صاحبان کتب نے شيعہ اور تشيع کے بارے ميں متعدد لفظوں ميں تعريف کي ہے ان ميں سے اہم نظريات کو پيش کر رہے ہيں:
1- ابو الحسن اشعري: جن لوگوں نے علي کا ساتھ ديا اور ان کو تمام اصحاب رسول پر برتر جانتے ہيں، وہ شيعہ ہيں-
2- ابن حزم مفہوم تشيع کے بارے ميں کہتا ہے: شيعہ کا نظريہ ہے کہ علي رسول کے بعد افضل امت اورامامت کے حقدار ہيں اور ان کے بعد وارث امامت، ان کے فرزند ہيں، درحقيقت يہي شيعہ ہيں، ہر چند کہ مذکورہ باتوں کے سلسلہ ميں مسلمانوں کا اختلاف ہے اور ان عقائد کا مخالف شيعہ نہيں ہوسکتا-
3- شہرستاني نے کچھ يوں تعريف کي ہے: شيعہ وہ ہيں جو خاص طور سے علي کے حامي رہے اور اس بات کے معتقد ہيں کہ ان کي امامت و وصايت نص اور رسول کي وصيت سے ثابت ہے چاہے ظاہري ہو يا باطني اور اس بات کا عقيدہ رکھتے ہيں کہ ان کي اولادوں کے علاوہ دوسرا حقدار نہيں، اگر امامت دوسرے کے پاس گئي تو يقينا ظلم کا عمل دخل ہے يا تقيہ کے سبب ہے اور اس بات کے قائل ہيں کہ امامت کوئي مصلحتي عہدہ نہيں ہے جو امت مسلمہ کے ہاتھوں طے پائے اور امت کے انتخاب سے امام معين ہو جائے، بلکہ يہ ايک اصولي مسئلہ ہے يہ رکن دين ہے خود رسولوں کے لئے بھي اس مسئلہ ميں تساہل و سہل انگاري جائز نہيں اور نہ ہي وہ امت کے ہاتھوں (انتخاب امام) کا فيصلہ سپرد کرسکتے ہيں-
آگے کہتے ہيں: شيعہ امامت کي تعيين و تنصيص کے قائل ہيں اور انبياء کے مانند (امام کے لئے) صغيرہ و کبيرہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہيں، تولي و تبريٰ کے بھي قولي فعلي، عقيدتي قائل ہيں مگر يہ کہ تقيہ کے سبب ايسا نہ کرسکيں-
4- محمد فريد وجدي: شيعہ وہ ہيں جو علي کي امامت کے مسئلہ ميں ان کے ہمراہ رہے اور اس بات کا عقيدہ رکھتے ہيں کہ امامت ان کي اولادوں سے جدا نہيں ہوسکتي، وہ اس بات کا عقيدہ رکھتے ہيں کہ امامت کوئي مصلحتي مسئلہ نہيں ہے جس کو امت کے اختيار و انتخاب پر چھوڑ ديا جائے، بلکہ يہ ايک اصولي مسئلہ ہے يہ رکن دين ہے، ضروري ہے کہ رسول اکرم کي اس مسئلہ پر نص صريح موجود ہو-
شيعہ کہتے ہيں کہ ائمہ کرام صغيرہ و کبيرہ گناہ سے معصوم ہيں اور تولي و تبريٰ کے قولي و فعلي معتقد ہيں مگر ظالم کے ظلم کے سبب يہ عمل تقيہ کي صورت ميں انجام ديا جاسکتا ہے-
5- شيعہ مولفين حضرا ت نے، شيعہ کي تعريف يوں کي ہے:
نوبختي: پہلا فرقہ شيعہ ہے جو حضرت علي کا حامي تھا اور ان کو حيات رسول اور وفات رسول کے بعد شيعيان علي کہا جاتا ہے، يہ لوگ حضرت سے بے پناہ عشق اوران کي امامت کے اقرار کے سبب مشہور تھے اور وہ افراد مقداد، ابن الاسود، سلمان فارسي، ابوذر غفاري، جندب بن جنادہ غفاري، عمار ياسر تھے، او روہ لوگ جو ان کي مودّت علي کے سلسلہ ان کي تائيد کرتے تھے اور سب سے پہلا گروہ جو شيعہ کے نام سے معروف ہوا وہ يہي تھا، اس لئے کہ تشيع (شيعہ) کا نام بہت پرانا ہے شيعہ ابراہيم، شيعہ موسيٰ، عيسيٰ اور ديگر انبياء کرام-
6- شيخ مفيد، شيعہ کي کچھ يوں تعريف کرتے ہيں: شيعہ وہ ہيں جو علي کے حامي اور اصحاب رسول پر ان کو مقدم جانتے ہيں اور اس بات کا عقيدہ رکھتے ہيں کہ آپ رسول کي وصيت اور تائيد پروردگار کے تحت امام ہيں، جيسا کہ اماميہ اس بات کا راسخ عقيدہ رکھتے ہيں اور جاروديہ صرف بيان کرتے ہيں-
7- شيخ محمد بن حسن طوسي، وہ نص و وصيت سے کلام کو مربوط کر تے ہوئے تشيع کے عقائد کو مربوط کرتے ہوئے کہتے ہيں: علي مسلمانوں کے امام، وصيت رسول اورارادہ خدا کے سبب ہيں، پھر نص کو دو قسموں پر تقسيم کرتے ہيں: 1- جلي 2- خفي
نص جلي :اس کو شيعہ اماميہ نے تنہا نقل کيا ہے اور جن اصحاب نے ان حديثوں کو نقل کيا ہے وہ خبر واحد سے کيا ہے-
ليکن نص خفي کو شيخ طوسي نے نقل کيا ہے کہ اس کو سارے فرقوں نے قبول کياہے گو کہ اس کي
تاويل اور مراد معني ميں اختلاف کيا ہے اوران کي اس بات سے کسي نے انکار نہيں کيا ہے-
طوسي غ؛ نے سليمانيہ فرقہ کو زيديہ شيعي فرقہ سے جدا کيا ہے کيونکہ وہ لوگ نص کے قائل نہيں ہيں، وہ کہتے ہيں کہ امامت شوريٰ (کميٹي کے انتخاب) کے ذريعہ طے ہوسکتي ہے اور اگر دو نيک کسي پر ايک ساتھ اتفاق رائے کرليں تو بھي امامت ممکن ہے، مفضول کو بھي (فاضل کے ہوتے ہوئے) امامت مل سکتي ہے-
صالحہ، بتريہ، زيديہ فرقہ کا بھي امامت کے سلسلہ ميں سليمانيہ ہي کي مانند نظريہ ہے شيخ طوسيغ؛ نے سليمانيہ کے نظريہ کو مذکورہ بالا فرقوں کے نظريات پر منطبق کيا ہے-
يہ وہ آراء و نظريات تھے جو مفہوم تشيع کے سلسلہ ميں قديم اور معاصر دونوں فرقوں کے علماء نے پيش کيئے، ہم ان نظريات کي روشني ميں يہ نتيجہ نکال سکتے ہيں کہ مفہوم تشيع کے لئے دو اصطلاحيں ہيں: 1- تشيع کے عمومي معني، 2- تشيع کے خصوصي معنيٰ-
جو شخص بھي اس موضوع کو جاننا چاہتا ہے اس کے لئے مفہوم بہت گنجلک ہوگياہے ، مذکورہ آراء ونظريات جو پيش کئے گئے ہيں ان کي روشني ميں يہ بات کہي جاسکتي ہے کہ جن لوگوں نے مفہوم تشيع کو پيش کرنے کي کوشش کي ہے انھوں نے تشيع کے صرف خصوص مفہوم کو بيان کيا ہے عمومي مفہوم سے بالکل سرو کار نہيں رکھا، لہٰذا ہم اس بات کي کوشش کريں گے کہ دونوں کو تقسيم کر کے اصل مسئلہ کي وضاحت کرديں-
source : http://www.tebyan.net