فدا حسین بالہامی از کشمیر ھندوستان
ایک طویل اور اعصاب شکن مذاکراتی جد و جہد کے بعد ایران اور 5+1عالمی طاقتوں کے مابین جوہری مسئلے کے حوالے سے حتمی معاہدہ طے پایا ہے ۔ چھ ممالک سے وابستہ مذاکرات کاروں کے مطابق مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ایک مخصوص حد تک محدود کرنا ہے تاکہ ایران کے لئے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے امکانات معدوم ہوجائیں۔ ایران کا جوہری پروگرام اسلامی انقلاب سے قبل ہی یعنی رضا شاہ پہلوی کے دورِ اقتدار میں شروع ہوا تھا۔ اسے جوہری ٹکنالوجی فراہم کرنے والا کوئی اور ملک نہیں بلکہ خود امریکہ ہی تھا۔ یہ امریکہ ہی ہے کہ جس نے ١٩٥٧ء میں ایران کو اس امر کے لئے ابھارا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی کو حاصل کرکے توانائی کا متبادل ذریعہ حاصل کرے۔ اور ساتھ ہی ہر ممکنہ تعاون سے نوازنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس سلسلے میں تمام ضروری معاملات طے پانے کے بعد بو شہر نیوکلیئر پلانٹ کا تعمیراتی عمل شروع بھی ہوا تھا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جامع ایٹمی معاہدے کو مزید استحکام بخشنے اور حتمی شکل دینے کے لئے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ١٩٧٨ء میں تہران کا دورہ بھی کیا تھا۔ درایں اثنا امام خمینی کی قیادت میں تحریکِ انقلاب ان دنوں مرحلہ عروج پر تھی۔ واضح رہے اسلامی انقلاب سے قبل ایران موجودہ عرب ریاستوں کی طرح امریکہ کا چہیتا تھا۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کا سب سے بڑا محافظ شاہِ ایران ہی تھا لیکن ١٨٧٩ء میں اسلامی انقلاب نے تمام امریکی مفادات اور منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ امام خمینی نے آزادیٔ فلسطین کو اسلامی انقلاب کے دل کی دھڑکن قرار دیا ۔ اسرائیل نوازی کے سبب شاہِ ایران باقی معائب کی نسبت امام خمینی کی نظر میں بہت زیادہ موردِ تنقید تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بشمولِ امریکہ و اسرائیل جو ممالک ایران کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور ہر شعبے میں اس کی معاونت کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے تھے وہی ایران کو ہر صورت میں مٹانے کے درپہ ہوگئے۔ وہی نیوکلیئر پلانٹ جو پرامن نیوکلیئر توانائی کے حصول کا ذریعے سمجھے جاتے تھے، امریکہ اور اس کے حوالیوں موالیوں کی نظر میں راتوں رات ایٹم بم بنانے کے کارخانوں میں تبدیل ہوگئے ۔
بہرحال اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران پر سفارتی ، سیاسی اور تجارتی شکنجہ کس لیا گیا۔ تاکہ اسلامی انقلاب کے روح رواں عالم استکبار کے سامنے تسلیم ہوجائیں ۔ لیکن وہ تسلیم ہونے کے بجائے عالمی استکبار کے لئے مزاحمت کی علامت کے طور ابھر کر سامنے آگئے ۔ اسلامی انقلاب کی دوراندیش قیادت نے جہاں مذہبی جذبات اور معنوی ثقافت کے بل پر اپنی بقاء کی حفاظت کی ۔ وہاں اس نے دیگر ضروری شعبوں کے پہلو بہ پہلو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کو بھی لازمی قرار دیا۔ مغربی دنیا مسیحیت کی روایت پسندی اورسائنس بیزاری کے پیش نظر اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اب ایران پر روایتی ملائیت کا راج نافذ ہوگا۔ جس کا لابدی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایران جدید ٹیکنالوجی کی دور میں پچھڑ جائے گا ۔ اور وہ جدید ایٹمی دور میں پتھر کے زمانے کی ایک غیر متحرک تصویر ہوکر رہ جائے گا۔ مگر ان کے اندازے ہر گزرتے دن کے ساتھ مبنی بر وہم و گماں ثابت ہوئے ۔ غیر متوقع طور پر ایران کی مذہبی قیادت نے جدید علوم بشمول سائنس و ٹکنالوجی کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے نیوکلیئر منصوبے کو خفیہ طور جاری رکھا گیا۔ ١٩٨٤ء میں ایران نے اعلانیہ طور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پر امن جوہری پروگرام کا اعادہ چاہتا ہے ۔ اور اس کی حصولیابی میں بالآخر کامیاب بھی ہوگیا ۔ اس اہم کامیابی کو دیکھ کر مغرب ممالک علی الخصوص اسرائیل و امریکہ سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے زبردست شور مچایا اور اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس پروگرام کو نیست و نابود کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ اورمسلسل ایران پر یہ الزام عاید کیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کے فراق میں ہے۔ جواباً ایران اپنے اس موقف پر ڈٹا رہا کہ اس کے جوہری پروگرام کا مقصد تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہے۔ وہ پر امن جوہری توانائی اور دیگر ضروری اور ناگزیز مصارف جیسے طبی استعمال وغیرہ کی خاطر اس پروگرام کو جاری و ساری رکھے گا۔ اس دوران آئی اے ای اے کے مصری نژاد محمد البرادعی کی سربراہی میں اقوام متحدہ نے اس بات کی جی توڑ کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح ایران کے پر امن جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات کو ابھارا جائے اور یہ سب کچھ امریکی دباؤ کے تحت کیا جاتا رہا۔ اسی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ ٢٠٠٣ء میں آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ منظر عام پر آگئی جس کی رو سے نطنز کے جوہری مرکز میں عسکری ارادے کے تحت افزودگی ٔ یورینیم کے آثار ملے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے تین سال بعد یعنی ٢٠٠٦ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ نگران کمیٹی آئی اے ای اے کے بورڈ نے ایران کا جوہری مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ سلامتی کونسل نے حسبِ معمول امریکہ کے اشاروں پر عمل کرتے ہوئے ایران کو ناکردہ گناہوں کی سزا دے دی۔ طرفۂ تماشہ یہ کہ جس اسرائیل کے پاس بالفعل دو سو سے زائد ایٹم بم موجود ہیں نیز اسکی تاریخ میں جارحیت، تجاوز، کشت و خون اور ظلم و جبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی اسرائیل کی نہ صرف خون آشام ماضی کو نظر انداز کیا گیا بلکہ مستقبل سے وابستہ اس کے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ عزائم کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسرائیل کو وقتاً فوقتاً امریکہ کی جانب سے عسکری امداد ملتی رہی ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر عالمی برادری دنیا پر منڈلا رہے جوہری خطرے سے متفکر ہے تو کیا یہ خطرہ ایک ایسے ملک پر شکنجہ کسنے سے ٹل جائے گا کہ جس کے پاس تاحال جوہری ہتھیار نہیں ہے اور جو ہر سطح پر اس بات کو بار بار دہرا رہا ہے کہ اس شعبہ میں تمام تر کاوشوں کا مقصد پر امن جوہری توانائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؟ واضح رہے ایران نے ہر سطح پر عالمی برادری کے سامنے اپنے اس موقف کو بھرپور انداز میں پیش کیا لیکن اس معاملے میں عالمی سطح رائے عامہ کا حال غالب کے اس مصرعہ کا سا ہے
کچھ نہ سنے خدا کرے کوئی
اس جدید دور میں انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس ابلاغ و ترسیل کے نہایت ہی سرعت رفتار ذرایع موجود بھی ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا آلہ تیار نہیں ہوسکا ہے کہ جسے سچ اور جھوٹ کی پرکھ ہو اور بے بنیاد پروپیگنڈے کی قلعی کھل جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا بار بار فریب میں مبتلا نہ ہوتی ۔ فریب خوردگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ وسیع تباہی والے ہتھیاروں کے اولین موجد اور ایٹم بم استعمال کرنے والے واحد مجرم یعنی امریکہ کے سرپر منصف کا تاج سجھایا گیا ہے ۔ بقول کسے
وہی قاتل ، وہی شاہد ، وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کسی پر
جب مجرم ہی منصف کے منصب پر براجمان ہو تو ناانصافی کے سوا کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس منصف نما مجرم کی سند قابلیت ہیروشما اور ناگاساکی کی وہ تباہی ہے جس کو ١٩٤٥ء میں ایٹم بم گرا کر سرانجام دیا گیا تھا۔ اور جسکی تباہی کے آثار و اثرات طویل عرصہ گذر جانے کے باجود آج بھی موجود ہیں۔ یہ تو اسکی سندِقابلیت ہوئی ، اب ذرا کارگزاری دیکھئے جن صیہونیوں کے پاس عام تباہی والے ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ ان کے تئیں امداد و مراعات کی فراوانی ہے اور جن ایرانیوں نے کبھی بھی اس بات کا ارادہ ہی نہیں کیا کہ وہ اس قسم کے ہتھیار حاصل کریں گے انہیں گذشتہ چھتیس سال سے پابندیوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں! اس لحاظ سے امریکہ نے فوری اور جنگی اقدام کے ذریعے جہاں ہیرو شما اور ناگاساکی کے باشندوں پر آناًفاناً قیامت ڈھائی ہے وہاں تہران و اصفہان کے باسیوں کو طویل المدت حکمت عملی کے تحت گھٹ گھٹ کر موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔
یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کم از کم ایران کے موجودہ نظام حکومت میں جوہری ہتھیار بنانے کے منصوبے کو زیر غور لانا بھی کراہت رکھتا ہے کیونکہ اس نظام کے روح رواں یعنی رہبرِ معظم آیة اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ نے اپنے ایک تاریخی فتوے میں جوہری ہتھیار کی حصولیابی، اسکو ذخیرہ اور استعمال کرنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ نہ صرف عالمی برادری بلکہ اس منصف نما مجرم امریکہ کو بھی اس قول ِ فصیل پر صد فیصد یقین ہے مگر برا ہوا اس وقت کی عالمی سیاست کے چلن کا کہ جس کے داؤ پیچ میں عالمی رائے عامہ گرفتار ہے۔ یہ اسی مکار اور پرفریب سیاست کا کرشمہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے خطے میں حقیقی خطرے کو محو کرکے ایران کے فرضی خطرے کو ہوا دی جارہی ہے۔ گویا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جارح اسرائیل کا وجود کسی بھی پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ اور اسے لگام دینے کے بجائے ایران کو ہی دبانا امنِ عالم کی ضمانت ہے۔ اسرائیل نے بھی ایران کو ایک دیو ہیکل کی صورت پیش کیا ہے جو آناً فاناً پورے عالم کو نگل لے۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسرائیل نے ایرانوفوبیا کو پھیلانے میں بڑا رول ادا کیا ۔ ایرانوفوبیا نامی اس داستان کا المناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل و امریکا سعودی عرب سمیت بیشتر عرب ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ ایران بہت جلد جوہری اسلحہ بنا لے گا اور پھران تمام ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی بھی خیر نہیں۔ اسرائیل گذشتہ تیس سال سے اس بات کی دہائی دیتا رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا لینے کے بہت قریب ہے اور بس چند مہینوں میں اس کے پاس یہ بلا خیز شے ہوگی۔ جس سے خطے کے تمام ممالک غیر محفوظ ہوںگے ۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نے بھی ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ اس بات کی پیشین گوئی کی کہ عنقریب ایران اس پر ہیبت منصوبے میں کامیاب ہوگا۔ امتِ مسلمہ کیلئے اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کذب و افتراء پردازی میں مہارت رکھنے والے صہیونی کے ہر جھوٹ کوخطے کے بیشتر مسلم حکمران سچ جان کر پلے باندھ لیتے ہیں۔ اوروہ ایران کے رہبر اعلیٰ کے فتوے پر ان کا شک و تردد ابھی تک دور نہیں ہوپایا۔
بی بی سی سے وابستہ ایک صحافی جیمز روبیز کے اس سوال کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا اس قدر اہم کیوں ہے ؟ کا جواب دیتے ہوئے سابق برطانوی ایٹمی مذاکرات کار سرجان ساورز کا کہنا ہے کہ'' بالفرض ایران جوہری اسلحہ حاصل کرلیتا ہے تو اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال تبدیل ہوجائے گی اور خطے میں اس ناقابل قبول رویے کے سدِ باب کے لئے کوئی بھی جوابی کاروائی بے اثر ہوگی'' اس بیان کے مطابق خطے میں جیسے ایران اسلامی حکومت تمام تر خطرات کا واحد منبع ہے۔ اور باقی سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ خیر امریکہ اور اسرائیل جتنا بھی چاہے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں ۔ بہرحال کچھ ایسے بیباک حق بین اور حق گو افراد اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں کہ جنہوں نے بارہا ان کی دروغ گوئی کو طشت از بام کیا ہے۔ ان ہی افراد میں سے ایک امریکی دانشور، صحافی ، بلاگر، رائٹر اور اکٹیوسٹDavid swanson(ڈیوڈ سوانسن) ہیں کہ جس کی مرزبوم امریکہ ہے لیکن امریکہ میں بود و باش کے باوجود استعماری اور استکباری حکمرانوں کی دروغ گوئی اور سفاکی کو منظر عام پر لانا اس کا معمول بن گیا ہے۔ موصوف کا شمار امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ناقدین کی صف اول میں ہوتا ہے۔ جس دروغ گوئی کا سہارا لے کر ماضی میں امریکہ نے عراق پر جنگ مسلط کردی اس دروغ گوئی کو ڈیوڈ سوانسن "Impeachment and the case for prosecuting George W. Bush"کے عنوان کے تحت پنتیس مضامین لکھے اور باضوابط ایک دانشوارانہ مہم( Compaign )چلائی ۔ وہ War is a lie اور when the world outlawed warنامی معرکة الآراء کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ امریکہ ایران کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے ان کی منصفانہ رائے ان مسلم حکمرانوں کے لئے چشم کشا ہے جو استعمار کی دروغ گوئی کے پلندے کو صداقت کا صحیفہ سمجھ کرسینے سے لگا لیتے ہیں۔ امریکی شہری ڈیوڈ سوانسن ایران کے موقف کا زبردست حامی ہے۔ امریکہ مخالف مہم کے سلسلے میں وہ کئی ایک ویب سائٹوں پر بھی کافی فعال دکھائی دے رہے ہیں جن میں war is a crime.orgاور dont attach iran.orgقابل ذکر ہے ۔ ایران کے ایٹمی مسئلے کے متعلق اپنی حکومت کی روش پر تنقید کرتے ہو ئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ They lied lost time, they are lying this time''انہوں نے پہلے بھی جھوٹ بولا ہے اور اس وقت بھی کذب و دروغ سے ہی کام لے رہے ہیں۔'' جوہری تنازعہ کے تناظر میں سوانسن نے ایران اور امریکہ کی پالیسیوں اور کارگزاریوں کا خوبصورت تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ
''٭امریکہ کے پاس سات ہزار دوسو 7200جوہری ہتھیار ہیں جبکہ ایران کے پاس ایک بھی نہیں ہے۔
٭ایران نے کبھی بھی NPTکے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی اس کے برعکس امریکہ نے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تطہیر کے بجائے مزید ہتھیار بنانے اور دیگر چہیتے ممالک کو سپلائی کرکے معاہدہ NPTکی دھجیاں اُڑائی۔
٭ ایران کی اپنی سرزمین کے باہر کسی بھی ملک میں کوئی بھی عسکری چھائونی نہیں ہے۔اور اس نے تاحال کسی بھی ملک کے خلاف جنگ میں پہل نہیں کی جبکہ گذشتہ ستر (70)برسوں میں امریکہ ستر ممالک پر حملہ آور ہوااور قریباً آٹھ سو فوجی چھائونیاں دوسرے ممالک میں اب تک گذشتہ 70سالوں میں قائم کیں۔
٭ امریکا نے١٩٥٣ء میں ایران کی جمہوری حکومت کو اپنی سازشوں کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا اور وہاں پر اپنے پٹھو ڈکٹیٹر کو نصب کیا جبکہ اس طرح کی مداخلت کی چھوٹی سی مثال ہمیں مخالف فریق کی جانب سے نہیں ملتی۔
محولہ بالا مبنی بر حقائق چند ایک نکات کی روشنی میں اصل مجرم کی شناخت بآسانی ہو جاتی ہے۔ مگر نیو ورلڈ آڈر کو معرض وجود میں لانے والے ابلیسی نظام کی کرشمہ سازی دیکھیئے کہ معاملہ صد فی صد اصل حقائق کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔بقول مولانا حسرت موہانی
خرد کا نام پڑ گیا ہے جنوں ،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
source : abna