۔“ یہ سن کر انهوں نے کھا:”اے ابو القاسم! ھم جا رھے ھیں، اپنے امور میں سوچ بچار کے بعد دوبارہ لوٹ کر آئیں گے۔“جب وہ پلٹ کر گئے تو انهوں نے اپنے صاحب رائے، عاقب سے پوچھا:”اے عبد المسیح! تیرا کیا مشورہ ھے؟“ تو اس نے کھا: اے نصاریٰ تم جان چکے هو کہ محمد خد اکے فرستادہ نبی ھیں اور تمھارے لئے، عیسیٰ کے بارے میں کلامِ حق لائے ھیں۔خدا کی قسم! کسی ایسی قوم نے پیغمبر کے ساتھ مباھلہ نھیں جس کے بڑے زندہ بچے هوں اور چھوٹے پرورش پاسکے هوں، اگر تم نے اس کام کو انجام دیا تو جڑ سے اکھڑ جاؤگے۔ اگر اپنے دین پر باقی رھنا ھی چاہتے هو تو اس سے رخصت هو کر اپنے شھروں کو لوٹ جاؤ۔“

ادھر رسول خدا اس حالت میں باھر آئے کہ حسین کو آغوش میں لئے ھیں، حسن کا ھاتھ تھامے هوئے ھیں، فاطمہ (سلام اللہ علیھا) آنحضرت کے پیچھے اور ان کے پیچھے پیچھے علی علیہ السلام آرھے  ھیں۔ آنحضرت(ص) نے ان سے فرمایا: ”جب میں دعا کروں، تم آمین کھنا۔“

نجران کے راھب نے کھا:”اے گروہ نصاریٰ،میں ایسے چھرے دیکھ رھا هوں کہ اگر خدا سے چاھیں کہ پھاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو ان صورتوں اور رخساروں کے لئے پھاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا،مباھلہ نہ کرنا کہ ھلاک هوجاو گے اور قیامت تک روئے زمین پر ایک بھی نصرانی باقی نھیں رھے گا۔“

مباھلہ سے جان چھڑا کر صلح پر راضی هوگئے، مصالحت کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے! ھلاکت اھل نجران کے نزدیک تھی۔ اگر مباھلہ وملاعنہ کرتے تو بندر اور سور کی شکلوں میں مسخ هوجاتے، یہ وادی ان کے لئے آگ بن جاتی اور ایک سال کے اندر اندر تمام نصاری ھلاک هوجاتے۔“

اورروایت  ھے کہ جب آنحضر ت(ص) سیاہ کساء میں باھر آئے تو سب سے پھلے حسن کو اس کساء میں داخل کیا، پھر اس کے بعد حسین، پھر جناب سیدہ اور اس کے بعد علی کو اور فرمایا ِٕنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا>

اس کے بعد فخر رازی کہتا ھے:((واعلم اٴن ھذہ الروایة کالمتفق علی صحتھا بین اٴھل التفسیر والحدیث ))[121]

اگر چہ اس آیت اور مورد اتفاق حدیث کی تشریح کی گنجائش تو نھیں، لیکن صرف دو نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

۱۔باھر آتے وقت ان ھستیوں کو کساء تلے جمع کرکے یہ ثابت کرنے کے لئے آیت تطھیر کی تلاوت فرمائی کہ ایسی مافوق العادہ دعاجو اسباب طبیعی کو ناکارہ بنا کر بلا واسطہ طور پر  خد ا کے ارادے سے تحقق پیدا کرے، ضروری ھے کہ ھر رجس سے پاک روح کی جانب سے سبوح وقدوس کی بارگاہ تک پھنچے کہِٕلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ>[122] اور جس طھارت کا پروردگا ر عالم نے ارادہ کیا ھے وہ ان ھستیوں میں ھی پائی جاتی ھے۔

۲۔نجران کے نصاری کے ساتھ رسول خدا(ص) کا مباھلہ، اس قوم کے لئے رحمت خدا سے دوری کی درخواست تھی اور وہ دعا جس کی قبولیت سے انسان حیوان کی شکل میں منقلب هوجائے،خاک اپنی حالت تبدیل کرکے آگ بن جائے اور ایک امت صفحہ ھستی سے مٹ جائے،ِٕنَّمَا اٴَمُرُہ إِذَا اٴَرَادَ  شَیْئًا اٴَنْ یَّقُوْلَ لِہ کُنْ فَیَکُوْنُ>[123] کے ارادے  سے متصل هوئے بغیر نا ممکن ھے۔ یہ انسان کامل کی منزلت ھے کہ اس کی رضا وغضب خدا کی رضا وغضب کا مظھر هو اوریہ مقام حضرت خاتم(ص) اوران کے جانشین کا مقام ھے۔وہ واحد خاتون جو اس مقام پر فائز هوئیں، صدیقہ کبری کی ھستی ھے، جس سے یہ بات سامنے آتی ھے کہ عصمت کبریٰ جو ولایت کلیہ اورامامت عامہ کی روح ھے، فاطمہ زھرا علیھا السلام میں موجود ھے۔

اور یہ حدیث بھی، کہ علماء اھل سنت جس کے صحیح هونے کے معترف ھیں، اسی امر کو بیان کر رھی ھے کہ رسول خدا  نے فرمایا:((فاطمة بضعة منی فمن اٴغضبھا اٴغضبنی))[124] اورباوجود اس کے کہ قرآن وسنت کے حکم کے مطابق پیغمبر(ص) کا غضب، خدا کا غضب ھے،علماء اھل سنت نے یہ حدیث بھی نقل کی ھے: قال رسول اللّٰہ لفاطمة: ((إن اللّٰہ یغضب لغضبک ویرضی لرضاک))[125]

جس کی رضا پر خدا بغیر کسی قید وشرط کے راضی اور جس کے غضب پر غضبناک هو، عقل کا تقاضا یہ ھے کہ اس کی رضا وغضب، خطا اور هویٰ وهوس سے پاک هواور یھی عصمت کبریٰ ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ظلم و ستم
نہج البلاغہ کتاب حق و حقیقت
فلسفۂ رجعت
علامہ قاضی نادر حسین علوی ایم ڈبلیو ایم ملتان کے ...
نبوّت عامہ اور امامت
حضرت معصومہ(س) آئمہ معصومین(ع) کی نظر میں
شیعہ ہی وحدت اسلامی کے داعی
مختصر حالات زندگی حضرت امام حسن علیہ السلام
قرآن مجید میں حوادث کے جزئیات کیوں ذکر هوئے هیں ...
رسول اکرم ۖ نہج البلاغہ کی روشنی میں

 
user comment