اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

ایک حدیث کی تشریح

ایک حدیث کی تشریح

حدیث :

عن انس بن مالک قال: سمعت رسول الله (ص) فی بعض خطبہ ومواعظہ رحم الله امراءً قدم خیراً، وانفق قصداً ، وقال صدقاً، وملک دواعی شہوتہ ولم تملکہ،وعسیٰ امر نفسہ فلم تلمکہ [1]

ترجمہ :

انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ میں نے رسول الله (ص) کے کچھ خطبوں و نصیحتوں میں سنا کہ آپ نے فرمایا: " الله اس پر رحمت نازل کرے جو خیر کو آگے بھیجے ، الله کی راہ میں متوسط طور پر خرچ کرے ، سچ بولے ، شہوتوں پر قابو رکھے اور ان کا قیدی نہ بنے ، نفس کے حکم کو نہ مانے تاکہ نفس اس پر حاکم نہ بن سکے۔

حدیث کی تشریح:

پیغمبر اکرم (ص) اس حدیث میں اس انسان کو رحمت کی بشارت دے رہے ہیں جس میں یہ پانچ صفات پائے جاتے ہیں :

۱)" قدم خیراً" جو خیر کو آگے بھیجتا ہے ، یعنی وہ اس امید میں نہیں رہتا کہ دوسرے اس کے لئے کوئی نیکی بھیجیں، بلکہ وہ پہلے ہی اپنے لئے نیکیوں کو ذخیرہ کرتا ہے اور آخرت کا گھر آباد کرتا ہے ۔

۲ )" انفق قصداً" متوسط طور پر الله کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ اس کے یہاں افراط و تفریط نہیں پائی جاتی بلکہ وہ الله کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے وسطی راہ کو چنتا ہے ۔ نہ اتنا زیادہ خرچ کرتا ہے کہ خود کنگال ہو جائے اور نہ اتنا کنجوس ہوتا ہے کہ اپنے مال میں سے دوسرے کو کچھ نہ دے "ولا تجعل یدک مغلولةالیٰ عنقک ولا تبسطہا کل البسط فتقعد ملوما ًمحسوراً " [2]

اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن پر نہباندھو (الله کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو) اور اپنے ہاتھوں کو حد سے زیادہ بھی نہ کھولو کہ کہیں کنگال ہو جانے کی وجہ سے تمھاری مذمت نہ ہونے لگے۔

ایک دوسرے مقام

پهر فرمایا: <والذین اذاانفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذالک قواماً [3]

وہ جب الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی کمی، بلکہ ان دونوں کے بیچ اعتدال قائم کرتے ہیں ۔

۳ ) " وقال صدقاً "سچ بولتاہے اس کی زبان جھوٹ سے گندی نہیںہوتی ۔ اوپر بیان کی گئیں تینوں صفات پسندیدہ ہیں مگر چوتھی اور پانچویں صفت کی زیادہ تاکیدکی گئی ہے ۔

۴،۵ ) " وملک دواعی شہوتہ ولم تملکہ ، وعصیٰ امر نفسہ فلم تملکہ" وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو رکھتا ہے اور ان کو اپنے اوپر حاکم نہیں بننے دیتا ۔کیونکہ وہ اپنے نفس کے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس لئے اس کا نفس اس پر حاکم نہیں ہوتا ۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے نفس کے ہاتھوں اسیر نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اپنے نفس کو قیدی بنا کر اس کی لگام اپنے ہاتھوں میں رکھنی چاہئے ۔ اور انسان کی تمام اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ نفس پر حاکم ہو اس کا اسیر نہ ہو جیسے، جب وہ غصے میں ہوتا ہے تو اس کی زبان اس کے اختیار میں رہتی ہے یا نہیں؟ یا جب اس کے سینے میں حسد کی آگ بڑھکتی ہے تو کیا وہ اس کو ایمان کی طاقت سے خاموش کر سکتا ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جہاں سے ایک راستہ الله اور جنت کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راستہ جس کی بہت سی شاخیں ہیں جہنم کی طرف جاتاہے۔ البتہ اس بات کا کہنا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت دشوار ہے کبھی کبھی ارباب سیر و سلوک (عرفانی افراد) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ" اس انسان نے بہت کام کیا ہے " یعنی اس نے اپنے نفس سے بہت کشتی لڑی ہے اور بار بار گرنے اور اٹھنے کے نتیجہ میں یہ اپنے نفس پر مسلط ہو گیا ہے اور اسے اپنے قبضہ میں کرلیا ہے ۔ نفس پر تسلط قائم کرنے کے لئے ریاض کی ضرورت ہے ، قرآن کے مفہوم اور اہل بیت کی روایات سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔ انسان کو چاہئے کہ ہر روز قرآن، تفسیر و روایات کو پڑھے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے ان سے طاقت حاصل کرے ۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ "ہم جانتے ہیں کہ یہ کام بر ہے مگر پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم اس کام کے قریب پہونچتے ہیں تو ہم اپنے اوپر کنٹرول نہیں کر پاتے "مملوک ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جانتا ہے مگر کر نہیں سکتا ،کیونکہ خود مالک نہیں ہے ۔ ان کی مثا ل ایسی ہی ہے جیسے کسی تیز رفتار گاڑی کا ڈارئیور گاڑی کے اچانک کسی ڈھلان پر چلے جانے کے بعدکہے کہ اب گاڑی میرے اختیارسے باہر ہوگئی ہے اور وہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر کھائی میں گر کر تباہ ہو جائے ۔ یا کسی ایسے انسان کی مانند جس کی رفتار پہاڑ کے ڈھلان پر آنے کے بعد بے اختیار تیز ہو جائے، اگرکوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ بہت تیزی سے نیچے کی طرف آئے گاجب تک کوئی چیز اسے روک نہ لے، لیکن اگر وہ پہاڑی کے دامن تک ایسے ہی پہونچ جائے تو نیچے پہونچ کر اس کی رفتار کم ہو جائے گی اور وہ رک جائےگا ، بس نفس بھی اسی طرح ہے۔ یہ کتنی دردناک بات ہے کہ انسان جانتا ہو مگر کر نہ سکتاہو۔اگر انسان نہ جاننے کی بنا- پرکوئی گناہ کرے تو شاید اس کے لئے جواب دہ نہ ہو ۔ یہ سب ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے نیک کاموں کو آگے بھیجیں ۔ لیکن اگر ہم نے کوئی برا کام انجام دیا اور اس کی توبہ کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو ہمیں اس کے عذاب کو بھی برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ انسان کی تکلیف مرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور پھر نہ وہ توبہ کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نیک عمل انجام دے سکتا ہے۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا،عقیدہ و عمل میں توحید کی نشانیاں
عدل و مساوات
حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر ...
عید فطر احادیث کی روشنی میں
عصمت انبيائ
قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب ...
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم تحفہ
امير المۆمنين حضرت علي (ع) شيخ مفيد کے مقتديٰ
بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اچھے گھرانے کي خوبياں

 
user comment