اگر ائمہ اطھار (ع) کا مقصد اور فریضہ اسلام کا تحفظ کرتا تھا تو کیوں بعض اوقات انھوں نے تقیہ کیا ھے؟
اس میں کوئی شک و شبھ نھیں ھے کہ ائمہ اطھار (ع) اپنے زمانے کے بلند مرتبہ اور بھترین افراد رھے ھیں اس طرح کہ تمام لوگوں نے بلکہ سارے علماء نے ان کی طرف رجوع کیا ھے۔ اور ان کے مقدس وجود سے بہرہ حاصل کرتے تھے ائمہ جناب رسول خدا (ص) کی طرف سے مامور تھے کہ لوگوں کی رہنمائی و ھدایت کریں لھذا وہ انھیں خالص اسلام کے مقصد کی طرف ھدایت کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی امت کے بیچ دو گراں قدر چیز چھوڑی تاکہ ان کے بعد امت اسلامیہ ان دونوں چیزوں سے تمسک اختیار کر کے گمراہ نہ ھو۔ یہ دونوں گراں قدر چیزیں قرآن و اھل بیت (ع) ھیں۔ تنھا قرآن لوگوں کے لئے اور ھدایت کرنے والا نھیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن کی آیتیں متشابہ اور محکم، ناسخ و منسوخ عام اور خاص اور اسی کے مانند موجود ھیں کہ اس کے بیان اور وضاحت کے لئے ایک مفسر کی ضرورت ھے تاکہ لوگ اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور اس کے صاف شفاف چشمہ سے سیراب ھو سکیں۔ اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے کئی جگہوں پر لوگوں کو ان دو گرانقدر چیزوں کی اتباع کے لئے تشویق اور ترغیب دلائی ھے۔ 1 لھٰذا اگرچہ قرآن اور سنت پیغمبر اکرم (ص) اسلامی احکام کے بنیادی رکن اور منبع ھیں۔ لیکن معاشرہ میں ان دونوں چیزوں کے حفاظت اور تبلیغ کی ذمہ داری ائمہ اطھار (ع) کے سپرد کی گئی ھے۔
بیشک سارے اماموں نے اپنے اپنے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا ھے۔ اور حقائق کو بیان کرنے کے ضمن میں مختلف قسم کے شکوک و شبھات کو دور کیا ھے۔ اس زمانے میں جب کہ ایک گروہ حدیث کی تدوین سے مانع تھا ۔ حدیث کے محافظ اھلبیت (ع) تھے۔ اور جس زمانے میں اسلام کے دشمن ھر جھت سے اسلام کی نابودی اور سنت نبوی کو تحریف کرنے پر کمر بستہ ھوئے ائمہ اطھار (ع) کی استقامت اور فدا کاری سے رو برو ھوئے۔ جس زمانے میں ظالم اور خود سرحکام اسلامی کاج پر مسلط ھوئے بہت سے صحابہ تابعین اور ائمہ اطہار (ع) تقیہ کرنے پر مجبور ھوگئے اور تقیہ کی روش اپنا کر ائمہ (ع) نے اسلام کی حفاظت کی اور اس کی تبلیغ کرتے رھے اگر تقیہ کو اسلام کی نگاہ سے دیکھا جائے تو تقیہ کے سلسلے میں شک و شبھات دور ھو جائے گا۔ اور اس پر عمل پیرا ھونے کا لزوم کچھ خاص موقعوں پر ظاھر ھو جائے گا۔ اس لئے اس بحث کی وضاحت کی خاطر مختصر طور پر تقیہ کے موضوع کو بیان کرتے ھیں۔
تقیہ کا مفھوم اور اس کی ماھیت
تقیہ کا لفظ تقویٰ اور اتقا سے نکلا ھے جو کہ پرھیز کرنے اور محفوظ رکھنے کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔ لہٰذا تقیہ کا مفھوم لغوی اعتبار سے، کسی شخص کے ایسے کام کو کہا جاتا ھے جس میں ایک قسم کی مراقبت اور پرھیز گاری ھمراہ ھو۔ مشھور و معروف عالم و محقق مرحوم شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے تقیہ کا اس طرح معنی کیا ھے۔ (التقیۃُ سرُّ العتقاد و مکاتمة المخالفین و ترک مظاهرتهم بما یعقّب ضرراً فی الدین و الدنیا) 2 تقیہ یعنی دینی اور دنیاوی نقصان سے بچنے کی خاطر اپنے اندرونی عقیدہ کو پوشیدہ رکھنا اور دشمنوں سے اس کا چھپانا ۔
جیسا کہ آپ نے مشاھدہ کیا اصل تقیہ کے دو پھلو ھیں ایک یہ کہ اندرونی اور باطنی عقائد کو چھپانا۔ دوسرا یہ کہ معنوی اور مادی نقصان سے بچنا بچانا۔ لیکن یہ اھم ھے کہ یہ علم پیدا کریں کہ اس طریقے کو اپنانا مصلحت کی رعایت کرنا اور ذاتی فائدہ کی خاطر اس کو اجتماعی مصلحتوں پر مقدم کرنا ھے۔ یا اس سے یہ مقصد ھے کہ اصل طاقت کو نابودی اور برباد ھونے سے محفوظ رکھنا اور ان کا ذخیرہ کرنا دشمنوں اور مخالفین سے ایک با مقصد مقابلے کے لئے ھے؟ قرآن مجید نے کئی جگھوں پر تقیہ کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا ھے نمونہ کے طور ۔
الف) حضرت موسیٰ (ع) کی جان کا تحفظ کرتا ھے کہ ایک آل فرعون کے ذریعہ قرآن اس واقعہ کی وضاحت اس طرح کرتا ھے کہ۔ (قال رجلٌ مومنٌ من آلِ فرعونَ یکتمُ ایمانَه أتَقتلون رجلاً أن یقولَ ربیّ الله… 3 آل فرعون سے ایک مرد مومن نے کہ جو اپنے ایمان کو چھپائے ھوئے تھا کہا کہ کیا تم ایک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرو گے کہتا ھے کہ میرا پروردگار خدا ھے۔؟
اس آیت میں عقیدہ اور ایمان کا پوشیدہ رکھنا وھی تقیہ ھے ایک اچھے اور مثبت کام کے عنوان سے ذکر ھوا ھے۔ کیونکہ تقیہ کے ذریعہ ایک بڑے اور انقلابی رھبر کی جان محفوظ ھوجاتی ھے اور اگر مومن آل فرعون تقیہ کے راستے کو نہ اپناتا جو ایک اچھا طریقہ ھے۔ تو حضرت موسیٰ (ع) کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔ وہ شخص پہلے تو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا اور جب حضرت موسیٰ (ع) کی جان فرعون کے طرف سے شدید خطرے میں پڑجاتی ھے تو کھل کے آگے آجاتا ھے اور اپنے حکمت آمیز اور مؤثر بیان کے ذریعہ حضرت موسیٰ (ع) کی جان کو نجات دیتا ھے۔
ب) حضرت ابراھیم (ع) کا واقعہ: قرآن کریم فرماتا ھے: (فقال انّی سقیم فتولّوا عنہ مدبرین) 4 پس جب کھا کہ میں بیمار ھوں تو وہ لوگ منھ پھیر کر چلے گئے۔
حضرت ابراھیم (ع) اپے حقیقی اور باطنی عقیدہ کو (لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے بتوں کا توڑنا) چھپاتے ھیں اور جس وقت آپ سے کھا جاتا ھے کہ جشن میں شرکت کریں۔ فرماتے ھیں میں مریض ھو۔ حضرت ابراھیم (ع) کا مطلب اس بیماری سے یہ تھا کہ میں روحانی مریض ھوں۔ اور اس طریقے سے بتوں کے توڑنے کے اسباب اور بابل کے لوگوں کی آزادی کے مقدمات فراھم کرتے ھیں۔ حضرت ابراھیم (ع) کے جواب میں تھوڑی سی فکر سے معلوم ھو جاتا ھے کہ حضرت ابراھیم (ع) اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے بہت سے انبیاء کرام (ع) نے اپنے مقصد تک پھونچنے کے لئے تقیہ سے فائدہ اٹھایا ھے۔
ج) حضرت عیسیٰ مسیح (ع) کے نمائندوں کی اھل انطاکیہ کے پاس آمد (اذ ارسلنا الیهم اثنین فکذبوهما فعززنا بثالث…) 5 جس وقت ھم نے دو نمایندوں کو کو بھیجا تو ان لوگوں نے انھیں جھٹلایا تو ھم نے ان نمایندوں کی مدد کے لئے تیسرا نمایندہ بھیجا۔
اس واقعہ میں دو شخص جو کہ حضرت عیسیٰ کے فرستادہ تھے۔ بت پرستی کے مقابلے میں واضح اور روشن تبلیغ کی وجہ سے انطاکیہ کے قید خانہ میں ڈال دئیے گئے اور دین کی تبلیغ کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ لیکن تیسرا آدمی جوان لوگوں کے ساتھ تھا ان کی مدد کے لئے پھنچا۔ اس نے بت پرستی کے مقابلے مین تبلیغ کے طور طریقے کو تبدیل کیا۔ سب سے پھلے اپنے عقیدہ کو چھپایا تاکہ اس وسیلے سے حاکم کے پاس پھونچ سکے اور ایک مناسب حکمت عملی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دوستوں کو زندان سے نجات دلاتا ھے اور فکری و اجتماعی انقلاب بھی شھر میں پیدا کردیتا ھے کہ قرآن نے جسے (عزّزنا بثالث) یعنی تیرے آدمی کے وسیلے سے ان دونوں کی مدد کرنے اور عزت و طاقت عطا کرنے سے تعبیر کیا ھے۔ 6
اگر تیسرا آدمی بھی اپنے دوستوں کی روش اپناتا تو کیا یہ صحیح کام ھوتا؟ کیا تقیہ کی روش کے مطابق صحیح کام کو انجام دینا بہتر تھا یا یہ کہ وہ بھی اپنے دوستوں کی طرح اپنا تعارف کراتا اور راھی زندان ھو جاتا؟
ھر مذھب و ملت میں تقیہ کا سراغ ملتا ھے۔
دنیا میں بھت سے کام جیسے جنگی خفیہ نقشے کو عملی جامہ پہنانا جاسوسوں اور اطلاعات فراھم کرنے والے افراد کو مخفی رکھنا وغیرہ وغیرہ تقیہ یہی کی ایک شکل ھیں کہ جسے دنیا کے تمام علاقوں میں طاقت کو محفوظ رکھنے کی خاطر یا دشمنوں پر کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ھے۔ کوئی نھیں کھتا ھے کہ جنگی امور میں پوشیدہ طریقے سے عمل نہ کیا جائے۔ یا یہ کہ ایک مجاھد اور فوجی حتماً بے باکی سے اپنے کو ظاھر بظاھر دشمنوں کے سامنے ڈال دے۔ یا اطلاع اور جاسوسی کرنے والے افراد اپنی ظاھری شکل کو واضح اور نمایاں کر دیں۔ یہ سب کے سب اس بات کی دلیل ھیں کہ تقیہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ھے جو کہ دنیا کے تمام مکاتب فکر میں سارے اختلاف کے با وجود پایا جاتا ھے۔ بلکہ تقیہ ایک ایسا عام قانون ھے جو سارے عالم میں پایا جاتا ھے۔ اور سارے ذی حیات اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے روش تقیہ کو وقت ضرورت ضرور استعمال کرتے ھیں۔
تقیہ کی اس روش کی بنیاد پر اپنی شناخت اور عقیدہ کو مخفی رکھنا یا اپنے اھداف کو لوگوں سے مخفی رکھنا ایک عقلی اور اثر انداز روش ھے، جو کہ تمام مذاھب میں پائی جاتی ھے۔ اور زیادہ تر وہ افراد جو اکثریت کے مقابل اقلیت میں ھیں۔ اپنے کو اور اپنی طاقت کو محفوظ کرنے کے لئے اسی تقیہ کے اسلحہ سے فائدہ اٹھاتے ھیں۔ اور یہ کہا جا سکتا ھے کہ ائمہ اطھار (ع) کے اصل تقیہ کی بنیاد یھی یہی مسئلہ رھا ھے۔ اور وہ بزرگواران اپنے اھداف و مقاصد حاصل کرنے کے لئے تقیہ کیا کرتے تھے۔
عام طور سے تقیہ پر عمل وہ اقلیت کرتی ھے جو کہ بھاری اکثریت کے ظلم و ستم کے چنگل میں گرفتار ھوتی ھے۔ اور جیسا کہ اقلیت میں رھنے والے افراد اپنے باطنی عقیدہ کے اظھار میں وہ بھی بغیر نظم و ضبط کے انجام دیتے ھیں اور سوائے دشمن کی ھوشیاری کے کوئی فائدہ نہ ھوگا۔ اور اپنی صلاحیت اور طاقت کو آھستہ آھستہ نابودی اور بربادی و کمزوری کی طرف لے جانے کے مترادف ھو گا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ وہ اپنے مقصد سے دور ھو جائیں جمع کی ھوئی طاقت کا وقت ضرورت استعمال اس طرح سے کیا جاسکتا ھے کہ مثال کے طور پر بھت سے دیھاتوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پائے جاتے ھیں۔ اس چشمہ سے نکلنے والے پانی کو بے قید و بند رھا نھیں کرتے۔ اور اس سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے چشمہ کے کنارے ایک بڑا حوض تیار کر دیتے ھیں۔ تاکہ چشمہ کا پانی اس میں جمع ھو جائے اور جس وقت وہ چشمہ کے پانی سے لبریز ھو جاتا ھے۔ اس ذخیرہ کئے ھوئے پانی سے بڑی سرعت کے ساتھ کھیتوں کو سیراب کرتے ھیں یہی حال تقیہ کے ذریعہ اپنی طاقت و قوت کی جمع آوری کا ھے ۔
حقیقت میں کھا جا سکتا ھے کہ تقیہ اپنی اور دوسروں کی جان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے ھے۔ تاکہ صحیح طریقے سے اپنے کام کو انجام دے کر مقصد تک پھنچ سکیں۔
پیغمبر اکرم (ص) اور تقیہ
پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی میں جہاں دوست اور دشمنی کسی کو آنحضرت کی شجاعت اور حکمت عملی کے بارے میں کوئی شک و شبھ نھیں ھے، کچھ ایسے مسئلے پائے جاتے ھیں جو بھت پوشیدہ اور مخفی طریقے سے انجام پائے ھیں۔ جیسے تین سال تک مخفی دعوتِ اسلام ۔ اسی طرح ھجرت جو مکمل پوشیدہ طریقے سے انجام پائی۔ اس طرح کہ حضرت دشمنوں کے حلقے سے نکل گئے بغیر اس کے کہ وہ لوگ متوجہ ھوتے۔ آپ مکہ کے حدود سے باھر نکلکر راتوں رات مدینہ کی جانب حرکت کرتے اور غار ثور میں اپنے ساتھی کے ھمراہ پوشیدہ رھتے ھیں۔ یہ تمام صورتیں عقیدہ اور عمل کو پوشیدہ رکھنا تقیہ کی ایک قسم ھے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فتح مکہ کے لئے اس طرح سے مخفی نقشہ تیار کیا کہ آنحضرت کے نزدیک ترین اصحاب بھی اس سے بے خبر تھے۔ اس جیسی دوسری صورتیں روشن دلیل ھیں کہ حضرت (ص) نے تقیہ سے فائدہ اٹھایا ھے۔ اور یہ انھیں کھا جا سکتا کہ فقط ائمہ اطھار (ع) نے تقیہ کیا ھے۔ اور تقیہ کرنے کا حکم دیا ھے۔
تقیہ ایک بھترین اور موثر ترین راستہ ھے مقصد تک پہونچنے اور آخری کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے ۔ اور چونکہ ائمہ اطھار (ع) کی زندگی ظالم و جابر حکومتوں کے ظلم و جور اور گھٹن کے ھمراہ تھی اس لئے ائمہ اطھار (ع) نے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے اور اسلام کو زندہ رکھنے اور اپنے مومن اصحاب و انصار کو محفوظ رکھنے کی خاطر تقیہ کا حکم دیا ھے۔
توجہ رکھنی چاھئے کہ پوشیدہ عمل کرنا ممکن ھے دو مختلف مقصد کے لئے انجام پائے۔
1۔ عقیدہ کا پوشیدہ رکھنا ڈر اور وحشت کی بناء پر اور واضح اور صریح بیان سے پرھیز کرنا۔ تاکہ ذاتی اور شخصی وقتی فائدہ کو خطرہ لاحق نہ ھو۔
2۔ طاقتوں کو نابود ھونے سے بچانا اور ان کا ذخیرہ کرنا ایک منظم قانون کے تحت تاکہ موقع کی مناسبت سے آخری حملہ کیا جاسکے۔
پھلی صورت میں تقیہ ایمان کے ضعیف ھونے اور کامیاب نہ ھونے کی نشانی ھے اور دوسری صورت میں تقیہ۔ ھوشیاری، بیداری، مقابلہ کرنے کے اصول سے آگاھی و مقصد تک پھونچنے کی نشانی ھے۔
واضح ھے کہ اسلامی تقیہ اور جو تقیہ ائمہ اطھار (ع) کی سیرت رھی ھے وہ تقیہ کی دوسری قسم میں ھے۔ یعنی تقیہ عقل کے لحاظ سے اور اپنے مقصد تک پھونچنے کے لحاظ سے ھے نہ کہ ڈر اور دنیاوی منفعت کی خاطر اور چونکہ ائمہ اطھار (ع) قرآن کے ھم پلہ ھیں۔ اور پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی امت کی ھدایت کے لئے لوگوں کو قرآن اور اھلبیت (ع) سے متمسک رھنے کی سفارش کی ھے۔ لہٰذا ائمہ (ع) اور قرآن کے درمیان کسی قسم کا تضاد اور اختلاف نھیں پایا جاتا بلکہ ائمہ اطھار (ع) ھیں جو قرآن کے معنی اور مفھوم کو جانتے ھیں۔ اور ان کا عمل قرآن کے مطابق ھے اور یہ بھی مشاھدہ ھوتا ھے کہ جو کچھ قرآن نے رمز اور اشارہ کے طور پر بیان کیا ھے، ائمہ اطھار (ع) نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ھے۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ھے۔ "لا یتخذ المومنون الکافرین اولیاء… الا ان تتقوا منھم تقاۃً و یحذرکم اللہ نفسہ و الی اللہ المصیر"۔ 7 خبردار صاحبان ایمان مومن کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور اس کے فوراً بعد فرماتا ھے مگر یہ کہ تقیہ کرو۔ اس صورت میں تم ان سے ظاھری دوستی کر سکتے ھو۔
اس آیت کی روشنی میں واضح ھوتا ھے کہ تقیہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں مسلمانوں کے بیچ رائج تھا۔ اس آیت کی تکمیل دوسری آیت ھے کہ جس میں خداوند عالم فرماتا ھے: (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا من اُکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان…)۔ 8 "اور جو اللہ پر ایمان کے بعد اللہ کا منکر ھوجائے مگر یہ کہ اُسے مجبور کردیا گیا ھو اور اسی کا دل ایمان پر مطمئن ھو"
اس آیت کے شان نزول میں کچھ نام ذکر ھوئے ھیں جن میں عمار یاسر، ان کے باپ یاسر ان کی ماں سمیہ، صھیب اور بلال قابل ذکر ھیں جس سے صدر اسلام میں تقیہ کے وجود پر روشنی پڑتی ھے ۔ اور یہ بھی ظاھر ھوتا ھے کہ اگر مسلمان تقیہ نہ کرنے تو قتل کر دیتے جائے اور ان کی تعداد کم ھو جاتی۔ انھیں دنوں جناب عمار کے والدین نے دشمن کے مقابلے میں مقاومت اور ثابت قدمی کا مظاھرہ کیا جس کے نتیجہ میں انھیں شھید کر دیا گیا۔ لیکن عمار نے تقیہ کے راستے کو اپنایا اور اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں گریہ کنا حاضر ھوئے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ھوئی ھے اور عمار کے عمل کی تائید کرتی ھے۔ 9
اگر ھم حضرت عمار کی زندگی کے سلسلے میں تاریخ پر نظر ڈالیں تو انھیں بڑے مستحکم ارادے والا اور بڑی قوت و طاقت والا انسان پائیں گے جو اسلام کی حفاظت کے لئے کسی چیز کی پرواہ نھیں کرتے۔ لیکن اِس جگہ اسلام کی مصلحت کی خاطر تقیہ کرتے ھیں۔ اور اپنی جان کو محفوظ کرتے ھیں۔
قرآن ناطق حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) کہ جن کے سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ھیں۔ (علی مع الحق و الحق مع علی) تقیہ کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:التقیة من افضل اعمال المومن یصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرین…) 10 تقیہ مومن کے بھترین اعمال میں سے ھے کہ اُس کے وسیلے سے اپنے اور اپنے بھائیوں کو دشمنوں کے چنگل سے رھائی دلاتا ھے۔ یعنی اپنی قوت و طاقت کو ایک منظم طریقے سے مقابلہ کے لئے ذخیرہ کرتا ھے۔
حضرت امام محمد باقر (ع) بھی تقیہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں: ایُّ شیٍ اقرّ للعین من التقیة ان التقیة جُنة المومن۔ 11 کون سی چیز تقیہ سے بھتر ھوسکتی ھے تقیہ مومن کی ڈھال اور سپر ھے۔
اور حضرت امام جعفر صادق (ع) تقیہ کے متعلق فرماتے ھیں:التقیة ترس المؤمنِ و التقیة حرز المومن) 12 تقیہ مومن کی ڈھال ھے اور مقابلے کے وقت اس کو محفوظ رکھتی ھے۔
بنابریں تقیہ جھوٹ۔ خوف و ھراس سستی، کمزوری کام کی ذمہ داریوں کو انجام دینے سے راہ فرار اختیار کرنے کا نام نھیں ھے بلکہ تقیہ ھر طریقے کی فکر، عقیدہ اور رائے و حکمت عملی کو چھپا کر ایک خاص مقصد تک پہونچنے کو کہتے ھیں۔
تقیہ کی قسمیں
شیعوں نے ائمہ اطھار (ع) کی فرمائش سے استفادہ کرتے ھوئے تقیہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ھے۔
1۔ واجب تقیہ ۔
2۔ حرام تقیہ ۔
3۔ جائز تقیہ ۔
ائمہ اطھار (ع) نے تقیہ کو بعض جگھوں پر واجب اور ضروری جانا ھے۔ اور بعض جگھوں پر غیر ضروری اور غیر واجب بلکہ حرام جانا ھے۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں: تقیہ اس جگہ جائز ھے جھاں پر دین میں فساد کا سبب نہ ھو۔ 13
کمیت شاعر ایک دن امام موسیٰ کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور امام (ع) کو ناراضگی کی حالت میں مشاھدہ کیا۔ امام (ع) نے کمیت سے فرمایا: تم نے بنی امیہ کے سلسلہ میں کھا ھے
فالان صرتُ الی امیّۃ
و الامورُ لھا الیّ مصائر
"یعنی میں اس وقت بنی امیہ کا طرفدار ھوں اور ان کی میرے اوپر بڑی عنایتیں ھیں"
کمیت نے کہا: میں نے اس شعر کو بطور تقیہ کہا ھے، خدا کی قسم میں آپ پر ایمان رکھتا ھوں اور آپ کا چاھنے والا ھوں۔ امام (ع) نے فرمایا: اگر تقیہ ھر کام کے لئے جائز ھو، تو شراب نوشی میں بھی تقیہ جائز ھونا چاھیئے ۔ 14
جو کچھ بیان ھوا، اس سے واضح ھوجاتا ھے کہ تقیہ کچھ صورتوں میں حرام ھے۔ جیسے کہ اگر تقیہ کسی کے قتل کا سبب بنے تو ممنوع اور حرام ھے حضرت امام باقر (ع) فرماتے ھیں: انما جعل التقیة لیحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فلیس تقیة۔
تقیہ خونریزی، قتل و غارت گری کو بند کرنے کے لئے جائز ھوا ھے۔ (تاکہ ذخیرہ کی ھوئی طاقت ضائع نہ ھو) اور اگر قتل و غارت گری کا سبب ھو تو پھر تقیہ جائز نھیں ھے۔ 15
واجب تقیہ
ذیل صورتوں میں تقیہ واجب ھے:
الف) تقیہ طاقت کو ذخیرہ کرنے کے لئے۔
ب) پلاننگ کو پوشیدہ رکھنے کے لئے۔
ج) دوسروں کی حفاظت کے لئے۔
1. صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲ و مستدرک حاکم نیشاپوری، ج۳،ص۱۰۹۔
2. تصحیح الاعتقاد، شیخ مفید، ص۶۶۔
3. سورۂ غافر، آیہ ۲۸۔
4. سورۂ صافات، آیات۸۹، ۹۰۔
5. سورۂ یس، آیہ ۱۴۔
6. مجمع البیان، طبرسی، ج ۸ ص۴۱۹ و تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی، ج۱۸،ص۳۶۲۔
7. سورہ آل عمران، آیہ ۲۸۔
8. سورہ نحل، آیہ۱۶۔
9. تفسیر نمونہ و مجمع البیان، آیہ شریفہ کے ذیل میں۔
10. وسایل الشیعۃ، حر عاملی، ج۱۶، ص ۲۲۲، باب۲۸ ح۳۔
11. وسایل الشیعۃ، ج۱۶، باب۲۴، ص۲۱۱، ح۲۱۳۸، مؤسسہ آل البیت۔
12. وسایل الشیعۃ، ج۱۶، باب۲۴،ص۲۱۱، ح۲۱۳۸۰۔
13. وسایل الشیعۃ، ج۱۶، باب۲۴، ص۲۰۵ ح۲۱۳۶۲۔
14. وسایل الشیعۃ، باب ۲۵، ح۷۔
15. وسایل الشیعۃ، ج۱۶، باب۳۱، ص۲۲۴، ح۲۱۴۴۵۔