آپ (ص) عوامانہ خُلق و خو، لوگوں سے انس و محبت اور ان کے درميان قيام عدل کو کبھي نہيں بھولے۔ عوام کي طرح انتہائي سادہ اور بے زرق و برق زندگي گزاري،ان کے ساتھ نشست و برخاست رکھي، غلاموں اور معاشرہ ميں پسماندہ مانے جانے والے طبقہ کے ساتھ بھي رسم رفاقت نبھائي، آپ (ص) ان کے ساتھ غذا تناول فرماتے تھے، ان کے درميان بيٹھتے تھے اور بڑي محبت سے پيش آتے تھے۔
قدرت و طاقت آپ (ص) کے اخلاق کي تبديلي کا سبب نہ بني، قومي ثروت ودولت آپ (ص) کے خُلق و خو ميں تغير نہ لاسکي، ايام رنج اور زمانہ آسايش ميں آپ (ص) کي رفتار يکساں رہي، ہميشہ خود کو ""لوگوں کے ساتھ"" اور ""لوگوں ميں سے"" جانا عوام کے ساتھ مہربان اور ان کے درميان قيام عدل کے لئے کوشاں رہے۔
جنگ خندق کے زمانہ ميں جب مدينہ کے مسلمان چاروں طرف سے محاصرہ ميں تھے، نان و غذا کي قلت تھي، آذوقہ تمام ہوچکا تھا، کبھي کبھي تو تين دنوں تک ايک لقمہ نان ميسر نہيں ہوپاتا تھا، اس دوران بھي حضور (ص) بھوک کي حالت ميں بنفس نفيس لوگوں کے ہمراہ خندق کھودنے ميں شريک رہے۔ روايت ميں ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے اپنے چھوٹے بچوں حسن و حسين عليہما السلام کے لئے کچھ آٹا مہيا فرمايا اور روٹي پکائي۔ دل ميں خيال کيا کہ بابا کے لئے بہي کچہ لے جائيں، روٹي کا ايک ٹکڑا ليکر اپنے بابا کے پاس تشريف لائيں۔ حضور (ص) نےدريافت کيا بيٹي يہ کہاں سے لائي ہوفرمايا: بچوں کا حصہ ہے حضور (ص) نے اس کا ايک ٹکڑا منہ ميں رکہا روايت کے مطابق حضرت (ص) نے فرمايا:""تين دن سے ميں نے کچھ نہيں کھايا!"" آپ ہر حال ميں ""لوگوں کي طرح"" اور ""لوگوں کے ساتھ"" تھے، ان کے ساتھ انتہائي مہرباني اور رواداري سے پيش آتے تھے، خواہ سختي کا يہ زمانہ ہو يا آسائش کا وہ زمانہ جب ايام رنج ختم ہوچکے تھے، مکہ فتح کيا جاچکا تھا، دشمن سرنگوں اور اسلام فتح مند ہوچکا تھا۔
source : tebyan