'' یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِہِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ، یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیھِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ، یَا اَبَاذَر !، اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ وَ صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَ فَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَ حَیٰوتَکَ قَبْلَ مَوْتِک''َ
اے ابو ذر! میری نصیحت پر عمل کرو تاکہ دونوں جہاں میں سعید و نیک بخت رہو ۔ اے ابو ذر ! بہت سے لوگ دو نعمتوں کے بارے میں دھوکہ میں ہیں اور انکی قدر نہیں کرتے ، ان میں ایک تندرستی کی نعمت ہے اور دوسری فرصتاور آسائش کی نعمت ہے ۔
اے ابوذر! اس سے پہلے کہ پانچ چیزوں سے تمھیں دو چار ہونا پڑے ، پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: جوانی کو بوڑھاپے سے پہلے ، تندرستی کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو پریشانی سے پہلے ، فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے ۔
''یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِہِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ''
انسان ہمیشہ اپنی سعادت کے تحفظ کی جستجو میں رہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں سعادت انسان کا ذاتی اور بنیادی مقصد ہے لہذا انسان اس کے عوامل و اسباب کو حاصل کرنے اور اس تک پہنچنے کی راہ جاننے کی جستجو میں رہتا ہے اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ اگر میری نصیحتوں پر عمل کرو گے تو اپنے فطری مقصود ، یعنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلو گے اور اگر اس پر عمل نہ کرو گے تو اس سعادت سے محروم ہوجاؤ گے یہ تاکیداس کے اندر آمادگی پیدا کرنے اور بیشتر قبول کرنے کیلئے ہے جیسے کہ ڈاکٹر بیمار سے نصیحت کرتا ہے : اس نسخہ پر ضرور عمل کرنا تا کہ صحت مند ہوجاؤ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان اپنی صحت یابی کیلئے ہی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ اس تاکید کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیھِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ''
تندرستی اور دولتمندی کی قدر جاننے کی ضرورت
''صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ''
دوسرے یہ کہ : تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو ۔
تیسرے یہ کہ : دولتمندی کو فقر و پریشانی سے پہلے غنیمت جانو ۔
اگر زندگی کو چلانے کی اگر چہ سادہ اورپاک و صاف حالت میں طاقت رکھتے ہو اور مالی کمزوری نے تجھے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں کیا ہے ، تو خدا نخواستہ فقر و پریشانی میں مبتلا ہونے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کو چلانے کیلئے دوسروں کے محتاج ہونے سے پہلے اس نعمت کی قدر کرو اگر اس وقت تمھارے اختیار میں معمولی امکانات ہیں اور تم قناعت سے اپنی روز مرہ کی زندگی چلاسکتے ہو تو اس کے حصول کو جاری رکھو اور اسے غنیمت جانو اور اس دن سے ڈرو جس دن اس معمولی زندگی کو چلانا تیرے لئے دشورا ہوجائے اور اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام میں مشغول ہوجاؤ ، اگر زاہدانہ زندگی گزار سکتے ہو تو اس فرصت سے استفادہ کرو اورغیر موجود اور نادر چیزوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے جو کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے ، اسی کی فکر کرو اور اس کی قدر کر و کسی کے محتاج نہ ہونے کے ایام میں تمھارے لئے دوسروں کی مدد کرنے کی اچھی فرصت ہے ، لہذا فرصت کو کھونے اور فقر وناداری سے دوچار ہونے سے پہلے حاجتمندوں کی مدد کرو ۔
اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ شرم آور فقر و تنگدستی انسانی کرامت کے شایان شان نہیں ہے اور ناپسند صفت کے طور پر ا س کی مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی اپنے بندہ کیلئے ذلت پسند نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی عزت و سربلندی چاہتا ہے لہذا حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں او رمحتاجی سے مقابلہ کرنے کے طریقوں ، جیسے : قناعت اور عالی ظرفی کو اپنا شیوہ بنائے اور عیاشی ، فضول خرچی سے پرہیز کو اچھی طرح سیکھ کر ان پر عمل کرناچاہیئے ۔
'' و فِرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ''
چوتھے یہ کہ: فراغت و آسودگی کی نعمت کو مصروفیت و گرفتاری سے دوچار ہونے سے پہلے غنیمت جانو۔
اس جملہ کے مفہوم پر اس سے پہلے بحث ہوئی ، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے سبکدوش اور سماجی فرائض سے پہلو تہی کرکے بے کاری کو غنیمت سمجھیں ، یہ تصور منفی اور غلط ہے ۔ شاید آنحضرت ۖ کی مراد یہ ہے کہ ناخواستہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور ہونے ،تھوپے جانیوالی مصروفیتوں اور انتخاب کا حق سلب ہونے سے پہلے ان فرصتوں کو غنیمت جانوکہ آزادی کے ساتھ انتخاب کیا جائے اور کسی جبرو اکراہ کے بغیر فیصلہ کیا جائے ، لہذا بہتر امر کا انتخاب کرنے میں ان فرصتوں سے استفادہ کرناچا ہیئے۔
'' وَحیواتک قبل موتک ''
پانچویں : زندگی کی نعمت کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانو ۔
زندگی کی نعمت ایک عمومی اور وسیع نعمت ہے ، جس کا تمام نعمتوں کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔ حقیقت میں دوسری نعمتیںزندگی کی نعمت سے وابستہ ہیں اگر زندگی نہ ہو تو دوسری نعمتوں کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے، لہذا تمام نعمتوں کی بنیاد دنیوی زندگی کی نعمت ہے ، جو خداوندمتعال کی طرف سے بندوں کو عطا کی گئی ہے اگرچہ انسان اخروی زندگی کی نعمت سے بھی مستفید ہے لیکن اس سے عمل ، انتخاب اور آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے وہاں پر انسان اپنی پہلی زندگی کی فرصتوں کو کھودینے اور اپنے غلط انتخاب پر حسرت کھائے گا اور گزشتہ غلطیوں کی تلاش کرنے کیلئے پھر سے دنیا میں بھیجے جانے کی درخواست کرے گا لیکن کیا فائدہ کہ اس کی یہ درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔
( حَتٰی اِذَا جَائَ اَحَدَھُمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی اَعْمَلُ صَالِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلاَّ اِنَّھَا کَلِمَة ھَوَ قَائِلُھَا وَمِنْ وَرَائِھِمْ بَرْزَخ اِلٰی یَومَ یُبْعَثُونَ ) (مومنون ٩٩۔ ١٠٠)
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہے کہ پروردگارا مجھے پلٹادے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ، ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ حسرت سے کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے ۔
بعض بزرگ شخصیتیں تاکید کرتی تھیں کہ سوتے وقت تصور کرناکہ شاید اس نیند سے بیدار نہیں ہوگے اور اسی حالت میںملک الموت آکرتمھاری روح کو قبض کرے گا کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے :
( اﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِینَ مَوتِھَا وَ الَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِھَا ...) (زمر ٤٢ )
اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلاتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روح کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔
نیند کی حالت میں ، روح تقریباً بدن سے خارج ہوجاتی ہے اور اگر انسان کی موت آئی ہو تو مکمل طور پر بدن سے اس کا رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اس لحاظ سے خداوند عالم مذکورہ آیۂ شریفہ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے :
( فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْریٰ اِلیٰ اَجلٍ مُسَمّیً)
اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کواپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے اور جس کی موت کا فیصلہ نہیں کیا ہے دوبارہ اس کے جسم میں واپس کر دیتا ہے اس کی موت آنے تک کے لئے۔
حقیقت میں انسان نیند کی حالت میں موت کا نصف سفر طے کرتا ہے لہذا تاکید کی گئی ہے کہ نیند کی حالت میں فرض کریں کہ روح بدن سے جدا ہونے کے بعد واپس بدن میں نہیں لوٹے گی اور جب نیند سے بیدار ہوجاؤ تو خدا کا شکر بجا لائو کیوں کہ خداوند عالم نے تمہارے بدن میں دوبارہ جان ڈال دی ہے اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی ہے، دوسرے الفاظ میں فرض کریں کہ تم عالم برزخ میں گئے تھے اور وہاں پر تمہارے برے اعمال واضح ہوگئے اور تمہیں مجازات کا سامنا کرنا پڑا اور تو نے ملائکہ مقرب الہی سے پھر سے دنیا میں آنے کی درخواست کی اور انھوں نے تمہاری یہ درخواست منظور کی ہے اورتمہیں پھر سے دنیا میں آنے کی اجازت دے دی اب جبکہ تم دوبارہ دنیا میں آئے اور اعمال انجام دینے کی فرصت مل گئی تو تم کیا کرو گے اور کیسے رہو گے ؟ ہمیں ا س دوبارہ دی گئی فرصت کی قدر جاننی چاہیئے اور ا سکے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے ، کیونکہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جہاں پر ایک''لاالہ الااﷲ''کہنے کی حسرت رہے گی اور بقول امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام
'' مَنْ قَصَّر فِی العَمَلِ اُبْتُلِی بَالَھم وَ لٰاحاجَةَ ﷲِ فِیْمَنْ لَیْسَ ِﷲ فِی مَالِہِ وَ نَفْسِہِ نَصیب '' ١
جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
١۔ بحار الانوار ،ج ٨١ ، ص ١٧٠ ،باب ١
2:وسائل الشیعہ ، ج ١٦ ، باب ٩١، ص ٨٤
3: بحار الانوار ،ج٧ص٣٠٥
4:۔نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، کلمات قصار ، نمبر ١٢٢ ، ص ١١٤٦)
source : http://www.alhassanain.com