اسلام اور تسليم
مشہور لغت داں، ابن منظور کے بقول اسلام اور تسليم يعني: اطاعت شعاري۔
اسلام، شرعي نقطہٴ نظر سے يعني: خضوع کے ساتھ شريعت کے قوانين کا اعتراف اور نبي اکرم کے لائے ہوئے احکام کا پابند ہوناہے اور انھيں امور کے سبب خون محترم اور خداوند تعاليٰ سے برائي ٹالنے کي التجا کي جاتي ہے اور ثعلب نے مفيد و مختصر طور پر کتني اچھي بات کہي ہے کہ: اسلام، زباني اقرار کا نام ہے اور ايمان دل سے اعتراف کا اسلام کے بارے ميں ابابکر محمد بن بشار نے کہا کہ اگر يہ کہا جائے کہ فلاں شخص مسلمان ہے تو اس سے دو بات سمجھ ميں آتي ہيں:
۱- وہ احکام الٰہيہ کا تابعدار ہے
۲- عبادت خداوندي ميں مخلص ہے۔[1]
يہاں پر ہم دونوں کے درميان فرق پيدا کرسکتے ہيں جو کہ پہلي فرصت ميں آساني سے بيان نہيں کيا جاسکتا کيونکہ ”استسلام لامر اللّٰہ“ (احکام الٰہيہ کي تابعداري) اور ”اخصلاص للعبادة“ (عبادت خداوندي ميں خلوص) کے درميان فرق ہے۔
پہلے معني کے رو سے اسلام اس حقيقت ايمان سے زيادہ وسيع دائرہ رکھتا ہے جو انسان کے پروردگار کے رابطہ کو مضبوط کرتا ہے کيونکہ حکم خدا کي تابعداري، اوامر و نواہي الٰہي کي مکمل پيروي پر مشتمل ہے اور حکم خداوندي پر اپني رائے کو مقدم نہ کرنا ہے۔
اسي کے پيش نظر مسلمان جو کچھ نبي اکرم لائے ہيں ان کے سامنے سر اطاعت خم کرديتاہے کيونکہ آپ خدا کي جانب سے آئے ہيں اور اس بات کا عقيدہ رکھتا ہے کہ رسول اکرم اپني طرف سے کوئي بات نہيں کہتے بلکہ آپ پر وحي کا نزول ہوتا ہے وہ چاہے احکامات شريعت ہوں يا عبادات کي ادائيگي، آپسي اختلافات ہوں يا نظرياتي چپقلش اور يہ سب خدا کے اس حکم کے پيش نظر ہے
<وَ مَا آتٰاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَانَہَيٰاکُمْ عَنہُ فَانْتَہُوْا> [2]
<فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيءٍ فَرُدُّوہُ اِلَي اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ اِنْ کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ اليَومِ الآخِرِ>[3] <فَلا وَرَبِّکَ لايُؤمِنُونَ حَتَّي يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَينَہُم ثُمَّ لايَجِدُوا فِي اٴَنفُسِہِم حَرَجاً مِمَّاقَضَيتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيماً>[4]
(اور جو کچھ بھي رسول تمہيں ديدے اسے لے لو، اور جس چيز سے منع کردے اس سے رک جاوٴ،پھر اگر آپس ميں کسي بات ميں اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کي طرف پلٹا دو، پس آپ کے پروردگار کي قسم کہ يہ ہرگز صاحب ايمان نہ بن سکيں گے جب تک آپ کو اپنے اختلاف ميں حکم نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ کرديں تواپنے دل ميں کسي طرح کي تنگي کا احساس نہ کريں اور آپ کے فيصلہ کے سامنے سراپا تسليم ہو جائيں)
مذکورہ بيان سے يہ بات واضح ہوتي ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں سے جس اسلام کو چاہا ہے اس سے مراد کيا ہے؟ اور وہ ہے فرامين نبوت کي تمام معني ميں اطاعت، چاہے يہ احکام عام انساني نظريات و آراء کے برخلاف ہي کيوں نہ ہوں، يا خود انسان يہ سوچے کہ مصلحت اس کي خلاف ورزي ميں ہے۔
لہٰذا خدا نے بتلاديا ہے کہ خدا و رسول کے آگے سر تسليم خم کرنا ان تمام مصلحتي تقاضوں پر مقدم ہے جو انسان کي اپني فکري يا بعض فکري بيمار سياست کي کوششوں کا نتيجہ ہوتا ہے اور يہ کہ اسلام کو خضوع و خشوع کا مرقع ہونا چاہئے اور ارادہٴ نبوي کا مطلق مطيع و فرمانبردار ہونا چاہئے کيونکہ آپ خدا کے رسول ہيں اور آپ کي اطاعت، استمرار اطاعت خداوندي ہے۔!
ليکن دوسري اصطلاح کے مطابق عبادات الٰہيہ ميں اخلاص کا ہونا يعني مسائل شرعيہ ميں اخلاص پيدا کرنا ہے جو کہ اعضاء و جوارح سے متعلق ہيں جيسے نماز، روزہ، حج اور ان جيسے احکامات، اس کے مفہوم کا دائرہ پہلے معني کے بنسبت محدود ہے جو اوامر و نواہي نبوي سے متعلق ہے، اس لئے کہ احکام شرعيہ کي پابندي ميں لوگوں کي اکثريت شامل ہے اور وہ اس کو بجالانے ميں کوشاں ہيں۔
البتہ بسا اوقات کچھ لوگ کسي مشکل کي وجہ سے اس قانون کي تاب نہيں لاپائے يا کبھي کسي حکم کي نافرماني اس وجہ سے کر بيٹھتے ہيں کہ ان کي نظر ميں وہ حکم مصلحت کے برخلاف ہوتا ہے۔
قرآن کريم نے ان دونوں صورتوں کي بڑي حسين تقسيم کي ہے، پہلے کا نام ايمان، اور دوسرے کا نام اسلام رکھا ہے۔
باديہ نشينوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:
<قَالَتِ الاٴعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَم تُوٴمِنُوْا وَ لٰکِنْ قُوْلُوْا اٴَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِکُمْ>[5]
(يہ بدو عرب کہتے ہيں کہ ہم ايمان لے آئے ہيں تو آپ کہہ ديجئے کہ تم ايمان نہيں لائے بلکہ يہ کہو کہ اسلام لائيں ہيں کہ ابھي ايمان تمہارے دلوں ميں داخل نہيں ہوا ہے)
باديہ نشينوں نے احکام شرعيہ کي بجا آوري ميں سہل انگاري سے کام ليا تو ان کو تنبيہ کي کہ تمہاري يہ حرکتيں ايمان کے (جوکہ اطاعت خدا و رسول کے معني ميں ہيں) بالکل منافي ہيں، (قرآن نے) ان کے موقف کا اظہار بھي کرديا، اور ان ميں سے بعض افراد کے غلط نظريات کو طشت از بام کرديا جنھوں نے غزوہٴ تبوک کے مسئلہ ميں حکم رسالت کي نافرماني کي تھي، خدا نے ان کي مذمت کي ہے، کيونکہ وہ لوگ يہ سمجھ رہے تھے کہ حکم رسالت کي نافرماني ہي ميں بھلائي اور مصلحت ہے وہ يہ گمان کر رہے تھے کہ اس حکم ميں وسعت اور اختيار ہے لہٰذا مخالفت کر بيٹھے۔
قرآن کريم نے ان کي سرزنش کي اور بعض اصحاب کي تنبيہ کي جنھوں نے علم بغاوت بلند کر رکھا تھا، اور قرآن کا لہجہ اس سلسلہ ميں بہت سخت تھا۔
اجتہاد کے سلسلہ ميں بعض اصحاب کا موقف
بعد حيات رسول اس موضوع کي زيادہ وضاحت ہوئي کہ تمام کے تمام اصحاب اطاعت نبوي ميں ايک مرتبہ پر فائز نہيں تھے، دو دھڑے ميں تقسيم ہوگئے تھے، بعض اس نظريہ کے قائل تھے کہ رسول کے اوامر و نواہي مسلّمات ديني ميں سے ہيں ان کي خلافت ورزي کسي صورت ميں صحيح نہيں ہے اور ايسے افراد کي تعداد بہت کم تھي اور انھيں کے بيچ وہ افراد بھي تھے جو اس حد تک روشن فکر تھے کہ احکام نبوي ميں کتر بيونت کرتے تھے بلکہ اس بات کے بھي قائل تھے کہ عصري تقاضوں کے تحت اس کي مخالفت بھي کي جاسکتي ہے، حديہ کہ مصلحت کے پيش نظر بعض سنت نبوي سے بھي لوگوں کو دور رکھا جاسکتا ہے، جس کے ثبوت ميں اوارق تاريخ گواہ ہيں۔
رسول اکرم جب اپنے اصحاب کے ہمراہ ابوسفيان کے قافلہ کي تلاش ميں نکلے تو اس وقت ابوسفيان کي قدرت و تدبير بھي اس کو مسلمانوں سے نہيں بچاسکتي تھي او رمشرکين مکہ ان کي پشت پناہي اوران کے اموال کي حفاظت بھي نہيں کرسکتے تھے جب مشرکين مکہ اور مسلمانوں کي مڈبھيڑ ہوئي، تو اس وقت نبي کا ارادہ سب پر واضح اور روشن تھا کہ ”ہم نہيں يا تم نہيں“ اس وقت مشرکين مکہ خاص طور سے ان کا سردار ابوجہل مسلمانوں سے جنگ پر اتاولہ ہورہا تھا اور وہ يہ سوچ رہا تھا کہ يہ سنہري موقع ہے کہ ان (مسلمانوں) کي بيخ کني کرديں گے اور ہميشہ ہميشہ کے لئے نبوت کا چين چھين ليں گے۔
ايسے روح فرسا حالات ميں پيغمبر کا مسلمانوں کے ہمراہ جنگ کئے بغير واپس آجانا جنگ سے فرار ہي شمار کيا جائے گا۔
بسا اوقات تو مشرکين مسلمانوں کے محلہ ميں آپسي جھگڑوں ميں جسارت کي حد تک پہنچ جاتے تھے اور يہ تو بہت بڑا الميہ تھاکہ اصحاب، جنگ ميں مرضيٴ نبوت کے خلاف اقدام کرتے تھے اور ايک کثير تعداد فکري تائيد نہيں کرتي تھي بعض زبان دراز تو يہاں تک کہہ بيٹھے کہ جنگ کي بات کيوں نہيں ختم کرتے تاکہ ہم سکون کي سانس لے سکيں! ہم تو مال و متاع کے لئے نکلے تھے۔
روايت ميں آےا ہے کہ (کسي نے کہا) يارسول اللہ! ”آپ مال و متاع پر نظر رکھئے دشمن کو جانے ديں“ تو آپ کے چہرے کا رنگ متغير ہوگيا۔
ابو ايوب کہتے ہيں: کہ ايسے ہي وقت يہ آيت نازل ہوئي
<کَمَا اٴخرَجَکَ رَبُّکَ مِن بَيتِکِ بِالحَقِّ وَ إنَّ فَرِيقاً مِنَ المُؤمِنِينَ لَکَارِہُونَ>[6]
(جس طرح تمہارے رب نے تمہيں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کيا اگر چہ مومنين کي ايک جماعت اسے ناپسند کر رہي ہے)
پيغمبر جب جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے تو رمضان کا مہينہ تھا آپ نے اس وقت ايک، يا دو روزہ رکھا تھا اس کے بعد واپس آئے تو آپ کے نقيب نے يہ صدا دي کہ: اے گنہگارو! ميں نے افطار کرليا ہے لہٰذا تم بھي افطار کرلو اس کے قبل ان سے يہ کہا جاچکا تھا کہ افطار کرلو ليکن ان کے کان پہ جوں نہيں رينگي تھي۔[7]
بلکہ بعض افراد کي رائے، جنگ کے سلسلہ ميں ارادہٴ نبوت کے بالکل خلاف تھي جب رسول نے اصحاب سے مشورہ کيا تو عمر بن الخطاب نے کھڑے ہوکر کہا کہ يارسول اللہ خدا کي قسم وہ قريش ہيں اور صاحبان جاہ و حشم، جب سے وہ صاحب عزت ہوئے ہيں آج تک ذليل نہيں ہوئے، جب سے کفر اختيار کيا آج تک ايمان نہيں لائے، خدا کي قسم وہ اپني آبرو کا کبھي بھي سودا نہيں کريں گے وہ آپ سے ضرور بالضرور اور ہميشہ برسرپيکار رہيں گے يہ سننے کے بعد پيغمبر نے عمر کي جانب سے منہ پھير ليا۔[8]
دوسري جانب ہم ديکھتے ہيں کہ وہيں ايسے اصحاب بھي تھے جن کا نظريہ اور ان کي سونچ ان سے بالکل مختلف تھي۔
مقداد بن عمرو کھڑے ہوئے اور کہا: يارسول اللہ آپ حکم خدا کي پيروي فرمائيں ہم آپ کے ساتھ ہيں، خدا کي قسم ہمارا وہ جواب نہيں ہوگا جو قوم بني اسرائيل نے اپنے نبي کو ديا تھا:
<فَاذْہَبْ اٴنتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا إنَّا ہٰاہُنَا قَاعِدُونَ>[9]
(آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جاکر جنگ کيجئے ہم يہاں بيٹھے ہوئے ہيں)
بلکہ آپ اور آپ کا خدا جنگ کرے اور ہم آپ کے شانہ بشانہ ہيں، قسم ہے اس ذات کي جس نے آپ کو خلعت نبوت سے نوازا، اگر آپ کے ساتھ پاتال ميں بھي جانا ہوا تو ہم تيار ہيں۔
پيغمبر اسلام نے کہا: خير ہے۔
سعد بن معاذ جو کہ انصار ميں سے تھے کھڑے ہوئے اور عرض کي:
يارسول اللہ! ہم آپ پر ايمان لائے آپ کي تصديق کي، جو کچھ لائے اس پر گواہ ہيں، ہم بسر و چشم آپ پر بھروسہ کرتے ہيں اور وفاء عہد کا وعدہ کرتے ہيں۔
اے نبي خدا! آپ کو جو قدم اٹھانا ہے و کر گذريں، قسم ہے اس ذات کي جس نے آپ کو رسالت کے عہدے پر فائز کيا، اگر آپ کا حکم اور مرضي اس بات ميں ہے کہ اتھاہ سمندر کے پاني کو متھ کر رکھ ديں تو ہمارا آخري آدمي بھي پيچھے نہيں ہٹے گا، جو چاہے انجام ديجئے اور جس سے چاہے چشم پوشي اختيار کيجئے، ہمارے اموال و اثاث ميں سے جو اور جتنا چاہيں لے سکتے ہيں۔
جتنا آپ انتخاب کرليں گے وہ ہمارے بچے ہوئے مال سے زيادہ محبوب ہوگا، قسم ہے اس ذات کي جس کے دست قدرت ميں ميري جان ہے ہم اس راہ (اسلام) پر جب سے گامزن ہوئے کبھي آئندہ کي فکر لاحق نہيں ہوئي اور نہ ہي دشمنوں سے مڈبھيڑ ميں گھبرائے، ہم وقت جنگ صابرين ميں سے ہيں۔
روز محشر اس بات کي تصديق فرما ديجئے گا، شايد خدا ہمارے ان اعمال کو قبول کرے جو آپ کے آنکھوں کي ٹھنڈک کا سبب بنے۔[10]
ان کلمات سے اصحاب کے موقف کا علم ہوتا ہے کہ وہ تسليم يا عدم تسليم ميں کس چيز کو اہميت ديتے تھے۔
اس سے اور آگے بعض اصحاب کے آراء و نظريات اس درجہ روشن تھے کہ نبي کي رائے پر غالب تھے يا دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ نص نبوي کے مقابل اجتہاد فرما رہے تھے جس کا نتيجہ يہ نکلتا تھا کہ وہ حکم نبوي کي پيروي کسي صورت ميں نہيں کرنا چاہتے تھے، اور ايسے حادثات متعدد مقامات پر رونما ہوئے ہيں۔
ابو سعيد خدري سے روايت ہے کہ ايک بار ابوبکر رسول کے پاس آئے اور عرض کي يارسول اللہ! ميں ايک وادي سے گذر رہا تھا وہاں پر ايک نہايت حسين اور وجيہ زاہد کو عبادت ميں مشغول پايا، تو اس وقت رسول نے ابوبکر سے کہا کہ جاؤ اور اس کو قتل کردو۔
سعيد کہتے ہيں: ابوبکر گئے اور اس کو اس حالت ميں ديکھ کر پس و پيش ميں پڑ گئے کہ اس کو کيسے قتل کريں، واپس آئے تو رسول نے عمر کو حکم ديا : ”جاؤ اور اس کو قتل کردو“ عمر گئے جس کيفيت ميں ابوبکر نے ديکھا تھا انھوںنے ديکھ کر قتل کا فيصلہ بدل ديا واپس آکے عرض کيا، يا رسول اللہ وہ جس خضوع و خشوع کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے ميرا دل مَسوس کر رہ گيا کہ اس کو ناحق قتل کردوں۔
آپ نے امير المومنين حضرت علي کو حکم ديا: ”جاؤ اور اس کو قتل کردو“ امير المومنين گئے تو وہ وہاں نہيں تھا آپ واپس آئے اور آکر خبر دي کہ ميںنے اس کو نہيں ديکھا۔
آپ نے فرمايا: وہ اور اس کے ہمنوا قرآن کا رٹا لگائيں گے، مگر قرآن ان کے حلق سے نيچے نہيں اترے گا وہ لوگ دين سے ايسے خارج ہوگئے ہيں جيسے تير کمان سے چھوٹ جاتا ہے، وہ دين ميں واپس نہيں آسکتے مگر تير سوفا، (کمان) ميں واپس آجائے (اور دونوں ناممکن ہے) لہٰذا ان کو قتل کردو وہ گنہگار گروہ ہے۔[11]
صلح حديبيہ کے وقت پيغمبر نے قريش کے ہر مطالبہ کو پورا کيا، جس کے سبب اصحاب ميں يہ خبر گشت کرنے لگي کہ رسول نے ہم سب کو رسوا کيا ہے ہر چند کہ نبي نے اس پر مصلحت کے تحت دستخط کيا تھا اور وہ بخوبي اس کو جانتے تھے اور يہ بات روز روشن کي طرح واضح ہے کہ رسول کبھي اسلام و مسلمين کا نقصان نہيں چاہيں گے، اس کے باوجود بعض اصحاب اس بات کے معتقد تھے کہ پيغمبر کے دستاويز پر دستخط کے خلاف حق اعتراض رکھتے ہيں۔
عمر بن الخطاب نے بطور اعتراض پيغمبر سے کہا، جس کو بخاري نے عمر ہي کي زباني کچھ يوں نقل کيا ہے۔
عمر۔ يا رسول اللہ! کيا آپ حق پر نہيں ہيں؟
رسول اسلام۔ ہم حق پر ہيں۔
عمر۔ کيا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہيں ہيں؟
رسول اسلام۔ ہاں ايسا ہي ہے۔
عمر۔ پھر ہم اپنے دين کے سلسلہ ميں کيوں رسوا ہوں؟
آپ نے فرمايا: ميں اللہ کا رسول ہوں اور ميں نے اب تک اس کي نافرماني نہيں کي وہ ميرا ناصر و مددگار ہے۔
عمر نے کہا: کيا آپ نے ہم لوگوں سے نہيں کہا تھا کہ ہم لوگ اپنے گھر جائيں گے اور طواف کريں گے؟
آپ نے فرمايا: ہاں بالکل، ليکن کيا ميں نے يہ نہيں کہا تھا کہ ايک سال ايسا آئے گا (جب ہم گھر لوٹ کر خانہٴ خدا کا طواف کريں گے)۔
عمر نے کہا: نہيں!
آپ نے فرمايا: وہ دن آنے والا ہے اور تم طواف کو انجام دے سکو گے۔
عمر کہتے ہيں کہ ميں ابوبکر کے پاس گےا اور کہا کہ کيا يہ اللہ کے سچے نبي نہيں ہيں؟
انھوں نے کہا: ہاں۔
ميں نے کہا کہ کيا ہم حق اور ہمارے دشمن باطل پر نہيں ہيں؟
ابوبکر نے مثبت جواب ديا، تو ميںنے کہا کہ تو پھر ہم اپنے دين ميں کيوں رسوا ہوں؟۔
ابوبکر نے کہا: اے مرد! وہ اللہ کے رسول ہيں اور وہ معصوم ہيں اور اللہ ان کا ناصر و مددگار ہے ان سے متمسک اور ان کے ہمرکاب رہو، واللہ وہ حق پر ہيں۔
ميں نے کہا کہ کيا انھوں نے يہ نہيں کہا تھا ايک دن اپنے گھر لوٹيں گے اور خانہٴ خدا کا طواف کريں گے ابوبکر نے کہا: ہاں ۔
ابوبکر نے کہا: کيا انھوں نے يہ خبر دي تھي کہ اس سال خانہٴکعبہ جاؤ گے؟ ميں نے کہا، نہيں۔
ابوبکر نے کہا: وہ سال آنے والا ہے اور تم طواف کرو گے۔
عمر کہتے ہيں کہ ميں نے ابوبکر کے منشور پر عمل کيا۔
جب حديبيہ کے دستاويز پر دستخط ہوگئي تو آپ نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمايا: اٹھو قرباني کرو! اور سر کے بال تراشو، کوئي ايک بھي نہ اٹھا يہاں تک آپ نے اس جملہ کو تين بار دہرايا، پھر بھي جب کوئي اپني جگہ سے نہ ہلا تو آپ ام سلمہ کے خيمہ ميں تشريف لے گئے اور سارا ماجرا بيان کيا تو ام سلمہ نے کہا کہ يارسول اللہ کيا اس بات کو پسند فرماتے ہيں؟ آپ خيمہ سے باہر تشريف لے جائيں کسي سے کلام تک نہ کريں قرباني کريں اور اپنے سر کے بال ترشواليں؟
آپ باہر آئے کسي سے کوئي کلام نہيں کيا اور قرباني کي، سر کے بال ترشوائے، جب لوگوں نے ديکھا تو قرباني پيش کي اور ايک دوسرے کے سر کے بال تراشے، کيفيت کچھ يوں تھي کہ شدت غم اور بے چيني کے سبب ايک دوسرے کے قتل کے درپے ہوگئے تھے۔[12]
يہ حادثہ خود اس بات کا غماز ہے کہ اصحاب کے نظريات مختلف اور متعدد تھے جب پيغمبر نے عمر بن الخطاب سے کہہ ديا تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہيں اور انھوں نے کبھي خدا کي نافرماني نہيں کي تو عمر کے لئے پيغمبر کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے اتنا کافي تھا، اس کے علاوہ پيغمبر نے يہ بھي بتا ديا تھا کہ وہ عنقريب اپنے گھر لوٹيں گے اور خانہٴ خدا کا طواف کريں گے اس سال يہ کام نہيں ہوسکتا عمر کے لئے رسول کا اتنا جواب کافي نہيں تھا! جو وہ اطاعت نبوي کے بجائے عمل رسالت پر تبصرہ کرنے لگے، بلکہ وہ ابوبکر کے پاس گئے اور وہي بات من و عن دہرائي اور بات تو اس وقت اور بگڑ گئي جب اصحاب نے اطاعت رسالت سے انکار کرديا، اور قرباني و حلق (سر کے بال تراشنے) سے منع کرديا اس کے بعد تو حکم رسالت کي مخالفت زوروں پہ شروع ہوگئي يہاں تک کہ رسول نے علي الاعلان تکليف اور مخالفت کو لوگوں کے سامنے بيان کرنا شروع کرديا۔
حضرت عائشہ سے روايت ہے کہ ذي الحجہ کي چوتھي يا پانچويں تاريخ تھي رسول خدا اس حال ميں تشريف لائے کہ چہرے پہ غصہ کے آثار تھے ميں نے عرض کي يا رسول اللہ! کس نے آپ کو غضبناک کيا خدا اس کو جہنم رسيد کرے۔
آپ نے فرمايا: کيا تم کو نہيں معلوم کہ ميں نے لوگوں کو ايک بات کا حکم ديا اور وہ لوگ اس ميں شک ميں مبتلا ہيں، اگر ميں کسي بات کا حکم ديتا ہوں تو اس کو واپس نہيں ليتا، ميں نے اپنے ساتھ قرباني پيش کرنے کا ارادہ ہي نہيں کيا کہ مجھ کو بھي ديگر حجاج کي مانند قرباني خريد کر ان کي طرح احرام سے خارج ہونا پڑے۔
حضرت عائشہ ہي سے دوسري روايت ہے کہ رسول خدا نے کسي حکم ميں اختيار ديا تھا ليکن اصحاب نے اس حکم سے پہلو تہي اختيار کي جب اس کي اطلاع آپ کو ہوئي تو آپ نے حمد خدا کے بعد فرمايا: اس قوم کو کيا ہوگيا ہے ميں ايک حکم بيان کرتا ہوں اور يہ اس سے کنارہ کشي اختيار کرتے ہيں۔
واللہ ميں ان سے بہتر اللہ کے سلسلہ ميں علم رکھتا ہوں اور ان سے کہيں زيادہ خوف الٰہي کا حامل ہوں۔[13]
گويا اس وقت کي امت اس بات سے بالکل بے خبر تھي کہ نبي تقويٰ و خوف الٰہي کا مظہر ہے آخر ان کو کيا ہوگيا تھا کہ وہ نبوت کے بارے ميں طرح طرح کي بدگمانياں کر رہے تھے اور يہاں تک سوچ بيٹھے تھے کہ رسول کا عمل حکم خدا کے خلاف بھي ہوسکتا ہے، يہاں تک کہ آپ سے کنارہ کش اور آپ کو ننگ و عار کا سبب گرداننے لگے تھے۔
بعض تو کھلم کھلا رسول کے اوامر و نواہي کي مخالفت کرنے لگے تھے، چاہے چھوٹي بات ہو يا بڑا مسئلہ، وہ تو يہ گمان کرنے لگے تھے کہ ان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ ہر چيز ميں عمل دخل اور فتوي صادر فرمائيں، جو قول رسول کے منافي ہو۔
جابر بن عبد اللہ انصاري سے روايت ہے کہ رسول نے اس بات سے منع کيا تھا کہ عورتوں سے مقاربت نہ کريں اس کے باوجود ہم نے مجامعت کي۔
بعض اصحاب کي جراٴت اس حد تک بڑھ گئي تھي کہ احکامات و تعليمات نبي کا علي الاعلان انکار کرنے لگے اور وہ لوگ وحي الٰہي اور حکم نبي، جو کہ عبادات سے مخصوص تھيں ان کے مقابل خود کو قانع تصور کرنے لگے تھے بلکہ اجتماعي، موروثي امور اور بعض عادات و رسومات يہاں تک کہ نبي کے بعد سياسي مسائل اور حکومت کي تشکيل ميں وہ اپنا حق سمجھتے تھے کہ ان امور ميں مداخلت کريں اور جس چيز ميں بھلائي سمجھيں اس ميں نص نبوي کے خلاف عمل کريں۔[14]
اوراس بات کا بين ثبوت اسامہ بن زيد کي سرداري کا مسئلہ ہے پيغمبر نے اسامہ بن زيد کو لشکر کي سرداري اور اپنے دست مبارک سے علم عطا کيا تھا رسول کے اس عمل پر يہ خصوصي اہتمام بھي بعضاصحاب کو اعتراض سے باز نہ رکھ سکا اور اسامہ پر يہ طعن و تشنيع کرنے لگے کہ يہ تو ناتجربہ کار نوجوان ہيں، اور مہاجرين و انصار ميں سے سن رسيدہ اصحاب کي سرداري کي اہليت نہيں رکھتے، جن ميں ابوبکر، عمر، ابي عبيدہ جيسے افراد شامل تھے۔<[15]
پيغمبر بيت الشرف سے غصہ کي حالت ميں باہر آئے او رمنبر پر تشريف لے گئے اس وقت آپ کي طبيعت بھي ناساز تھي۔
آپ نے فرمايا: لوگو! اسامہ بن زيد کي سرداري کے بارے ميں بعض لوگوں کي کيسي چہ مي گوئياں مجھ تک پہنچي ہيں؟ اگر تم لوگ اسامہ کي سرداري کے بارے ميں طعن و طنز کر رہے ہو تو اس کے پہلے ان کے باپ کے بارے ميں اعتراض کرچکے ہو۔
خدا کي قسم وہ شخص اس سرداري کا اہل تھا او راس کے بعد اس کا بيٹا (اسامہ) اس کي اہليت رکھتا ہے۔
جب کہ رسول اکرم اسامہ کي جلد روانگي پر مصر تھے ليکن لوگ ٹال مٹول کرتے رہے، قبل اس کے کہ اس لشکر کي مقام جرف سے روانگي ہوئي رسول وفات پاگئے اور آپ لشکر کو تبديل کرنے والے تھے يا ارادہ رکھتے تھے۔
بعض اصحاب کا موقف حکم نبوت کي خلاف ورزي ميں اس حد تک آگے بڑھ گيا تھا کہ آپ کے سامنے اس کا اظہار کرنے لگے تھے، اور وفات رسول سے تھوڑا قبل اس کي مثال موجود ہے۔
محدثين، مورخين، ارباب سير اور صحيح بخاري کے الفاظ کچھ يوں ہيں:
ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول کي احتضاري کيفيت کے وقت آپ کے بيت الشرف ميں بہت سارے لوگ جمع تھے جن ميں عمر بن الخطاب بھي تھے اس وقت رسول نے کہا: لاؤ تمہارے لئے ايسي تحرير لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو۔
جس کے بعد عمر نے بے ساختہ کہا: ان پر بخار کا غلبہ ہے تم لوگوں کے پاس قرآن ہے اور کتاب خدا ہمارے لئے کافي ہے۔
اہل بيت اطہار٪ نے اس نظريہ سے اختلاف کيا اور وہيں وہ افراد بھي تھے جو يہ کہہ رہے تھے کہ رسول کو وہ تحرير لکھنے دو جس کے سبب تم گمراہي سے بچ جاؤ گے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو عمر کے نظريہ کا حامي تھا، جب يہ اختلاف زيادہ بڑھا تو رسول نے ناراض ہوکر فرمايا: ميرے پاس سے تم لوگ چلے جاؤ۔
ابن عباس کہتے ہيں: ہائے مصيبت اور سب سے بڑي مصيبت اس وقت تھي جب لوگ اس بات پر اڑ گئے اور شور مچانے لگے کہ رسول تحرير نہ لکھيں۔<[16]
بخاري نے سعيد بن مسيب اور ابن عباس سے روايت کي ہے کہ ابن عباس نے کہا: پنجشنبہ، ہائے پنجشنبہ! رسول کي طبيعت بہت ناساز تھي اس وقت آپ نے فرمايا: لاؤ ميں تمہارے لئے ايسي تحرير لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو۔
اس وقت رسول کے حضور اختلاف پيدا ہوگيا جبکہ آپ کے حضور شور و غل مچانا بہتر نہيں تھا، اور آپ کے شان ميں گستاخي کي گئي کہ آپ ہذيان بک رہے ہيں، اور لوگ اسي کے پيش نظر بدگماني کے شکار ہوگئے۔
اس وقت رسول اسلام (ص) نے فرمايا: جو ميں کر رہاہوں وہ اس سے بہتر ہے کہ جو تم مجھ سے چاہتے ہو، اور آپ نے تين چيزوں کي وصيت کي:
۱۔ مشرکين کو جزيرة العرب سے باہر نکال دو۔
۲ ۔جيسا ميں چاہتا تھا ويساہي لشکر تيار کرو۔
۳۔اس کے بعد خاموش ہوگئے اور اگر کچھ فرمايا تو مجھے ياد نہيں ہے۔[17]
نہيں معلوم ،آخر رسول کو اس نوشتہ کے لکھنے سے کيوں منع کيا گيا جبکہ آپ کي کوشش يہ تھي کہ امت گ-مراہي سے بچ جائے اور ابن عباس نے اس دن کو عظيم مصيبت سے تعبير کيا ہے ابن عباس اتنا گريہ کر رہے تھے کہ آپ کے آنسوؤں کے سبب زمين نم ہو جاتي تھي۔
جيسا کہ بعض کتابوں ميں اس کا تفصيلي تذکرہ ہے مگر مصلحت کے پيش نظر ہم اس کو چھوڑ رہے ہيں بعد ميں اس کا تذکرہ کريں گے۔
source : http://rizvia.net/