خدا کا فخر
قال رسول اللہ (ص): ان اللہ یباھی بالطائفین۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں: ”بلا شبہ خد اوند عالم طواف کرنے والوں پر فخر و مباھات کرتا ھے ‘‘ ۔
طواف اور رھائی
عَنْ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) قَالَ: ۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً کَانَ لَکَ بِذَلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَھْدٌ وَذِکْرٌ یَسْتَحْیُيمِنْکَ رَبُّکَ اٴَنْ یُعَذِّبَکَ بَعْدَہُ۔۔۔ ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”پس جب تم نے اللہ کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرلیا تو اس کے ذریعہ خدا وند عالم کے نزدیک تمھارا عھد اور ذکر ھے کہ خداوند عالم اس کے بعد تم پر عذاب کرنے سے شرم کرے گا“۔
زیادہ باتیں نہ کرو
قَال رَسُولُ اللّٰہ (ص): إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلٰوةٌ،فَإِذَا طُفْتُمْ فَاٴَقِلُّوا الْکَلاٰمَ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ کے گھر کا طواف نماز کے مانند ھے پس جب تم طواف کرتےهو تو باتیں کم کرو “۔
طواف کا فلسفہ
قَال رَسُول اللّٰہ (ص): إِنَّمَاجَعَلَ الطَّوٰافُ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ وَرَمْیُ الْجِمٰارِ لإِقٰامَةِ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ کے گھر کا طواف،صفاو مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات خدا کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ھیں ‘ ‘۔
عمل میں نیت کی تاثیر
عَنْ زیاد القندی،قال:قُلْتُ لاٴبي الحسن (ع): جُعِلْتُ فِداک إنّي اٴَکونُ في الْمَسْجِدِ الْحرامِ، وَاٴنْظُرُ اِلی النّاسِ یَطوفونَ بالبَیْتِ واٴنا قاعِدٌ فاغْتَمُّ لِذلکَ،فقال: یَازِیَاُد لاٰ عَلَیْکَ فَإِنَّ الْمُوٴْمِنَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ یَوٴُمُّ الْحَجَّ لاٰیَزَالُ فِي طَوَافٍ وَسعْيٍ حَتَّی یَرْجِعَ۔
زیاد قندی (جو ایک مفلوج آدمی تھا) کھتا ھے کہ : ”میں نے امام موسیٰ کاظم (ع) سے عرض کیا آپ (ع) پر قربان هو جاوٴں میں کبھی مسجد الحرام میں هوتا هوں اور دیکھتا هوں کہ لوگ کعبہ کا طواف کر رھے ھیں اور میں بیٹھا هوں (طواف نھیں کر سکتا ) اس پر میں غم زد ہهو جاتا هوں امام (ع) نے فرمایا: اے زیاد! تم پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے (غمگین نہهو) بلاشبہ مومن جس وقت سے حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلتا ھے اس وقت سے ھمیشہ طواف اور سعی کی حالت میں ھے یھاں تک کہ اپنے گھر واپس چلاجائے “۔
انسانی تھذیب کی رعایت
عَنْ سَمَاعَة بْنِ مِھْرَانَ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع):سَاٴلْتَہُ عَنْ رَجُلٍ لي عَلَیْہِ مالٌ فغابَ عَنّي زَماناً فَرَاٴَیْتُہُ یَطوفُ حَولَ الْکَعْبَةَ اٴفاٴتَقاضاہُ مالِي؟قَالَ:لاٰ،لاٰ تُسَلِّمْ عَلَیْہِ وَلاٰ تُرَوِّعْہُ حَتَّی یَخْرُجَ مَنْ الْحَرَمِ۔
سماعة ابن مھران کھتے ھیں کہ: ”میں نے امام جعفرصادق(ع) سے پوچھا : ایک شخص میرا مقروض ھے اور میں نے ایک مدت سے اسے نھیں دیکھا پس اچانک میں اسے کعبہ کے اطراف میں دیکھتاہوں کیا میں اس سے اپنے مال کا تقاضہ کر سکتاهوں؟فرمایانھیں،حتی اسے سلام بھی نہ کرو اور اسے نہ ڈراوٴیھاں تک کہ وہ حرم سے خارجهو جائے “۔
نماز ، مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک
عَن رَسُولِ اللّٰہِ قال: ۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً لِلزِّیَارَةِ وَ صَلِّیْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ضَرَبَ مَلَکٌ کَرِیمٌ عَلَی کَتِفَیْکَ فَقَالَ اٴَمَّا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَکَ فَاسْتَاٴْنِفِ الْعَمَلَ فِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِشْرِینَ وَمِائَةِ یَوْمٍ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”پس جب تم خانہ کعبہ کے گرد زیارت کا طواف کر لیتےهو اور مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک نماز طواف ادا کر لیتےهو تو ایک کریم وبزرگوار فرشتہ تمھارے شانوں پر ھاتھ رکھ کر کھتا ھے :جو کچھ گزر گیا اور تم نے جو گناہ پھلے انجام دیئے تھے خدا وند عالم نے وہ سب بخش دیئے پس اس وقت سے ایک سو بیس دن تک (تم پاک وپاکیزہ رہو گے اب ) نئے سرے سے اپنے عمل کا آغاز کرو“۔
امام حسین (ع) مقام ابراھیم (ع) کے پاس
رُئِیَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ،ثُمَّ صٰارَ اِلَی الْمَقٰامِ فَصَلّٰی،ثُمَّ وَضَعَ خَدَّہُ عَلَی الْمَقٰامِ فَجَعَلَ یَبْکی وَیَقُولُ: عُبَیْدُکَ بِبٰابِکَ، سَائِلُکَ بِبٰابِکَ، مِسْکینُکَ بِبٰابِکَ، یُرَدِّدُ ذٰلِکَ مِرٰاراً۔
”لوگوں نے امام حسین (ع)کو دیکھا کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رھے تھے اس کے بعد انھوں نے مقام ابراھیم کے پاس نماز ادا کی پھر اپنا چھرہ مقام ابراھیم پر رکھا اور روتے هوئے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے! تیرا حقیر بندہ تیرے دروازہ پر ھے ، تیرا فقیر تیرے دروازہ پر ھے،تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ھے،اور آپ (ع) ان جملوں کو باربار دھرا رھے تھے“۔
ھمراھیوں کی مدد
عن اِبراھیم الخثعَمي قال:قُلْتُ لاٴبي عبد اللہ (ع): إِنَّاإِذَا قَدِمْنَا مَکَّةَ ذَھَبَ اٴَصْحَابُنَا یَطُوفُونَ وَیَتْرُکُونِّي اٴَحْفَظُ مَتَاعَھُمْ قَالَ اٴَنْتَ اٴَعْظَمُھُمْ اٴَجْراً۔
اسماعیل خثعمی کھتے ھیں میں نے امام جعفر صادق (ع) سے عرض کیا :
”ھم جب مکہ میں وارد هوئے تو ھمارے ساتھی مجھے اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر طواف کے لئے چلے گئے تاکہ میں ان کے سامان کی حفاظت کروں ، امام (ع) نے فرمایا: تمھارا ثواب ان سے زیادہ ھے“۔
source : http://www.tebyan.net/