ہمارا عقیدہ کہ معرفت خداوند عالم کے باب میں سب سے اہم مسئلہ معرفت توحید (اللہ کو ایک اوریکتا ماننا) ہے۔ توحید صرف اصول دین کا ہی ایک حصہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام اسلامی عقاید کی اصل و روح ہے اور نہایت واضح الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ تمام اسلامی اصول و فروع توحید میں مجسم ہوتے ہیں۔ ہر مقام پر گفتگو توحید و یکتا پرستی سے ہوتی ہے۔ وحدت ذات پاک اور توحید صفات و افعال خدا، ایک دوسری تفسیر کے مطابق دعوت تمام انبیاء کاا یک ہونا، دین و آیین الھی کا ایک ہونا، سمت قبلہ اور آسمانی کتاب کا ایک ہونا، انسان کے بارے میں اللہ کے احکام و قوانین کا ایک ہونا، مسلمانوں کا ایک صف میں منظم ہونا ، اور قیامت کے روز سب کا ایک ساتھ جمع ہونا۔
اسی دلیل کی بنیاد پر قرآن مجید توحید الھی سے انحراف اور شرک کی طرف میلان کو ہرگز نا بخشے جا نے و الا گناہ قرار دیتاہے۔
ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء و من یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیما۔ترجمہ: خداوند عالم (ہرگز) شرک کونہیں بخشے گا اور اس سے کم کو جسے چا ہتاہے (لایق سمجھتاہے) بخش دیتا ، اور جو بھی اللہ کے لیے شریک قرار دیتاہے وہ عظیم گناہ کا ارتکاب کرتاہے۔
و لقد اوحی الیک و الی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لنکونن من الخاسرین۔ترجمہ: آپ پر اور آپ سے پہلے تمام انبیاء پر وحی ہو ئی ہے کہ مشرک بن گئے تو سارے اعمال تباہ ہوجائیں گے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
۔توحید کی شاخیں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی بہت سی شاخیں ہیں، جن میں سے مندرجہ ذیل چار سب سے زیادہ اہم ہیں:
الف : توحید ذاتی
یعنی یہ کہ خداوند عالم کی ذات پاک ہے اور وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک و نظیرنہیں ہے۔
ب: توحیدصفاتی
یعنی یہ کہ صفات علم و قدرت و ازلی و ابدی سب اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اور یہ صفات اس کی عین ذات ہیں ۔مخلوقات کی طرح نہیں ہے کہ ان کی ساری صفات ایک دوسرے سے الگ اور ان کی ذات سے جدا ہیں ۔البتہ خداوند عالم کی ذات و صفات کا ایک ہونا ایک ایسی بحث ہے جس کے لئے ظرافت اور دقت لازمی ہے۔
ج: توحید افعالی:
یعنی یہ کہ ہر فعل و حرکت جو اس دنیا میں انجام پاتاہے وہ سب پروردگار عالم کی مشیت و ارادہ سے وجود میں آتاہے: اللہ خالق کل شی و ہو علی کل شی وکیل۔ خداوند عالم تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا اور ان پر حافظ و ناظر ہے۔
لہ مقالید السموات و الارض ، آسمان و زمین کی چابھیاں اس کے پاس ہیں ۔ ( یعنی اس کے دست قدرت میں ہیں)
بے شک (لا موثر فی الوجود الا اللہ)اللہ تعالی کے سوا کوئی اس جہان ہستی میں موثر نہیں ہے۔
اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے کام انجام دینے میں مجبور ہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد ہیں ( انا ھدیناہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا) ہم نے اسے (انسان) کو ہدایت کردی (اور اسے راستے دکھا دئیے) چاہے وہ شکر گزار بن جائے(اور قبول کرے) یا انکار کردے (اور طغیان کرے)
( و ان لیس للانسان الا ما سعی) انسان جو کچھ حاصل کرتاہے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کرتاہے۔
یہ آیہ کریمہ صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ انسان آزاد و خود مختار ہے لیکن چونکہ ارادہ کی آزادی اور کام انجام دینے کی قدرت اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے لہذا ہمارے کا م اسی سے نسبت رکھتے ہیں مگر اس سے انجام پانے کام کی ذمہ داری ہم سے ختم نہیں ہوتی۔ اس پر توجہ ہونے چاہئے۔
البتہ اس نے ارادہ کیاہے کہ ہم اپنے اعمال کو آزادی، ارادہ اور اختیار کے ساتھ انجام دیں تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ ہمیں آزما سکے اورہمیں کمال کی منزلوں تک پہچا ئے اس لئے صرف ارادے کی آزادی اور اختیار کے ساتھ خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت ہی انسان کو کمال تک سکتی ہیں۔ اور مجبوری میں انجام دیئے جالے افعال اور زبردستی کے اعمال نہ کسی انسان کے لیے خوبی کا سبب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی برائی کی علامت، اگر ہم اپنے افعال کے انجام دینے میں مجبور ہوتے تو نہ انبیاء کی بعثت کا کوئی مفہوم ہوتانہ ہی آسمانی کتابوں کے نازل ہونے کا کوئی مقصد، اور نہ ہی دینی فریقوں اور تعلیم و تربیت کا کوئی فایدہ ہوتا اور جزا و سزا بھی بے معنی و مفہوم ہوجاتے، یہ وہ تعلیمات ہیں جنہیں ہم نے ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے مکتب سے حاصل کیاہے، فرماتے ہیں: نہ جبر مطلق صحیح ہے اور نہ تفویض و آزادی مطلق بلکہ ان کے در میان کا راستہ انتخاب کرنا صحیح ہے: ( لا جبر و لا تفویض و لکن امر بین الامرین)
د ۔ توحید عبادت
عبادت ،خداوند عالم سے مخصوص ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یہ شاخ ،توحید کی سب سے اہم شاخ میں شمار ہوتی ہے اور انبیاء الہی سب سے زیادہ اس پر تاکید کرتے ہیں: وما امرواالا لیعبدوااللہ مخلصین لہ الدین حنفاء۔۔۔و ذلک الدین القیمہ.انھیں (انبیاء) اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کریں اور شرک سے باز آئیں، یہ ہے اللہ کا محکم اور پایدار دین۔
اخلاق و عرفان کے کمال کی منزلیں طے کرنے کے لیے اس سے بھی عمیق توحید کی ضرورت ہوتی ہے، اس راہ میں توحید اس منزل تک پہیچ جاتی ہے جہان انسان صرف اللہ تعالی سے لو لگاتاہے اور ہر مرحلہ پر صرف اسی کو طلب کرتاہے اور اس کے سوا کسی کی فکر اسے مشغول نہیں کرتی اور کوئی بھی شی اسے خدا سے دور کرکے خود میں مشغول نہیں کرتی: کلما شغلک عن اللہ فھو ضمک۔ ہر چیز جو تجھے خود سے مشغول کردے اور خداوند سے دور کرے ، وہ تیرابت ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی شاخیں صرف ان چار تک محدود و منحصر نہیں ہیں بلکہ توحید مالکیت (تمام اشیاء کا مالک خداوند عالم ہے) اللہ ما فی السماوات و ما فی الارض)
و توحید حاکمیت (قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کوہے) من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون)
یہ سب توحید کی شاخیں ہی۔ں
________________________________________
سورہ بقرہ آیہ ۵۵
سورہ اعراف آیہ ۱۴۳
یہ مشہور جملہ ہے جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے، مگر یہ معنا نہج البلاغہ میں حضرت امیر علیہ السلام سے دوسری صورت میں بیان ہوا ہے:
نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۹
سورہ نساء آیہ ۴۸
سورہ زمر آیہ ۶۵
سورہ زمر آیہ ۶۲
سورہ زمر آیہ ۶۲
سورہ انسان آیہ ۳
سورہ نجم آیہ ۳۹
اصول کافی جلد ۱،صفحہ ۱۶۰ (باب الجبر والقدر والامر بین الامرین)
سورہ بینہ آیہ ۵
سورہ بقرہ آیہ ۲۸۴
سورہ مائدہ آیہ ۴۴
source : http://rizvia.net/