اگر ہم عظیم شخصیتوں کی طرز زندگی پر غور کریں تو مشاہدہ کریں گے کہ ان کی زندگی کے ناقابل تفکیک اصول میں ، خدا کی بندگی ہے جن شخصیتوں نے ” کلیم اللہ ‘ ، ” خلیل اللہ “ اور ” حبیب اللہ “ کے مقام تک پہنچنے کی سعادت و لیاقت حاصل کی ہے
قابل ذکر بات ہے کہ انسانی جوہر ، خدا کی عبودیت اور بندگی میں پوشیدہ ہے اور انسان عبادت کے بغیر تمام حیوانات پر اختیاری امتیاز نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف تکوینی امتیازات رکھتا ہے بغیر اس کے کہ اس نے ان کا حق ادا کیا ہو ، خدائے متعال کی عبادت سے اجتناب کرنے والا حقیقت میں انسانی کمال کی راہ کو اپنے لئے مسدود کرتا ہے کیونکہ انسانی کمال تک پہنچنا صرف اسی راہ سے ممکن ہے ۔
اگر ہم عظیم شخصیتوں کی طرز زندگی پر غور کریں تو مشاہدہ کریں گے کہ ان کی زندگی کے ناقابل تفکیک اصول میں ، خدا کی بندگی ہے جن شخصیتوں نے ” کلیم اللہ ‘ ، ” خلیل اللہ “ اور ” حبیب اللہ “ کے مقام تک پہنچنے کی سعادت و لیاقت حاصل کی ہے ، وہ سب صرف اس راہ کو طے کرنے اور مشکل امتحانات اور آزمائشوں سے گذرنے کے بعد ان بلند مقامات تک پہنچ گئے ہیں ۔ حتی ایک شخص کو بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ، جو خدائے متعال کی بندگی کے بغیر انسان کے اختیاری کمالات تک پہنچ گیا ہو مذکورہ مطالب کے علاوہ ”رضا“ ، ” یقین “ وغیرہ جیسے مقامات حاصل کرنے کیلئے بھی عبودیت و بندگی میں جستجو کرنی چاہیئے ۔
خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
<وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاٴْتِیَکَ الْیَقِینُ > (حجر / ۹۹)
اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیئے جب تک یقین حاصل ہوجائے اور مقام رضا کے سلسلہ میں فرماتا ہے :
< وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوبِھَا وَ مِنْ ءَ نَایِِ الَّلْیلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی > (طہ / ۱۳۰)
اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات کے وقت اور دن کے اطراف میں بھی تسبیح پروردگار کریں تا کہ آپ مقام رضا حاصل کرسکیں ۔
تمام پیغمبر کی رسالت کا مقصد لوگوں کو خداوند متعال کی بندگی کی ہدایت ، خد اکی عبادت کا امر اور طاغوت کی پرستش سے نہی کرناتھا:
< وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُواا للهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ․․> ( نحل / ۳۶)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ․․․“
یہ امر قرآن مجید کے مورد تاکید مطالب میں ہے کہ تمام مخلوقات خواہ نخواہ ستائش و بندگی خدا میں مشغول ہیں :
<یُسَبِّحُ للهِ مَا فیِ السَّمٰواتِ وَ مَا فِی الارضِ ․․․․> (جمعہ /۱)
زمین و آسمان کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح کررہا ہے “
لیکن یہ بندگی تکوینی ہے اور انسان کے کمال میں کوئی کردار نہیں رکھتی ،بلکہ انسان کے کمال میں کردار ادا کرنے والی بندگی وہ ہے جو اختیار کے ساتھ انجام پاتی ہے ، ورنہ پتھر اور پہاڑ بھی تکوینی بندگی کے نتیجہ میں کمال تک پہنچتے ۔
خداوند عالم کی بندگی و عبادت کی اہمیت و قدر و قیمت اس قدر ہے کہ خالق نے قرآن مجید میں جن و انس کی تخلیق کے انتہائی سبب کو عبادت قرار دیا ہے :
<وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَ الاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُون> (ذاریات / ۵۶)
اور میں نے جنات اور انسانو ںکو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے “
مذکورہ مطالب کے علاوہ ، حسِ پرستش انسان کی فطرت ہے ، یعنی پرستش کی ضرورت کا احساس انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے ، اس حقیقت کو ادیان اور قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرکے پایا جاسکتا ہے لیکن ایسی کوئی قوم یا سماج نہیں پایا جاتا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی پرستش و عبادت نہ کی جاتی ہو۔
الف ۔ خدا کی بندگی کے مراحل :
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبادت کے مراحل بیان فرماتے ہیں:
”وَ اعْلَمْ اٴَنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ اللهِ الْمَعْرِفَةُ بِہِ فَھُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیءٍ فَلٰا شَیءٍ قَبْلَہُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَہُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَرْضِ وَ مٰا فِیھِمٰا وَ مٰا بَیْنَھُمٰامِنْ شَیءٍ ۱# وَ ھُوَ اللهُ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدی
اے ابوذرۻ! جان لو کہ خدائے متعال کی عبادت کاسب سے پہلا مرحلہ اس کی شناخت ہے ، بے شک وہ سب سے پہلا ہے اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ یکتا ہے اس کے مانند کوئی نہیں ہے وہ ابدی اور جاوداں ہے ، وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان اور ان میں موجود ہے خلق کیا ہے اور خداوند عالم دانا و مہربان ہے ، وہ ہر کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ۔
عبادت کے پہلے مرحلہ کے اس حصہ میں ، خدا کی ،معرفت ذکر کی گئی ہے البتہ خود خدا کی معرفت کے گوناگوں مراحل ہیں ، لیکن جو کچھ خدا کی عبادت و بندگی میں ضروری ہے وہ خداوند عالم کی اجمالی شناخت ہے ، یعنی انسان جان لے کہ ایک خدا موجود ہے اور وہ انسان و کائنات کا خالق ہے ۔ اگر انسان کیلئے شناخت کا یہ مرحلہ حاصل نہ ہو تو وہ خدا کی عبادت و پرستش کے مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ پس شناخت کا یہ مرحلہ عبادت پر مقدم ہے البتہ انسان اپنے ارتقائی سفر کے انتہائی مقام پر شناخت و معرفت کے بلند ترین مرحلہ میں پہنچتا ہے جو اولیائے خدا کیلئے مخصو ص ہے اور ہم ا سکی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ، بلکہ ہم اجمالی طور پر اتنا جانتے ہیں کہ کمال معرفت کی انتہا گراں قیمت او ر بلند ہے جسے اولیائے خدا اپنے ارتقائی سفر کے آخر ی مراحل میں حاصل کرتے ہیں اور وہی خدا کی عبادت کا انتہائی مرحلہ ہے ۔
--------------------------------------------
ر“۱۔ احتمال یہ ہے کہ نسخہ یوں ہو ” ․․․ و مابینھما لا من شیء “ یعنی جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو کسی دوسری چیز سے مدد لئے بغیر خلق کیا ہے ۔
انسان کیلئے ، عبادت کے پہلے مرحلہ کو حاصل کرنے کے بعد ، یعنی یہ جاننے کے بعدکہ ایک خدا موجود ہے ،ضروری ہے خدا کے صفات او رآثار پر غور کرے تا کہ وہ معرفت اس کے دل میں راسخ ہوجائے اور صرف ایک ذہنی معرفت کی حد تک باقی نہ رہے ، بلکہ وہ معرفت ایک ایسی حاضر و زندہ معرفت میں تبدیل ہوجائے جو انسان کی رفتار پر اثر انداز ہو۔
” معرفت متوسط“ کے بھی گوناگوں مراتب ہیں اور ا سکا دامن بھی وسیع ہے ۔ انسان آیات الہی میں تفکر اور غور و خوض کرکے اور عملی عبادت کے ذریعہ اس کے مراتب کو حاصل کرسکتا ہے ۔ مذکورہ بیان سے واضح ہوا کہ صفات و آثار الہٰی میں تفکر کرنا اور خدا کو بہتر پہچاننے کیلئے جستجو کرنا ، ایک اختیاری امر وعبادت ہے ، جس کے دوران معرفت حاصل ہوتی ہے جو عبادت کے مقدمات میں سے ہے ۔
(آیات الہی میں غور و خوض معرفت کا مقدمہٴ قریبہ “ ہے اور استاد کے درس میں شرکت اور کتاب کا مطالعہ کرنا خدا کی معرفت حاصل کرنے کے منجملہ ” مقدمات ِ بعیدہ “ میں سے ہے )
ب۔ پیغمبر پر ایمان اور آپ کی رسالت کا اعتراف
” ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ اللهَ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی اللهِ بِاِذْنِہِ وَ سِرَاجاً مُنیراً“
” ( دوسرے مرحلہ میں ) مجھ پر ایمان لانا اور اس امر کا اعتراف کرنا کہ خدائے متعال نے مجھے بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ، اس کی اجازت سے خدا کی طرف دعوت دینے والا اور تمام انسانوں کیلئے شمعِ ہدایت قرار دیا ہے “
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث میں ذکر ہوئی ہر صفت قابل تفسیر و توضیح ہے اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں ہمارا ایمان قوی اور مکمل ہوجائے تو ہم بہت سے شبہات کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں کافی معرفت اور ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے ضعیف الایمان مسلمان شبہ میں گرفتارہوجاتے ہیں اور ان شبہات کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اصلی راستہ سے منحرف ہوجاتے ہیں اور بالآخر خدا نخواستہ کفر میں مبتلا ہوتے ہیں ، کیونکہ اس بات پرا یمان نہیں رکھتے ہیں کہ ’ ’ جو کچھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں وہ سچ ہے “
بعض ضعیف الایمان افراد کہتے ہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے احکام ہمارے زمانہ میں قابل عمل نہیں ہیں ۔ یہ احکام اور دستورات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں ” جزیرة العرب “ کے لوگوں کے نامناسب حالات کی اصلاح کیلئے تھے ، اور اس زمانے میں اسلامی احکام کی ضرورت نہیں ہے ! یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ یہ لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اگر وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش پر ایمان رکھتے کہ : ”ارسلنی الی کافة الناس‘ ‘ تو آپ کی رسالت اور زمانہ کی محدودیت کے قائل نہ ہوتے ، حقیقت میں کہنا چاہیئے کہ دین میں ایجاد ہونے والے تمام انحرافات کا سرچشمہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی رسالت کے بارے میں ایمان میں کمزوری ہے ۔
ج : اہل بیت (ع) پیغمبر کی محبت :
”ثُمَّ حُبُّ اٴَھْلَ بَیْتی الَّذینَ اٴَذْھَبَ اللهُ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھَّرَھُمْ تَطْھیراً “
( تیسرے مرحلہ میں تجھے تاکید کرتا ہوں ) میرے اہل بیت (ع) کی محبت رکھنا ، یہ وہ ہیں جن سے خدائے متعال نے ہر برائی کو دور رکھا ہے اور انھیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا ہے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔“
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اہل بیت (ع) کی شناخت کی عظمت اور ان کی عظمت کی بلندی سے آگاہ ہونا اور ان کی محبت کی اہمیت اس قدر ہے کہ حضرت امام خمینی ۺ نے اپنے سیاسی ، عبادی وصیت نامہ کا آغاز اس روایت سے کیا ہے : ’ ’ انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ و عترتی ․․․․“شاید دنیا والوں کیلئے یہ امر تعجب آور تھا کہ قائد انقلاب اپنے وصیت نامہ میں اس خاندان کے تابع ہونے پر افتخار کرتے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ اہل بیت (ع) سے محبت اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید میں کون سا راز مضمر ہے ، شاید ہم اسے ایک سادہ امر جان کر یہ تصور کریں کہ چونکہ اہل بیت علیہم السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباہیں اس لئے ان کی محبت کی جانی چاہیے ! اگر ایسا ہوتا تو وہ قرآن مجید کے ہم پلہ ہونے کا تعارف نہیں کراتے ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت کی تاکید اس لئے نہیں کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقربا ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی بیویاں تھیں اور آپ نے ان کے بارے میں ایسی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ آپ کی تاکید اس لحاظ سے کہ خدائے متعال نے انہیں ہر قسم کی برائی اور ناپاکی سے پاک فرمایا ہے ۔
حضرت نوح (ع) کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت (ع) کی تشبیہ :
” وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ اٴَھْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَھٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْھٰا غَرِقَ وَ مِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ ] فی [ بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَہُ کٰانَ آمِناً“
اے ابو ذر! جان لو ! خداوند عز و جل نے میرے اہل بیت علیہم السلام کو میری امت میں نوح کی کشتی کے مانند قرار دیا ہے کہ جو بھی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوا ، اسی طرح وہ بنی اسرائیل کے ” باب حطہ “ کے مانند ہیں ، جو اس دروازہ سے داخل ہوا وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا “
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں تاکید اور کشتی نجات اور بنی اسرائیل کے ” باب حطہ “ سے ان کی تشبیہ ، ایک جذباتی موضوع نہیں ہے ، کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے عزیزوں سے محبت اس امر کا سبب ہے کہ آپ نے مسلسل ان کی دوستی اور محبت رکھنے کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے ،بلکہ یہ وصیت اور تاکید ایک عزیز کی محبت سے بالاتر ہے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ آپ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو امت کیلئے نجات کی کشتی جانا ہے اور آپ معتقد ہیں کہ جو بھی گمراہ اور وادی حیرت کا سرگرداں شخص اس کشتی میں سوار ہوجائے گا وہ گمراہی اور انحرافات کے تلاطم سے نجات پائے گا ،کیونکہ نوح (ع)کی امت نے ان کی نجات کی کشتی میں سوار ہوکر عذاب الہی سے نجات پائی اور جنہوں نے من جملہ نوح (ع)کے فرزند نے روگردانی کی وہ نابود ہوئے ۔
اسلام کی دعوت کے آغاز پر ، جب امت مسلمہ میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر ۻسے تاکید فرماتے ہیں کہ میرے اہل بیت (ع)، نوح (ع)کی کشتی کے مانند ہیں ، جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا ، وہ قوم نوح (ع)کی طرح ہلاک ہوجائے گا ۔ حقیقت میں یہ ان مسلمانوں کیلئے ایک تنبیہ و انتباہ ہے ، جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت پاتے ہی بغض و نفاق اور انحرافات کے دروازے کھول دیئے اور کچھ منافق جو پہلے سے موقع کی تاک میں تھے دوسروں پر سبقت لے گئے کے ساتھ ہی ایجاد شدہ انحرافات ، تعصب اور نفاق کی بنا پر فرصت سے استفادہ کرکے سبقت کی، تنہا اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کی سرپرستی میں ،ا مت اسلامیہ کو خطرات ، ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرجانے سے نجات دلاکر ان کے انحرافات میں رکاوٹ بن سکتے تھے ان کے مقابل میں جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی سے روگردانی کرتے ہیں وہ منحرف ہوکر گمراہ ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اپنے اہل بیت (ع) کی بنی اسرائیل کے ” باب حطہ “ سے تشبیہ فرماتے ہیں ، ] یہ دوتشبیہ ( کشتی نوح (ع)اور باب حطہ کی تشبیہ ) بہت سی شیعہ و سنی روایتوں میں نقل ہوئی ہیں اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں [
جب بنی اسرائیل بے شمار ظلم و گناہ کی وجہ سے عذابِ الہی میں مبتلا ہوئے اور چالیس سال تیک ” تیہ “ نامی صحرا میں آوارہ رہے ، استغفار و ندامت کے نتیجہ میں خدائے متعال نے اپنے لطف و کرم سے ان پر توبہ کا دروازہ ( جسے حطہ کہا جاتا تھا ) کھولا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے :
<وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ھٰذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْھَا حَیْتُ شِئْتُمْ رَغَداً وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَ قُولُوْا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِینَ > ( بقرہ /۵۸)
اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے کہا کہ اس قریہ میںد اخل ہوجاؤ اورجہاں چاہو اطمینان سے کھاؤ اور دروازہ سے سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ کہتے ہوئے داخل ہوجاؤ تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جز امیں اضافہ بھی کرتے ہیں ۔
جو شخص بھی ” حطہ “ کے د روازہ سے داخل ہوتا تھا، عزت و احترام پانے کے علاوہ اس کے گناہ بھی معاف کئے جاتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ مثال پیش کرنے کا مقصداس امر کی وضاحت فرمانا تھا کہ چونکہ بنی اسرائیل کے مؤمنین باب توبہ و حطہ سے داخل ہوکر اپنے لئے دوجہاں کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلی تھی اسی طرح اگر مسلمان بھی اہل بیت علیہم السلام کے علم ومعارف اور ان کی اطاعت کے دروازہ سے داخلہوجائیں اور ان کی راہ پر چلیں تو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلیں گے ۔
لغت میں لفظ ” حطہ “ کا معنی گرانا اور نابودکرنا ہے ، بنی اسرائیل یہ لفظ کہہ کر خدا سے مغفرت اور اپنے گناہوں کونابود کرنے کی درخواست کرتے تھے ، خداوند عالم نے اسے ان کے گناہوں کی بخشش کیلئے ایک وسیلہ قرار دیا تھا ، لیکن ایک گروہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتاتھا ، فرمان خدا کا مذاق اڑاتا تھا ، بعض روایتوں کے مطابق ’ حنطہ “ ( گندم ) زبان بر جاری کرتا تھا ۔ خداوند عالم نے ان لوگوں کی نافرمانی اور توبہ و مغفرت سے انحراف کی بنا پر ان پر اپنا عذاب نازل کیا:
<فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَولاً غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزاً مِنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ > ( بقرہ / ۵۹)
مگر ظالموں نے ، جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے بدل دیا ( جو ان سے کہاگیا تھا اس کی جگہ پر ایک دوسرا لفظ رکھ دیا ) تو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی بنا پر آسمان سے عذاب نازل کردیا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کا باب حطہ کے عنوان سے تعارف کرایا ، جن کی پیروی دونوں جہاں کی سعادت اورآخرت کے عذاب سے نجات پانے کا سبب ہے ، لیکن لوگوں نے آپ کی بات پر یقین نہیں کیا اور اہلبیت (ع)کے بجائے دوسروں کا انتخاب کیا اورعلی علیہ السلام اور دوسروں کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے اور تصور کرتے تھے جس طرح علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد تھے عثمان بھی آپ کے داماد تھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی خلیفہٴ اول کے داماد تھے !
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ عبادت کے اصلی مراتب و مراحل ، قلبی امور اور اندرونی اعمال پر مشتمل ہیں ، یعنی کوئی بھی شخص تب تک عبادت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے جب تک وہ خدا و رسول کی معرفت اور ان پر ایمان نیز اہل بیت علیہم السلام کی محبت نہ رکھتا ہو ، لہذا عبادت ، ظاہری امور اور دکھاوے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عبادت کی اصل اور حقیقت قلبی عقیدہ ہے اور تمام بندگیوں کا سرچشمہ قلب ہے ۔
source : http://www.taqrib.info