جیسا کہ بیان کیا گیا کہ خود پرستی سے نجات پانے اور معبود واقعی تک پہنچنے کے لیے کلی راستہ یہ ہے کہ انسان خدا کا "عبد" بن جائے۔ ہر چیز سے استقلال کی نفی کرے اور ہر چیز کو من جانب اللہ دیکھے۔انسان کے اندر اس چیز کے پیدا ہونے کے لیے سب سے پہلا کام جو اسے کرنا چاہیے یہ ہے کہ اپنے ارادہ کو مکمل طور پر خدا کے ارادہ کے تابع بنا دے۔ یہ مرحلہ بہت ہی طولانی اور زحمتوں والا ہے۔ اس مرحلہ سے گذرنے کے بعد انسان کو چاہیے کہ اپنے کمالات او ر صفات کو اپنے آپ سے نفی کرے۔ اور انہیں بھی خدا کی طرف نسبت دے۔ نسبت دینے سے مراد لفظی نسبت نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان حقیقت میں اس معنی کا مشاہد ہ کرے۔نہ یہ کہ استدلال اور دلیل سے ثابت کرے ۔ اس بنیاد پر سیر و سلوک کے لیے تین کلی مراحل کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔ جیسا کہ بزرگوں نے فرمایا کہ انہیں بترتیب، توحید افعالی، صفاتی، اور توحید ذاتی کہا جاتا ہے۔
البتہ یہ توجہ رہے کہ یہاں پر یہ اصطلاحات ان اصطلاحات کے علاوہ ہیں جن کے بارے میں فلسفہ اور علم کلام میں گفتگو کی جاتی ہے۔ فلسفہ اور علم کلام میں توحید ذاتی کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہے دو نہیں ہو سکتے۔ اس کا شریک اور ہم جنس نہیں ہو سکتا۔ وہاں توحید صفاتی سے مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم کی تمام صفات عین ذات ہیں۔ انسان اور دوسری موجودات کی طرح نہیں ہیں کہ زائد بر ذات ہوں۔ اور توحید افعالی کا مطلب یہ ہے خدا اپنے کاموں کے انجام دینے میں کسی کی مدد اور کسی کے مشورے کا محتاج نہیں ہے بلکہ خود جوچاہتا ہے انجام دیتا ہے۔ یہ تقسیم معنی اور ترتیب کے لحاظ سے عرفان میں بیان کی جانے والی تقسیم سے مختلف ہے۔ جو ہم نے بیان کیا ہے اس سے ان کے معانی کا فرق واضح ہو گیا ہوگا۔ ترتیب کےاعتبار سے بھی فلسفہ اور کلام میں سب سے پہلے توحید ذاتی کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کے بعد توحید صفاتی اور توحید ذاتی کے بارے میں، لیکن عرفان کے اندر برعکس ہے سالک سب سے پہلے توحید افعالی کے بارے میں بحث کرتا ہے اس کے بعد توحید صفاتی اور آخر میں توحید ذاتی کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔
عرفان اور سیر و سلوک میں توحید افعالی تک پہنچنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کرے کہ تمام کاموں کی اصل و اساس خدا وند عالم ہے ۔وہ ہے کہ جو در حقیقت ہرکام کو خود انجام دیتا ہے اگر چہ کچھ خاص اسباب بلکہ خود انسان کے ذریعے۔ خدا قرآن کریم میں اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
للہ ملک السماوات و الارض یخلق ما یشاء یھب لمن یشاء اناثا و یھب لمن یشاء الذکور[1]بیشک آسمان و زمین کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھوں میں ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتاہے بیٹے دیتا ہے۔
یہ جو خدا کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کر تا ہے در حقیقت اس کا فاعل اصلی خود خدا ہے جو بالا تر مرحلہ میں اس کا م کو انجام دیتا ہے اگرچہ خود انسان اور شادی اس کے اسباب ہیں۔ اس آیت کے مشابہہ قرآن میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ اگر چہ بظاہر فعل ظاہری اسباب کے ذریعے انجام پا رہا ہے لیکن خدا اس کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔ جیسے بارش کا نازل ہونا، گھاس پھونس کا اگنا، بندوں کو رزق و روزی دینا، وغیرہ۔
وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکناہ فی الارض و انا علی ذھاب بہ لقادرون، فانشانا لکم بہ جنات من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ و منھا تاکلون۔[2]
اور ہم نے آسمان سے ایک مخصوص مقدار میں پانی نازل کیا ہے اور پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا ہے جب کہ ہم اس کے واپس لے جانے پر بھی قادر تھے۔ پھر ہم نے اس پانی سے تمھارے لیے خرمے اور انگور کے باغات پید ا کئے ہیں جن میں بہت زیادہ میوے پائے جاتے ہیں اور تم انہیں میں سے کچھ کھا بھی سکتے ہو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
قل من یرزقکم من السماوات و الارض قل اللہ [3]
آپ کہئے کہ تمہیں آسمان و زمین سے روزی کون دیتا ہے، اور پھر بتائیے کہ اللہ۔
ھل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السماء و الارض،[4]
کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین میں سے زرق دیتاہے۔
تمام امور، منجملہ بادلوں کو حرکت دینا، پانی کا برسانا، نباتات کا اگانا، ذی حیات موجودات کو رزق دینا،زندہ کرنا اور مارنا، ان تمام امور کو خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اس کے ارادہ سے یہ تمام امور انجام پاتے ہیں عقل و برہان سے انہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا صرف قبول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو دل سے قبول کرنےاور ان پر یقین حاصل کرنے کے لیے جلدی سے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے اعمال اور ہمارا کردار یہ بتارہا ہے کہ اگر ہم خدا کے لیے کسی حد تک فاعلیت کے قائل ہیں بھی تو دوسرے اسباب اور عوامل کے مساوی اور برابر قائل ہیں۔ گویا ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دوسرے عوامل اور مفاعیل بھی خدا کے ساتھ ساتھ مستقل طور پر اپنا اثر رکھتے ہیں اور ان سے بھی عالم وجود میں افعال سرزد ہوتے ہیں۔ ہم اگر فرض کریں مالی اور اقتصادی اعتبار سے تنگ دست ہوں اوراسی دوران ایک دوست آجائے اور کچھ پیسے ہمارے ہاتھ پر رکھ دے اور ہماری مشکل کو حل کر دے، یہاں پر ہمارے دل میں یہ خطور کرے گا کہ اس دوست نے ہماری مشکل کو آسان کیا ہے اور اگر تھوڑا بہت دیندار ہوں تو یہ کہیں گے کہ خدا نے اس کے وسیلہ سے مشکل آسان کی ہے۔ اس بات کو زبان سے کہنا کہ " خدا نے ہماری مشکل آسان کی دی" بہت آسان ہے لیکن اس حقیقت پر یقین پیدا کرنا اور دل سے اسے قبول کرنا کہ حقیقت میں خدا نے ہی مشکل کو آسان کیا ہےبہت سخت ہے۔
ہم جب بیمار پڑتے ہیں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صحت یاب ہو جاتے ہیں دل میں یہ رہتا ہے کہ ڈاکٹر اور دوا کے وسیلہ سے ٹھیک ہوئے ہیں۔ اور اپنے ٹھیک ہونے کی ان چیزوں کی طرف نسبت دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نسبت ٹھیک ہے۔ اور اسی وجہ سے ہمیں ڈاکٹر ، دوا ساز اور دوا فروش سب کی زحمات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ لیکن اس سے بالاتر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہے جس نے ہمیں شفا دی ہے۔ اولیاء خدا زندگی کے تمام حادثات میں صرف خدا کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جناب ابراہیم نمرود اور اس کے پیروکاروں کے جواب میں اپنے خدا کو اس طریقہ سے پہچنواتے ہیں کہ آپ کا ہر کام خدا انجام دیتاہے اس کے علاوہ کوئی واقعی فاعل نہیں ہے۔
الذی خلقنی فھو یھدین، والذی ھو یطعمنی و یسقین، و اذا مرضت فھو یشفین ، والذی یمیتنی ثم یحیین، والذی اطمع ان یغفر لی خطیئتی یوم الدین،[5]
جس نے مجھے پید اکیا پھر وہی ہدایت بھی دیتا ہے۔ وہی کھانا دیتا ہے اور وہی پانی پلاتا ہے۔ اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی شفا بھی دیتا ہے۔ وہی موت دیتا ہے اور وہی زندہ کرتاہے۔ اور اسے یہ امید ہے کہ روز حساب میری خطاؤں کو معاف کر دے۔
یہ اس پندرہ ، سولہ سالہ جوان کی باتیں ہیں جس نے اب تک کی زندگی ایک غار میں گذاری ہے۔سماج کے ساتھ اس کا تعلق نہیں رہا ہے کسی استاد ، کسی مدرسہ یاکسی مکتب کا منہ نہیں دیکھا ہے اس نے دل کی آنکھوں سے دیکھا کہ روزی دینے والا صرف خدا ہے۔ شفا دینے والا صرف اور صرف خدا ہے۔ حضرت ابراہیم دل سے باور اور یقین کر چکے تھے کہ وہ جو زندہ کرتا ہے جو مارتا ہے اور قیامت میں گناہوں کو معاف کرتا ہے وہ جوکھانا دیتا ہے اور پانی دیتا ہے جو شفا دیتا ہے وہ صرف خدا ہی ہے۔
ہم بھی ممکن ہے اس طرح کے کلمات اور جملات ادا کرلیں۔ لیکن ہم خود بھی جانتے ہیں کہ یہ جملے صرف تعارف ہے ہم ان کے معانی کو اپنے دل و جان کے اندر محسوس نہیں کرتے۔ توحید افعالی کی منزل یہ ہے کہ انسان اس منزل پر پہنچ جائے (کہ جو یقینا بہت سخت ہے) تو گویا اس نے اس وادی توحید کی پہلی منزل پر ابھی قدم رکھا ہےابھی دو منزلیں اس کے سامنے باقی ہیں۔
[1] شوریٰ، ۴۹
[2] مومنون، ۱۸و۱۹
[3] سبا، ۲۴
[4] فاطر،۳
[5] شعرا،۷۸۔۸۲
source : http://www.ahlulbaytportal.com