اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

علما کی ذمے داریوں کا بیان

 

امام نے فرمایا:

ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ

اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ

وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْنَ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔

اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ

اہم الفاظ کی تشریح

جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس خطبے کے اس حصے کے بعض جملات کچھ فرق کے ساتھ امیر المومنین کے خطبوں میں بھی ملتے ہیں۔(۱)

۱ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔

فاستخففتم بحق الائمہ : کتاب ((تحف العقول ))اور(( وافی)) کے موجودہ نسخوں میں بحق الائمہ درج ہے۔ اس صورت میں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے حقوق کا غصب ہونا مرادہے۔ لیکن ممکن ہے کہ دراصل بحق الامہ ہو اور کتابت میں اضافہ ہو گیا ہو اور بعد میں آنے والا جملہ فاما حق الضعفاء بھی اس امکان کی تائید کرتا ہے۔ ( امام خمینی نے اس جملے کا ترجمہ بحق الامہ کے تحت کیا ہے)

ومن یعرف بالله لا تکرمون وانتم بالله فی عبادہ تکرمون :جملے کی ابتداء میں آنے والا یعرف اور آخر میں آنے والا تکرمون دونوں مجہول کے صیغے ہیں جبکہ درمیان میں آنے والا لاتکرمون معلوم کا صیغہ ہے۔ یعنی بندگان خدا ، الله والا ہونے کی بنا پر تمہارا احترام کرتے ہیں لیکن تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو الله کی معرفت کے لئے مشہور ہیں۔

العمی و البکم والزمنی : تینوں الفاظ بالترتیب أعمی، ابکم اور زمن کی جمع ہیں۔

لاترحمون اور غلبتم بہ : مجہول کے صیغے ہیں۔

مجاری الا مور والا حکام علی ایدی العلماء بالله الا مناء علی حلا لہ و حرامہ : مجاری، مجری کی جمع مصدر میمی یا پھر اسم مکان ہے۔ یعنی مسلمانوں اور مملکت اسلامی کے مختلف امور و معاملات میں مرکزی مقام علما کو حاصل ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑنے والے تنازعات کا حل و فصل ان ربانی علما کے احکام کے مطابق ہونا چاہئے ،جو حلال و حرام الہی کے امین اور آسمانی قوانین کو تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے والے ہوں۔

یہ جملہ ولایت فقیہ کوثابت کرنے والے ان بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل ہے جنہیں بزرگ شیعہ علما اور فقہا نے ذکر کیا ہے۔

والارض لھم شاغرہ : عرب کہتے ہیں شغرت الارض یعنی اس سرزمین کا کوئی محافظ و نگہبان نہیں ہے۔

خطیب مصقع :( میم پر زیر اور باقی حروف پر زبر)۔ بلند آواز والے خطیب کو کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں دشمنوں کے ہاتھوں میں موجود ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ اسکے نمایاں مصداق ہیں۔

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ

ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ،

اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے ( آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ) گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔

اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ

یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، (معاشرے کے) کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔

اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْن

(اسکے باوجود ) آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْن

آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان(۱) نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو (بھی)منع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔

وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ

آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت

۱۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول الله سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔

ہے ، اس لئے کہ (اگر آپ سمجھیں تو) علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔

وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ

اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی (اجراء کے لئے) آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور (معاملات میں) آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور ( وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی) اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔

سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ

وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر ( آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ) ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور (نتیجہ یہ ہے کہ) کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعید

ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں) عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔

فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔

تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے (مقرر کردہ) گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ (آخر کار) الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔

اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ

(امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا)

بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر (اور زیادہ) چھا جائیں گے اور(( نور نبوت)) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔

یہ وہ خطبہ تھا جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں ارشاد فرمایا اور تمام حاضرین کو تاکید ی حکم دیا کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تاکہ رفتہ رفتہ تمام مسلمان، پیکر اسلام کو پہنچنے والے ان نقصانات سے آگاہ ہو جائیں جن کے نتیجے میں اسلام کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔

اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج

امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات معاویہ کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس کے بعدآپ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا ، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نور نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعل فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔

فرزند رسول نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکت اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔

اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(۱) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی

صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

زمانی اور مکانی حالات

اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی ، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی ۔ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحاب رسولکی اولاد (تابعین) تھے۔

جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا ،جو بیت الله سے نزدیک ، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے

۱۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔

کے لئے حضرت اسماعیل کے یاابت افعل ماتومر (۱) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء الله من الصابرین(۲) کو نمونہء عمل قرار دے کر الله کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔

زمانہ : یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے الله تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔

خطبے سے مربوط اہم نکات

۱ - ولایت سے انحراف

اس خطبے میں امام حسین نے جس بات کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا وہ (لوگوں کا) حق سے منحرف ہوجانا ، ولایت اورحکومت کو اس کے صحیح راستے سے ہٹا دینا اور اس بنیادی ترین مسئلے کے بارے میں رسول گرامی کی وصیت کو بھلا دینا تھا۔

رسول گرامی صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی نبوت کی پوری ۲۳ سالہ مدت میں متعدد مرتبہ امامت اور ولایت کے موضوع پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں مختلف موقعوں پر، مختلف طریقوں سے لوگوں کے سامنے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا تعارف کرایا۔ انہی مواقع میں سے ایک نمایاں اور محسوس موقع سد ابواب ( گھروں کے دروازے بند کروانے) والا واقعہ ہے۔ مدینہ تشریف لانے کے

۱۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲)

۲۔ الله نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲)

بعد رسول کریم نے مسجد تعمیر کروائی اور پھر اسکے اطراف مکانات اور حجرے بنوانے کے دوران سدالابواب الاباب علی (۱) کا دو ٹوک حکم صادر فرمایا اور اسکے بعد وضاحت فرمائی : ما انا سددت ابوابکم ولکن الله امرنی بسدابوابکم و فتح بابہ (میں نے اپنی طرف سے دروازے بند نہیں کروائے ہیں بلکہ مجھے الله نے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بندکرا دوں اوران (علی) کا دروازہ کھلا رکھوں۔

یہ تعارف اسکے بعد بھی انت ولی کل مومن بعدی (۲) اور ایسے ہی دوسرے ارشادات کے ذریعے جاری رہا۔ یہاں تک کہ رسول کریم نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں اور آخری ایام میں اس حساس اور اہم موضوع کو عوام الناس کے درمیان انتہائی کھلے لفظوں میں ، غدیر خم کے موقع پر اور مسجد ومنبر سے بیان کیا تاکہ پھراسکے بعد کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور کسی کو تاویل وتفسیر کا کوئی راستہ نہ ملے۔ منیٰ کے جلسے میں موجود متعدد افراد خود ان مواقع کے شاہد و ناظر تھے یا انہوں نے قابل اعتماد اصحاب اور عینی شاہدوں سے سنا تھا ۔لہذا امام حسین علیہ السلام کے ہر بیان کے بعد ان کاجواب یہی تھا کہ اللھم نعم۔

بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو (رسول اکرم کی تمام تر کوششوں کے باوجود) یہ انحراف وجود میں آیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کیونکہ خلافت کا پہلا مرحلہ (رسول اکرم کی) وصیت کی نفی کر کے اصحاب کے اجماع اور فیصلے کو دلیل بنا کر طے کر لیا گیا جبکہ صرف دو سال بعد دوسرا مرحلہ اجماع کو پس پشت ڈال کے، صاحب نظر افراد کے کسی قسم کے اظہار نظر کے بغیر ،ارباب حل و عقد اور ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے

۱۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔

۲۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔

وصیت کی بنیاد پر طے کیا گیا، اور اسکے دس سال بعد خلیفہ ء سوم کے انتخاب کے لئے گزشتہ دو خلفاء کے انتخاب کے طریقے کے برخلاف شوریٰ کے نام سے ایک تیسرا راستہ اپنایا گیا ۔

خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے یہ تین مختلف اورمتضاد راستے اور راہ حق کے مقابلے میں ایجاد ہونے والا یہ انحراف شاید بعض افراد کے نزدیک صرف ماضی کی ایک داستان اور انجام پا چکنے والا عمل ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جوتلخ نتائج اورنقصانات سامنے آئے ،وہ اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ نہ

ہی اجتماعی امور کا کوئی ماہر ان کا مکمل تجزیہ و تحلیل کر سکتا ہے اور نہ ہی حتیٰ کوئی محقق اور مورخ انہیں کماحقہ بیان کر سکتا ہے۔

 

باوجود یہ کہ تمام گناہوں اور منکرات سے روکا گیا ہے لیکن اس آیتِ کریمہ میں قول اثم واکل سحت پر زور دیا گیا ہے، تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ دو گناہ تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک ہیں ۔لہذا ہر گناہ سے زیادہ ان کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کیا جائے کیونکہ بسا اوقات دشمنوں کی جھوٹی باتیں اور ان کا مذموم پروپیگنڈہ (جو قول اثم کا ایک اہم ترین مصداق ہے) اسلام اور مسلمانوں کے لئے کسی بھی ا ور چیز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

اکل سحت یا حرام خوری سے بھی اس کا صرف انفرادی اور جزی پہلو مراد نہیں ہے ، بلکہ یہ وسیع پہلوؤں کی حامل ہے جس میں (آج کی دنیا کے لحاظ سے) نقصان دہ برآمدات اور درآمدات، غیر قانونی طریقوں سے ملک کی معیشت پر قابض ہو جانا وغیرہ بھی شامل ہیں اور یقینا اس قسم کی اکل سحتکے نقصانات جوئے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسی انفرادی حرام خوریوں کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ(۱)

اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ

۱۔ اس خطبے کے دوسرے اور تیسرے حصے کے ترجمے اور تشریح میں امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

الاِثْمَ (۱) وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ- لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۲)

اے لوگو! الله تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے،

اس سے عبرت حاصل کرو ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں

نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ (یہاں تک کہ) فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔

وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ (۳) وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۴)

درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، انہیں (ظالموں کو) اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے

۱۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۶۳

۲۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۷۸، ۷۹

۳۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۴۴

۴۔ سورہ توبہ ۹۔ آیت ۷۱

والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے (پہنچ سکنے والی) سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔

فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا

(اس آیتِ کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے )الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار

جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت

اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات ( یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات) کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔

یہاں پہنچ کر خطبے کا دوسرا حصہ ختم ہوتا ہے اور آئندہ صفحات میں خطبے کے تیسرے حصے کاترجمہ پیش کیا جائے گا۔

 

کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا (لہذا) علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے۱ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ (سامعین

نے) کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا : الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے ، میرے بھائی (علی) اور ان کی اولاد کے سوا کوئی (اور شخص مسجدمیں) نہیں رہ سکتا۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ (۱) وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کا

۱ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹، ۱۳۴

اعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی(۱) وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور (فرمایا) تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ (۳) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں

کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

۱۔ صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹ اور ۱۳۳

۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱

۳۔ سنن ترمذی۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۰

قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ(۱) کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبرکے دن (لشکر اسلام کا) پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا (کرار) ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے (غیرفرار) اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔(سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی(۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ

۱۔ سنن ترمذی ۔ حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم ۔ ج ۴۔ حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر ۱۱۷

۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۸۰۳

اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ (سامعین نے) کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ (حضرت علی) ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا

۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۷۹۶

۱ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر۳۸۰۶

کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ (سید الشہدا) پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلے

اسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔(سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ(۲) وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ(۳) وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ (۴) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی

رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ (سامعین نے) کہا:

۱۔ نظم درر السمطین۔ ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق ۔ ج ۴ ۔ ص ۳۵۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۔ ج ۹ ۔ ص ۱۷۴

۲۔ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳۔ ص ۱۲۴

۳۔مستدرک ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۱

۴۔ سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۶۷

بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا :کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ (۲) فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ

۱۔صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل ۔ ج ۳ ۔ص ۱۴ اور ج ۴۔ ص ۳۶۷

۲۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر۱۱۴

قَدْ سَمِعْنٰا …

(اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی

تو) آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسول الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ (اس موقع پر) کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟رسول الله نے فرمایا : کیونکہ وہ (علی)مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں : امام حسین نے اس موقع پر مذکورہ بالا فضائل کے علاوہ بھی حضرت علی اور خاندان علی کے بارے میں قرآن میں ذکر ہونے والے یانبی اکرم سے سنے جانے والے متعدد فضائل بیان کئے اور حاضرین میں سے جو لوگ رسول کے صحابی تھے وہ کہتے تھے خدا کی قسم ہم نے خودنبی اکرم سے سنا ہے اور جو تابعین تھے وہ کہتے تھے ہم نے بھی یہ فضیلت فلاں معتبر اور قابل اعتماد صحابی سے سنی ہے۔

امام حسین نے منیٰ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جسے سلیم بن قیس نے نقل کیا ہے، اس کا پہلا حصہ یہاں ختم ہوا اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا خطبے کا یہ حصہ حضرت علی کے فضائل پر مشتمل تھا اور ان میں سے ہر ایک فضیلت اہل سنت کی معتبر کتب حدیث میں انہی کے راویوں کے توسط سے رسول الله سے منقول ہے اور ہم نے ان فضائل میں سے اکثرکے حوالہ جات اہل سنت کی معتبر صحاح ستہ ( چھے معتبر کتابوں) اور دیگر مستند کتب سے نقل کر کے حاشیے (Foot Note) میں تحریر کئے ہیں۔

چونکہ اس حصے میں مزید کسی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لہذا اب خطبے کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔

خطبے کے دوسرے حصے کامتن

(امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت)

جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہے۔ ترجمے اور اصل عبارت کو ایک دوسرے سے نزدیک رکھنے کی غرض سے، ہم پہلے حصے کی طرح اس حصے اور اگلے حصے کو بھی علیحدہ علیحدہ درج کریں گے، اگرچہ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ دونوں حصے ایک ساتھ ملا کر نقل کئے گئے ہیں۔ امام نے فرمایا :

اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الاِثْمَ وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ - لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا

وضاحت

(( تحف العقول)) کے مصنف نے یہ خطبہ نقل کرتے ہوئے کہا ہے : ویروی عن امیر المومنین علیہ السلام۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کے خطبے کا یہ حصہ (جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے) امیر المومنین حضرت علی سے بھی نقل ہوا ہے۔

جیسا کہ خطبے کے تیسرے اور آخری حصے میں ہم اشارہ کریں گے، اس حصے کے بعض جملات بھی امیر المومنین کے خطبات اور بیانات میں موجود ہیں اور موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر امام حسین نے اپنے خطبے اور تقریر میں ان سے استفادہ کیا ہے اور(( تحف العقول)) کے مصنف کی بات کی بنیاد پریہ بھی ممکن ہے کہ اس خطبے کا وہ حصہ درحقیقت امیر المومنین ہی کا کلام ہو جس سے ان کے محترم فرزند امام حسین نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنے کی غرض سے استفادہ کیا ہو۔ لیکن ہم نے خطبے کے اس حصے کے براہ راست امیر المومنین سے استناد کے بارے میں ((تحف العقول)) کے سوا حدیث کی کسی اور معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔

اہم الفاظ کی تشریح

اِعتَبروا اَیُّھا النّاسُ : اس طرح کچھ خاص افراد ، اس محفل میں موجود حاضرین یا حتیٰ صرف اس زمانے کے افراد مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس خطاب میں وہ تمام انسان شامل ہیں جو کسی بھی زمانے میں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں اس خطاب کو سنیں۔ یہ بالکل یا ایھا الناس کی مانند ہے، جس کے ذریعے قرآن مجید میں بارہا اور متعدد مقامات پر خطاب کیا گیا ہے۔

اولیاء :یہاں اولیاء سے مراد وہ افراد ہیں جو الله تعالیٰ کی جانب توجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں بھی ذمے دار مقام کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ معاشرے میں کسی مقام پرفائز نہ ہوں تو اہم اور مشکل ذمے داریوں کی ادائیگی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔

احبار : صالح علما۔

ربانی : خدا پرست شخص جو خدا پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ خداوند متعال کے احکام کا علم بھی رکھتا ہو اور اس کے حلال و حرام کی پابندی کرتا ہو۔

امام حسین علیہ السلام نے جس آیتِ کریمہ کا ذکر کیا ہے، اگرچہ اس میں یہودی علما اورمذہبی رہنماؤں کی سرزنش کی گئی ہے لیکن یہاں باشعور قاری کے لئے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ مذمت اور سرزنش صرف یہودی علما یا عیسائی رہبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ (اگر یہودی علما کے سے اعمال انجام دیں تب) تمام دینی رہبر اور حتیٰ مسلم علما بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھنے والے علما کی اپنے فریضے سے غفلت ، کوتاہی اور بے جا خاموشی عام افراد کے گناہ اور نافرمانی کے مرتکب ہونے کی مانند نہیں ، کیونکہ علما کی خاموشی اور بے عملی کے نتیجے میں دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے (جبکہ عام افراد کے گناہ فقط خود ان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں)۔

قول اثم :گناہ آلود باتیں۔ جس میں جھوٹ، تہمت ، حقائق کی تحریف وغیرہ سب شامل ہیں۔

اکل سحت : حرام خوری۔

 

 

 


source : http://www.bulbul.blogfa.com/cat-10.aspx
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وہابیت کی پیدائش، اس کے اہداف و مقاصد اور نظریات
خيموں کي حالت
عزاداری
اجتھاد [دوم]
کربلا کے فورا بعد وجود پانے والے انقلابات
علما کی ذمے داریوں کا بیان
نبو ت عامہ (چھٹی فصل )
امیر المومنین علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت ...
قرآن مجید میں امانت داری کی اہمیت
اسلام اور مقام زن

 
user comment