اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

آداب معاشرت رسول اکرم (ص )

آداب معاشرت رسول اکرم (ص )

دوسروں کے ساتھ آنحضرت(ص) کی معاشرت کے آداب وسنن

 


بھترین اخلاق:

کافی میں مر وی ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)نے”بحرسقا“سے فرمایا:بحر!خوش خلقی، باعثِ خوشی ھو تی ھے پھر امام (علیہ السلام)نے ایک حدیث کو ذکر کیا جس کے معنی یہ ھیں:آنحضرت(ص)خوش اخلاق تھے۔(۱)

جس خوبی کی قدر دا نی نہ ھو سکی:

علل الشرائع میں حضرت علی (علیہ السلام)سے منقو ل ھے:آنحضرت(ص) ان لوگوں میں سے تھے جن کی خوبیوں کی قدر دانی نہ ھو سکی جب کہ حضو(ص)ر کی خوبیوں کا تعلق تمام قریش اور عرب وعجم سے تھا کیا کوئی ایک بھی ایسا ھے جس کی خوبیاں آنحضرت(ص) سے زیادہ ہوں؟ اسی طرح اھل بیت (علیھم السلام )کی خوبیوں کی بھی قدردانی نہ ھو ئی نیز نیک مو منین کی خوبیوں کی بھی قدردانی نہ ھو ئی۔(۲)

آنحضرت(ص) کی فروتنی:

ارشاد دیلمی(رہ) میں منقول ھے:آنحضرت(ص) اپنے لباس میں خود ھی پیوند لگاتے اور نعلین کی سلائی کرتے تھے،گوسفندوں کا دودھ دوھتے تھے،غلاموں کے ساتھ کھانا نوش فرماتے تھے،زمین پر بیٹھتے تھے،گدھے پر سوار ہوتے تھے اوردوسرے کو بھی سواری پر اپنے پیچھے بیٹھا لیتے تھے۔ بغیر کسی شر م وجھجک کے زندگی کی تمام ضروری چیزوں کو بازار سے خرید تے اور پھر گھر لے جاتے تھے۔مالدار اورغریب دونوں سے ایک ھی طرح مصافحہ کرتے جب تک وہ اپنا ھاتھ نھیں کھینچتا تھا آپ اپنا دست مبارک نھیں کھینچتے تھے ،جس سے ملاقات کرتے سلا م میں پھل کرتے تھے چاھے وہ مالدار ھو یا فقیر،چھوٹا ھو یا بڑا،اگر آپ کو دعوت دی جاتی تواسے حقیر نھیں سمجھتے چاھے خراب کھجور ھی کی دعوت کیوں نہ ھو ۔

بلند طبیعت:

آپ کاخرچ کم تھا آپ کریم الطبیعت -،خوش معاشر ت اور خوبصورت تھے بغیر ہنسے ھمیشہ آپ کے لبوںپر مسکراہٹ رھتی تھی اوراسی طرح ھمیشہ محزون و غمگین رھتے تھے لیکن منھ نھیں بگڑ نے دےتے تھے۔

مھربا ن پیغمبر(ص):

آنحضرت(ص) نے کبھی ذ لت کااظھار نہ کیا لیکن ھمیشہ متواضع رھے بغیرا سراف کے ھمیشہ بخشش کر تے رھے،حضو(ص)ر کا دل بھت نا زک تھا تمام مسلمانوں کے لئے مھر با ن تھے پیغمبر اکرم (ص)نے کبھی اتنا ز یا دہ نھیں کھا یا کہ آپ کوڈکار آ ئی ھو اور کبھی لا لچ کا ھا تھ کسی چیز کی طر ف نھیں بڑھا یا۔(۳)

چھرہ اور با لوں کی آ راستگی:

مکا ر م الاخلا ق میں مر وی ھے:آنحضرت(ص) کی یہ عادت تھی کہ آ ئینہ میں سر مبارک کے بالوں کو سیدھا کرتے اور کنگھی بھی کر تے تھے کبھی کبھی یہ کا م پا نی کے سامنے انجا م دیتے اور با لوں کو برا بر کر لیتے تھے۔
پیغمبر اکرم (ص)نہ صرف اپنے اھل و عیال بلکہ اصحاب کے لئے بھی اپنے کوآرا ستہ کرتے تھے اور فر ما تے تھے:خدا کو یہ پسند ھے کہ جب اس کا بندہ اپنے بھائیوںسے ملاقات کے لئے گھر سے با ھر نکلے تو آما دہ ھو اور اپنے کو آراستہ کرے۔(۴)

آنحضرت(ص) کی پانچ سنتیں:

علل اورعیون میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے منقو ل ھے کہ آنحضرت(ص) نے فر مایا:میں مرتے دم تک پا نچ(۵) چیزوں کو نھیں چھوڑسکتا تا کہ یہ چیزیں میرے بعد سنت بن جا ئیں:
۱۔غلا موں کے سا تھ زمین پر بیٹھ کر کھا ناکھانا ۲۔ بغیر روپوش(زین )کے گد ھے کی سواری۳۔اپنے ھاتھوںسے بکری کا دودھ دوہنا۴۔پشمی(اونی) لباس پہنا ۵۔بچوں کو سلام کرنا۔(بغیرحوالہ)
نوٹ:پشمی لباس اُس زمانہ کابالکل معمولی ا ورسادہ لباس تھاپس یہ ھرزمانہ کے سادہ لباس کوشامل ھے۔

چھوٹے اور بڑے کو سلام :

قطب الدین(رہ) کی لُبّ اللباب میں منقول ھے :آنحضرت(ص) ھر چھوٹے اور بڑے کو سلام کر تے تھے۔ (۵)

داخلہ کی اجازت:

”فقیہ “میں مر وی ھے کہ حضرت علی (علیہ السلام)نے قبیلہٴ بنی سعد کے ایک شخص سے فرمایا:کیا میں اپنے اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے بارے میں ایک حدیث بیان کروں؟اس کے بعد فرمایا:ایک دن صبح کے وقت آنحضرت(ص) ھما رے گھر تشریف لائے ھم ابھی بستر ھی پر تھے کہ سلام کیا ھمیں شرم آ ئی ھم نے جواب نہ دیاحضور(ص) نے دوبارہ سلام کیا ھم نے جواب نہ دیا تیسری مر تبہ سلام کیا تو ھم ڈرے کہ و اپس چلے جا ئیں گے کیونکہ حضو(ص)ر کی یہ عادت تھی کہ تین مرتبہ سلام کر تے تھے اگر جواب ملتا تو اجازت لے کر اندر آ جاتے تھے ورنہ واپس چلے جا تے تھے لہٰذاھم نے کھا:
وَ عَلَیْکَ السَّلامُ یَارَسُولَ اللّٰه!اندر تشریف لا ئیں!اس وقت آپ(ص) ھما رے گھر میں داخل ھو ئے ۔(۶)

خواتین کو سلام:

کافی میںحضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے :آنحضرت(ص) خواتین کو سلا م کر تے تھے اور وہ بھی جواب دیتی تھیں۔
حضرت علیں بھی خواتین کوسلام کر تے تھے لیکن جوان عورتو ںکوسلام کرنا نا پسند کرتے تھے اور فر ما تے تھے:”مجھے خوف ھے کہ ان کی آواز متاثر نہ کردے اس وقت ثواب سے زیادہ میرا نقصان ھو جا ئے گا۔“(۷)
اس کے بعد علامہ طبا طبا(رہ) ئی نے فر مایا:
شیخ صدو(رہ)ق نے اس روا یت کو بغیر سند کے ذکر فر مایا ھے اور طبری کے پوتے نے اس کو کتاب ”مشکوٰة“میں”محاسن“ سے نقل کیا ھے۔

آنحضرت(ص) کے بیٹھنے کا طریقہ:

کا فی میں منقول ھے کہ آنحضرت(ص) تین (۳)طریقے سے بیٹھتے تھے:
۱۔قُرفُصاء:(اکڑو)دونوں پنڈلیوں کو بلند کر کے آگے سے دونوں ھا تھوں کاحلقہ بنا لیتے تھے۔
۲۔کبھی دو زانو ھو کر بیٹھتے تھے ۔(گھٹنوں کے بل)
۳۔کبھی ایک پیر کو موڑ لیتے تھے دوسرے پیر کو اس کے او پر رکھ لیتے تھے ۔انھیں کبھی بھی چارزانو (آلتی پالتی مارکربیٹھے ہوئے)نھیں دیکھاگیا۔(۸)

جن امور کو حضور(ص) نے انجام نہ دیا:

مکارم الاخلاق میں حضرت علیں سے منقول ھے:آنحضرت(ص) جب کسی سے مصافحہ کر تے تو کبھی اس سے پھلے اپنے ھا تھ کو نھیں کھینچتے تھے،جب کو ئی شخص آپ سے کوئی حاجت بیان کرتا یا کسی موضوع پر آپ سے گفتگو کرتاتو اس سے پھلے کبھی نگاہ نہ پھیرتے(صرف نظرنہ کرتے) جب کو ئی شخص گفتگو کر تاتو اس سے پھلے کبھی خاموش نہ ھو تے،کبھی کسی کے سامنے اپنے پیر نہ پھیلاتے،جب دوکاموں میں اختیار ہوتاتو ان میں سے سخت کام کو منتخب فرماتے،جب آپ(ص) پر ظلم کیاجاتاتو انتقام نہ لیتے ھاں!اگر محارم الٰھی کے متعلق کو ئی توھین ھو تی تو آپ غضبناک ھو جا تے۔ آپ کاغصہ بھی صرف خدا کی را ہ میں ھو تا تھا اور زندگی بھر ٹیک لگاکر کھانا نوش نہ فر مایا۔

حاجت روائی:

جب بھی آنحضرت(ص) سے کسی چیز کا سوال کیا گیا کبھی”لا:نھیں“نہ کھا،کبھی کسی ضرورت مند کوواپس نھیں کیا امکانی صورت میں اس کی ضرورت پوری کی ورنہ نر م وشیرین لہجہ میں اسے راضی کیا،آپ کی نمازبغیر کسی نقص وکمی کے مختصر ھو تی تھی، آپ کے خطبے سب سے زیادہ مختصر ھو تے تھے،بیہودہ وفضول باتوں سے پر ھیز کرتے تھے،آپ کی بھترین خوشبو سے لوگ آپ کو پہچان جاتے تھے۔

دسترخوان کے آداب:

آنحضرت(ص) جب لوگوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تو سب سے پھلے شروع کرتے اور سب سے آخر میں کھانا چھوڑتے،اپنے سامنے سے کھا تے صرف رُطَب(تروتازہ،پختہ کھجور) اور تَمر (سوکھی کھجور،چھوارا)کھاتے وقت دوسری طرف اپنا دست مبا رک بڑھا تے تھے۔
پا نی تین سانس میں پیتے تھے اسے نگلتے نھیں بلکہ چوستے تھے صرف داہنے ھاتھ سے کھا تے پیتے اور لیتے دیتے تھے بائیںھاتھ سے دوسرے تمام کام انجام دیتے تھے تمام امور دا ہنے ھاتھ سے انجام دینا پسند کرتے تھے مثلاً لباس پہننا اور کنگھی کرنا۔

لوگوں کو پکارنا:

آنحضرت(ص) جب کسی کو پکا ر تے توتین(۳) مر تبہ آواز دیتے ،باتوں کی تکر ار نہ کرتے،جب کسی کے گھر جا تے تو تین(۳) مرتبہ اجازت لیتے،آپ اس طرح واضح طور پر گفتگو فر ماتے کہ سننے والا سمجھ جاتاتھا ، گفتگو کے وقت آپ کے سفید دانت چمکتے تھے،آگے کے دانت بڑی خوبصورتی سے ایک دوسرے سے جدا تھے لیکن فاصلہ نہ تھا۔

آنحضرت(ص) کانظرکرنا:

آنحضرت(ص) ایک نظر ڈال کر اپنی نظر پھیر لیتے تھے ،خیرہ ھو کر نھیں دیکھتے تھے، جو بات آپ کو پسند نہ ھو تی اس کوبیان نھیں فرماتے تھے ،اس طرح چلتے جیسے کو ئی نشیب کی طرف اتر تاھے حضور(ص) یہ فر ما تے تھے:”اِنَّ خِیَارَکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلاقاً:تم میں سب سے اچھا وہ ھے جو اخلاق میں سب سے اچھا ھے۔“
کھانے کی کسی چیز کی نہ تو تعریف کرتے نہ برائی،آپ کے اصحاب آپ کی مو جود گی میں کسی بات پرنزاع نھیں کر تے تھے۔

تما م امور میں بے نظیر:

جس نے آ پ سے ملاقات کی اس نے کھا:میں نے آ پ(ص) سے پھلے اور آپ کے بعد آج تک کسی کو آپ جیسا نھیں دیکھا،آپ پر خدا کا درودوسلام ہو۔(۹)

نظر کرنا اور مصافحہ کرنا:

کافی میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے مروی ھے:آنحضرت(ص) اپنے سارے اصحاب کی طرف ایک طرح سے دیکھتے تھے کبھی اس کی طرف اور کبھی اس کی طرف، اصحاب کے سامنے کبھی پیر نھیں پھیلائے،کوئی مصافحہ کرتاتو اس سے پھلے اپناھاتھ نھیں چھڑاتے جب لوگوں کویہ پتہ چل گیاتوانھوں نے مصافحہ کر کے فوراًاپنے ھاتھوںکوکھینچنا شروع کردیا۔(۱۰)
ا س کے بعد علامہ طباطبا (رہ)ئی نے فرمایا:کلینی(رہ) نے دودوسرے طریقوں سے بھی اس کی روایت کی ھے ایک میں یہ واردھے :آنحضرت(ص) نے کبھی کسی ضرورت مند کو واپس نہ کیا اگر کو ئی چیز موجود ھو تی تو اسے دے دیتے ورنہ فر ماتے :یَاتِی اللّٰہُ بِہ: خدابندو بست کردے گا۔(۱۱)

سنت ھمنشینی:

تفسیر عیاشی(رہ) میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے:آنحضرت(ص) جب کسی کے سامنے بیٹھتے تو جب تک وہ موجود ھو تاآپ اپنے لباس اور زینت کی چیزیں زیب ِتن کئے رھتے تھے۔(۱۲)

گفتگو کے وقت مسکراہٹ:

مکارم الاخلاق میںمروی ھے:آنحضرت(ص) گفتگو کے وقت مسکرا تے تھے۔(۱۳)

آنحضرت(ص) کامزاح:

نیز مکارم الاخلاق میں یونس شیبا نی سے مر وی ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)نے فرمایا: تم لوگ آپس میں کس قدر شوخی کر تے ہو؟
میں نے عرض کیا:بھت کم!
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:شوخی کیوں نھیں کرتے؟!کیو نکہ شوخی ایک طرح کی خوش اخلاقی ھے تم شوخی سے اپنے دینی بھا ئی کوخوش کرسکتے ھو آنحضرت(ص) لوگوں سے شوخی کرتے تھے تاکہ انھیں خوشحال کریں۔(۱۴)

نبی اکرم (ص) بھی مزاح کرتے تھے:

کتاب الاخلاق میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ھے:ھر مومن کے اندر شوخی ہونا چاہئے خود آنحضرت(ص) بھی شوخی فرماتے تھے البتہ صرف حق بات کھتے تھے۔(۱۵)

سنت مزاح:

کافی میں مُعَمَّر بن خلَّادسے منقو ل ھے :میں نے حضرت امام علی رِضا سے پوچھا: آپ پر فدا ھو جاوٴں کبھی کبھی چند لوگوں کے در میان ایسی باتیں ھو نے لگتی ھیں کہ شوخی شروع ھو جا تی ھے اور ہنسی آ نے لگتی ھے ۔(اس میں کوئی حرج ھے؟)
امام (علیہ السلام) نے فرمایا:کو ئی حر ج نھیں بشر طیکہ کو ئی ایسی ویسی بات نہ ہو۔
راوی کا بیا ن ھے:میں نے سو چا شاید امام (علیہ السلام)کی مراد ”گالی “ھے اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے فرمایا:ایک اعرابی آنحضرت(ص) کی خدمت میں ھدیہ وتحفہ لاتاتھا اور وھیں اس طرح عرض کرتاتھا: میرے تحفہ کے پیسے عنایت فر مائیں!
حضور(ص) ہنسنے لگتے تھے جب آپ غمگین ھو تے تو فر ماتے:وہ اعرا بی کھاں ھے ؟ کاش ھما رے پاس آتا!(۱۶)

قبلہ رخ بیٹھنا:

کافی میںحضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے منقول ھے:آنحضرت(ص) اکثر اوقات قبلہ کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے۔(۱۷)

بچوں کانام رکھنا:

مکارم الاخلاق میں مروی ھے:جب کسی چھوٹے بچے کو بر کت کی دعا یانام رکھنے کے لئے لوگ حضو(ص)ر کی خدمت میں لاتے تھے توآپ اس کے گھرو الوں کا احترام کرتے ہوئے بچہ کو اپنی آغوش میں لیتے تھے۔ ایسا اتفاق بھی ہوا کہ بچہ نے آپ کے اوپر پیشاب کردیالوگ دیکھ کر شور کرنے لگتے توآپ فر ماتے:
”رہنے دو کھیں بچہ اپنا پیشاب نہ روک لے!“
آپ بچہ کو ویسے ھی رہنے دیتے و ہ مکمل طور سے پیشاب کر لیتاتھا اس کے بعد لوگ بچہ کو لیکر چلے جا تے تھے وہ حضرت کوکبیدہ خاطر نھیں پاتے تھے پھرحضور(ص) اپنے لبا س کو پاک کرلیتے تھے۔(۱۸)
جب آپ سو اری کے او پرھو تے تو کسی کو اجازت نہ دیتے کہ ساتھ پیدل چلے یا اسے اپنے ساتھ بیٹھالیتے تھے اور اگر وہ نہ بیٹھتا تو فر ماتے:
”تم آگے آگے چلو فلاں جگہ میرا انتظار کرنا!“(۱۹)

آنحضرت(ص) کاعفو:

کتاب الاخلاق میں ابوالقاسم کو فی سے مروی ھے:آنحضرت(ص) نے کبھی کسی سے انتقام نہ لیا جس سے اذیت پہنچتی اسے معاف کر دیتے تھے۔(۲۰)

ھمنشینی کے آداب:

مکارم الاخلاق میں مروی ھے:جب کو ئی شخص آنحضرت(ص) کی خد مت میں آ کر بیٹھتا تو جب تک وہ نھیں اٹھتا تھا حضور(ص) اپنی جگہ سے نھیں اٹھتے تھے۔(۲۱)

اصحاب کی مزاج پرسی:

مذکورہ کتا ب میںمر وی ھے:جب آنحضرت(ص) اپنے کسی صحابی کو تین دنوں تک نہ دیکھتے تو اس کی خیریت معلو م کر تے اگر وہ سفر میں ھو تا تودعا کرتے اگر سفر میں نہ ہوتا تو اس کی ملاقات کے لئے جا تے اور اگر بیمار ہوتا تو عیادت کے لئے جاتے۔(۲۲)
انس بن ما لک کا بیان ھے:میں نے خادم ونوکر کے عنوان سے نو(۹)سال تک آنحضرت(ص) کی خد مت کی مجھے یاد نھیں کہ اس مدت میں کبھی مجھ سے یہ فر مایا ہو: ”یہ کا م کیو ں نھیں کیا؟ “
حضو(ص)رنے کبھی میرے کا م میں عیب نہ نکالا۔(۲۳)

آنحضرت(ص) کی مھر بانی:

غزالی کی ”احیاء“ میں منقو ل ھے کہ انس نے کھا:اس خدا کی قسم! جس نے انھیں حق کے ساتھ مبعوث کیا کبھی ایسا نہ ہوا کہ آنحضرت(ص) کو کوئی کام پسند نہ آ یاہواور اس کے متعلق مجھ سے فر مایا ہو:
” اس کو کیوں انجا م دیا؟!“
جب حضو(ص)ر کی بیویاں میری ملامت کر تی تھیں تو آپ فر ما تے:
”چھوڑ دو!تقدیر میں یھی لکھا تھا۔“(۲۴)

آنحضرت(ص) کا جواب:

مذکورہ کتاب میں ھے:جب اصحاب میںسے کو ئی صحابی یا دوسرا شخص انھیں پکار تاتو جواب میںفر ما تے:لَبَّیْکَ(میں حاضرہوں)۔(۲۵)

اصحاب کا احترام:

نیز احیاء میں ھے:آنحضرت(ص) اپنے اصحاب کے احترام میں ان کا دل خوش کرنے کے لئے انھیں کنیت کے ساتھ پکار تے تھے اور جن کی کو ئی کنیت نہ ھو تی ان کے لئے کنیت قرار دیتے تھے دوسرے لوگ بھی اسی کنیت سے پکار تے اسی طرح صاحب اولاد اور بغیر اولاد والی خواتین یھاں تک کہ بچوں کے لئے بھی کنیت رکھتے تھے اس طرح سے سب کے دلوں کو جیت لیتے تھے۔(۲۶)

احترام کاایک طریقہ”تکیہ“دینا:

احیاء میں ھے:جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں کو ئی آتا تھا توآپ اپنا تکیہ اسے دے دیتے تھے اگر وہ قبول نہ کرتا توآپ اس قدر اصرار فر ماتے کہ اسے لینا ھی پڑتاتھا۔(۲۷)

ماہ رمضان میں بخشش:

نیز احیاء میں ھے:ماہ رمضان المبا رک میں تیز ہواکے مانند آپ کے ھا تھ میں جوکچھ آتا اسے بخش دیتے تھے۔(۲۸)

ضرورت مندوں کی مدد کی حد:

کافی میں عَجْلان سے مروی ھے کہ میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)کی خدمت میں تھا ایک ضرورت مند آیا حضرت اٹھے ایک مٹھی بھر کر ٹوکری سے کھجور نکالی اسے دے دیا اسی طرح چار (۴)ضرورت مند آئے سب کو دیا چو تھی مر تبہ فر مایا:
”خدا ھما را اور تمھا را رازق ھے ۔“
اس کے بعد مجھ سے فرمایا:جب بھی کوئی شخص آنحضرت(ص) سے سوال کرتاتھا آپ اسے عطا فرماتے تھے ایک مر تبہ ایک خاتون نے اپنے بچہ کو بھیجا کہ جا کر سوال کرو اگر وہ یہ کھیںکہ میرے پاس کو ئی چیز نھیں تو تم کہنا:
”حضور(ص)!اپنا پیرا ہن ھی دے دیں۔“
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)نے فرمایا:آنحضرت(ص) نے اپنا پیراہن اتار کر دے دیااس وقت خدا نے یہ آ یت نازل کی اورآپ کو میانہ روی کا حکم دیا:
وَلاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَاتَبْسُطْها کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُوْراً:اے رسول(ص)!اپنے ھا تھ کو گر دن سے ملا کر نہ باندھ دو ایسا نہ ھو کہ(ایک دم سے کچھ بھی نہ دو)اور نہ تو با لکل ھی اسے کھول دو(ایسا بھی نہ ھو کہ اپنا سب کچھ دے دو)پھر تمھیں ملامت زدہ،حیر تناک بیٹھنا پڑے۔ (اسراء ۱۷ ۲۹) (۲۹)

صد قہ کے بجائے ھدیہ :

کا فی میں حضرت امام محمد باقرں سے مروی ھے:آنحضرت(ص) ھدیہ کی ھو ئی چیزیں نوش فرماتے تھے لیکن صدقہ کی چیزیں نھیں کھا تے تھے۔(۳۰)

ایک راستہ سے جا نا دوسرے سے آنا:

اسی کا فی میں مر وی ھے کہ موسیٰ بن عمران بن بَزِیع نے کھا: میں نے حضرت امام علی رِضاںسے عرض کیا:میں آپ پر فدا ہوجاوٴں لوگ کھتے ھیں کہ جناب رسول خدا (ص)جس راستہ سے جا تے تھے واپسی میں دوسرے راستہ سے آ تے تھے کیا یہ صحیح ھے؟فرمایا:ھاں! میں بھی اکثر ایسا ھی کر تا ہوں اور تم بھی ایسا ھی کیا کرو!(۳۱)

گھر سے با ھر نکلنے کاوقت:

کتاب اقبال میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے مروی ھے:آنحضرت(ص) سورج نکلنے کے بعد گھر سے باھر تشریف لاتے تھے ۔(۳۲)

نزدیک ترین جگہ بیٹھنا:

کافی میںحضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے :آنحضرت(ص) کسی جگہ تشریف لےجاتے تو داخل ہونے کے بعد سب سے نزدیک والی(خالی) جگہ بیٹھتے تھے۔(۳۳)

آنحضرت(ص) کی انکساری و تواضع:

غوالی اللآلی میں مروی ھے:آنحضرت(ص) کو یہ بات پسندنہ تھی کہ آ پ کے لئے کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھے اسی لئے لوگ آپ کی تشریف آوری کے وقت نھیں اٹھتے تھے لیکن جا تے وقت حضر(ص)ت کے ساتھ دوسرے لوگ بھی اٹھتے تھے اور بیت الشرف کے دروازہ تک رخصت کر آتے تھے۔(۳۴)

خواتین کی رائے کی مخالفت:

کا فی میں ھے:جب آنحضرت(ص) کسی جنگ کا ارادہ کر تے تھے تو اپنی بیویوں سے مشورہ فر ما تے تھے پھر ان کی رائے کے خلا ف عمل کر تے تھے ۔(۳۵)

پسینہ کی خوشبو:

منا قب میںمنقول ھے:آنحضرت(ص) جناب ام سلمہ(رضی الله عنھا) کے حجرہ میںقیلولہ فرماتے تھے وہ آ پ کے پسینہ کو جمع کرکے عطر میں ملا لیتی تھیں۔(۳۶)

لوگوں سے گفتگو:

کا فی میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے:آنحضرت(ص) نے لوگوں سے کبھی اپنی عقل کے مطابق گفتگو نہ کی ا س کے بعد فر مایا کہ جناب رسول خدا (ص)نے فر مایا:
اِنَّامَعَاشِرَالْاَنْبِیَآءِ اُمِرْنَا اَنْ نُّکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُولِهمْ:ھم تمام انبیاء کو حکم دیاگیا ھے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو کریں۔(۳۷)
یہ حدیث کتاب محاسن،امالی صدو(رہ)ق اور تحف العقول میں بھی ھے۔(۳۸)

لوگوں سے رعایت کاحکم:

امالی طوسی(رہ) میںنبی کریم صلی الله علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ھے:ھم تما م انبیاء کو جس طرح تما م واجبات کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ھے اسی طرح لوگوں کی رعایت کرنے کا بھی حکم دیا گیا ھے۔(۳۹)

لوگوں کے ساتھ رعایت:

کافی میںحضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے مر وی ھے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا:جس طرح میرے پر وردگار نے مجھے فرائض کی ادائیگی کاحکم دیا ھے اسی طرح لوگوں کے ساتھ رعایت کر نے کا بھی حکم دیا ھے۔(۴۰)
یہ حدیث تحف العقول،خصا ل ومعانی الاخبار میں بھی مر وی ھے۔(۴۱)

نبی(ص) کااخلاق ،قرآ نی ھے:

محجة البیضا ء میں سعد بن ھشام سے مر وی ھے:میں نے عائشہ سے آنحضرت(ص) کے اخلاق کے متعلق سوال کیا توانھوں نے کھا:کیا تم نے قرآ ن نھیں پڑھا؟
میں نے کھا: کیوں؟عائشہ نے کھا:آنحضرت(ص) کااخلاق، قرآن ھے۔(۴۲)
یہ حدیث ،مجموعہٴ ورّام(رہ) میں بھی ھے۔(۴۳)

اھل بیت علیھم السلام کی جوان مر دی:

تحف العقول میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے:ھم اھل بیت علیھم السلام کی جوان مر دی یہ ھے کہ جس نے ھما رے او پر ظلم کیا ھے ھم اسے بخش دیتے ھیں اور جو ھمیں محروم ر کھتا ھے ھم اس کے ساتھ بخشش کرتے ھیں۔(۴۴)
امالی صدو(رہ)ق میں بھی اس پھلے معنی کی روایت کی گئی ھے۔(۴۵)

فقیروں سے محبت:

کافی میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے :میرے رب نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں مسلمان فقیروں سے محبت کروں۔(۴۶)

حُسن خلق ،اخلاق انبیا(ع)ء :

ارشاد دیلمی(رہ) میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مر وی ھے:صبر،سچائی ، بردباری،اور حسن خلق یہ سب انبیاء(علیھم السلام) کے اخلاق میں سے ھیں۔(۴۷)

آنحضرت(ص) کی اخلاقی دعا:

محجة البیضاء میں منقول ھے:آنحضرت(ص) خدا کی بارگاہ میں بھت تضرع وزاری کرتے تھے اور برابر خدا سے دعا کر تے تھے کہ انھیں آداب ومکارم الاخلاق سے آراستہ کرے،وہ اپنی دعا میں فرماتے تھے:
اَللّٰهمَّ حَسِّنْ خُلْقِیْ؛(وَیَقُوْلُ:) اَللّٰهمَّ جَنِّبْنِیْ مُنْکَرَاتِ الْاَخْلَاقِ: خدایا! میرا اخلاق اچھا بنا دے!خدایا! مجھے برے اخلاق سے دور رکھ!(۴۸)

بداخلاقی کی آفت :

مجالس صدو(رہ)ق میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے: جبرئیل (علیہ السلام) خدا کی جا نب سے میرے پاس نازل ھو ئے اورانھوں نے کھا”:یَامُحَمَّدُ!(صلّی الله علیه و آله وسلّم)عَلَیْکَ بِحُسْنِ الْخُلْقِ:اے محمد!(صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم) آپ اچھے اخلاق سے پیش آ یئے کیونکہ برے اخلاق سے دنیا وآخرت کی بھلائی ختم ہوجا تی ھے۔“
پھر آنحضرت(ص) نے فرمایا:” تم میں سے وہ شخص مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ھے جو اخلاق میں سب سے اچھاھے۔“(۴۹)

آنحضرت(ص) کامزاح،باعث رحمت :

شھید ثا(رہ)نی کی کتاب کشف الریبہ میں حسین بن زید سے مر وی ھے:میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا:
میں آپ پر فدا ہوجاوٴں کیا آنحضرت(ص) کسی سے شوخی کرتے تھے؟
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:خدا نے آنحضرت(ص) کے لئے ار شاد فر مایا کہ وہ خلق عظیم پر فائز ھیں خدا نے جتنے بھی انبیا(ع)ء بھیجے ان کے اندر کچھ گر فتگی(ملال)ہوتاتھا لیکن حضو(ص)رکومکمل رافت ورحمت کے ساتھ مبعوث فر مایا ان کی ایک مھر بانی یہ تھی کہ اپنے اصحاب سے مزاح فر ماتے تھے تا کہ ان کی عظمت و بزر گی سے وہ مر عوب نہ ہوں ان کی طرف نظرکرسکیں اور حضور(ص) سے اپنی ضرورتوں کو بیا ن کر سکیں۔

اصحاب کو خوش کرنا:

اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)نے فر مایا:میرے پدر بزر گوار نے اپنے آبا ئے طاھرین علیھم السلام سے انھوں نے حضرت علیں سے روایت کی ھے:جب آنحضرت(ص) اپنے کسی صحابی کو غمگین ورنجیدہ دیکھتے تو شوخی کرکے اسے خوش کر دیتے تھے اور فر ما تے تھے:
”جوشخص تر شروئی کے ساتھ اپنے بھائیوں سے ملاقا ت کر تا ھے خدا وندعالم اس پر غضبناک ھو تا ھے ۔“(۵۰)

تمام چیزوں کے متعلق گفتگو:

مکارم الاخلاق میں زید بن ثابت سے مروی ھے:ھم جب بھی آنحضرت(ص) کے ساتھ بیٹھتے تھے اگر آخرت کے متعلق گفتگو ھو تی تو آ پ بھی ھما رے ساتھ اسی کی گفتگو کرتے اوراگرھم دنیا کے متعلق گفتگو کرتے تو آپ بھی یھی کرتے اسی طرح اگر ھم کھانے پینے سے متعلق گفتگو کرتے توآپ بھی اسی کے بارے میں گفتگو فر ماتے تھے۔(۵۱)

ابرو سے اشارہ نہ کرنا:

مناقب میں مر وی ھے:آنحضرت(ص) اپنی چشم مبارک اور ابرو سے اشارہ نھیں کرتے تھے۔(۵۲)

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت:

کشف الغمہ میں منقول ھے:آنحضرت(ص) نے اپنی ایک بیو ی سے فر مایا:کیا میں نے تم کو منع نھیں کیا تھا کہ کل کے لئے کچھ ذخیرہ نہ کرنا کیو نکہ خدا ھر آ نے والے کل کا رزق، عطا کرنے والاھے۔(۵۳)

راہ خدا میں زیارت:

کتاب دعائم الاسلام میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے:انبیاء،صدیقین،شھداء اور صالحین کا سب سے بھترین اخلاق یہ ھے :”وہ خدا کی را ہ میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ھیں۔“(۵۴)

چھرہ پر خوشی کے آثار:

مجموعہٴ ورّا(رہ)م میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے:انبیا(ع)ء وصدیقین کااخلاق یہ ھے کہ ملاقات کے وقت ان کے چھرہ سے خوشی کے آثار ظاھر ھو تے ھیںاور وہ مصافحہ بھی کرتے ھیں۔(۵۵)

مصافحہ میں پھل:

مناقب میں منقول ھے:جب آنحضرت(ص) کسی مسلمان سے ملاقات کرتے تو پھلے مصافحہ کرتے تھے۔(۵۶)

اصحاب سے سفارش:

احیاء العلوم میں منقول ھے:آنحضرت(ص) اپنے اصحاب سے فر ماتے تھے:”تم لوگ اپنی برائیاں مجھ سے بیا ن نہ کر نا کیو نکہ مجھے یہ پسند ھے کہ تمھارے پاس ھر کدورت سے خالی دل کے ساتھ رہوں۔“(۵۷)
یہ مکارم الاخلاق میں بھی مر وی ھے۔(۵۸)

تکلف سے ممانعت:

مصباح الشریعہ میں آنحضرت(ص) سے منقول ھے:ھم انبیاء،اُمناء اورا تقیاء، تکلف سے دور ھیں۔(۵۹)

ایک جامع پیغمبر(ص):

مذ کورہ کتاب میں آنحضرت(ص) سے منقول ھے: میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں تا کہ علم وحلم اور صبر کا مرکز بنوں۔(۶۰)

آنحضرت(ص) کی بے تکلفی:

مکارم الاخلاق میں ابوذرۻ سے مروی ھے:آنحضرت(ص) اپنے اصحاب کے درمیان بغیر کسی امتیاز کے بیٹھتے تھے اگر کو ئی اجنبی آتاتھا تو وہ حضر(ص)ت کو بغیر پو چھے نھیں پہچانتا تھا ھم نے حضو(ص)ر کی خد مت میں عرض کیا:”آپ ایک خاص جگہ تشریف رکھا کریں تا کہ ھر نوواردشخص آپ کو پہچان جا ئے ۔“
اس کے بعد ھم نے آپ کے لئے مٹی کا ایک چبوترہ بنادیا آپ اس پر بیٹھتے اور ھم تمام اصحاب دونوں طرف بیٹھتے تھے۔(۶۱)

گفتگو کے وقت سب کی طرف تو جہ ر کھنا:

مجموعہ ورّام(رہ) میں ھے:آنحضرت(ص) کی ایک سنت یہ ھے کہ جب تم چندلوگوں سے گفتگو کرو تو صرف کسی ایک کی طرف تو جہ ونظر نہ کرو بلکہ سب کی طرف توجہ کرتے ر ہو۔(۶۲)

خود ھی سارے کا م انجا م دینا:

اسی کتاب میں ھے:آنحضرت(ص) اپنے لباس میں خودھی پیوند لگا تے تھے، نعلین کی سلائی خود ھی کر تے تھے، آپ گھر کے اندر سب سے زیا دہ جوکا م کرتے تھے وہ خیاطی کاتھا۔(۶۳)

انتقام صرف حدودِ الٰھی کی بناپر:

اسی مجموعہ میں ھے:آنحضرت(ص) نے کبھی اپنے غلاموں اور کنیزوں کو راہ خدا کے علاوہ نہ مارا، کبھی اپنے لئے کسی سے انتقام نہ لیا صرف وھیں اس طرح کا اقدام کیا جھاں حدود الٰھی میں سے کسی حد کا اجراء مقصود ھو تا تھا۔(۶۴)

انبیا(ص)ء کا مشترک اخلاق:

کافی میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقو ل ھے:خدا نے جس نبی کو مبعوث کیا اسے سچائی اور امانت داری کا حکم دیا چا ھے وہ امانت کسی نیک انسان کی ھو یا بد کردار کی۔ یہ روایت تفسیر عیاشی (رہ)میں بھی ھے۔(۶۵)
عیاشی(رہ)نے بھی اپنی تفسیرمیں اس معنی کی روایت کی ھے۔(۶۶)

امانت میں خیانت نہ کرو:

”مجموعہ“ میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مر وی ھے : امانت میں خیانت نہ کرو کیونکہ آنحضرت(ص) کو سوئی اور دھاگہ بطور امانت دیا جا تا تھا تو اسے بھی صاحب امانت کو واپس کر دیتے تھے۔(۶۷)

وعدہ وفائی:

”مکارم الاخلاق“ میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مر وی ھے:ا ٓنحضرت(ص) نے ایک شخص سے وعدہ کیا:” فلاں پتھر کے پاس میں تم سے ملوں گا تم آنا!“
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:اس چٹان کے پاس حضو(ص)ر کو شدید گر می لگی اصحاب نے عرض کیا:اگرآپ سایہ میں آ جا ئیں تو کیا حرج ھے؟!
فرمایا:”اسی جگہ اس سے ملنے کا وعدہ کیا ھے لہٰذا میں یھیں پر اس کاانتظار کرتا رہوں گا اگر وہ نہ آ ئے تواس کی طرف سے وعدہ خلافی ھو گی۔“(۶۸)

اھل بیت علیھم السلام کی ذمہ داری :

”محاسن“ میں حضرت علی (علیہ السلام)سے مروی ھے :ھم اھل بیت علیھم السلام کی یہ ذمہ داری ھے : کھانا کھلائیں ،حادثات میںلوگوں کو پناہ دیں اور جب سب لوگ سوتے ھیں اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول ہوں۔(۶۹)
یہ روایت کافی میں بھی ھے ۔(۷۰)

مھمان سے کام نہ لینا:

کافی میں منقول ھے کہ حضرت امام علی رضاں کی خدمت میں ایک مھمان آیا مولا نے رات میں کچھ دیر اس سے بات کی چراغ کی روشنی کم ہوگئی مھمان نے اصلاح کے لئے ھاتھ بڑھایا امام (علیہ السلام)نے روک دیا خود بتّی کو درست کیا اور فرمایا: ”اِنَّا قَومٌ لانَسْتَخْدِمُ اَضْیَافَنَا: ھم اھل بیت( علیھم السلام) کو یہ بات پسند نھیں کہ اپنے مھمان سے کوئی کام لیں۔“(۷۱)

ھم مھمان کے جانے پراس کی مدد نھیں کرتے :

امالی صدو(رہ)ق میں مروی ھے:قبیلہٴ جہنیہ کے کچھ لوگ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)کی خدمت میں آئے امام (علیہ السلام) نے استقبال کیا ان کی خاطر تواضع کی جب وہ جانے لگے تو انھیں زاد راہ ،صلہ و عطیہ دیا پھر اپنے غلاموں سے فرمایا:”سامان باندھنے میں ان کی مدد نہ کرنا!“
جب وہ لوگ سامان باندھ چکے تو عرض کیا:فرزند رسول(ص)!آپ نے ھماری بھت اچھی طرح خاطر تواضع کی لیکن آخر میں غلاموں کو سامان باندھنے سے کیوں روک دیا؟
امام(علیہ السلام) نےفرمایا: ھم اپنے یھاں سے جانے میں مھمانوں کی مدد نھیں کرتے۔(۷۲)

مھمان کے ساتھ کھانا :

کافی میں مروی ھے کہ جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں کوئی مھمان آتا تھا تو آپ اس کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے جب تک مھمان کھانے سے اپنا ھاتھ نھیں کھینچتا تھا آپ اس کے ساتھ کھاتے رھتے تھے ۔(۷۳)

مھمان کو رخصت کرنا:

احیاء العلوم میں ھے :ایک سنت یہ ھے کہ گھر کے دروازہ تک مھمان کو رخصت کیا جائے۔(۷۴)

رزق میں خدا پر توکل:

کافی میں ابن بکیر ناقل ھیں:اکثر ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ھمیں موٹی تنوری روغنی روٹی اور حلوا کھلاتے تھے اس کے بعد روٹی اور روغن زیتون کھلاتے تھے ۔
امام (علیہ السلام)سے کھاگیا :اگر آپ اس میں کچھ کمی کردیں تو زندگی میں اعتدال پیدا ہوجائے گا۔ فرمایا:ھم حکم خدا کے مطابق تدبیر کرتے ھیں جب ھمارے رزق میں وسعت ہوتی ھے تو ھماری زندگی میں گشادگی ہوتی ھے اور جب خدا، تنگی کرتا ھے تو ھم قناعت کرتے ھیں۔(۷۵)

آنحضرت(ص) کا طریقہ یہ نھیں ھے:
مجموعہ ورّرا(رہ)م میں منقو ل ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے فر مایا:جو تم سے محبت سے ملتا ھے اسے ا س کے عیوب کا طعنہ نہ دو اور جس گناہ میں وہ مبتلا ھے اس کا پر چار نہ کرو کیو نکہ یہ طریقہ نہ تو نبی(ص) کا ھے اور نہ اولیائے الٰھی کا۔(۷۶)

معمولی تحفہ قبو ل کر نا:

کتاب ”فقیہ“ میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے:اگر مجھے کسی گوسفند کے پایہ کی دعوت دی جا ئے تب بھی میں قبول کر لوں گا اور اگر اسے تحفہ کے طور پر لائیں توبھی قبول کرلوں گا۔( ۷۷)
کا فی میں(صرف) دوسرا جملہ مروی ھے۔(۷۸)

آنحضرت(ص) کا مشورہ:

”محاسن“ میں مُعَمَّر بن خلادسے مروی ھے:حضرت امام علی رِضا (علیہ السلام)کاسعد نامی ایک غلام دنیا سے گزر گیاامام (علیہ السلام) نے فر مایا:مجھے کسی صاحب علم اور امانت دار کا پتا بتاوٴتاکہ اسے سعد والی جگہ پر معین کردوں۔
میں نے عرض کیا-:میں آپ کو بتاوٴں؟!
امام (علیہ السلام)نے غصہ کے عالم میںفر مایا:آنحضرت(ص) اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے پھر جس چیز کا ارادہ کرلیتے تھے اس پر با لکل پختہ طر یقہ سے جم جاتے تھے۔(۷۹)

آنحضرت(ص) کا مناظرہ:

احتجاج میںحضرت امام حسن عسکری(علیہ السلام)سے مروی ھے:میں نے اپنے پدر بزر گوار سے عرض کیا:جب یہود و مشرکین آنحضرت(ص) سے دشمنی رکھتے تھے تو کیا آپ ان سے منا ظرہ کرتے تھے؟میرے بابا نے فرمایا:ھاں!اکثر منا ظرہ فرمایا کر تے تھے۔(۸۰)
یہ حدیث، تفسیرامام حسن عسکری (علیہ السلام)میں بھی مروی ھے۔(۸۱)

لوگوں سے نزاع کی ممانعت :

امالی صدو(رہ)ق میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے:سب سے پھلی چیز جس سے میرے رب نے مجھے منع کیاوہ” نزاع“ ھے۔(۸۲)

کبھی ”نھیں “نہ کھا:

بحار میں دعوات راوندی(رہ) سے منقول ھے حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا:جب آنحضرت(ص) سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتااگر وہ کام آپ کی مرضی واراد ہ کے مطا بق ھو تا تو آپ فرماتے : نَعَمْ!(ھاں!)اور اگر خلاف ھو تا تو خاموش رھتے لیکن کبھی لا(نھیں)نھیں کھتے تھے۔(۸۳)

حلقہ وار نشست :

مکارم الاخلاق میں انس سے مروی ھے:جب ھم آنحضرت(ص) کی خدمت میں ھو تے تو حلقہ بناکر بیٹھ جاتے تھے۔(۸۴)

اصحاب و ملائکہ کی ھمراھی:

اسی کتاب میں جا برص سے منقو ل ھے:جب آنحضرت(ص) باھر نکلتے تو اصحاب آگے آگے اور فرشتے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔(۸۵)

فوجیوں کے ساتھ مھر بانی:

مکارم الاخلاق میں جابر (رض)سے مروی ھے:آنحضرت(ص) جنگوں میں سب سے پیچھے چلتے تھے فوجیوں کے لئے دعا فر ماتے تھے اگر کسی کمزور کے لئے راستہ چلنا مشکل ہوتاتھاتو اسے اپنے پیچھے سوار کر لیتے اورمھر با نی کے ساتھ لشکر تک پہنچا دیتے تھے۔(۸۶)

متاع دنیا کی طرف نہ دیکھنا:

مجمع البیان میں ھے:آنحضرت(ص) دنیا کی ایسی چیزوں کی طرف نھیں دیکھتے تھے جوغرور ودلبستگی کا باعث بنیں۔(۸۷)

نماز،غم والم کودورکرتی ھے:

مجمع میں ھے:جب آنحضرت(ص) کسی چیز سے محزون ھو تے تھے تو نماز کی پناہ لیتے تھے۔(۸۸)

ظاھر میں بندوں کے، با طن میں خدا کے ساتھ:

نیز اسی کتاب میں ھے:اگر چہ آنحضرت(ص) اپنے نیک اخلاق کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ معاشرت رکھتے تھے لیکن ان کا دل، جدا تھاآپ ظاھر ی طور پر مخلوق لیکن باطنی طور پر خالق کے ساتھ ہوتے تھے۔(۸۹)

آنحضرت(ص) کی خلوت:

بحار میں مروی ھے:آنحضرت(ص) اپنے لئے خلوت وتنھا ئی کو پسند کرتے تھے۔(۹۰)

ھر حال میں ذِکر:

مجمع البیان میں حضرت ام سلمہ(رضی الله تعالٰی عنھا) سے مر وی ھے: آنحضرت(ص) اٹھتے، بیٹھتے اور آتے جا تے وقت یہ ذکر پڑھتے تھے:
سُبْحَانَ اللّٰه وَبِحَمْدِه اَسْتَغْفِرُ اللّٰه وَ اَتُوْبُ اِلَیْه، جب ھم نے علت دریا فت کی توفرمایا:مجھے خدا کی طر ف سے اس کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ھے اس کے بعد آپ نے اِذَاجَآءَ نَصْرُ اللّٰه وَالْفَتْحُ کی تلاوت کی۔(۹۱)

سات(۷) خصلتیں:

بحارالانوار میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے:میرے رب نے مجھ سے سات (۷) چیزوں کی سفارش کی ھے:چھپا کر اور ظا ھر میں ھر کام فقط خدا کے لئے کروں، جو مجھ پر ظلم کرے اسے بخش دوں،جو مجھے محروم کرے اسے عطا کروں،جو مجھ سے تعلقات ختم کر ے اس کے ساتھ صلہٴ رحم کروں،جب خامو ش ر ہوں تو غور و فکر کروں اور جب دیکھوں تو عبرت حاصل کروں۔(۹۲)

غلاموں کے ساتھ تعاون:

مناقب میں ھے:آنحضرت(ص) اپنی نعلین اور لباس خود سلتے،دروازہ خودکھولتے ، بکری کا دودھ دوھتے،اونٹنی کو باندھتے پھر دودھ دو ھتے اور جب آپ کا خادم خستہ ھو جا تا تھا تو اس کے ساتھ چکی بھی چلاتے تھے۔

گھر والوں کے ساتھ تعاون:

آنحضرت(ص) نماز شب کے وضو کے لئے پا نی خود ھی رکھتے تھے، پیدل چلنے میںکو ئی آپ پر سبقت نھیں کر تاتھا،بیٹھتے وقت کسی چیز پر ٹیک نھیں دیتے تھے، گھر کے کاموں میں مدد فرماتے اور اپنے دست مبارک سے گوشت کی بوٹیاں بناتے تھے۔

آداب طعام:

دستر خوان پر غلا موں کی طرح بیٹھتے تھے، کھانے کے بعدانگلیاں چاٹتے تھے اور کبھی اتنا ز یا دہ کھانا نوش نہ فر ماتے کہ ڈکارآنے لگے۔
آنحضرت(ص) ھر ایک غلام اورآزادشخص کی دعوت قبول فرماتے تھے چاھے ذِراع (دست کے گوشت) کی دعوت دی جا ئے یا کِراع(پایہ)کی،نیز تحفہ قبول فرما تے تھے چاھے ایک گھونٹ دودھ ھی کیوں نہ ہو،تحفہ دی ھو ئی چیز کو نوش فرماتے تھے لیکن صدقہ نھیں کھا تے تھے۔
کسی کی طرف ٹکٹکی با ندھ کر نھیں دیکھتے تھے،آپ کا غضب صرف خدا کے لئے تھا اپنے لئے کبھی غصہ نہ کیا، کبھی بھوک کی شدت میںشکم مبارک پر پتھر باندھتے تھے،ماحضر تناول فر ما تے تھے اور مو جود چیز کو نھیں ٹھکراتے تھے۔

لباس پیغمبر(ص):

آنحضرت(ص) ایک ساتھ دو لباس نھیں پہنتے تھے کبھی دھاری دار بردیمانی پہنتے اور کبھی پشمینہ (اُون کی)عبا کو او پر سے ڈال لیتے تھے اسی طرح رو ئی اور کتا ن کے لباس بھی پہنتے تھے،آپ کے اکثرلباس سفید تھے،پیراہن کو دا ہنی طرف سے پہنتے تھے،جمعہ کے لئے ایک مخصوص لباس تھا ، جب نیا لباس پہنتے تو پرانا فقیر کو دے دیتے تھے، جب کسی جگہ بیٹھتے توعبا دھری تہ کر کے لوگ بچھا دیتے تھے، داہنے ھاتھ کی چھوٹی انگلی میں چا ندی کی انگوٹھی پہنتے تھے۔

معاشرہ کے لئے پیغمبر(ص) کی سیرت:

آنحضرت(ص) کو تر بوز پسند تھا،بد بو پسندنھیں تھی، وضو کے وقت مسواک کرتے تھے، اپنی سواری پر اپنے غلام یا دوسرے کو پیچھے بیٹھا لیتے تھے،آپ سواری کے ھر قسم کے جانور مثلاً گھوڑے، گدھے اور خچر پر سوار ھو تے تھے، گدھے کی بر ہنہ پشت پر بغیر زین کے صرف لگا م کے ساتھ سوار ہوجاتے تھے کبھی ایسا بھی ھو تا کہ بغیر عبا،عما مہ،عر قچین(ٹوپی)کے ننگے پاوٴں پیدل نکل جا تے ، جنازے کی مشایعت کر تے، دوردور تک جا کر بیماروں کی عیا دت کرتے،فقراء کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے،اپنے دست مبارک سے انھیں کھانادیتے،جوشخص اخلاق میں صاحب فضل ہوتا اس کا احترام کرتے،عزت دارلوگوں سے الفت اور ان کے ساتھ نیکی کرتے ،اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہٴ رحم کرتے تھے البتہ انھیں دوسروں پر ترجیح نھیں دیتے تھے، کسی پر ظلم نھیں کر تے تھے، معذرت کرنے والوں کا عذر قبول فر ما تے ،جس وقت قرآن نازل نھیں ہوتا تھا ا س وقت لوگوں کو نصیحت کرتے، حضرت(ص) کی مسکراہٹ دوسرے لوگوں سے زیادہ تھی اگر کبھی ہنستے تو قہقہہ کے ساتھ نھیں ہنستے تھے۔

پاکیزہ کلام:

آنحضرت(ص) اپنی خوراک اور پوشاک ،غلاموں اور کنیزوں سے بھتر اختیار نہ فرماتے،کبھی کسی کو برا بھلا نہ کھا،کبھی کسی عورت یا خا دم پر لعنت نہ کی،جب آپ کے سامنے کسی کی ملامت کی جا تی توآپ فر ما تے :اسے چھوڑو تم سے کیا مطلب!
جب کو ئی آزاد یا غلام یا کنیز کسی حاجت کے لئے آ تے تو پو ری کر تے تھے،آپ نے کبھی تندی و بداخلاقی نہ کی،بازار میں آواز بلند نہ کر تے،دوسروں کی برا ئی کا جواب برائی سے نہ دیتے بلکہ نظر انداز کر کے معاف کردیتے تھے اور جس سے بھی ملتے تھے پھلے خود سلام کرتے تھے۔

کاموں میں تعاون:

جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں کو ئی کسی کا م سے آتا توآپ صبر کے ساتھ تعاون فر ماتے تاکہ وہ کا م عملی طور پر انجام پا جا ئے یا وہ شخص اپنا ارادہ ھی بدل دے، کبھی ایسانہ ہوا کہ کسی نے مصافحہ کیا ھو اور آپ نے اس سے پھلے اپنا دست مبارک کھینچ لیاہو،جب مسلمان سے ملتے تو پھلے خود سلام کرتے تھے۔

ضرورت مندوں کے ساتھ تعاون:

آنحضرت(ص) اٹھتے بیٹھتے ذکر خدا کر تے تھے،اگر نماز میں مشغول ھو تے اور کو ئی پھلو میں بیٹھ جاتا تو نماز کومختصر کر کے ختم کر دیتے پھر اس کی طرف متو جہ ھو کر پوچھتے تھے:” کیاکوئی ضرورت پیش آگئی ھے؟“

نشست وبرخاست کے آداب:

آنحضرت(ص) اکثر اوقات اس طرح بیٹھتے تھے:دونوں پنڈلیوں کو بلند کر لیتے اور دونوں دست مبارک کو آ گے سے حلقہ بنا لیتے تھے(اکڑوبیٹھتے تھے)جب کسی مجمع میں جا تے تو سب سے پھلے جو خا لی جگہ ھو تی وھیں بیٹھتے اور اکثر اوقات قبلہ رخ بیٹھاکرتے تھے،آپ کی خدمت میں جو کو ئی بھی آ تااس کااحترام کر تے کبھی کبھی اپنا لباس بچھا کر اس پر بیٹھا دیتے یااسے اپنے بستر پر بیٹھا لیتے تھے،خوشی اور غصہ میں صرف حق با ت کھتے تھے۔

پسندیدہ پھل:

آنحضرت(ص) کھیرے اور ککڑی کو کھجور اور نمک کے سا تھ کھا تے تھے،تمام پھلوں میں خر بوزہ اور انگور سب سے زیادہ پسند فر ما تے تھے،اکثر آپ کی غذا، پا نی اور کھجور ہوا کر تی تھی ،دودھ کو کھجور کے ساتھ نوش فر ما تے اور کھتے تھے:” یہ دونوں پاکیزہ غذائیںھیں۔“
آنحضرت(ص) کے نزدیک گوشت سب سے اچھی غذاتھی، ثرید(آبگوشت: گوشت کے شو ر بے میں روٹی کے بھیگے ھو ئے ٹکڑے )کو گوشت کے ساتھ کھا تے، حضو(ص)ر کو کدو بھی پسند تھا ،جس حیوان کا شکار کیا جا تا اس کا گو شت کھا تے لیکن خود شکار نھیں کر تے تھے،کبھی روٹی پر گھی لگا کر کھا لیتے تھے ، بکری کے گوشت میںھاتھ اور شانہ کا حصہ پسند تھا ،پکی ھو ئی چیزوں میں کدو اور خورش میں سرکہ پسند تھا، کھجوروں میں عَجوہ(عمدہ وپختہ کھجور) پسند فر ما تے تھے، سبزیوں میں کا سنی، ریحان کوھی اور کرم کلہ کو دوست رکھتے تھے۔(۹۳)

فقیرانہ زندگی:

تفسیر شیخ ابو الفتوح(رہ) میں ھے:آنحضرت(ص) اپنی دعا میں فر ماتے تھے:
اَللّٰهمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً،وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَةِ الْمَسَاکِیْنِ : خدایا!مجھے مسکین کی طرح زندہ رکھ! مجھے فقیرانہ مو ت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ میں محشور فرما!(۹۴)

زکوٰة لیتے وقت دعا:

اسی کتاب میں ھے:جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں کو ئی زکوٰة لے کر آ تاتو اس کے لئے اس طرح دعا فر ما تے:اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ فُلانٍ:خدایا! فلاں کی آل اورخاندا ن پر رحم فرما!(۹۵)


فال نیک:

مکارم الاخلاق میں ھے:آنحضرت(ص) کواچھی پیش گوئی پسند تھی آپ کو بد شگونی پسند نھیں تھی۔(۹۶)

حضو(ص)ر کی بزم میں جھوٹ!

کتاب جعفر یا ت میں منقول ھے کہ حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا: اگر آنحضرت(ص) کے پاس کو ئی جھوٹ بو لتا تو آپ مسکراکر فر ما تے:اِنَّه لَیَقُوْلُ قَوْلًا:یہ لغو با ت کہہ ر ھا ھے!(۹۷)


تین (۳)با ر تکرار:

جب آنحضرت(ص) گفتگو فر ما تے یا آ پ سے سوال کیا جا تا تو تین(۳) با ر تکرار فر ماتے تھے تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے اور دوسرے بھی حضر(ص)ت کی طرف متو جہ ھو جا ئیں۔(۹۸)

آیت سلام کا نزول:

تفسیر قمی میں ھے:جب آنحضرت(ص) کے اصحاب آ پ کی خدمت میں آ تے تو اَنْعِمْ صَبَاحاً وَاَنْعِمْ مَسَاءً:صبح بخیر اور شب بخیر کھتے تھے یہ دور جا ھلیت کا سلام تھا خدا نے یہ آ یت نا زل کی:وَ اِذَاجَآءُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَالَمْ یُحَیِّکَ بِه اللّٰه :جب لوگ تمھا رے پاس آ تے ھیںتو اس طرح سلام کھتے ھیں جو خدا نے نھیں کھا ھے۔(مجادلہ:۵۸۸)
اس کے بعد حضور(ص) نے فر مایا: خدا نے اس کا نعم البدل ھما رے لئے قرار دیا ھے جو اھل جنت کا طر یقہ ھے وہ اس طرح سلام کر تے ھیں:اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ۔(۹۹)
باب شما ئل میں معانی الاخبار کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ھے کہ آنحضرت(ص) جس سے ملاقات کر تے پھلے خودسلام کر تے تھے۔(۱۰۰)

سلام کا جواب بھتر وبیشتر ہو:

تفسیر ابو الفتوح(رہ) میں ھے:جب کو ئی مسلمان آنحضرت(ص) سے اس طرح سلام کر تا تھا:سَلامٌ عَلَیْکَ توآپ اس طرح جواب دیتے تھے:وَعَلَیْکَ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللّٰه۔
جب کو ئی اس طرح سلام کرتا:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اللّٰه توآپ اس طرح جواب دیتے تھے:وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰه وَبَرَکَاتُهاس طرح سے آپ جواب میں کچھ اضافہ کر دیتے تھے۔(۱۰۱)

لڑکی کی ولادت پرخوشی:

جعفر یا ت میں حضرت علیں سے منقو ل ھے:جب آنحضرت(ص) کو کسی لڑکی کے پیدا ھو نے کی خبر دی جا تی تھی تو فر ما تے تھے:رَیْحَانَةٌ وَرِزْقُهاعَلَی اللّٰه:یہ ریحانہ (خوشبو دار پھول) ھے اس کا رزق ،خداوندعالم دے گا۔(۱۰۲)

فقراء کے لئے زکوٰة وصدقہ:

در راللئالی میں آنحضرت(ص) سے مروی ھے :مجھے حکم دیا گیا ھے کہ مالداروں سے زکوٰة اور صدقہ لے کر فقیروں کو دوں۔(۱۰۳۲)


تقسیم زکوٰة:

کا فی میںمر وی ھے:آنحضرت(ص) دیھات کی زکوٰة کو دیھاتیوں اور شھروں کی زکوٰة کو شھریوں میں تقسیم فر ما تے تھے۔(۱۰۴)
اس روا یت کو اسی طرح بعینہ احمد(رہ) بن علی(رہ) نے احتجاج میں نقل کیا ھے۔(۱۰۵)


میری تر بیت، خدانے کی ھے:

مکارم الاخلاق میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے:میری تر بیت خدا نے کی ھے اور حضرت علیں کی تر بیت میں نے کی ھے خدانے مجھے بخشش اور نیکی کا حکم د یا ھے، اس نے کنجو سی اور ظلم سے منع کیا ھے۔(۱۰۶)

ھر چیزکی بخشش:

تفسیر ابو الفتوح (رہ)میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے:جو ھم سے سوال کر تا ھے اگر ھمارے پاس کو ئی چیز مو جود ھو تی ھے تو ھم دریغ نھیں کر تے یعنی دے دیتے ھیں۔ (۱۰۷)
اسی مضمون کی روا یت،فقہ الرضاں میں بھی منقول ھے۔(۱۰۸)

فراموشی کے وقت، دعا:

جعفر یات میں منقول ھے:جب آنحضرت(ص) کو ئی چیز فراموش کر تے تھے تو پیشانی کو ھتھیلی پر رکھ کریہ دعا پڑھتے تھے:اَللّٰهمَّ لَکَ الْحَمْدُ،یَامُذَکِّرَ الشَّیْءِ وَفَاعِلَہ ذَکِّرْنِیْ مَانَسِیْتُ:خدایا! ساری تعریفیں تیرے لئے ھیں اے ھر چیز کو یا د دلا نے اور انجام دینے والے! جس چیز کو میں بھول گیا ہوں مجھے یاد دلا دے!(۱۰۹)
توضیح:اکثر شیعہ علماء منجملہ شیخ بھا(رہ)ئی کے نزدیک معصوم نبی،نسیان (فراموشی) کی بیما ری میں مبتلا نھیں ھو تا ھے ۔مترجم اردو۔

چھ (۶) نا پسندیدہ خصلتیں:

امالی صدو(رہ)ق میں آنحضرت(ص) سے مر وی ھے:خدا نے میرے لئے چھ(۶) خصلتوں کو پسند نھیں کیا ھے میں بھی انھیں اپنے اوصیاء اور تابعین کے لئے پسند نھیں کر تاہوں:۱۔نماز میں کھیل ۲۔ روزہ میں بری باتیں بکنا۳۔صدقہ دے کر احسان جتانا۴۔ حالت جنا بت میں مسجد میں داخل ہونا۵۔ لوگوں کے گھروں کے بارے میں اطلاع حاصل کرنا۶۔قبر ستان میں ہنسنا۔(۱۱۰)

انبیاء (علیھم السلام )کی چار خصلتیں:

تحف العقو ل میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ھے :انبیاء (علیھم السلام )کے اندر چار(۴) خصلتیں موجود ھو تی ھیں:نیکی،بخشش، مصیبتوں میں صبر اور حقوق مومنین کے متعلق قیام کرنا۔(۱۱۱)

انگوٹھی کے نگینہ کی طرف دیکھنا:

جعفریات میں حضرت علی (علیہ السلام)سے مر وی ھے:آنحضرت(ص) اپنی انگوٹھی کے نگینے کو ھتھیلی کی طرف کئے رھتے تھے اور اکثر اوقات اسے دیکھتے رھتے تھے۔(۱۱۲)

رات میں فصل کا ٹنے کی ممانعت:

تفسیر عیاشی(رہ) میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے منقول ھے: آنحضرت(ص) رات کے وقت کھجور توڑ نے اور کھیتی کاٹنے سے رو کتے تھے۔ (تاکہ فقیر محروم نہ رہ جا ئیں)(۱۱۳)

باغ کے پھل کی خیرات:

محاسن میں مر وی ھے:جب پھل پک جا تے تھے تو آنحضرت(ص) حکم دیتے تھے کہ دیواروں میں سوراخ کر دیئے جا ئیں۔ (تاکہ دوسرے لوگ بھی باغ کے اندر آکر پھل کھا سکیں)(۱۱۴)

فقیروں کوکھجوریں دینا:

قُرب الاسناد میں حضرت علی (علیہ السلام)سے مر وی ھے:آنحضرت(ص) کی خدمت میں کچھ نا دار لو گ آئے تو انصار اوراھل مدینہ نے کھا:بھتر ھے کہ ھم ھر نخلستان سے انھیںایک ایک خوشہ دے دیں۔اس کے بعد انھوں نے اس پر عمل کیا اور آج تک یہ سنت بن گئی۔(۱۱۵)

سب سے بڑا سخی:

عوارف المعارف میں منقو ل ھے کہ جبرئیل (علیہ السلام)نے کھا:میں نے زمین کے تمام لوگوں کو اچھی طر ح پر کھ لیا اور ما ل دنیا کے سلسلہ میں آنحضرت(ص) سے زیا دہ سخی کسی کو نھیں پا یا۔(۱۱۶)

ضرورت مندوں سے گفتگو:

جعفریات میں حضرت علی (علیہ السلام)سے مر وی ھے :جب کو ئی ضرورت مند حضرت علیں کی خد مت میں آتاتھا تو فر ما تے تھے : لاعِلَّةَ!لاعِلَّةَ!کو ئی عیب نھیں، کو ئی بات نھیں!(۱۱۷)

بخشش کا وعدہ:

عوارف المعارف میں جابرص سے منقو ل ھے:کبھی ایسا نہ ہوا کہ آنحضرت(ص) سے کچھ مانگا گیا ھو اور انھوں نے کہہ دیا ھو :نھیں!
ابن عتیبہ کا بیا ن ھے:اگر آنحضرت(ص) کے پاس کو ئی چیز مو جود نھیں ھو تی تھی توبعد میں دینے کا وعدہ فرمالیتے تھے۔(۱۱۸)

لشکر بھیجنا:

اسی کتاب میں مر وی ھے:جب آنحضرت(ص) کسی طرف فوج بھیجتے تودن کے ابتدائی حصہ میں (دوپھر سے پھلے) بھیجتے تھے۔(۱۱۹)

لشکر بھیجتے وقت دعاکرنا:

کافی میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے:جب آنحضرت(ص) فوج بھیجتے تو ا س کے لئے دعا فر ما تے تھے۔(۱۲۰)

جنگ سے متعلق اطلاع:

قرب الاسناد میں حضرت امام علی رِضا (علیہ السلام)سے مر وی ھے:جب آنحضرت(ص) لشکر بھیجتے تھے تو سپہ سالار معین کر نے کے بعد اپنے معتمد کو بھی ساتھ لگا دیتے تھے تاکہ جنگ کے متعلق تمام خبروں کی اطلاع پاتے رھیں۔(۱۲۱)

فوج کو ھدایت:

کافی میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے :جب آنحضرت(ص) کسی لشکر کو بھیجتے تھے تو سپہ سالار کوخصوصی طور پر اور پو رے لشکر کو عمومی طور پر تقویٰ کی تا کید فر ما تے تھے اس کے بعد کھتے تھے:”خدا کا نام لے کر اس کی را ہ میں کا فروں سے لڑنا،خیانت نہ کرنا،مقتولین کی نا کیں نہ کاٹنا،بچوں اور ان لوگوں کو جو پھاڑ پر عبادت میں مشغول ھیں قتل نہ کر نا،کھجور کے درختوں میں آگ نہ لگا نا، انھیں پا نی میں نہ ڈ بونا، پھل دار در ختوں کو نہ کاٹنا،کھیتوں میں آگ نہ لگاناکیو نکہ تمھیں نھیں معلوم ممکن ھے کہ تمھیں کو ان کی ضرورت پڑ جا ئے ،حلال گوشت جانوروں کے ھاتھ پیر نہ کاٹنا ھاں! اپنے کھا نے بھر یہ کا م کرنا،جب مسلمانوں کے کسی دشمن سے ملاقا ت کر نا توا سے ان تین(۳) چیزوں میں سے ایک کی دعوت دینا:مسلمان ہوجاوٴ،جزیہ دو،جنگ بند کرو،اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو قبول کر لے تو تم بھی اس کی با ت ما ن جا وٴاور جنگ روک دو۔“(۱۲۲)
اس مضمون کی روایت،تہذیب، محاسن اور دعائم الاسلام میں بھی ھے۔(۱۲۳)

دشمن سے سامنا کر تے وقت کی دعا:

جعفر یا ت میں منقو ل ھے:جب آنحضرت(ص) دشمن کا مقابلہ کرتے تھے تو پیادہ اورسوارنیز اونٹوں پر سوار تمام لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر تے تھے اس کے بعد فرماتے تھے:”خدایا!تو میرا مدد گار ھے اور میری پنا ہ گا ہ ھے، مجھ سے خطرات کو دور کر! خدایا!میں تیری ھی مدد سے حملہ اور جنگ کررھا ہوں۔“(۱۲۴)
دعائم میں پھلا مضمون مر وی ھے۔(۱۲۵)

میدان جنگ کی دعا:

مجمع البیان میں مروی ھے:جب آنحضرت(ص) میدان جنگ میں حاضر ھو تے تو فرماتے تھے: ”رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ:خدایا! حق کے ساتھ حکم و فیصلہ کر!“(۱۲۶)

آنحضرت(ص) کی شجاعت:

نہج البلاغہ میں ھے کہ حضرت علیں نے معا ویہ کو ایک خط میں لکھا:جب جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے تو سب لو گ خوف سے خاموش ھو جا تے لیکن آنحضرت(ص) اپنے اھل بیت(علیھم السلام) کو آ گے بھیجتے اور اپنے رشتے داروں کے ذریعہ تلواروں اور نیزوں کی گرمی سے اصحاب کی حفاظت کرتے تھے۔(۱۲۷)

آنحضرت(ص) کی بیعت کاانداز:

مناقب میں مر وی ھے:جس وقت ما مون عباسی نے حضرت امام علی رِضا (علیہ السلام)کی ولایت کے لئے بیعت لینا چاھی توامام (علیہ السلام)نے فر مایا:آنحضرت(ص) لوگوں سے اس طرح بیعت لیتے تھے،اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے لوگوں سے بیعت لی اس وقت آپ کا دست مبارک لوگوں کے ھاتھوں کے او پر تھا۔(۱۲۸)

عورتوں سے بیعت:

جعفر یا ت میں منقو ل ھے:آنحضرت(ص) بیعت لیتے وقت عورتوں کی طرف ھاتھ نھیں بڑھا تے تھے بلکہ کسی ظر ف میں پانی منگاتے اپنا دست مبا رک اس میں ڈالتے پھر عورتوں کو حکم دیتے کہ پانی میں اپنا ھاٹھ ڈا ل دیںاس کے بعد فر ماتے تھے:”میں نے تم سے بیعت لے لی۔“(۱۲۹)
اس مضمون کی روایت تحف العقول میں بھی ھے۔(۱۳۰)

محرم لوگوں سے گفتگو:

دعائم میں منقول ھے:بیعت لیتے وقت آنحضرت(ص) کی ایک شر ط یہ تھی کہ آپ عورتوں سے فرماتے تھے:”نا محرم آدمیوں سے گفتگو نہ کرو!“(۱۳۱)

بیکار مو من کی ملامت:

جامع الاخبار میں ابن عباسص سے مروی ھے:جب آنحضرت(ص) کسی کی طرف دیکھتے اور انھیں وہ بھلا معلوم ہوتاتھا تو پو چھتے تھے :”کیا کو ئی کام کرتاھے؟ “
اگر لوگ بتا تے کہ بیکار ھے تو حضر(ص)ت فر ماتے:”وہ میری نظروں سے گر گیا !“ لوگ پو چھتے : کیوں آپ کی نظروں سے گر گیا؟فر ماتے:” اگر مرد مو من بیکار رھے گا تو وہ اپنے دین کواپنی زندگی کاسرمایہ قراردے گا۔“(وہ اپنے دین کودنیاکے عوض فروخت کردے گا)۔(۱۳۲)

قرض، سنت ھے:

دعائم الاسلام میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے مر وی ھے:قرض دینا، کو ئی چیز وقتی طور پر دینا اور مھمان نوازی کر نا یہ سب چیزیں سنت ھیں۔(۱۳۳)

قرض کی نیک ادائیگی:

مجمع البحرین میں منقو ل ھے کہ آنحضرت(ص) خراب در ھم بطور قر ض لیتے تھے لیکن ادائیگی کے وقت صحیح وسالم دیتے تھے۔(۱۳۴)

چار محبوب افراد:

تفسیر عیا شی(رہ) میں آنحضرت(ص) سے منقو ل ھے:خدا وند عالم نے مجھے وحی کے ذریعہ حکم دیا ھے کہ میں ان چار(۴) افراد کو دوست رکھوں:حضرت علیں جناب ابوذرصجناب سلمان صاور جناب مقدادص ۔(۱۳۵)
اس مضمون کی روایت کو طبری(رہ) نے بھی کتاب الامامہ میں نقل کیا ھے۔(۱۳۶)

حضرت علی (علیہ السلام)کو دوست رکھو!

کتاب جعفر بن محمد میں آنحضرت(ص) سے منقو ل ھے:جبرئیل (علیہ السلام)نے میرے پاس آکر کھا: ”خدا تمھیں حکم دیتا ھے کہ حضرت علیں کو دوست رکھو اور دوسروںکو بھی ان سے دوستی ومحبت کاحکم دو!“(۱۳۷)

سات(۷) خصلتوں کا حکم:

اسی کتاب میں آنحضرت(ص) سے منقول ھے:خدا نے مجھے ان سات(۷) خصلتوں کا حکم دیا ھے:

۱۔ فقیروں کو دوست ر کھنا اور ان سے قر یب رہنا۔
۲۔لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللّٰه زیا دہ کہنا۔
۳۔اپنے رشتے داروں سے تعلقات بر قرار رکھنا چاھے وہ مجھ سے را بطہ ختم کرچکے ہوں۔
۴۔ دنیا وی اعتبار سے اپنے سے نیچے لوگوں کی طرف دیکھنا اپنے سے او پر والوں کی طرف نہ دیکھنا ۔
۵۔خدا کی راہ میں کسی ملا مت کر نے والے کی سر زنش کی پروا ہ نہ کر نا۔
۶۔ حق کہنا اگر چہ کڑواہو۔
۷۔ کسی سے ایک چیز کا بھی سوال نہ کرنا۔(۱۳۸)

فریب کا قصد تک نہ کرو!

عوارف المعارف میںآنحضرت(ص) سے منقول ھے:”جب تک تم میںتوا ئی اور طاقت ھو کوشش کرو کہ کسی کو رات یا دن میں دھو کہ دینے کا قصد بھی نہ کرنا کیو نکہ یہ میری سنت ھے جو میری سنت کو زندہ کرے گا گویا اس نے مجھ کو زندہ کیا اور جو مجھے زندہ کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں رھے گا۔“(۱۳۹)

مدارک و مآخذ

 

۱۔الکافی :۲۱۰۲۔
۲۔علل الشرائع:۵۰۶۔
۳۔ارشاد القلوب:۱۱۵۔
۴۔مکارم الاخلاق:۳۴۔
۵۔نقلہ عنہ فی المستدرک:۸۳۶۴۔
۶۔الفقیہ:۱۳۲۰،ح۹۴۷؛علل الشراےع:۳۶۶۔
۷۔الکافی:۲۶۴۸و۵۵۳۵؛المستدرک:۸۳۷۳۔
۸۔الکافی:۲۶۶۱؛مکارم الاخلاق:۲۶؛ المستدرک: ۸۴۰۰؛فیض القدیر :۵۸۵،۱۴۵ ،۲۳۳ ۔
۹۔مکارم الاخلاق:۲۳۔
۱۰۔الکافی:۲۶۷۱؛المستدرک:۸۴۳۷؛مکارم الاخلاق: ۱۷و۲۳۔
۱۱۔الکافی:۴۱۵۔
۱۲۔تفسیر العیاشی(رہ):۱۲۰۴،ح۱۶۴،سورة آل عمران۔
۱۳۔مکارم الاخلاق:۲۱۔
۱۴۔الکافی:۲۶۶۳؛مکارم الاخلاق:۲۱۔
۱۵۔المستدرک:۸۴۰۸؛مناقب آل ابی طالبں:۱۱۴۷؛عوارف المعارف:۱۳۳؛کشف الغمة: ۱۹۔
۱۶۔الکافی:۲۶۶۳ ؛مناقب آل ابی طالبں:۱۱۴۹؛بحار الانوار: ۱۶۲۵۹۔
۱۷۔الکافی:۲۶۶۱؛مکارم الاخلاق:۲۶؛ المستدرک: ۸۴۰۶۔
۱۸۔مکارم الاخلاق:۲۵۔
۱۹۔مکارم الاخلاق:۲۲۔
۲۰۔المستدرک:۹۷؛احیاء علوم الدین:۲۳۶۵۔
۲۱۔مکارم الاخلاق:۱۷۔
۲۲۔مکارم الاخلاق:۱۹۔
۲۳۔مکارم الاخلاق:۱۶؛رواہ ابن ابی فراس(رہ) فی مجموعتہ: ۴۶؛ السھروردی فی عوارف المعارف:۲۲۴و فیھما:عشر سنین ؛وفیض القدیر: ۵۱۵۲۔
۲۴۔احیاء علوم الدین:۲۳۶۵۔
۲۵۔احیاء علوم الدین:۲۳۸۱۔
۲۶۔احیاء علوم الدین:۲۳۶۶۔
۲۷۔احیاء علوم الدین:۲۳۶۶۔
۲۸۔احیاء علوم الدین:۲۳۷۹؛صحیح مسلم:۴۱۸۰۳۔
۲۹۔الکافی:۴۵۵؛تفسیر العیاشی(رہ):۲۲۸۹،ح۵۹؛تحف العقول:۳۵۱؛احتجاجہ مع سفیان الثوری۔
۳۰۔الکافی:۵۱۴۳؛ کمال الدین وتمام النعمة:۱۱۶۵؛ فیض القدیر: ۵۱۹۵؛ الخصال: ۶۲ح۸۸؛امالی الطوسی(رہ):۱۲۳۱؛تفسیر العیاشی(رہ):۲۹۳،ح۷۵؛ بشارة المصطفٰی( (ص)):۱۶۵؛ دعائم الاسلام: ۱۲۴۶و۲۵۸و۲۵۹،رواہ حسین بن عثمان بن شریک فی کتابہ؛راجع المستدرک:۷۱۲۲۔
۳۱۔الکافی:۵۳۱۴،و۸۱۴۷؛الاقبال:۲۸۳۔
۳۲۔الاقبال:۲۸۱۔
۳۳۔الکافی:۲۶۶۲؛مکارم الاخلاق:۲۶؛المستدرک:۸۴۰۳۔
۳۴۔غوالی اللئالی:۱۱۴۱؛المستدرک:۹۱۵۹۔
۳۵۔الکافی:۵۵۱۸؛الفقیہ:۳۴۶۸؛مکارم الاخلاق:۲۳۰۔
۳۶۔مناقب آل ابی طالبں:۱۱۲۴۔
۳۷۔الکافی:۱۳۲و ۸۲۲۳۔
۳۸۔المحاسن:۱۹۵؛ امالی الصدوق(رہ):۳۴۱؛ تحف العقول:۳۷۔
۳۹۔امالی الطوسی(رہ):۲۱۳۵۔
۴۰۔الکافی:۲۱۱۷؛مشکاة الانوار:۱۷۷۔
۴۱۔تحف العقول:۴۸؛الخصال:۸۲؛معانی الاخبار:۱۸۴۔
۴۲۔المحجة البیضاء:۴۱۲۰۔
۴۳۔مجموعة وَرّام(رہ):۸۹۔
۴۴۔تحف العقول:۳۸۔
۴۵۔امالی الصدوق(رہ):۲۳۸۔
۴۶۔الکافی:۸؛ تحف العقول:۳۱۵۔
۴۷۔ارشاد القلوب:۱۳۳،روی ھذا المعنی فی تحف العقول:۹۔
۴۸۔المحجة البیضاء:۴۱۱۹؛فیض القدیر:۲۱۱۰۔۱۲۰۔
۴۹۔امالی الصدوق(رہ):۲۲۳۔
۵۰۔کشف الربیة:۱۱۹؛الاربعون حدیثاً للسید ابن زھرة الحلبی(رہ):۸۲۔
۵۱۔مکارم الاخلاق:۲۱۔
۵۲۔مناقب آل ابی طالبں:۱۱۴۴؛ مجمع البیان: ۸۳۶۰،سورة الاحزاب۔
۵۳۔کشف الغمة:۱۱۰۔
۵۴۔دعائم الاسلام:۲۱۰۶۔
۵۵۔مجموعة وَرّام(رہ):۲۹۔
۵۶۔مناقب آل ابی طالبں:۱۱۴۷۔
۵۷۔احیاء علوم الدین:۲۳۷۸۔
۵۸۔مکارم الاخلاق:۱۷۔
۵۹۔مصباح الشریعة:۱۴۰؛الکافی:۶۲۷۶؛الجعفریات:۱۹۳۔
۶۰۔مصباح الشریعة:۱۵۵۔
۶۱۔مکارم الاخلاق:۱۶۔
۶۲۔مجموعة وَرّام(رہ):۲۶۔
۶۳۔مجموعة ورّام(رہ):۳۴۔
۶۴۔مجموعة ورّام(رہ):۲۷۸۔
۶۵۔الکافی:۲۱۰۴؛مشکاة الانوار:۱۷۱؛المستدرک:۸۴۵۵۔
۶۶۔تفسیر العیاشی(رہ):۱۲۵۱؛سورة النسآء۔
۶۷۔مجموعة ورّام(رہ):۱۰؛الکافی:۲۶۳۶۔
۶۸۔مکارم الاخلاق:ص۲۴،فی حدیث آخر:انہ کان ثلاثة ایام۔
۶۹۔المحاسن:۳۸۷۔
۷۰۔الکافی:۴۵۰۔
۷۱۔الکافی:۶۲۸۳۔
۷۲۔امالی الصدوق(رہ):۴۳۷۔
۷۳۔الکافی:۶۲۸۶۔
۷۴۔احیاء علوم الدین:۲۱۸۔
۷۵۔الکافی:۶۲۸۰۔
۷۶۔مجموعة ورّام(رہ):۳۸۳؛الکافی:۸۱۵۰۔
۷۷۔الفقیہ:۳۲۹۹؛دعائم الاسلام:۲۱۰۷و۳۲۵؛ المستدرک: ۱۶۲۳۷۔
۷۸۔الکافی:۵۱۴۱۔
۷۹۔المحاسن:۶۰۱۔
۸۰۔الاحتجاج:۱۲۶۔
۸۱۔تفسیر الامام العسکریں:۵۳۰۔
۸۲۔امالی الصدوق(رہ):۳۳۹۔
۸۳۔۔بحار الانوار:۹۳۳۲۷۔
۸۴۔مکارم الاخلاق:۲۲۔
۸۵۔مکارم الاخلاق:۲۲۔
۸۶۔مکارم الاخلاق:۲۰۔
۸۷۔مجمع البیان:۶۳۴۵،سورة الحجر۔
۸۸۔مجمع البیان:۶۳۴۷،سورة الحجر۔
۸۹۔مجمع البیان:۱۳۳۳،سورة القلم۔
۹۰۔بحار الانوار:۱۶۴۱۔
۹۱۔مجمع البیان:۱۰۵۵۴،سورة النصر۔
۹۲۔بحار الانوار:۷۷۱۷۰؛ تحف العقول:۳۶۔
۹۳۔مناقب آل ابی طالبں:۱۱۴۷۔
۹۴۔نقلہ النوری(رہ) فی المستدرک:۷۲۰۳؛ فیض القدیر: ۲۱۰۳۔
۹۵۔نقلہ النوری(رہ) فی المستدرک:۷۱۳۶۔
۹۶۔مکارم الاخلاق:۳۵۰،الطیرة:التشاوٴم۔(مجمع البحرین:۳۳۸۳)۔
۹۷۔الجعفریات:۱۶۹۔
۹۸۔مکارم الاخلاق:۲۰۔
۹۹۔تفسیر القمی(رہ):۲۳۵۵،سورة المجادلة۔
۱۰۰۔معانی الاخبار:۸۱۔
۱۰۱۔نقلہ النوری(رہ) فی المستدرک:۸۳۷۱۔
۱۰۲۔الجعفریات:۱۸۹۔
۱۰۳۔مخطوط،لا یوجد لدینا۔
۱۰۴۔الکافی:۵۲۷۔
۱۰۵۔الاحتجاج:۳۶۴۔
۱۰۶۔مکارم الاخلاق:۱۷۔
۱۰۷۔نقلہ النوری(رہ) فی المستدرک :۷۲۲۳۔
۱۰۸۔فقہ الامام الرضاں:۳۶۵۔
۱۰۹۔الجعفریات:۲۱۷۔
۱۱۰۔امالی الصدوق(رہ):۶۰؛المحاسن:۱۰؛التھذیب:۴۱۹۵۔
۱۱۱۔تحف العقول:۳۷۵۔
۱۱۲۔الجعفریات:۱۸۵۔
۱۱۳۔تفسیر العیاشی(رہ):۳۷۹،سورة الانعام۔
۱۱۴۔المحاسن:۵۲۸۔
۱۱۵۔قرب الاسناد:۶۶۔
۱۱۶۔عوارف المعارف:۲۳۹۔
۱۱۷۔الجعفریات:۵۷۔
۱۱۸۔عوارف المعارف:۲۳۹۔
۱۱۹۔عوارف المعارف:۱۲۶۔
۱۲۰۔الکافی:۵۲۹۔
۱۲۱۔قرب الاسناد:۱۴۸۔
۱۲۲۔الکافی:۵۲۹۔
۱۲۳۔تھذیب الاحکام:۶۱۳۸؛المحاسن:۳۵۵؛دعائم الاسلام:۱۳۶۹۔
۱۲۴۔الجعفریات:۲۱۷۔
۱۲۵۔دعائم الاسلام:۱۳۷۲۔
۱۲۶۔مجمع البیان:۷۶۸؛سورة الانبیآء۔
۱۲۷۔نھج البلاغہ:۳۶۸۔
۱۲۸۔مناقب آل ابی طالبں:۴۳۶۴۔
۱۲۹۔الجعفریات:۸۰۔
۱۳۰۔تحف العقول:۴۵۷۔
۱۳۱۔دعائم الاسلام:۲۲۱۴۔
۱۳۲۔جامع الاخبار:۳۹۰؛المستدرک:۱۳۱۱۔(ح۱۴۵۸۱۴)
۱۳۳۔دعائم الاسلام:۲۴۸۹؛المستدرک:۱۳۳۹۵۔
۱۳۴۔مجمع البحرین:۵۴۳۹۔
۱۳۵۔تفسیر العیاشی(رہ):۱۳۲۸،سورة المآئدة۔
۱۳۶۔لم نعثر علیہ،و وجدناہ فی الاختصاص:۹۔۱۳۔
۱۳۷۔الاصول الستة عشر:۶۲۔
۱۳۸۔الاصول الستة عشر:۷۵۔
۱۳۹۔عوارف المعارف:۴۷۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا علم خدا کی موجوده زمانه کے موسم شناسی اور ...
عبادت اور خدا کا ادراک
قیامت کی ضرورت کا نتیجہ بحث
خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت
اسلام کا قانون
دعا توحید کے دائرہ میں
باب تقلید
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
ولایت ہی امتِ مسلمہ و ملتِ تشیع کے لئے نکتۂ اتحاد ...
علم کا مقام

 
user comment